کتاب تبصرہ(Think! Before It’s Too Late)/راجہ قاسم محمود(1)

ایڈورڈ ڈی بونو مالٹا سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے متعدد کتابیں لکھیں۔ Think! Before It’s Too Late ان کی ایک کتاب ہے جو کہ thinking کے بارے میں ہے۔
یہ کتاب دراصل ایڈورڈ ڈی بونو کی انسانی تاریخ کے سوچنے کے عمل کے اوپر ایک تنقید ہے۔ ڈی بونو کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ ہم لوگوں میں تفکیری عمل (Thinking Process) میں پچھلے چوبیس سو سالوں کے بعد کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔ تھنکنگ کے جو اصول اور طریقہ کار یونان کے تین عظیم فلسفیوں یعنی کہ سقراط ، افلاطون اور ارسطو نے طے کیے تھے انسانی فکر اس کو آگے نہیں بڑھا سکی اور نہ ہی کوئی نئی سوچ سامنے آ سکی جس سے انسان کی فکر نشو ونما پا سکے۔
ڈی بونو کا کہنا ہے کہ ہماری سوچ کا یہ جمود کافی تشویشناک ہے۔ بلکہ اگر ہم اس مقابلے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کو دیکھیں تو ہمارا فکری جمود اس سے زیادہ تباہ کن ہے۔ جیسے ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں حساس ہیں اس سے بڑھ کر حساسیت یہاں ہونی چاہیے۔ مگر ہم خود فریبی کا شکار ہے۔بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی جس نے ہماری زندگیوں میں بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں اور اس کے علاوہ بھی کئی انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا فکری عمل بہترین ہے۔ یہ سراسر خود فریبی ہے۔ ڈی بونو نے کتاب میں کئی جگہ بتایا ہے ان کو موجودہ فکری عمل سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بیشک یہ بہت عمدہ ہے مگر ناکامی ہے۔ عمدہ مگر ناکافی یعنی Excellent, but not enough اس کتاب کے بنیادی تصورات میں سے ہے جس کی بنیاد پر ڈی بونو نے ہمارے فکری عمل پر تنقید کی ہے.اس کی مثال بھی ڈی بونو نے دی ہے کہ بالفرض اگر آپ بہت اچھی انگریزی بولتے ہیں لیکن جب آپ فرانس میں ہوں تو آپ کی یہ روانی سے بولے جانے والی انگریزی آپ کی کوئی خاص مدد نہیں کر سکتی ۔اس لحاظ سے ڈی بونو کا کہنا ہے کہ ان کی اس تنقید کو بھی منفی کی بجائے مثبت انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اپنے پیش لفظ میں ڈی بونو نے کہا کہ سائیکالوجی اور فلسفہ بنیادی طور پر تجزیات پر مبنی ہیں یہ مسائل پر خیالی مباحث کرتے ہیں۔ یہ عملی طور پر ہماری فکری بنیادوں کو کوئی خاص مدد فراہم نہیں کرتے۔ اس لیے فکری عمل یعنی تھنکنگ پراسس کو فلسفے اور نفسیات کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ ان کی دلچسپی کا موضوع تو ضرور ہو سکتا ہے لیکن اس کی بہتری میں یہ کوئی بڑی مدد فراہم نہیں کر سکتے۔
ڈی بونو نے لکھا ہے کہ ہمارے دماغ کا بنیادی کام روز مرہ کے معمولات کو دیکھنا ہے۔ تخلیقی صلاحیت اس کا بنیادی کام نہیں، اس لیے روز مرہ کے معمولات کے برعکس یہاں پر انسان کو محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے لیے انسان اپنے ذہن میں معلومات اکھٹی کرتا رہتا ہے اور جہاں وہ نئی معلومات حاصل کرتا ہے ان کو بھی جمع کرتا رہتا ہے لیکن اگر ہماری نئی معلومات پہلے کی معلومات کے برعکس ہوں تو پھر یہاں انسان اپنے نظریات پر غور کرتا ہے جس میں اس کے پہلے سے قائم شدہ تصورات میں کچھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ نئی معلومات اور پہلے کی معلومات کے درمیان تقابل اور ان کا جائزہ ایک تخلیقی عمل ہے اور اس کے لیے ہمارا فکری عمل جتنا مضبوط ہو گا ہمارے نتائج زیادہ اچھے ہوں گے۔ یہاں ڈی بونو نے ذہانت کی بھی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کے لیے ذہانت کا ہونا لازم نہیں بلکہ کئی دفعہ ذہانت آپ کو پہلے سے قائم شدہ غلط تصورات پر قائم رہنے کے لیے مزید دلائل فراہم کرتی ہے۔ ایسے ہی ذہین لوگ اپنی پوزیشن کا اس طرح دفاع کرتے ہیں کہ گویا یہ ان کا پیدائشی حق ہے اور دوسرے انسان کو اس مغالطے میں مبتلا کرتے ہیں کہ تخلیقی صلاحیتوں کا حصول ناممکن ہے یہ پیدائشی ٹیلنٹ inborn talent ہے.
ڈی بونو نے Lateral Thinking پر بھی گفتگو کی ہے۔ لیٹرل تھنکنگ کے تصور کو ڈی بونو نے اپنی ایک اور کتاب میں بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اس کا حوالہ دیا ہے۔ اس کتاب میں بھی لیٹرل تھنکنگ کے اوپر ڈی بونو نے بات کی ہے اور اس کی افادیت کا ذکر کیا ہے۔ لیٹرل تھنکنگ لوجیکل تھنکنگ سے الگ ہے اور اس کی طرف کم لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔ ڈی بونو نے بتایا ہے کہ لیٹرل تھنکنگ کے ذریعے سے بہت سے نئے امکانات روشن ہوئے ہیں جس نے مسائل کے حل کے لئے نیا راستہ دیا ہے۔ ڈی بونو نے اپنی مثال ذکر کی ہے کہ انہوں نے لیٹرل تھنکنگ کے ذریعے شیل کمپنی کو مشورہ دیا کہ وہ vertical ڈرلنگ کی بجائے horizontal ڈرلنگ کریں۔ شروع میں ان کا مشورہ کمپنی کو عجیب لگا مگر جب انہوں نے اس پر عمل کیا تو ان کی پیدوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ لیٹرل تھنکنگ کو سمجھنے کے لیے یہ شعر زبردست ہے
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
اب یہاں شہد کی مکھی سے پروانے کا تعلق منطقی سوچنے والے کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہ غیر روایتی طریقے سے اور تخلیقی ذہن کے سوچنے کا کام ہے۔ جس سے وہ مختلف انداز سے چیزوں کے درمیان تعلق جوڑتا ہے اور پھر ان کے درمیان ربط قائم کیا جاتا ہے۔ لیٹرل تھنکنگ ایک تخلیقی phenomenon ہے یہ لوجیکل تھنکنگ سے الگ ہے۔ دراصل جو لوگ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں وہ لوجیکل نہیں ہوتے۔ ویسے بھی انسان کی ساری زندگی منطق کے اوپر نہیں چلتی۔ اگر انسان مکمل منطقی ہو جائے تو تمباکو ، فاسٹ فوڈز سمیت تمام وہ چیزیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوں کا استعمال بند ہو جائے۔ تخلیقی کام آؤٹ آف باکس سوچنے سے سامنے آتا ہے جو کہ منطق سوچ رکھنے والے کے لیے ممکن نہیں۔
لیٹرل تھنکنگ کی ایک اور مثال ڈاکٹر معید پیرزادہ کے تجزیات میں Dot connection بھی ہے۔ ان کی تجزیات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جس طرح وہ مختلف واقعات کے درمیان ڈاٹ کنکٹنگ کرتے ہیں اس سے معاملات کے متعلق آگاہی زیادہ بہتر انداز میں حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں ان کے تجزیات میں انفرادیت نظر آتی ہے
ڈی بونو کہتے ہیں کہ ہماری علم و دانش کا زیادہ تر زور تجزیہ اور فیصلہ سازی پر ہوتا ہے۔ ڈیزائننگ کی طرف ان کی توجہ بالکل نہیں ۔ اس وجہ سے ہمارے پاس فقط درست اور غلط کا ہی انتخاب ہوتا ہے جبکہ ڈیزائننگ میں مستقبل کی پلاننگ اور اقدار پر زور دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تنازعات کے حل کے لیے ڈیزائننگ کا طریقہ کار بہت مفید ہے۔ ڈی بونو کا کہنا ہے کہ فریقین کو خوف ہوتا ہے کہ اگر تنازعہ کا حل نکل گیا تو ان کی اہمیت برقرار نہیں رہے گی، اگر ہم فریقین کی اہمیت کو برقرار رکھنے کا کوئی حل نکال لیں تو تنازع کا حل بآسانی نکل سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے اگر یہ مسئلہ حل ہو گیا تو پاکستان اور بھارت کی افواج کی اہمیت برقرار نہیں رہے گی۔ یہ خوف دونوں طرف پایا جاتا ہے اور یہی مسئلہ کے حل کی طرف ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ ڈی بونو نے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعہ پر گفتگو کی ہے اور اس کا حل یہ تجویز دیا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ دوسری طرف کے سیاست دانوں کا انتخاب کریں بیشک ان کا ووٹ آدھا ہو، اس کے نتیجے میں دونوں طرف سے سخت گیر موقف کے لوگ پسپا ہوں گے اور ان کو اپنی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے موقف میں نرمی لانی ہو گی۔ ڈی بونو کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے شمالی آئرلینڈ کے تنازعہ میں ڈیزائننگ والا حل تجویز کیا تھا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہو گیا
ڈی بونو نے تعلیمی نظام پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں بھی نئی سوچ پیدا کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نصاب میں ریاضی کے مختلف فارمولے سکھائے جاتے ہیں جن میں سے بیشتر کا عام انسانوں کی عملی زندگی سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ ان کی بجائے طالب علموں کے سوچنے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاضی کے علاوہ اور بھی نصاب میں ایسا مواد موجود ہوتا ہے جس کی بعد میں کوئی خاص افادیت نہیں ہوتی۔ ڈی بونو نے وضاحت کی ہے کہ وہ ریاضی کے خلاف نہیں بلکہ اس کی وہ چیزیں جن کی عملی زندگی میں لوگوں کو ضرورت پیش آئے وہ نصاب کا لازمی حصہ ہوں لیکن وہ مختلف فارمولے یا تھیورمز یا الجبرا اور جیومیٹری کے اصول کا عام انسانی زندگی میں اتنا عمل دخل نہیں ہوتا یہ مواد فقط ان لوگوں کے لیے مخصوص کرنا چاہیے جو ریاضی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور اس کو اپنی اعلیٰ تعلیم کا بھی حصہ بنانا چاہتے ہیں
ڈی بونو نے کہا ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب Literacy اور Numeracy پر زور دیتا ہے اس میں Operacy کے اوپر کچھ بھی نہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی سکول کے طالب علم کو ہنری ہشتم کی بیویوں اور ان کی تاریخ وفات کا تو پتہ ہوتا ہے مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے محلے کی دکان کیسے چلتی ہے یا دنیا کی تجارت کیسے چلتی ہے۔
ڈی بونو نے یونیورسٹیوں کے کردار کا بھی تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کا مقصد صدیوں پر محیط مفید علوم کو لوگوں کو محیا کرنا تھا مگر اب یہاں پر اس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی شامل ہو گئیں ہیں۔ بدقسمتی سے یونیورسٹیوں میں فکری عمل کے لیے بحث و مباحثہ کا ذریعہ زیادہ استعمال ہوتا ہے جو کہ thinking کو آگے بڑھانے میں کوئی خاص مفید نہیں۔ یہاں بھی ڈی بونو نے تجویز پیش کی ہے کہ یونیورسٹیوں میں ابتداء ہی سے practical thinking اور creativity کی بابت مضامین شامل ہونے چاہیے۔ اس میں ڈی بونو نے اپنے طریقوں کو رائج کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ڈی بونو نے کہا ہے کہ اب یونیورسٹیوں کو ہنر یعنی skills سکھانے پر زور دینا چاہیے کہ معلومات کا حصول کیسے کرنا ہے، تنقیدی اور تخلیقی سوچ کیسے پیدا کرنی ہے، لوگوں سے کس طرح پیش آنا ہے اور جو شعبہ چنیں اس میں مہارت کیسے حاصل کرنی ہے۔ ڈی بونو نے لکھا ہے کہ یونیورسٹیاں thinking process کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اگر وہ اپنا طریقہ کار بدل لیں اور کچھ چیزیں جن کا اوپر ذکر ہوا شامل کر لیں تو یہ کام لیا جا سکتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فوائد سے ڈی بونو کو انکار نہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس نے ایک لحاظ سے ہمارے تھنکنگ پراسس کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ہم بچوں سے کوئی سوال پوچھیں تو وہ فوراً کمپوٹر کی مدد سے اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اس سوال کے حل کے لئے وہ کوئی ذہنی مشقت نہیں کرتے۔ اس سے ان کا مسئلہ تو حل ہو جاتا ہے مگر ان کے سوچنے کے عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا یہ بات کافی تشویشناک ہے۔ اس ہی طرح کے کچھ تحفظات کا حال ہی میں ٹم ہارفرڈ نے اپنے ایک آرٹیکل میں اظہار کیا ہے جو انہوں نے چیٹ جی پی ٹی کے متعلق کیا کہ اس سے خدشہ ہے کہ لوگ محض چند منٹ میں سوال کا جواب دیکر باقی وقت تفریح میں گزاریں اور دھوکا دیں کہ یہ جواب ان کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ہمارے ہاں Gadget addiction ایک سیریس مسئلہ ہے۔ اس کا شکار ہم میں سے اکثر لوگ ہیں۔ ہمارے بچے ہمارے درمیان ہو کر ہم سے ذہنی طور پر دور ہیں۔ دوستوں کی محفلیں اب خاموشی میں بدل گئی ہیں، ہم اپنے اعزہ و اقارب کے احساسات اور تکالیف سے بے خبر ہیں۔ اس نے ہمارے ہاں ایک سنجیدہ بحران کی شکل اختیار کر لی ہے اور بدقسمتی سے یہ مرض بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس پر کسی کی توجہ بھی نہیں۔
ڈی بونو کا کہنا ہے کہ روایتی سوچ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کو اپنے مسئلہ کا ایک جواب مل جائے تو یہ اس پر مطمئن ہو جاتی ہے اور اس پر مزید نہیں سوچتی۔ یہ سچ اور جھوٹ ، صیح اور غلط کے درمیان رہتی ہے۔ جبکہ غیر روایتی سوچ میں مسئلہ کے حل کے باوجود مزید امکانات کی طرف توجہ دی جاتی ہے اور اس صورتحال کے مزید ممکنات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ کے حل کی بجائے ممکنات کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ یہ کہتی ہے کہ ہم پچھلے ڈیٹا کی مدد سے مزید نئی راہیں کھولیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے سوچنے کا عمل جاری رہتا ہے جس سے جمود کا خطرہ نہیں رہتا۔
ڈی بونو نے لکھا ہے کہ آج سے دو ہزار سال پہلے چین باقی دنیا کی نسبت سائنس وٹیکنالوجی میں باقی دنیا سے آگے تھا۔ جب چینیوں نے دیکھا کہ ان کے مسائل حل ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو ان تک محدود کر لیا اور انہوں نے مزید امکانات پر غور نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں چین اپنی ترقی کو برقرار نہیں رکھ سکا۔ اس نے اپنے سفر کو جہاں پر روکا تھا وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ جبکہ ان کے مقابلے میں یورپ نے اپنے سفر کو جاری رکھا اور وہ اب چین سے بہت آگے نکل گیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply