کشن گنگاکی وادی(قسط5)- جاویدخان

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

کشن گنگا کی وادی(سفر نامہ)

پانچویں قسط

چاند ،رُومانس ،شباب اَور داستانیں :۔
مَیں صحن میں آکھڑا ہوا۔چاندسامنے شمال مغربی پہاڑ کی چوٹی پر ٹک ساگیا تھا۔اک ٹھہراؤ  سا اُس کی چال میں تھا۔روشن اَور واضح ۔۔۔دُھلا دُھلایا۔ٹھنڈی شعاعیں بکھیرتا ظُلمت کدوں سے اُلجھتا۔دُور دیس میں وہ کتنا بھلا لگ رہا تھا۔آ ج غالباًچودھویں رات تھی۔اک رومان پرور رات جس سے ہزاروں داستانیں ،قصے ،دیومالائیں اَور کہانیاں وابسطہ ہیں۔قدیم رومنوں یاپھر یونانیوں کے ہاں کچھ بھیڑیے اِنسانوں کوچُن کر چودھویں رات کو کاٹ لیتے تھے۔پھر وہ اِنسان کسی پُونم رات کو بھیڑیا بن کر جنگل میں چلاجاتاتھا۔اُسے جنگل کے باسیوں سے واسطہ پڑتا۔درندوں کی زندگیوں کو قریب سے دیکھتا تو احسان ہمدردی اُس کے اَندر جاگ اُٹھتا ۔وہ عجیب و غریب تجربات اَور مشاہدات سے دوچار ہوتا۔اِس خوف ناک داستان میں کئی موقعوں پررُومانس آکر رنگ آمیزی کرتاہے۔
میرے دیس میں بھی یہاں چاند سے رُومانوی داستانیں جُڑی ہیں۔قدیم داستانیں جو شاید اَب اس سائنسی اَور ٹیکنالوجی دَور میں پھر کبھی تخلیق نہ ہو سکیں۔ہمارے ہاں چاند پر ایک بڑھیا ہر وقت چرخہ کاتتی رہتی ہے۔چانداَور سُورج دو بھائی ہیں۔ایک دن ان کی ماں کو پیٹھ پر خارش ہوئی ۔توماں نے سورج سے کہا سورجا بیٹے آؤ۔۔۔!میری پیٹھ پر خارش کرو ۔سورج ایک شرارتی اَور شعلہ بار کردار کاحامل بچہ تھا۔سنجیدگی اُس کی زندگی میں کبھی نہ آسکی۔اُس نے آگے بڑھ کر ماں کی پیٹھ پراس زور سے خارش کی کہ ماں دَرد سے بلبلا اُٹھی ۔سورج اَیسی شرارت کر کے بھاگ گیا۔ماں نے ستائے ہوئے لہجے میں بدعادی ۔یہ بدعا دل سے نکلی تھی ۔۔۔ماں نے بدعادی کہ تُم ہمیشہ جلتے رہو ۔کبھی قرار نہ پاسکو۔ماں کے دُکھ کو دیکھ کر چاند بیٹا آگے بڑھا ۔اُس نے ماں کی پیٹھ کو سہلایا۔دَرد کم ہوا تو ساتھ ساتھ خارش بھی کم ہوگئی ۔ماں خوش ہوئی اَور چاند بیٹے کو دُعادے ڈالی ۔سدا سکھی رہو،چمکتے رہو اَور روشن رہو۔تب سے چاند روشن ہے ۔ٹھنڈی اَور میٹھی روشنی بس اسی کے پاس ہے۔اسے دیکھ کر آج بھی طبعیت خوش ہوجاتی ہے۔دل کو قرار ملتاہے۔

انسانوں نے جب کھیتی شروع کی تو لیل ونہار کی آمد ،موسموں کی اَدل بدل میں سورج کے اَوقات کار اَور نظام کو پڑھنا اَور سمجھنا پڑا۔سورج سے مفادات کارشتہ استوار ہوا۔ہمارے ہاں بدعایا ہُوابیٹایونانیوں،رومنوں اَور اَہل ہنود سمیت دُنیا کی کئی جگہوں پر دیوتاہوا۔مفادات اَور مادیت کے سارے تانے بانوں میں باندھا گیا۔بدعایا ہُوابیٹا آ ج بھی جلالی ہے اَور شعلہ بار نگاہوں سے دھرتی کے اَنگوں سے پانی تک چوس لیتاہے۔بڑے بڑے صحرا جہنم بنا دیتاہے۔برفانی دُنیاوں اَور قطبین کی زندگی پر قہر ڈھاتا ہوا غروب ہوتا ہے اَور پھر دُوسرے دن پھر سے اُبھر آتاہے۔کون ہے جو اس کی شعلہ بار آنکھوں سے آنکھ ملا پائے۔مگر چاند اُس کی زندگی ،دُنیا ،اَنداز ،اَطوار اَور چال الگ ہے۔وہ سیاہ راتوں کاچراغ ہے ٹھنڈی اَور میٹھی روشنی کاواحد منبع ہے۔اس کے حسن کے چرچے اَزل سے ہیں ۔یہاں تک کہ محبوب چاند ہے ۔۔۔دھیماروشن اَور مسکراتاہواچاند۔
چانداَزل سے رُومان پرور رہا ہے۔اِس سے جُڑی داستانیں ،قصے ،شاعری سب رُومانوی ہیں۔ٹھنڈی شعاعوں کی چھاوں میں بیٹھ کر اَفسردہ آہیں بھرنا،بانسری کی تان پر نغمے چھیڑنا اَور خاموش راتوں میں سُراُنڈلیناسب چاند کے سبب ممکن رہا۔دل کی دُنیاؤں کی زبان استعارے ،تشبیہات اَور علامتوں کے سارے رنگ ،حُسن کی اِنتہا سب چاند پر آ کررُکے۔
جاڑے کی چاندنی اَگرچہ پورا عنوان ہے ۔مگراس وقت جاڑے کی نہیں اَگست کی ایک رومان پرور رات تھی اَور چاند اَپنے شباب کے ساتھ آسمان کے بیچ دریا کنارے پہاڑ کی چوٹی پر میرے سامنے کھڑاتھا۔تنہائی تھی،شب تھی،سُنہری کِرنوں کاشباب تھااَور مَیں تھا۔نیچے کشن گنگا کی گُونج تھی اَور پھولوں کی ہلکی ہلکی باس تھی۔قدقامت اَشجار چار سو چوٹیوں اَور گھاٹیوں پر جمے کھڑے تھے۔

دَم سحر پہ تھے تارے رات کے:۔
صحن میں کھڑا مَیں آسمان کے درمیان روشن گولے،روشن پربتوں اَور ٹھنڈی آبی گُونج میں محو تھا۔آسمان پر دُور اُوپر قندیلیں ٹمٹما رہی تھیں۔تقریباًگھنٹے بھر بعد سپیدہ سحر نمودار ہو جائے گا۔اَور تب یہ سارے کے سارے آسمانی بروج اَپنی قندیلیں لیے رخصت ہوجائیں گے۔چاند کی جولانی میں تاروں کی چمک ماند پڑ گئی تھی۔ماندگی کاخوف تاروں کی ساری مجلس میں در آیا تھا۔مگر چاند کاکیا ۔۔۔۔؟آج اُس کی چاندنی چودھویں رات کے عروج سے پندرھویں رات کے زوال پر آمادہ ہوچُکی تھی۔فطرت کے پالے ہوئے اس سُنہری گولے کا نہ عروج پہ کوئی بس تھانہ زوال پر۔
روشن اَور جگمگاتی دُنیا سے آنے والے تارے خامشی سے آتی سحر کے مُنتطر تھے۔کِیا یہ تھک گئے تھے۔؟یہ خوش تھے کہ آج شب وہ ٹمٹماے ہیں ۔فرض اَدا ہوا اَور اَب وہ جانے کو ہیں یاپھر خوف زدہ ،پریشان کہ اُن کی چمک بس کچھ ہی دیر کی مہمان رہ گئی ہے۔
جب شباب ،روشنی ،جولانی،جوانی چمک اَورشوخی چند لمحوں کی مہمان رہ جائے توماندگی سے قبل کے لمحے کِتنے اُداس ہوجاتے ہیں۔دُور دیس کے روشن اَوراَنجان دُنیا کے اِن تاروں کے اُداس لمحوں میں مَیں بھی شریک ہوگیا۔ساری اَنجمن اُداس تھی۔
ڈرتے ڈرتے دم سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے
نظارے رہے وہی فلک پر
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر
کام اَپنا صبح وشام چلنا
چلنا،چلنا مدام چلنا
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکون نہیں
رہتے ہیں ستم کش سفر سب
تارے ،انساں ،شجر ،حجر سب (اقبال)

آخر یہ سارے کے سارے قافلے ،تارے ،زمین ،ندیاں شجر،حجر بہ ظاہر سُست اَور ساکت جہاں کِس طرف کو محو سفر ہیں۔؟یہ شب وروزکہاں سے آتے ہیں اَور اتنی جلدی کہاں گُم ہوجاتے ہیں۔۔۔؟یہ اَن گنت زمانے ،صدیاں پلک جھپکتے کیوں گُزر جاتی ہیں۔۔۔؟یہ دُنیائیں ،جاہ حشمت ،غرور ،شاہان وقت ان زمانوں کی گرد میں کیوں کرچھپ گئے ۔واپس اُبھرتے کیوں نہیں۔؟
چاندنی میں ڈُوبی کتنی ہی راتیں ،کتنی ہی اُجلی صُبحیں کچھ دم کی مہمان ثابت ہوتی ہیں۔۔۔پھر واپس نہیں آتیں ۔۔۔؟
سورج ہو ،قمر ہو،تارے ہوں یاجیون کاکوئی اَور رُوپ دم آخر پہ سب کتنے اُداس ہوجاتے ہیں۔میرے گرداگرد دیوداروں کی اَور اِن تاروں کی بھی تو اَنجمنیں ہوتی ہوں گی۔اَپنے عہد کو ،اَپنی مجلس کو چھوڑ جانااَور اَپنے ہم مجلسوں سے رُخصت ہوجانا کتناکرب ناک ہوتاہے۔؟
مگر کچھ جہاں اَیسے بھی ہیں۔جہاں دم آخر سے ہی سحر پھوٹتی ہے۔اَور شب خوشی خوشی سحر کامسکرا کر استقبال کرتی ہے۔بالکل کسی سچے صوفی کی طرح جسے اُمید واثق ہوتی ہے کہ ہاں آگے وہاں یاران ِ کہن اَوراَزلی دوست بیٹھاہے۔جس کی دوستی کاچاپ وہ زندگی بھر کرتارہاہے۔ایمان ‘خوف واُمید ’کے درمیان کھڑا رہتاہے۔وہ دم آخر ۔۔جو اُمید کادامن تھام چلے تواُس کے کیا کہنے۔
ڈر ،خوف اَور شکوک جیون کو ستاتے ہیں جب کہ اُمید ،یقین اَور ایمان جیون کو پُر بہار بناتے ہیں۔تاروں کی یہ انجمن دیکھتے دیکھتے اُوجل ہونے پہ آگئی ۔ان کے رخصت ہونے کاوقت آن پہنچاتھا۔اَور پھر تاروں کی اَنجمن نے آخری سلام کیا۔
شب کی سیاہی اَور سحر کے درمیان ایک لمحہ وہ بھی آتاہے ۔جب یہ دونوں رنگ ،رنگ آمیزی کرتے ہیں۔دونوں کابُعد قُرب میں بدلتاہے۔دونوں دُنیائیں باہم گلے ملتی ہیں۔لمحہ بھر کی یہ ملاقات کائنات کی جُد ااَورانوکھی ملاقات ہوتی ہوگی۔تب نہ سحر ،سحر رہتی ہے نہ ہی شب،شب۔
قندیلوں بھرے بُروج چھپ گئے تھے۔ٹھنڈی اَور سنہری شعاعوں کے گولے کی سنہری قلعی سفید ی میں بدلنے لگی۔مَیں نے ملن اَور جُدائی کی ان رُتوں سے قبل ہی نماز فجر اَدا کرلی تھی۔اک شب کئی رنگ،راز،اَنجمنیں اَور رُوپ دے کر جاچکی تھی۔
؂
خورشید نے جورُخ سے اُٹھائی نقاب شب
درکھل گیاسحر کاہوابند باب ِشب
اَنجم کی فردفرد سے لے کر حساب ِشب
دفتر کُشائے صبح نے اُلٹی کتابِ شب
گردُوں پہ رنگ چہرہ مہتاب ِفق ہوا
سلطان ِغرب وشرق کانظم ونسق ہوا
یُوں گلشن فلک سے ستارے ہوئے رواں
چُن لے چمن سے جس طرح پھولوں کو باغباں
آئی بہار میں گُلِ مہتاب پر خزاں
مُر جھاکے رہ گئے ثمر و شاخ ِ کاہ کشاں
دِکھلائے طور بادِسحر نے سُموم کے
پژمردہ ہوکے رہ گئے غنچے نُجوم کے (میرانیس)

مجھے صحن میں سے کسی پرندے کاپر ملا تھا۔بالکل اَیسا ہی پر مجھے نیل سَر جھیل کے کنارے سے ملاتھا۔تب آصف نذیر نے میرے ہاتھ میں پَر تھمایا تھااَور اسے قلم کی شکل میں پکڑنے کی ہدایت کی تھی۔پھر روزنامچہ دوسرے ہاتھ میں دیااَور کہا ۔جیسے تنہابیٹھ کر لکھتے رہتے ہو ۔بالکل ایسے ہی لکھنے کی کوشش کرو۔مَیں نے پنکھ والاحصہ اُوپر اَور نوکیلاحصہ ورق پر رکھا۔آصف کے سام سانگ نے پلکیں جھپکیں تو ایک پُرانا خطاط پیر پنجال کے دامن میں نیل سر کے کنارے بیٹھا کچھ لکھ رہاتھا۔یہ تصویر آج بھی میرے سفری حاسب(لیپ ٹاپ) میں محفوظ ہے۔

میں پَر لیے کمرے میں داخل ہواتو عمران رزاق نے پوچھا یہ کیاہے۔؟مَیں نے کہا شاہین کاپَر ہے۔عمران فوراً بولے یہ تو لَم پُچھے کاپَر ہے۔لَم پچھا دراَصل ہمالیائی طوطے کی ایک قسم ہے۔جو آج کل اَپنے آشیانوں میں مشکل میں ہے۔کچھ نادیدہ ہاتھ اُس کاپیچھا کر رہے ہیں۔مَیں نے وضاحت کی کہ یہ رنگ اُس پرندے کے پروں میں نہیں ہوتاتو حضرت مولانا عمران رزاق علیہم فوراً مجادلے کے موڈمیں آتے ہوئے بولے ۔نہیں یہ ایک گدھ کاپَر ہے۔اَگرچہ کہنے والے کہتے ہیں کہ بغداد کی تباہی میں علمی بدہضمی کابڑا حصہ رہاہے۔گلی گلی اہل حق ،مولانے و علامے عوام کے ٹھٹ کے ٹھٹ چوکوں چوراہوں میں جمع کرتے ۔اَور اَپنے علمی دینی اَور دلیلی ہونے کاپوراپوراثبوت دیتے ۔ہم نے آنکھوں سے تو اُس وقت کابغداد نہیں دیکھا۔یہ آپ سے سچ کہہ  رہے ہیں واللہ۔ورنہ سننے میں آیا ہے کہ یہ حضرات نبی پاک ﷺ کے مسواک مبارک پر مجادلوں کے مجادلے کیے جاتے تھے۔کوئی کہتابالشت بھر تھاتو کوئی کہتاآدھ بالشت ۔یہاں تک کہ حضرت مولانا چنگیزخان یاعلامہ ہلاکو خان مسکراتے مسکراتے سر پر پہنچے اَور جو حال اَحوال پوچھا تاریخ میں اچھی طرح محفوط ہے۔سو میں اِن سرمئی رنگ وادیوں،گھنے جنگلوں اَور پربتی صبحوں کے درمیان کسی طرح کے مجادلے کے حق میں ناتھا۔نہ ہی علامہ و مولاناعمران رزاق مدظلہ وعالیہ کے طولانی ارشادات کامتحمل ہوسکتاتھا۔عمران طولانی ،بارانی ،بخارانی ،طوفانی اَوراپنی ہی قسم میں جلالی علامہ ہیں۔
ٹھیک ان ہی بارانی لمحوں میں کاشف نذیر نے یہ متنازع  پَر روزنامچے پر رکھ کر لکھنے کااَنداز اپنانے کی خواہش ظاہر کی۔مَیں اُسی اندازمیں کمرے میں میزکے سامنے لگی نَشت پر بیٹھ گیا۔اس بار آصف نذیر کے چھوٹے اَور بے تکلف بھائی کاشف نذیر نے اَپنے مہنگے سام سانگ جو جدید سہولیات سے لیس تھا سے میری تصویر کھینچی ۔
دوستی میں جوعداوت ہوتی اَور مسابقت چھپی ہوتی ہے اُسے صفائی کی ضرور ت ہوتی ہے۔مَیں نے مولانا عمران رزاق صاحب مدظلہ علیہ کی عالمانہ بارگاہ میں مزید خاموشی کی چادر سے اَپناآپ ڈھانپا اَور باہر چلاآیا۔

برآمدے کے آخری کونے میں مغربی سمت ایک آرام دہ کُرسی پڑی تھی۔کُھلی کھڑکیوں کے پار دیودار کے درخت تھے اَور اِن پر چاند ابھی تک ٹکاکھڑا تھا۔وادی کے گھنے جنگلوں پرسے شب نے چادر لپیٹ لی تھی۔اَ ب اُجالاانھیں پھر سے بے نقاب کرتاجارہاتھا۔ٹڈیاں بول رہی تھیں۔بے ترتیبی میں ایک ترتیب تھی۔اتنا ننھامُنّا وجود اَور اتنی میٹھی آواز،اتناسُریلاساز۔نہ جدت کی ضرورت نہ کِسی کلاسیکل عہد کادباؤ۔اَزل سے سچی اَور سُچی آوازیں ۔نہ طعبیت کو گرانی نہ ہی کان اُکتائیں۔دُنیا بھر کے مغنیوں اَورسازندوں کو کُچھ توسیکھناچاہیے۔
وقت مزید آگے آچکا تھا۔چاند نے ذرا ساسفرمزید کیاہوگا۔پہاڑی سے تھوڑا دائیں تک اَور اَب بادلوں نے اُسے اوٹ میں لے لیاتھا۔ہاں پہاڑ کی چوٹی پر اِک تارااَب بھی جھل مل کر رہاتھا۔دریا کے پانیوں کی گونج تھی۔کِسی پرندے کی آواز کے لیے میرے کان بے تاب تھے۔بدلیوں نے آسمان کو کچھ کچھ چھپالیاتھا۔

نیند آنکھوں میں سُرخ ڈورے گھول رہی تھی اَور ہلکورے لے رہی تھی۔کچھ دیر کے لیے بستر پہ دراز ہوئے ۔پھر کوئی گھنٹے بھر بعد راحیل خورشید نے دَروازہ پیٹا۔اُٹھو وے۔۔۔!سب کے سب ناشتاکر و،تیاری کرو آگے جاناہے۔اُٹھے ،نہا دھولیاتو برآمدے کے آخر میں ایک کمرہ جونماز کے لیے مخصوص تھا،اُسی کے ساتھ ایک کمرے میں بڑی سی میز کے گرد کُرسیاں لگی تھیں۔ناشتہ آیا تو پراٹھے ،تلے ہوئے اَنڈے اَورچنوں کے سالن کے ساتھ چینک میں چائے تھی۔چائے کڑک تھی اَور پراٹھے لذیذتھے۔ناشتہ سواد آور تھا۔باورچی مِلنسار انسان تھے۔انھوں نے بتایا کہ ڈاک بنگلوں میں راشن حساب کاآتاہے۔خاص کرآٹا۔باورچی صاحب اَپنے کام میں تاک تھے۔ہم نے اُن کے پراٹھوں اَورچائے کی تعریف کی۔بِل عاشق حسین صاحب نے اَدا کیا۔

شکورحسین یہاں چوکی دار تھے۔دیودار وں سے لدے پہاڑ میرے سامنے کھڑے تھے۔مَیں بَس اتنا جانتاتھاکہ یہ پربت ہیں ۔یہ وادی کشن گنگاہے اَوریہ نیچے جو دریابہہ رہاہے یہ دریائے کشن گنگاہے۔اِن پربتوں کے نام کیاہیں ۔انھیں کس شناخت سے جانا جاتاہے ۔نہیں جانتاتھا۔مَیں نے پاس کھڑے شکور حسین صاحب سے پُوچھا سامنے والی پہاڑی کانام کیاہے۔؟بولے ‘بَن چھتر’ہے۔دیاروں سے بھرابَن چھتر ایک خوش منظر پہاڑ ہے۔اس کی ڈھلوانیں کہیں پھسلواں ہیں تو کہیں اِن پر آبادی ہے اَور آباد کاروں کے بنائے کھیت ہیں۔بَن چھتر کے پیچھے ‘پاڑلی ’اَور ‘جمرہ’ گاوں ہیں۔بَن چھتر سے پیچھے ایک اَور پہاڑ ہے۔اِس پر ‘ڈاڈھ ’ہے ۔‘ڈاڈھ ’مقامی زبان میں فوجی چوکی کوکہتے ہیں۔

مغربی سمت ‘لنگڑ مالی ’کی چوٹیاں تھیں۔نیچے دیار دائیں دیار ،بائیں دیار اَور چوٹی خالی ۔ڈاک بنگلے کے پیچھے آسمان چھوتا پہاڑ ہے اَور اس پر آسمان کوبلندہوتے دیودارکاجنگل ہے۔اس پہاڑ کی دو چوٹیاں ہیں۔ایک ‘مالی ’اَور دوسری ‘ڈوگا’نام کی چوٹیاں تھیں۔شکورصاحب مجھے حدوداَربعہ سمجھارہے تھے کہ پیچھے تھے کہ مالی کے جنگل سے کسی درخت پر سے شاہین اُڑا ۔ہماراسروں پر سے گزرتاہوادریا پار بَن چھتر کے جنگل میں گُم ہوگیا۔بن چھتر کاجنگل دریا پار ہے۔

بن چھترسے پار ذرامشرقی سمت ایک اَور بلندقامت چوٹی تھی۔پہاڑ کے نشیب میں ڈھلوان پربساجوگناگاوں ہے اَورکچھ اُوپر ڈوری نام کی چوٹی ہے۔ڈوگناگاؤں اَور بَن چھتر کو ایک نالہ جُداکرتاہے۔
ذرابائیں ایک اَور بلند قامت چوٹی تھی۔جیسے آسمان سے ہم کلام رہتی ہو۔یہ ڈاڈھ گلی کہلاتی ہے۔یہ سارے کاساراعلاقہ بھارتی فوج کی ڈاڈھ کے پہرے میں ہے اَور قبضے میں ہے۔چوکیاں ،پہرے ،بندوقیں،گولیاں اَور توپ خانے ۔صدیوں سے ان پہاڑوں پر کھڑے جنگل آپس میں روز سرگوشیاں کرتے ہیں ،حیران ہوتے ہیں اَور پوچھتے ہیں ۔ہم درخت جہاں باہم اکٹھے ہوجائیں ،ایک ساتھ اُگ آئیں تو جنگل نام پایا۔جنگل باسی ،جنگلی کہلاتے ہیں۔سُناہے مہذب بستیوں میں جنگل کارہنے والااَور جنگلی ہوناایک گالی ہے۔مگر یہ توپ وتفنگ ،یہ مورچہ بندیاں ،ڈاڈھ گلیاں اَورڈاڈھ گلے ،شوراشوری ،چوراچوری ،یہ دبے پاوں قتل گاہیں ،یہ آتش فشاں آوازیں ،یہ روز کاروز بارُودکا برسنا ،یہ خو ف بانٹناسب کیاہے۔؟

درختوں میں کچھ درخت شرارتی بھی ہوتے ہیں ۔کچھ مذاقیہ بھی اَور کچھ کچھ سرپھرے بھی۔یوں ہی ایک سرگوشی سی ہوئی ۔یہ مہذب دُنیا کے جنگل ہیں۔تُم سب جیسے یہاں اُگے ہو۔اَیسے ہی انسانوں کے جنگل کے جنگل اُگتے آے ہیں۔جیسے یہاں ہم دیوداروں کی صدیوں سے خودروئی ہے۔اَیسے ہی مہذب دُنیامیں شہرکے شہر اُگ آتے ہیں ۔ایک شرارتی دیار کی سرگوشی ہوئی مَیں نے انسانی جنگل دیکھے ہیں ۔ جوخود بہ خود چلتے ہیں۔ ہم سب میں یک سمتی ہے ۔وہ ہمہ سمتی ہیں۔ہم ایک طرف ہی منھ اُٹھا کرچلتے رہتے ہیں ۔وہ جدھر مَن آئے منہ  اٹھا کر چلنے لگ جاتے ہیں۔ہم بڑھتے ہیں ،بلند ہوتے ہیں ۔وہ چلتے ہیں ،پسپاکرتے ہیں اَورخود پسپا ہوتے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں چھوٹے قدکے کانٹے دار درختوں کو معززاَور مہذب بستی کے باسی ‘خود روجھاڑی ’کہتے ہیں۔خود روئی یہاں ہی نہیں وہاں اُن کے ہاں بھی ہے۔اَور بہت ہی خودروقسم کی خود روئی ہے۔جومرضی جہاں اُگ جائے۔کوئی اَپنی مرضی کایامن پسند نہیں اُگاسکتا۔جیسے یہاں جھاڑی سے جھاڑی اُلجھتی ہے مگر لڑتی نہیں۔بالکل ویسے ہی مہذب بستیاں ایک دُوسرے سے اُلجھی رہتی ہیں اَور لڑتی رہتی ہیں۔یہاں جھاڑیوں پرکانٹے اَور پھول ہوتے ہیں۔وہاں پھول نہیں ہوتے ۔خوش بوئیں توخال خال ،بدبوئیں زیادہ راج کرتی ہیں۔بلکہ وہی راجاہیں ۔خاموشی وہاں منع ہے۔خاموشی کو وہاں ‘گونگا ’اَور ظرف پسند ی کو ‘بہرا’ کہاجاتاہے۔یوں اُن مہذب باسیوں کے نزدیک ہم جنگلی ،گونگے اَور بہرے ہیں۔
لہٰذااَے شجر وحجر سنو ۔۔۔!غور سے سنو ۔۔۔!یہ توپ و تفنگ ،یہ ڈاڈھ نگری،یہ شوراشوری ختم نہیں ہوگی ،بالکل نہیں ہوگی۔مہذب باسی اسے مقدس خیال کرتے ہیں۔یاد رکھو جوکام تقدیس کادرجہ پالے۔وہ پوجاجاتاہے۔پوجاگھر،پوجاپاٹ اَور پوجائی پر حرف زنی نہیں ہوسکتی ۔یہ جرم ہوتاہے ۔مہذب باسی اَیسے ہی ہیں ۔اُن پر حیران مت ہو۔اُن کی دُنیااُن کی ہے ۔ہماری دُنیا ہماری ہے۔اپنی اپنی دُنیاؤں میں رہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کسی ایک آدھ دیار نے پہاڑ کی چوٹی پر سے سرگوشی کی ۔اَرے سُناہے وہاں عقل نے مسلسل اِرتقاکرکے بہت ترقی کرلی ہے کیوں نہ ہم بھی یہ یک سمتی چھوڑ چھاڑ کر اِرتقایافتہ ہوجائیں۔۔؟سب دریاروں کے کان کھڑے ہوگئے۔خوف کی ایک لہر پورے جنگل میں دوڑگئی ۔اسی دم بالکل ایک بڈھے دیارنے کھنک کر گلاصاف کیااَورتحکمانہ لہجے میں کھنک کرکہا۔اَے سُن ۔۔۔!اَپنی ذات میں رہ۔!اِرتقائی دُنیانے آج تک ایک دُوسرے کوکاٹاہے۔تُم نے وہ سب پڑھ لیاتو ایک دُوسرے کو ہی کاٹو گے ۔ابھی تو تمھیں صرف ۔۔۔۔۔کاٹ رہے ہیں۔بُڈھے دیار کی تنبیہ کے بعد سارے جنگل میں سکوت آگیا۔شاید یہ یہاں پر بڑاسیانااَور بڑاسمجھاجاتاہے۔تبھی تو یہ نظم ابھی تک باقی ہے ۔ورنہ جنگل اَور جنگلی نہیں ۔۔۔اَفراتفری اَور بھگدڑ ہوتی۔
ڈاک بنگلے کے صحن سے نیچے یعنی ہمارے قدموں میں ضلعی ہسپتال تھا۔میری نظر پار پہاڑ پر تھی کہ ایک باز بہت نیچی پروا زاُڑتادریاکے متوازی چلتااچانک اپنے بائیں طرف دریاکنارے ایک دیار پر جابیٹھا۔غور کیاتو ایک نہیں کئی باز دریاپر اُڑانے بھر رہے تھے۔یہ بڑی چیل بھی ہوسکتی تھی۔جو یہاں قدرے فاصلے سے شناخت نہیں ہورہی تھی۔کہیں جگہوں پر دیار سوکھے ہوئے تھے۔انھیں فِطری عمل اَور آگ نے کم ستایا۔انسانوں کے پیٹ نے انھیں زیادہ ستایا ہے اَور یہ ستانا آج بھی جاری ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply