مرتے مرتے بچے اور غنڈے/ڈاکٹر مجاہد مرزا

“مثل برگ آوارہ”سے اقتباس

 

 

 

 

 

 شہر میں لینا کے علاوہ دوسرے لوگوں سے ملنا میرے لیے موجب اکتاہٹ تھا لیکن لوگوں سے مسکرا کر ملنا، ان کی بات سننا اور اپنی بات کہنا بھی ضرورت تھی کیونکہ میں ساشا کا مہمان تھا۔ ساشا لوگوں کے ساتھ اپنے کاروباری تعلقات جتانا چاہتا تھا جو وہ کر رہا تھا لیکن میزبان کے برعکس  مہمان کی سوچ کی تانت کھلے جنگل میں مکڑی کے جالے کی ٹوٹی تار کی مانند لہرا لہرا کر لینا کی جانب اُڑی جا رہی تھی۔ بالآخر میشا نے گاڑی لینا کی کارگاہ کے دروازے پر کھڑی کی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ سب سے پہلے گاڑی سے نکل کر بھاگ کر لینا سے جا مِلوں ،پر ظاہر ہے اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔

لینا نے اپنی اداس آنکھوں اور معمول کی مختصر مسکان کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا تھا۔ کچھ کاروبار کی اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں کی تھیں۔ ساشا نے اسے شام کو ہوٹل میں آنے کی دعوت دی تھی مگر اس نے معذرت کر لی تھی۔ میں دل مسوس کر رہ گیا تھا۔ مجھے لینا سے ایک نگاہ کی محبت نہیں ہوئی تھی۔ البتہ یہ جانتا تھا کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو پتہ نہیں کیوں اور کیسے اپنی قربت کا احساس دلاتے ہیں جس کے بعد ان کے مزید قریب آنے کی امنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ لینا ایسے لوگوں میں سے ایک تھی۔

ساشا نے لینا سے پہلے نتاشا نام کی خاتون کو بھی شام کو ہوٹل آنے کی دعوت دی تھی جو اپنی ایک اور سہیلی کو لے کر پہنچ گئی تھی۔ کھانے پینے کی محفل میرے کمرے میں جمی تھی۔ نتاشا چھتیس سینتیس سال کی خوش شکل عورت تھی۔ شراب کا پہلا جام چڑھاتے ہی وہ مجھے اچھی لگنے لگی تھی۔ ساشا نے نتاشا کو اپنی سہیلی یعنی گرل فرینڈ کے طور پر متعارف کرایا تھا اس لیے میں نے اس کی جانب پسندیدگی کا اظہار اس معانی میں نہیں کیا تھا کہ میں  اس سے متمتع ہونے کا خواستگار تھا۔ جہاں عورت کی برابری کا زیادہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ عورت جنس نہیں انسان ہے وہیں عورت کچھ زیادہ جنس اور صرف عورت ہوتی ہے، خاص طور پر شراب پینے کے بعد ۔ عورت خود بھی ایسی محفلوں میں اپنے عورت ہونے کی منہ بولتی بلکہ چیختی چنگھاڑتی تصویر بن جاتی ہے۔

بالآخر ساشا نے نتاشا کے کان میں کچھ کہا تھا اور وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر ساشا کے کمرے میں لے گئی تھی۔ کمرہ کھلا تھا۔ ہم دونوں اندر داخل ہوئے تھے، نتاشا نے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی تھی اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے کہا تھا ” بس عیسائی مذہبی انداز میں” ۔ ۔ ۔ یہ سن کر مجھے کچھ کوفت ہوئی تھی مگر میں تین پیگ پی چکا تھا چنانچہ میں نے نتاشا کی خواہش کا حترام کیا تھا۔

اگلے روز میری ماسکو روانگی تھی۔ ساشا نے کہا تھا کہ ہم آپ کو کار میں ماسکو چھوڑ آئیں گے۔ میں نے روکا بھی کہ منسک تک چھوڑ آؤ ،جہاں سے میں ریل گاڑی پر سوار ہو کر چلا جاؤں گا مگر ساشا بضد رہا تھا۔ میں یہ سوچ کر کہ شاید ان کا ماسکو میں اپنا کوئی کام ہو خاموش ہو گیا تھا۔

ہم تینوں یعنی ساشا، ڈرائیور میشا اور میں تقریباً گیارہ بجے گرودنا سے چلے تھے۔ راستے میں ایک جگہ دو طرفہ سڑک تھی۔ میرے جی میں نجانے کیا آئی کہ میں کہا تھا،” میشا تم پیچھے آ جاؤ، گاڑی میں چلاتا ہوں”۔ میشا کو معلوم تھا کہ میرے پاس ماسکو میں گاڑی ہے چنانچہ اس نے گاڑی سائیڈ پر لگائی تھی اور اتر کر پچھلی نشست پر جا بیٹھا تھا۔ سٹیرنگ میں نے سنبھال لیا تھا ۔ ساتھ کی نشست پر ساشا بیٹھا ہوا تھا۔ چند کلومیٹر کے بعد مجھے ایک لمحے کے لیے لگا تھا کہ کوئی گاڑی میری مخالف سمت سے بہت تیز رفتاری کے ساتھ ہماری گاڑی کے بالکل ساتھ سے “شاؤں” کرتی گذری ہے۔ مجھے احساس تک نہیں ہوا تھا کہ دو رویہ سڑک پر یہ کیا ہوا تھا۔ اسی لمحے پیچھے بیٹھے میشا نے بہت آہستگی کے ساتھ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کے کہا تھا،” گاڑی روک لیں حضور”۔ اس کے ایسا کہنے سے مجھ پر پوری حقیقت کھل گئی تھی۔ میں نے گاڑی سائیڈ پر کرکے روک لی تھی۔ پر خود بُری طرح کانپنے لگا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ کسی جگہ دو رویہ سڑک تمام ہو گئی تھی جس کا مجھے احساس نہیں ہوا تھا۔ میں نے ساتھ سے گذرنے والی گاڑی کے لیے سڑک کا مناسب حصہ خالی نہیں چھوڑا تھا۔ دوسری جانب سے کوئی ریس کار اپنی بڑھی ہوئی رفتار کے ساتھ آ رہی تھی۔ مجھ پر کپکپاہٹ اس لیے طاری ہوئی تھی کہ اگر میں مزید دو چار انچ ادھر کو ہوتا تو اتنی تیز رفتار گاڑی سے ٹکر کے بعد گاڑی کے پرخچے اڑ جاتے ہماری اپنی بات تو کیا کرنی۔ دلچسپ بات ہے کہ ساشا کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوا تھا۔ جب اسے میشا نے ذرا تفصیل سے بتایا تو اس کے چہرے پر اضطراب کی ایک لکیر سی بنی تھی اور بس۔ آخر کار ساشا پولیس میں کام کرتا رہا تھا جن کی زندگیوں میں خطرات سے کھیلنا بھی شامل ہوتا ہے۔

انہی دنوں میرے دفتر سے سگریٹوں کے پندرہ بیس کارٹن چوری ہو گئے تھے جو میرا ایک سابق فوجی افسر دوست اپنا کام ٹھپ کرکے جاتے ہوئے زبردستی میرے دفتر میں رکھ گیا تھا کہ بیچنے کی کوشش کرنا۔ بک جائیں تو پیسے دے دینا۔ جب یہ مال چوری ہوا تو میں پاکستان گیا ہوا تھا۔ دفتر میں احسن اور سہیل تھے۔ احسن ندیم کا ماموں زاد تھا اور سہیل ندیم کے ایک دوست کا بھانجا۔ ان دونوں کو پاکستان سے آئے کوئی چھ ماہ بیتے تھے۔ شروع میں وہ میرے ساتھ رہے تھے۔ بعد میں جب مظہر ایک کمرے کا کرائے کا گھر چھوڑنے لگا تو میں نے ان دونوں کو وہ گھر دلا دیا تھا۔ پاکستان سے لوٹنے کے بعد میں نے سوچا کہ “چھت” بننے والی مافیا سے اس سلسلے میں مدد لی جائے۔ میں نے مافیا کے سرغنہ کوستیا کو فون کرکے اس سے مدد کرنے کی بات کی تھی۔ اس نے جواب میں کہا تھا کہ وہ فون کرے گا۔ ایک روز اس نے فون کیا تھا اور کہا تھا کہ دعوت ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ کہاں دعوت ہے تو اس نے کہا تھا کہ تم بتاؤ چونکہ دعوت تمہیں دینی ہے۔ عجیب مصیبت تھی یہ مافیا بھی۔ مجھے ایک ہی ریستوران کے بارے میں علم تھا جو شہر کے مرکز کے نزدیک تھا اور جہاں ہندوستانی کھانا پیش کیا جاتا تھا، میں نے اس کا نام لے دیا تھا۔ مافیا والے ایک ہی جگہ ملنے کو کہتے تھے یعنی سینیما ہاؤس کرغیزیا کے پاس۔ پہلی بار جب کوستیا نے مجھے ملنے کی خاطر بلانے کو فون کیا تھا تو کہا تھا کہ کرغیزیا آ جاؤ۔ میں نے حیرت سے کہا تھا کہ کرغیزیا آ جاؤں؟ کیونکہ کرغیزیا، تو سوویت یونین سے علیحدہ ہوئی ایک وسط ایشیائی ریاست کا نام تھا تو اس نے وضاحت کی تھی کہ یہ ایک سینیما ہے اور ماسکو میں فلاں جگہ پر واقع ہے۔

اس بار بھی اس نے مجھے وہیں پہنچنے کو کہا تھا۔ میں اپنی گاڑی آؤڈی لے کر گیا تھا۔ کوستیا اپنے ایک ساتھی کے ساتھ دوسری گاڑی سے نکل کر آیا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ نکل کر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ جاؤ، گاڑی وہ خود چلائے گا۔ اس نے گاڑی کو دوسرے گیر میں بھگا کر فوراً  لاسٹ گیر میں ڈالا تھا اور ہوا کر دیا تھا۔ گاڑی سڑک میں بنی ایک کھڈ سے ٹھاہ کرکے گذری تھی ۔ اس جھٹکے سے اس کا ایک شاک ابزاربر جواب دے گیا تھا۔ بہر حال مافیا کے پانچ اراکین اور تنہا میں “دہلی ریستوران” پہنچے تھے۔ ان پانچوں نے جو جی میں آیا اس کی فرمائش کی تھی۔ لگتا تھا بیروں کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ کوئی بکرا پھنسا ہوا ہے۔ وہ قاب پہ قاب لیے اڑے پھرتے تھے۔ اس دعوت کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ سمندر میں سے سوئی تلاش نہیں کی جا سکتی یعنی سگریٹ چوری کرنے والوں کو تلاش کیا جانا ناممکن تھا۔ غالباً  یہ چوری انہوں نے خود کروائی تھی، اوپر سے تین چار سو ڈالر کے مساوی دعوت کا بل بھی بیچارے مجھ کو بھرنا پڑا تھا۔ اور تو اور ان کے غول کا ایک شہدا رکن چھوٹا آندرے تو بضد ہو گیا کہ مجھے ریستوران سے ” ابسولٹ وادکا ” کی بوتل خرید کر دو۔ میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں باہر سے خرید دوں گا، ریستوران میں تین گنا مہنگی دیتے ہیں مگر وہ غصیل بچوں کی طرح بضد تھا کہ باہر اصلی نہیں ملتی یہاں اصل ملے گی۔ کوستیا جس نے شراب کو چکھا تک نہیں تھا، زیر لب مسکراتا رہا تھا لیکن اس نے اپنے ساتھی کو اس ضد سے نہیں روکا تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا میں نے اس کو بوتل خرید کر ہی گلوخلاصی کرائی تھی۔

مافیا کے غنڈے اس قسم کی حرکتیں عام کیا کرتے تھے۔ ایک بار چند چھیل چھبیلے نوجوان میرے دفتر میں آئے تھے۔ انہوں نے بھی “چھت” بننے کی پیشکش کی تھی۔ جب میں نے انہیں بتایا تھا کہ ہماری تو پہلے سے ہی “چھت” ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ اپنی چھت والوں سے ملاؤ۔ میں نے کوستیا کو فون کیا تھا۔ اس نے اگلے روز بارہ بچے اس دوسرے گروپ سے ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے چھیل چھبیلے نوجوانوں کو اگلے روز بارہ بجے دفتر آنے کا کہہ کر رخصت کر دیا تھا۔ اگلے روز کوستیا تو نہ آیا تھا لیکن اس کے غنڈے تین کاروں میں بھر کر آ گئے تھے۔ بارہ کا ایک بج گیا، دوسرا گروپ نہیں پہنچا تھا۔ ان کے چند سرکردہ اراکین نے گھوم پھر کر دفتر اور گودام سب دیکھ لیے تھے اور کہا تھا کہ تمہارا بہت زیادہ کاروبار ہے۔ ہمیں بینک سے بھی ساری معلومات ہیں۔ اس لیے تم آج سے پانچ سو ماہانہ نہیں بلکہ ایک ہزار ڈالر ماہانہ بھتہ دیا کروگے۔ میں نے جتنا بھی سمجھایا کہ بینک میں آنے والی رقوم کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سارا کا سارا منافع ہے۔ مال کی قیمت ، دفتر کےاخراجات، مال کی ٹرانسپورٹ اور دیگر اخراجات نکال کر ہی منافع کا تعین ہوتا ہے لیکن وہ غنڈے تھے بس کہہ گئے تھے، اب مجھے ایک ہزار ڈالر ماہانہ کے حساب سے ہی بھتہ دینا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ چھیل چھبیلے نوجوان بھیجنا بھی ان کا اپنا کھیلا ہوا کھیل تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply