دل کی آنکھ۔۔۔روبینہ فیصل

انسان کے پاس دیکھنے کو ظاہری طور پر دو آنکھیں ہیں۔ مگر ایک تیسری آنکھ ہے جو ظاہر نہیں مگر باطن میں پوشیدہ ہے ۔ اس کو کوئی دیکھ نہ پایا ،دیکھی گئی تو سمجھ میں نہ آئی ۔ اورجس نے اس آنکھ کو سمجھ لیا اس نے کائنات میں موجود خلو ص اور سچائی کو سمجھ لیا ۔ زندگی کے مفہوم کو سمجھ لیا ۔ ایسا انسان خالی ہاتھ نہیں رہتا ۔
اعتبار اور محبت ایک سکے کے دو رخ ہیں ۔ جس سے ہم محبت کرتے ہیں اس پر اعتبار بھی کرتے ہیں ۔ اگر ہم اعتبار نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب آپ کے اندر کی آنکھ کی بینائی کمزور پڑ گئی ہے ۔ اور کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ محبت کے نام پر واقعی ہی ناقابلِ اعتبار ہمارے اعتبار اور پیار کا استعمال کر جاتے ہیں ۔ یہاں بھی آپ کی تیسری آنکھ آپ کو دھوکا دے جاتی ہے ۔ پیار ہے اور آپ اعتبار کرنے کے قابل نہیں یا اعتبار کر رہے ہیں اور دوسری طرف پیار ہی سرے سے نہیں ہے،یعنی ان دونوں صورتوں میں ہی یا تو آپ کے دل کی آنکھ ہے ہی نہیں یا ہے تو آپ کو اس کا ادراک نہیں ہے ۔ وجدان کی کیفت خدا کی وہ نعمت ہے جو جو کچھ لوگوں کو ذہانت کی طرح  زیادہ اور کچھ کو کم ملتی ہے اور کچھ بدنصیب اس سے محروم رہتے ہیں ۔ منطق سے اسے یوں کہیں گے انسان کو دوسرے انسان کی “پہچان یعنی ” دل میں اُگی ہوئی تیسری آنکھ کا مکمل طور پر فاعل ہونا ۔
میری ایک بھانجی ہے ،اس کی پیدائش سے لے کر آج تک ہم دونوں ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہیں ۔ ایک دن اس کی ایک دوست نے کہا ہماری بھی خالائیں ہیں ہم تو ایسے نہیں ان سے پیار کرتے ۔ تو اس کے پاس ایک لمبی لسٹ تھی ان لمحوں کی جب جب اسے میری ضرورت پڑی میں وہاں اس کے لئے موجود تھی ۔ دوست لاجواب ہوگئی ، اس نے کہا ہاں! ہماری خالائیں ایسا نہیں کر تیں ۔ تم بہت خوش قسمت ہو ۔ میں نے کہا نہیں خوش قسمت یہ نہیں ،میں ہوں ،دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو دوسروں کے لئے کتنا کچھ کرتے مگر ہر دفعہ ہر کسی کی قدر نہیں ہوتی۔ میں نے تو اس سے پیار کرنا ہی تھا ۔ مگر اس کا اس پیار کو یاد رکھنا ، اور مجھے اس سے بڑھ کر پیار دینا ، یہ میری خوش قسمتی ہے ۔
جب کوئی یہ شکوہ کرتا ہے کہ دنیا میں خلوص اور پیار نہیں رہا تو ہوتا یوں ہے کہ انہوں نے انسانوں کی پہچان میں بھول کی ہوتی ہے ۔ انہوں نے اپنی مرضی سے اپنے ارد گرد ان لوگوں کا انتخاب کر لیا ہوتا ہے جو مطلبی اور خود غرض ہوتے ہیں ۔ خود بھی لوگ عہدے ، شہرت اور پیسے کے پیچھے بھاگتے ہیں اور پھر گلا پھاڑ پھاڑ کر خلوص کے فقدان کا رونا روتے  ہیں۔ کانٹے بوئیں تو پھول نہیں اگتے ۔
جن انسانوں کے اندر سچ اور خلوص ختم نہیں ہوتا ۔ وہ کبھی سچے پیار سے محروم بھی نہیں ہوتے ۔ اور بڑی غربت کی بات ہے کہ انسان دنیا سے جائے اور ایک بھی سچی آنکھ آپ کے لئے رونے والی نہ ہو ۔ جنازے میں موجود ہزاروں لوگ کوئی اپنے دکھوں کو روتا ہے اور جنازہ کسی بااثر یا دولتمند کے رشتے دار کا ہو تو لوگ بناؤٹی رونا روتے ہیں ۔ ایک بھی سچی آنکھ سے ایک بھی سچا آنسو کسی کی لاش کو نصیب ہوجائے تو سمجھ جائیےکہ رخصت ہونے والے کے دل میں خلوص زندہ تھا ۔ جو آنسو بن کر لوگوں کی آنکھوں میں اتر آیا ہے ۔

ایسی غیر سیاسی باتیں قوموں کے مزاج اور ملکوں کی سیاست میں تربیت کے لئے ضروری ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی مثال ایک عبرت کا نشان ہے ۔ میرا پختہ یقین ہے کہ اگر بھٹو صاحب شہرت اور خود پسندی میں اتنا نہ ڈوب جاتے تو ان کے دل کی آنکھ نہ کبھی بند ہوتی ، اور نہ کبھی وہ پر خلوص لوگوں سے دور ہٹ کر سطحی لوگوں کے جال میں پھنستے ۔ ان کے اندر خلوص کے کم ہونے
اور خود غرضی کے نمایاں ہونے کی دیر تھی کہ ایسے ہی مزاج والے مشاہرین ان کے گرد اکھٹے ہوگئے ۔ خلوص کی جگہ خود غرضی نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور انجام کال کوٹھری کی تنہائی ۔
محاورہ ہے مایہ کو ملے مایہ کر کر لمبے ہاتھ ۔ میرا خیال ہے یہی بات جھوٹ اور سچ پر بھی لاگو آتی ہے ۔ جھوٹ کو ملتا ہے جھوٹ اور سچ کو ملتا ہے سچ ۔ اگر ایسا نہ ہورہا تو سچے لوگوں کے اندر کی آنکھ میں تو خارش شروع ہوجاتی ہے ۔ بھٹو کے بعد اگر کسی لیڈر کو عوامی سطح پر پیار اور محبت ملی تو وہ ہے عمران خان ۔ ہم ان کی سیاست سے ، ان کے طریقوں سے اختلاف کرنے کے لئے آزاد ہیں ۔ مگر جن لوگوں کے دل میں تیسری آنکھ ہے وہ عمران خان کی سچائی دیکھ سکتے ہیں ۔ وہ سچائی ہے پاکستان سے اور پاکستانیوں سے مخلص ہونے کی ۔
جب لندن کے شیزان ریسٹورنٹ میں چند پاکستانی ڈاکٹروں نے عمران خان کا مذاق اڑایا اور کینسر ہسپتال کے منصوبے کو ایک دیوانے کا خواب کہا تو وہ غصے میں وہاں سے کھانا کھائے بغیر اٹھ کر آگیا ۔ اور بعد میں گڑھی شاہو گندی اور بد بو دار نالیوں سے گزر کر جب وہ مسجد میں پہنچا تو ایک شخص نے لاؤڈ سپیکر سے اعلان کیا کہ عمران خان آگیا ہے لوگ آئیں اور اپنے عطیات دیں ۔ عمران اپنی کتاب میں لکھتا ہے میں غصے سے آگ بگولا ہوگیا ، مگر جب غریب مزدور لوگ اکھٹے ہونے شروع ہو گئے کوئی مجھے پانچ دس یا پندرہ روپے دے رہا ہے ۔ لکھتا ہے میرا غصہ بھاپ بن کے اڑ گیا اور میری آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے ۔یہ تھا عمران خان کے اندر کا سچ جس نے بڑے بڑے ڈاکٹروں کی رائے کو ایک طرف رکھا اور ان لوگوں کا جذبہ دیکھا جن کے پاس نہ دولت تھی ، نہ کوئی مقام ۔ عمران خان کے اندر کی آنکھ نے ان کے خلوص کو منتخب کیا ۔ اور ان لوگوں نے لاکھوں سوشل ورک کرنے والوں میں سے اپنے دل کی آنکھ سے صرف عمران خان کو دیکھا اسے پیار کیا اور اس پر اعتبار کیا ۔ اسی لئے جب اس معجزاتی ہسپتال کا افتتاح ہوا تو اس وقت کے شاہی جوڑے آصف زرداری اور بے نظیر کے ہاتھوں نہیں بلکہ دس سالہ کینسر کی مریضہ سمیرہ کے ہاتھوں یہ مقدس فیتہ کاٹا گیا ۔
کینڈا آنے والے 2008 والے اور 2013والے عمران خان میں مجھے بہت فرق محسوس ہو ا تھا ۔ مجھے لگا ان پانچ سالوں میں عمران خان بھی بھٹو کی طرح اپنے مرکز سے ہٹ گیا ہے ۔ اپنے مخلص ساتھیوں کو چھوڑ کر کامیابی کے شور شرابے میں گم ہے ۔ مگر ایک چیز جو اس میں تبدیل نہیں ہوئی تھی ۔ اس کا ا نسانوں کی طرف انسانوں والا رویہ ۔ کسی کو تکلیف تو نہیں ہو رہی ؟کسی کا دل تو نہیں دکھ گیا ۔ اور اس کے اندر کا خلوص نہیں مرا تھا ۔ اسی لئے خدا نے اسے عین عروج میں ہی مفاد پرستوں کے چہرے دکھا دیے  ۔ عمران خان کے خلوص پر کامیابی کی گرد جمتی تو کنٹینر اور دھرنے کی سیاست سے بھی وہ کچھ نہ سیکھتا مگر جب ایک دن اس نے کینٹیر کی چھت سے کہا ” مجھے معلوم ہوگیا ہے کون کیا تھا ؟”۔ تو مجھے لگا اگر آج خدا نے اسے اپنے دل کی آنکھ استعمال کرنے کا موقع دیا ہے تو اس کے سچ کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا ۔ دھرنے کی سختیوں نے وقتی غباروں کی ہوا اس کے سامنے نکال دی ۔سچے لوگوں کا ملنا خوش قسمت نہیں ہوتی ، ان لوگوں کو پہچان کر ان کی قدر کرنا خوش قسمتی ہوتی ہے۔ بہت سے کھوٹے سکوں سے پیالہ بھرنے سے بہتر تھوڑے سے سکے اپنی مٹھی میں ایسے بند کر لینا چاہیئے کہ کبھی نہ وہ مٹھی کھلے نہ کبھی وہ سکے گم ہو ں۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ لوگ جو جھوٹ اور سچ کی تمیز کرنے کے قابل ہوتے ہیں خوش قسمت ہوتے ہیں ۔ جو کسی بھی چھوٹے سے موازنے سے کوئی بڑا سا فیصلہ کر لینے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔اربوں روپے میڑو پر لگا کر وقتی نام بنانے والے حکمران یہی پیسہ کسی ڈیم پر کیوں نہیں لگاتے ۔ جو میڑو میں سفر نہیں کرتے تھے وہ زندہ تو تھے ۔ ڈیم نہ بننے سے جو ہر سال سیلاب آتے اور لوگوں کو بہا کر ہی لے جاتے ، ہزاروں ڈالر کا ویسے بھی نقصان اور لاکھوں متاثرین ،اس پہچا ن کے لئے تو اندر کی آنکھ کی بھی ضرورت نہیں فقط ماتھے کے نیچے ٹکی دو آنکھوں کو ہی استعمال کر لیں اور سب روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے۔۔مگر اتنا تردد کرے کون ؟

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply