مقدمہ/حمزہ یعقوب

شاعری ایک تخفیفی (Reductionist) عمل ہے کہ اس میں ہر لفظ ایک نشان (sign) کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور کم سے کم الفاظ میں پوری بات کہنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر کسی شعر میں موجود ہر لفظ اپنی موجودگی کا جواز پیش نہ کر سکے، تو اسے عروضی اعتبار سے تو شاید شعر تسلیم کر لیا جائے، لیکن شعری تنقید کے پیراڈائم (paradigm) میں کبھی مکمل شعر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مابعد جدید عہد (postmodern era) میں جہاں زندگی گزارنے کے لیے آدمی کے پاس کوئی حتمی نظریہ (Absolute ideology) نہیں ہے اور ہر چیز تشکیک (doubt) کے دائرے میں بند ہے، وہاں شاعر کا یہ منصب بنتا ہے کہ وہ شعری منطق (poetic logic) کے تحت ابدی سچ (absolute truth) کا متبادل (alternative) پیش کرے۔ یہ متبادل ضروری نہیں کہ زمانی سطح پر آفاقی (universal) ہو لیکن شاعر کی شعری کائنات (poetic universe) کے تناظر میں اسے درست (valid) ضرور ہونا چاہیے۔

متبادل سچ شاعر کی فکری تشکیل (intellectual construct) سے جنم لے کر اپنا الگ نظامِ کلام (discourse) قائم کرتا ہے تاکہ مابعد جدید (postmodern) آدمی کا مقدمہ پیش کر سکے۔
مصنف کی موت اور معنی کے التواء نے متن (text) کی تعبیر کا فرض قاری کو سونپ دیا، چنانچہ پہلے سے فرض کر لیا جاتا ہے کہ قاری کو متن کی صنف (genre) کی روایت سے متعلق بنیادی سمجھ بوجھ (fore understanding) ہے، اگر ایسا نہ ہو تو متن کی قرات (reading) کا ماحصل (resultant) کچھ نہیں بچتا۔ شعری متون کی قرات کے دوران میں اس امر کا بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ شعری متون وقت کے کسی ایک حصے سے جڑے ہوئے (synchronized) ہوئے نہیں ہوتے، بلکہ وہ شاعر کے حال، آئندہ، اور ماضی تینوں سے ایک ساتھ منسلک (associate) ہوتے ہیں۔یہ انسلاک (association) بعض جگہوں پر ایک استبعادی صورتِ حال (paradoxical situation) پیدا کرتا ہے لیکن بنیادی سمجھ بوجھ (fore understanding) رکھنے والا کوئی بھی قاری اس صورت حال سے پریشان (confuse) ہونے کے بجائے اس سے حظ اٹھاتا ہے۔

یہ شعری مجموعہ بھی ایک ایسے مابعد جدید آدمی کا مقدمہ ہے جو زندگی کی لایعنیت (meaninglessness) کا جواب روایتی منطق (traditional logic) کے بجائے شعری منطق (poetic logic) سے اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ روایتی منطق پہلے سے موجود کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے جہاں ہر چیز کروڑوں برس پرانی ہے اور تازگی (freshness) کا عمل کسی غیر دریافت شدہ شے کی دریافت سے منسلک ہونے کی وجہ سے عارضی (temporal) ہے جب کہ شعری منطق اپنے لیے ایک پورا نیا جہان وضع کرتی ہے جہاں ہر شے نئی ہے اور تازگی کے احساس سے مضمر ہے، یہ تازگی روایتی منطق کے برعکس ابدی (eternal) ہوتی ہے۔

لفظ مرکز (logocentrisim) نظریے کی رو سے شعری تجربے کے احضار (presentation) کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ وہ شعری تجربہ، گو کہ مابعد جدیدیت اس نظریے سے اختلاف کرتی ہے اور اس کے برعکس معنی کے التواء (deferal of meaning) کا نظریہ پیش کرتی ہے، لیکن اس کے باوجود ردھم میں لکھی جانے والی تمام تر شاعری بالخصوص غزل میں ترتیب ِ نغمہ (orchaestration) اور نغمگیت (musicality) کے عناصر اپنے شعری سیاق میں لفظ مرکز نظریے کی توثیق کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو غزل مابعد جدید آدمی کے اظہار کے لیے ایک مشکل صنف بن جاتی ہے۔

مابعد جدیدیت، آدمی کو اظہار کے لیے زبان کے پہلے سے طے شدہ ساختیاتی سانچوں (structural templates) کو توڑنے پر اکستاتی ہے، اور اسی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں نثری نظم کی صنف کو مقبولیت ملی ہے۔ تاہم اردو غزل کے ساتھ گزشتہ آٹھ برس کا عرصہ گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اردو غزل بطور صنف اپنی ساخت کے حوالے سے غیر لچکدار (non-elastic) ضرور ہے لیکن مضمون اور اس کے اظہار کے لیے اتنی ہی وسیع (vast) ہے جتنی کہ نثری نظم۔ چونکہ مابعد جدیدیت ساخت شکن نظریہ ہے، اس لیے بیشتر مابعد جدید نقاد اور قارئین اردو غزل کی وسعت اور شعری اظہار کے کینوس کو سمجھنے سے پہلے اسے محض ساخت ہونے کی وجہ سے رد کر دیتے ہیں، لہذا آج تک اردو غزل اور نثری نظم کے شاعر، ناقد، اور قاری کے درمیان تنی ہوئی فضا قائم ہے۔

شعر، اظہار کی ایک جامع و مانع اکائی (precise unit) ہے، جس میں اسلوب (style) اور شعری بصیرت (poetic vision)کی مدد سے بےشمار نظام ِ کلام (discourse) ترتیب دیے جا سکتے ہیں مثلاََ بیانیہ نظام کلام (descriptive discourse)، تخیلاتی نظام ِ کلام (speculative discourse)، تجربی نظامِ کلام (empirical discourse) وغیرہ وغیرہ۔ شعر جہاں شاعر کے اظہار کی ساخت پر پابندی لگاتا ہے، وہیں کم سے کم الفاظ میں اپنی بات کہنے کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے۔ اردو میں اظہار کی جتنی بھی دیگر اصناف ہیں، ان کے مقابلے میں شعر ہی سب سے کم الفاظ میں اظہار کا موقع دیتا ہے، نثر یا دیگر شعری اصناف کے پاس یہ وصف موجود نہیں ہے، چنانچہ دیگر اصناف میں الفاظ کے غیر ضروری (unncessary) استعمال کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

عصبی نفسیاتی سائنس (neuropsychological sciences) کے مطابق انسانی دماغ تخلیقی عمل میں نئے پن (originality) کے بجائے روانی (fluency) کو ترجیح دیتا ہےکیونکہ نئی بات سوچنے میں دماغ کی زیادہ قوت صرف ہوتی ہے، اس لیے ذہن پہلے سے بنے ہوئے تخلیقی سانچوں میں روانی کے ساتھ اپنی تخلیقیت کا اظہار کرنے کو فوقیت دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال اردو غزل میں قافیہ پیمائی کی ہے کہ قافیہ اور ردیف کو ساتھ ملا کر جو پہلا خیال شاعر کے ذہن میں آتا ہے، وہ اسے وزن میں بیان کر دیتا ہے۔ اس کے بر عکس خود انعکاسیت (self reflexivity) اور اس کے تحت جنم لینے والے خیالات کے اظہار کے لیے نئے شعری سلیقے (poetic patterns) ڈھونڈنا مشکل تو ہے لیکن اس سے متن میں جو نیا پن پیدا ہوتا ہے اس کا کوئی نعم البدل بھی نہیں۔ نئے شعری سلیقوں کی ایک مثال نئے تلازمے اور نئے استعاروں کی تلاش ہے جو بیک وقت اجنبیت، پراسراریت، اور تازگی سے مزین ہوتے ہیں۔

یہ کتاب ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۳ء تک لکھی جانے والی شاعری کا ایک انتخاب ہے، ان میں سے بیشتر غزلیات مارچ ۲۰۲۱ء کے بعد کہی گئی ہیں۔مزید برآں تجربے کے طور پر غزلیات کے ساتھ ساتھ کچھ نثری نظمیں بھی اس کتاب میں شامل کی گئی ہیں جن میں سے بیشتر نثری نظموں کے تانے بانے یورپی تہذیب و ثقافت میں پیش آنے والے واقعات سے بنے گئے ہیں۔ایک آدھ نظم مثلاَ ’کلاس فیلو‘، پاکستان کے گھٹن زدہ سماجی ماحول کے تناظر میں لکھی گئی۔ یہ غزلیات اور نثری نظمیں اردو شاعری کی روایت میں کہاں تک کامیاب ہیں، اس کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے، اب یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ع گر قبول افتد زہے عز و شرف
(امید ہے اگلے ماہ تک کتاب شائع ہو جائے گی)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply