• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایمان بالغیب کا راستہ: تسلیم، مشاہدہ یا استدلال (1)۔۔عرفان شہزاد

ایمان بالغیب کا راستہ: تسلیم، مشاہدہ یا استدلال (1)۔۔عرفان شہزاد

انسان کے پاس حصول علم کے دو ذرائع ہیں: تجربہ و مشاہدہ اور عقلی استدلال۔ عقل، تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے سے حاصل ہونے والے معلوم سے نامعلوم پر استدلال کرتی ہے۔ ثابت شدہ کی بنیاد پر غیر ثابت کو استدلال و استنباط کے طریقے سے پہلے مفروض کرتی اور پھر دستیاب شواہد کی بنیاد پر استدلال سے اس کا اثبات کرتی ہے۔ ممکن ہو تو تجربے اور مشاہدہ سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر مستنبط کو تجربے کے ذریعے سے شہود کی سطح پر ثابت بھی کر دکھا دیا جاتا ہے۔
انسان کے پاس حصول علم کےیہی قابل اعتماد ذرائع ہیں۔ چنانچہ نامعلوم کو تجربہ و مشاہدہ کی سہولت کی عدم دستیابی کی صورت میں استقراء اور استنباط کے ذریعے سے استدلال کے طریقے پرثابت کرنا یا کم از کم اس کے امکانِ وجود پر استدلال کرنا ایک مسلمہ علمی طریقہ کار ہے۔
مثلاً جراثیم کا وجود ان کے مشاہدہ سے پہلے ان کے آثار وشواہد کی بنا پر سمجھ لیا گیا تھا۔ بیماریاں جس طرح پھیلتی اور اشیاء اور زخم جس طرح خراب ہوتے تھے، اطبا اور سائنس دان اس پر استدلال کر رہے تھے کہ کوئی زہریلی ہوا یا مواد اس معاملے میں ملوث ہے، جو نمی کی موجودگی میں زیادہ اثر دکھاتا ہے۔ اس کی جستجو نے انھیں بالآخر جراثیم کا مشاہدہ کرا دیا۔
اسی طرح بگ بینگ کا امکانِ وقوع،جس کا مشاہدہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ماضی کا واقعہ تھا، کائنات میں پھیلے اس کے شواہد و آثار کی شہادت کی بنا پر سائنس کی دنیا میں ایک قطعی حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ بگ بینگ کے عدم مشاہدہ کی طرح ہی جراثیم کے مشاہدہ کی اہلیت اگر اب تک یا کبھی بھی حاصل نہ ہو سکتی، تو بھی استدلال کے بل بوتے پر ان کے وجود کو تسلیم کرنا ہی عقلی اقتضا تھا۔
ایمان بالغیب کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے سے دستیاب معلومات و شواہد کی بنا پر غیب کے بارے میں مذہب کی بتائی گئی معلومات کی بنا پر اس کے امکان وجود کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
ایمان بالغیب کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے سے دستیاب معلومات و شواہد کی بنا پر غیب کے بارے میں مذہب کی بتائی گئی معلومات کی بنا پر اس کے امکان وجود کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں:
مذہب کی خبر اپنی مصدر سے قطعی اور مستند استناد رکھتی ہو۔
مذہب کے استدلال میں کوئی علمی جھول نہ ہو۔
مذہب کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے ہم نے قرآن کا انتخاب کیا ہے جس کا دعوی ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ہمیں غیب کی باتیں بتاتا ہے۔ قرآن کے انتخاب کی وجہ دنیا میں اس کے مصدر (محمد رسول اللہ ﷺ) سے اس کا ناقابل تردید استناد ہے۔ اس وقت الہامی صحائف کا دعوی رکھنے والی کتب میں قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ دنیا میں اس کے ماخذ اوّل (محمد رسول اللہ ﷺ) سے اس کے صدور سے لے کر مسلمانوں کی نسلوں کو اس کی محفوظ منتقلی ایک تاریخی اور زندہ حقیقت ہے۔ مغرب کے کچھ علاقوں کو چھوڑ کر ساری دنیا کے مسلمانوں کے پاس جو کتاب قرآن مجید کے نام سے موجود ہے اس کے کسی حرف و حرکت میں کسی ادنی اختلاف کے بغیر ان کا اتفاق آنکھوں کے سامنے کھڑی زندہ حقیقت ہے، جو اس کے مسلسل محفوظ انتقال کا حسی شاہد ہے۔ اس کی مسلسل محفوظ منتقلی کے لیے مسلمانوں کے اجتماعی حافظے کو بنیاد بنایا گیا۔ چنانچہ یہ ایک نسل سے دوسری نسل کو بغیر کسی ادنی اختلاف اور تغیر لفظی کے منتقل ہو تا چلا آتا ہے۔ اس حقیقت کا انکار عقل و استدلال سے عاری ہوئے بنا ممکن نہیں۔
ادھرقرآن میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ اس لیے اس کی حفاظت کوئی امر اتفاقی نہیں، بلکہ حفاظت کے دعوی کے نتیجے کے طور پر یہ معجزہ انسانی دنیامیں برپا کر کے دکھایا گیا ہے۔ اس دعوی کی صداقت اس کلام کے من جانب اللہ ہونے کے دعوی پر دلالت کرتی اور دعوت توجہ دیتی ہے۔
دوسرے یہ کہ اپنے علمی چیلنجز میں یہ اب تک غلط ثابت نہیں ہوا۔ صدیوں سے یہ اپنے اس چیلنج کے ساتھ موجود ہے کہ اس کے مماثل کوئی کتاب نہیں لائی جا سکے گی، اور ایسا ہی ہے، اس کے مماثل کوئی کلام پیش نہ کیا جاسکا، جسے اہل علم و زبان کی تائید و توثیق حاصل ہو گئی ہو۔ تیسرے یہ کہ اس کی تمام پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ یہ پیشین گوئیاں غیر مبہم اور ایک سے زائد تاویلات اور احتمالات نہیں رکھتیں۔ بلکہ صاف صاف اپنے مدعا پر دلالت کرتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ اس کا دعوی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ انسانی عقل صدیوں سے اسے محل تنقید و تدبر بنانے کے باوجود اس میں کوئی ایسا اختلاف تلاش کرنے میں اب تک ناکام ہے جسے مسلمہ غلطی یا مسلمہ اختلاف کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہو۔ اب تک جتنے بھی اختلافات کے نکات پیش کیے گئے وہ پیش کاروں کی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں۔ کہیں وہ زبان و بیان کی لطافتوں اور اسالیب کو نہیں سمجھ پائے اور کہیں استدلال پر توجہ کرنے سے قاصر رہے اور کہیں تفسیری اقوال کو بنیاد پر معترض ہوئے جس کی کوئی ذمہ داری قرآن پر عائد نہیں ہوتی۔
پانچویں یہ کہ دنیا میں قرآن کو پیش کرنے والے شخص، حضرت محمد ﷺ کےہاں اس قرآن کے طرز بیان اور اس میں دی گئی معلومات کے لیے اخذ و استفادہ اور اس جیسے بیان و تقریر کا کوئی رجحان اس کلام کے ظاہر ہونے سے پہلے نہیں دیکھا گیا۔ آپ کا اپنا کلام قرآن سے بالکل مختلف ہے۔ بغیر کسی پیشگی تربیت اور مشق کے اس کلام کی یک دم پیش کاری ایک غیرانسانی واقعہ ہے، اور اس کی کوئی معقول توجیہ نہ آپ کے ہم عصر کر سکے اور نہ کی جا سکتی ہے۔
قرآن میں پیش کی گئی گزشتہ آسمانی کتب کی معلومات سے اخذ و اکتساب کا کوئی شائبہ بھی قرآن کے نزول سے پہلے آپ کے ہاں نہیں ملتا۔ یکایک آپؐ گزشتہ آسمانی کتب کی معلومات پر مشتمل کلام بیان کر نے لگے۔ یہ بڑی قوت و اعتمادسے گزشتہ آسمانی کتب اور اقوام خصوصاً، بنی اسرائیل کی تاریخ نہ صرف بیان کرتا بلکہ اس پر تبصرے اور تنقید کرتا ہے۔ قرآن مجید کےان تاریخی بیانات میں کوئی غلطی نہیں پائی گئی۔ بلکہ یہ ان کی معلومات میں اضافہ ہی کرتا ہے۔ جن مبینہ غلطیوں کی نشان دہی کی گئی ہے وہ بذات خود غلط ثابت ہو چکی ہیں۔
قرآن انسانی تصانیف کی تمام کمزوریوں سے مبرا ہے۔ یہ دو دہائیوں سے زائد کی مدت میں اجزا کی صورت میں نازل ہوا ہے، لیکن اس میں انسانی علم اور فکر کا ارتقا نہیں ہے۔ اپنے جن مقدمات اور استدلالات اور مضامین کے ساتھ اس نے روز اول سے کلام کیا وہ سب آخر تک یکساں رہے۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کے اپنے ذاتی جذبات اور احساسات کی کوئی عکاسی نہیں ہے جن سے بحیثیت بشر آپ خالی نہیں تھے اور جن کا اظہار آپ کے اپنے کلام میں نظر آتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز وصف ہے جو کسی انسانی تصنیف میں ملنا ناممکن ہے جس کی تدوین برسوں میں ہوئی ہو۔ کسی فلسفی، شاعر، ادیب، مفکر کی تحریریں دیکھیں، اس کےاوائل اور اواخر میں سوچ کا ارتقا صاف نظر آئے گا۔ مگر قرآن میں یہ عنقا ہے۔
مزید یہ کہ قرآن کے الفاظ ہی نہیں، اس کی زبان کو بھی محفوظ کیا گیا۔ یہ واحد زبان ہے جو صدیوں بعد بھی مردہ یا اجنبی نہ ہوسکی۔ زبانوں کے جبری ارتقا میں یہ مظہر ایک استثنا کے طور پر موجود اورعوت فکر دیتا ہے۔
قرآن غیب پر ایمان لانے کا حسی شاہد ہے۔ علم و عقل کی سان پر اسے پرکھا جائے۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں تو اس کا یہ دعوی سچا ماننا پڑے گا کہ یہ خدا کا کلام ہے جو اس کا پیش کار ہونے کا دعوی کرتا ہے اور جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے وہ حقیقت ہے۔ ممکن ہے کسی کو اس میں موجود کوئی بات پسند نہ آئے، مگر اس کے حقائق کا جھٹلانا عقل و استدلال کے لیے ممکن نہیں۔
اس کے یہ سب چیلنجز اور خصوصیات اسے یہ مقام دیتے ہیں کہ مذہب کا مقدمہ اس کی روشنی میں پیش کیا جائے۔
جاری۔۔۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply