عورت کو عزت دو۔۔ذیشان نور خلجی

” میرا جسم میری مرضی” اپنی فطرت میں ایک خوبصورت نعرہ تھا یعنی جس کا جسم ہے مرضی بھی صرف اسی کی چلے گی، یہ نہیں ہو گا کہ ایک لڑکی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہی ہے اور بس کنڈیکٹر کرایہ وصولتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو مس کر کے اپنی ہوس پوری کر سکے۔ یا ایک استاد اپنی طالبہ کو مختلف حیلے بہانوں سے اپنے ٹھرک کا نشانہ بنا سکے۔ درحقیقت اس نعرے کا مقصد ہی یہی تھا کہ کوئی بھی مرد، عورت کی اجازت کے بغیر اس کے جسم سے جنسی لذت حاصل نہیں کر سکے گا۔ لیکن خدا سمجھے ان خواتین سے، جنہوں نے چند گھٹیا قسم کے پلے کارڈز اٹھا کر اس بنیادی نعرے کے ساتھ ساتھ حقوق نسواں کی پوری تحریک کو بھی مسخ کر دیا۔ اور پھر بات یہیں نہیں رکی بلکہ مخالفت میں ثناء خواں  تقدیس مشرق نے بھی ایسے بے ڈھنگے قسم کے نعرے لگائے کہ عورت مارچ، حقوق کے حصول کی جنگ کی بجائے ایک صنفی اکھاڑہ بن کر رہ گیا۔ اور پھر کسی عقل کے کوہ ہمالیہ نے اپنی دانست میں اسلام کی خدمت کرتے ہوئے “میرا جسم اللہ کی مرضی” کا نعرۂ مستانہ بلند کر دیا۔ جب کہ غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے حقوق کے حصول کی اس جنگ میں اللہ کی مرضی والا نعرہ بالکل ہی موضوع سے ہٹ کر ہے۔ کیوں کہ عورت صنف مخالف سے اپنے غصب شدہ حقوق حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے نا کہ خدا سے۔
یہاں ایک چچا ہیں جو اپنی جوان بھتیجی کو جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک ماموں ہیں اور بھانجی ان سے چھپتی پھرتی ہے کیوں کہ وہ ماموں کی گندی نظروں کو اپنے جسم پر محسوس کرتی ہے۔ یونیورسٹی کا ایک پروفیسر ہے جو اپنی خوبرو طالبہ کو مختلف حیلے بہانوں سے اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔ آفس کا باس ہے جو اپنی ماتحت خاتون کو شام دیر تک آفس میں روکے رکھتا ہے کہ شاید کوئی رنگین لمحہ میسر آ سکے۔ اور اسی سارے منظر نامے میں یہ نعرہ تخلیق کیا گیا تھا اور اس کا مقصد بھی صرف اور صرف یہی تھا کہ ہر وہ عورت جو کسی نا کسی طرح سے جنسی استحصال کا شکار ہے اس کی آواز بنا جائے تاکہ اسے تحفظ فراہم ہو۔
اب خود فیصلہ کیجیے کہ اس کی مخالفت میں یہ نعرہ لگانا ” میرا جسم اللہ کی مرضی” درست ہے؟ جب ایک خاتون کو اللہ پاک کی ذات سے ایسا کوئی مسئلہ ہی نہیں اور خود خدا کی ذات بھی ایسی کسی کمزوری سے پاک ہے تو پھر یہ نعرہ بالکل بے تکا سا محسوس ہوتا ہے۔ سمجھنے کی کوشش کیجیے ” میرا جسم میری مرضی” کے مقابل ایک ہوس زدہ مرد کی ذات کھڑی ہے کہ جس سے ہم سب کی بہن بیٹیوں کی عزت کو خطرہ ہے نا کہ خدا تعالیٰ کی ذات۔ لہذا میرا ماننا ہے کہ “میرا جسم میری مرضی” کے متعلق ہم یہ کہیں کہ یہ نعرہ خلاف اسلام ہے تو یہ بالکل حقائق کو مسخ کرنے والی بات ہو گی۔ اس نعرے میں کسی طور بھی مذہب کی مخالفت کی بات نہیں کی گئی بلکہ معاشرتی ناسور کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔ ہاں، یہ بالکل الگ بات ہے کہ کچھ خواتین اس نعرے کو غلط انداز میں پیش کر رہی ہیں۔ لیکن پھر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ان کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا جائے یا پھر ان مغرب زدہ خواتین کی مخالفت میں ہم اپنی بہن بیٹیوں کے حق کے لئے بھی آواز بلند نہ کریں۔
حسن ظن ہے کہ ہمارے گھر والوں نے ہمیں عورتوں کی عزت کرنا سکھایا ہے اور ہم ہی اپنی بہنوں بیٹیوں کی عزت کے محافظ ہیں۔ تو کیا پھر ہم اپنی عورتوں کی طرف اٹھنے والی گندی نظروں اور ہوس زدہ ہاتھوں کو روکنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ ایک معصوم بچی جب اپنے استاد کی غیر اخلاقی حرکتوں کا نشانہ بنتی ہے اور پھر معاشرے کے ڈر سے چپ پڑی رہتی ہے بلکہ اپنی اس خاموشی سے اس غلیظ بھیڑیے کو مزید شیر کرنے کا باعث بنتی ہے تو کیا ہم اس بچی کے لئے آواز اٹھا کر اس کی ہمت نہیں بندھائیں گے؟ اس کا حوصلہ نہیں بڑھائیں گے تاکہ کل کو وہ خود بھی اس قابل ہو جائے کہ اپنی طرف اٹھنے والے ناپاک ہاتھوں سے نمٹ سکے؟ جناب من ! ہمیں اس متعلق سوچنا ہوگا۔
کل عورت مارچ ہے اور چونکہ ” میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ ہر دو طرف کے غلط لوگوں کی فضول حرکتوں کے باعث اپنی اصلیت کھو چکا ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ پھر ہم چپ بیٹھے رہیں بلکہ ہم اس عورت مارچ پر “عورت کو عزت دو” جیسا نعرہ بھی بلند کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر اس میں بھی آپ کو تحفظات ہیں تو پھر جان لیجیے مسئلہ آپ کو عورت مارچ یا ان نعروں سے نہیں بلکہ عورت کی ذات سے ہے اور وہ کسی نفسیاتی معالج کی مدد سے ہی حل ہو گا نا کہ بے تکا تماشہ لگانے سے۔
آج کے کالم نے یہ انڈہ دیا ہے کہ ہم عورت مارچ کو کسی “بے راہ رو” گروہ کے ہاتھوں ہائی جیک نہ ہونے دیں بلکہ خود آگے بڑھ کر عورت کے تحفظ کا پرچم تھامیں تاکہ استحصال کا شکار ہماری عورتوں کے حوصلے بلند ہو سکیں اور انہیں اندازہ ہو کہ ان کے محافظ ابھی زندہ ہیں۔ ورنہ مغرب نواز ٹولہ ہر بار کی طرح اس بار بھی حقوق نسواں کی آڑ میں اپنا گند گھولنا شروع کر دے گا اور ہماری خاموشی یا عورت مارچ کی مخالفت سے یہ فضاء مزید بدبودار ہو گی۔

Facebook Comments