ظلمت سے نور کا سفر(قسط22)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

شادی کے 3 سال بعد
لان میں رات کی رانی سے اٹھتی خوشبو سے معطر فضا میں دہکتی لکڑیوں کے آلاؤ کے گرد بیٹھی اپنے مہربان، شفیق اور غمگسار شوہر کے ساتھ ضحی دور آسمان پر چودھویں رات کے چاند کو تکتے ہوئے جس کی روشنی نے سارے ماحول پر فسوں طاری کیے ہوا تھا اسے اپنے اردگرد ہر شے حسین، دلکش اور روح پرور لگ رہی تھی۔
“”زندگی اتنی خوبصورت بھی ہو جائے گی ”
ایسے موقع پر خود کلامی کی اسے عادت ہو گئی تھی دفعتاً ایک لکڑی کے چٹخنے کی آواز سے ماحول کا سکوت ٹوٹا آلاؤ اب تیزی سے بھڑکنے لگا۔اسی دوران ایک تڑخ کی آواز اسے اپنے اندر سنائی دی ۔
یک دم وہ ماضی میں چلی گئی تلخ خیالات کے بہاؤ کے ساتھ روح میں بھرتا دھواں اور کچھ شبیہات سے اسے ایک گھٹن کا احساس ہوا ۔ کرب کا آلاؤ تیزی سے بھڑکنے لگا ۔
” اظہر سنو ”
کافی دیر سے اسے خاموش کسی گہری سوچ میں مبتلا دیکھ کر اظہر نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا
“،بولو! ۔جناب نے چپ کا روزہ توڑا تو سہی اس خواب ناک ماحول میں بس آپ جناب کی آواز کی کمی ہی تو تھی۔ ”
ایک اچھے شریک حیات کی طرح اظہر جانتا تھا کہ اس کی باتیں ہمیشہ گہری ہوتی ہیں ۔فطرتاً سنجیدہ ،انسانی رویوں کو مختلف پہلوؤں سے اجاگر کرتی ہوئیں ۔
” اولاد اپنے والدین کو، والدین اپنی اولاد کو، شوہر اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کو، عزیز از جان دوستی کا دشمنی میں بدل جانا، ماتحت اپنے آقا کو حتی کے جانور اپنے مالک کو کیوں چھوڑ جاتے ہیں ۔؟ ”
اظہر نے اس بات سے چونکے بنا مسکراتے ہوئےاس کا ہاتھ تھاما کیونکہ زیادہ عملی زندگی نے اسے بہت سے سوالات کی تشنگی نے اس کے مزاج میں کڑواہٹ کا عنصر بھی پیدا کردیا تھا یا شاید اس کی ذات ادھوری ہے۔ اظہر بس اس کو سنتا تھا اور اس کی الجھنوں کو سلجھانے میں مدد دیتا اور ایسا کرتے ہوئے وہ اسے اپنے ہونے کا مکمل احساس دلاتا ۔ماضی اگر ناخوش گوار ہو تو اس کو بیان کرنا بھی تکلیف دہ ہوتا ہے ۔
کبھی کبھی کسی موقع پر بس اچھے سامع کی طرح صرف سننا ہی دوسرے شخص کے لیے راحت بخش ہوتا ہے ۔
شاید ذہنی ہم آہنگی کا نا ہونا ”
ضحی نے گردن ہلا کر نفی کا تاثر دیا ۔
” عزت نفس کا مجروح کرنا ہی رشتوں کے تقدس، اس کا احترام اور وقار کو پامال کر جاتا ہے ۔جب آپ کی اہانت کی جائے، دوسروں کی نظروں کے سامنے تحقیر سے پیش آیا جائے، لفظوں، اشاروں اور رویوں سے تذلیل مقصود ہو تو محبت نکل جاتی ہے رشتے بوجھ لگتے ہیں ۔اسی لیے پھر رشتوں میں تعطل ، دوریاں اور فاصلے بڑھنے لگتے ہیں ۔ والدین، دوست، جیون ساتھی، مالک اور نوکر دور کہیں انسانی رویوں پر ماتم کناں رہ جاتے ہیں ”
لکڑیوں نے دہکتے کوئلوں کی صورت اختیار کرلی ۔۔۔۔اظہر نے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔کچھ کرب الفاظ کی مرہم سے شفا نہیں پاتے اُس لمحے صرف انسانی لمس سے ہی روح کے زخموں پر مرہم کا کام لیا جاتا ہے ۔وہ بخوبی جانتا تھا کہ شوہر کا لمس اور اس کا بلا شرط ساتھ ہی بیوی کی صحت ہے۔وہ ضحی کو اب جاننے لگا تھا ۔
اظہر نے قدرے توقف سے کہا۔۔۔
“ضحی کس بات نے تمہیں پھر سے ماضی کے اوراق میں جھانکنے پر مجبور کیا؟”
ضحی کے پسینے پھوٹ پڑے ،پلکیں لرزنے لگیں اور دل اظہر کے ہاتھوں میں بند مٹھیوں میں آگیا۔۔۔
“خوف ”
اظہر اب حیران ہوا۔۔۔
“کیسا خوف ضحی۔۔”
ضحی نے ہاتھ چھڑائے اور الماری سے اپنے پرس سے ایک سادہ سفید لفافہ نکال کر اظہر کی گود میں رکھا۔ جو آج ہی طبیعت ناساز ہونے پر ڈاکٹر کے دئیے گئے ٹیسٹ کی رپورٹ تھی ۔ اب ایک مکمل عورت میں ماں کے روپ اس کا منتظر تھا ۔خوبصورت احساس کے ساتھ ہی اندیشوں نے اسے گھیرا ہوا ان حسیں لمحوں اور خوبصورت احساسات کو کملانے لگا ۔
اظہر نے لفافہ اٹھا کر کھولا تو وہ کسی لیبارٹری کا تھا اور رپورٹ کے مطابق ضحی امید سے تھی۔اظہر کی آنکھیں اور دل تاریک آسمان میں روشن ستارے کی مانند چمک اٹھے۔اس نے ضحی کو والہانہ نگاہوں سے دیکھا ۔اسے لگا کہ ضحی کے پور پور سے نور پھوٹ رہا ہو۔لیکن اس کے چہرے پہ خوف کے سایے دیکھتے ہوئے اپنی خوشی سمیٹی اور اپنے الفاظ کو بہت ناپ تول کر بولا کیونکہ وہ اس کے نرم دل کی
حساسیت کو سمجھتا تھا۔
“ضحی! کوئی خوف کی بات نہیں ہے میں ساتھ ہوں ان شاءاللہ خیر کا معاملہ ہوگا اور ہم اس سے بھی ایک ساتھ گزار جائیں گے ”
کمرے میں کچھ لمحے سکوت ہوا دونوں خاموشی سے ہی تکتے رہے ۔ کمرے میں موجود دو نفوس ایک ہی چیز کو دو مختلف انداز میں سوچ رہے تھے ایک اپنے وہم اندیشوں اور گمانوں کو مناسب الفاظ میں بیان کرنے لیے لفظ ڈھونڈ رہا تھا اور دوسرا اس کے خیالات سے پیدا ہوتے سوالات کے جوابات ۔زندگی ایسے ہی سہل ہوتی ہے جب ایک دوسرے کو سنا جائے ۔
ضحی اس کے پاس آکر بیٹھی اور مدھم لہجے میں بولی ۔
” بات یہ نہیں ہے بہت عرصے کے بعد میں نے پھر سے خوف محسوس کیا ہے کیونکہ مجھے ماں جیسی ممتا کے احساس نے الجھن میں ڈال دیا ۔جس احساس کو میں نے اپنے اندر محسوس کیا وہ تحفظ اور پیار مجھے کبھی نہیں ملا۔لیکن میری بہن پر نچھاور کیا گیا۔میں خوف زدہ ہوں کہ میں اپنی اولاد کی وہ تربیت، پیار،توجہ،ماحول اور کردار سازی کرپاؤں گی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں وہ خواہشات جو کبھی میں نے کیں تھیں اس کی ذات سے پوری کرنے کی کوشش کرنے لگوں؟
یا جس پیار کی کمی کو میں نے حسرتوں اور یاسیتوں میں پایا میں اسے اتنے پیار تحفظ دوں کہ اس کا گلا گھونٹ دوں۔اسے میری پناہ قید محسوس ہونے لگے اور وہ مجھ سے متنفر ہوجائے؟ ۔۔۔”
ضحی کو بری طرح روتے ہوئے دیکھ کر اظہر نے گلے سے لگا لیا۔اس کے اندر سے سب بہہ جانے دیا تاکہ اس کی روح کی کثافت آنسوؤں سے بہی پر صاف ہو جائے۔ بہت دیر تک اپنے شوہر کے کندھے سے سر ٹکائے روتی ضحی کی سسکیوں کو جب قرار آیا تو دھیمی لہجے میں نپے تلے الفاظ ضحی کے کی سماعت سے ٹکرائے
“ضحی زندگی میں انسان ایک ہی ماحول سے دو رویے سیکھتے ہیں ۔مثبت رویوں سے کچھ لوگ منفی طرز زندگی اختیار کرتے ہیں ۔کچھ مزید خوبصورت زندگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں ۔ایسے ہی کچھ زندگی میں پیش آنے والے منفی اثرات سے مزید منفیت کا شکار ہو کر معاشرے سے ان محرومیوں کا بدلہ سود سمیت لیتے ہیں ۔کچھ جنہیں اصلاح کی خواہش ہو وہ اس تلخ، ترش تجربات سے سیکھتے ہیں اور آنے والی زندگی میں ان غلطیوں جو دوسروں سے سرزد ہوتی ہیں اپنی زندگی کو سنوارتے ہیں ۔ ”
ضحی چونک سی گئی
” کبھی میں نے اس پہلو سے سوچا ہی نہیں ”
خاموشی سے لفظوں پر غور کرتی ضحی کو ان لفظوں میں ایک نور حیات کا احساس ہوا جو اسے ظلمت سے نور کی طرف لا رہا تھا
” ضحی یہ اللہ کا کرم بھی ہوتا ہے جب کسی کو فہم و فراست کے ساتھ اونچا مقام دیتا ہے تو اس کو آزمائش کی بھٹی سے گزارتا ہے ۔ کبھی تم نے غور کیا شاید اللہ نے تمھیں ان رویوں ماحول اور آزمائش سے گزارا ہو تاکہ جنہیں تمھاری ذمہ داری میں دیا جائے یا جن کی تم رہبر اور اللہ کی دی گئی امانت کی امین بنو تو تم ایک اچھی سائبان، راہنما، رفیق ، نرم دل اور مخلص ساتھی ثابت ہو ۔ اب یہ تم پر ہے کہ ان اندیشوں سے نئی ذمہ داریوں کی طرف بڑھو یا ماضی کے تجربات سے مثبت اور اچھے کردار کو چنوں؟ “لفظ تھے کے بارش کی پھوار تھی جس نے اس کی روح کے تپتے صحرا کو اور بھڑکتے آلاؤ کو سرد کردیا اور ایک گہری نیند نے اپنی آغوش میں اسے سمیٹا جیسے طویل فاصلے سے آتے مسافر کو نیند اپنی پر سکون وادی میں خوش آمدید کہتی ہے اظہر نے کچھ لمحے اسے ایسی کیفیت میں رہنے دیا کیونکہ مضبوط سہارا کا احساس ایک عورت کے بطور بیوی اس کے شوہر کا شانہ ہی تو ہوتا ہے ۔پھر ایسے ہی اپنے ساتھ لگائے بستر تک گیا اور ضحی روتی روتی سو گئی۔
کب تک رہوں میں خوف زدہ اپنے آپ سے
اک دن نکل نہ جاؤں ذرا اپنے آپ سے
صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اظہر بستر پہ موجود نہیں تھا۔اس کے دفتر کے جوتے بھی اپنی جگہ پر تھے ورنہ وہ اکثر ضحی کو جگائے بنا ہی تیار ہوکر چلا جاتا ۔یعنی آج وہ گھر پر ہے۔ضحی خود سے شرمندہ ہونے لگی۔اتنی بڑی خوشخبری پر میں نے ماتم زدہ رویہ اختیار کیا ۔اظہر اس قابل تو نہیں تھا کہ وہ اس خوشی میں اس کے ساتھ کچھ اچھے لمحوں کے بجائے روتے بسورتے وقت گزارتی۔دوپٹہ لیا اور ننگے پاؤں ہی کچن میں آگئی۔جہاں اظہر ناشتا بنا چکا تھا۔
“کیا صرف اس لیے کہ آپ وہی کریں جو آپ کو تجربے کے ساتھ بتایا گیا کہ یہ غلط ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ میں اپ کا ساتھ دوں گا۔متوازن رویے،معاملات ،فیصلوں میں بلکہ ہر چیز میں۔۔۔میں آپ کے ساتھ ہوں ۔آپ میرے ساتھ ہیں۔ہم ایک دوسرے کا لباس ہیں میں آپ کے دل کے ہر عیب کو آپ کے اندر سے ہی روک دوں گا اور اسے دوسروں سے ڈھانپ بھی دوں گا۔آپ آرام دہ محسوس کریں آپ کی ذہنی کیفیت میرے دل کے آرام کے لیے ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ صحت مند ہیں تو کوئی آپ کا وطن چھین نہیں سکتا۔ تو سوچوں کو صحت مند رکھو ”
ضحی مسکراتے ہوئے اس کا بنایا ناشتہ کھانے لگی۔لیکن اظہر اس کو مطمئن کرنے کے بعد بھی فکر میں تھا۔اس لیے کہ ماضی کی گرہوں کو سلجھائے بغیر اسے اب آگے کی منزل مشکل لگ رہی تھی۔ضحی کو واپس اپنے گھر جانا ہوگا۔
ضحی اس کی طرف دیکھ رہی تھی اور کہیں پر پڑھا شعر یاد آرہا تھا۔
“وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے

“اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply