جولی کا فسانہ(1)۔۔سعید چیمہ

لیکن چودھری صدیق وہ تیری نرینہ اولاد ہے، کیا تجھے یاد نہیں کہ تو نے اس کی پیدائش پر کیسی خوشیاں منائی تھیں، کیا یہ بھی تو بھول گیا کہ کتنی مَنتوں اور دعاؤں کے بعد ہمیں اولاد کی خوشی دیکھنا نصیب ہوئی تھی، اور اب تو زین کو ان کے اڈے پر چھوڑنے کے لیے کیسے راضی ہو سکتا ہے؟

یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے سکینہ کی آواز لڑکھڑا رہی تھی اور اس کے رخساروں پر آبِ نمکین زم زم کی طرح رواں تھا۔سکینہ کی باتوں کے دوران چوہدری صدیق سر جھکائے بیٹھا تھا، کسی مافوق الفطرت ندامت کے احساس نے چوہدری کی کمر دوہری اور سر جھکا دیا تھا، سکینہ اگر آنسو بہا رہی تھی تو نمی صدیق کی آنکھوں میں بھی  تھی۔

سکینہ تجھے وہ دن یاد ہے جب میں نے اپنے والدین اور خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود بھی تجھ سے شادی کر لی تھی، چوہدری نے ابھی بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور نظریں پھر زمین کی طرف جھک گئیں، شاید اب کی بار یادوں کے  دریچے مطلقاً وا ہو گئے تھے۔چوہدری کو وہ دن یاد آ گیا جب اس کے والدین اس کے گاؤں سے چھ کلو میٹر  دور دوسرے قصبے کے ایک خستہ حال ریلوے  اسٹیشن سے اعلیٰ تعلیم کے لیے اس کو لاہور روانہ کر رہے تھے، صدیق کا والد چوہدری خدا بخش اپنے گاؤں کا نمبر دار تھا، خدا بخش سینکڑوں مربعوں کا مالک تھا اور یہ زمین چار پشتوں سے نسل در نسل منتقل ہو رہی تھی،  چوہدری خدا بخش کی کوٹھی چار کنال پر مشتمل تھی جو چند کلو میٹر دور سے کسی بادشاہ کا قصر معلوم ہو تی تھی، اس کوٹھی کی تعمیر 1957 میں شروع ہوئی تھی جو دو سال بعد ختم ہوئی، اپنی بیوی (کنیز فاطمہ)  کی خواہش پر خدا بخش نے اپنے پرکھوں کی کوٹھی پر بلڈوزر چلوا دئیے تھے اور یہ شاہکار تعمیر کروایا تھا جو آنکھوں کو چندھیا دیتا تھا، بھلے وقتوں میں اس کوٹھی کی تعمیر پر پچاس لاکھ روپیہ خرچہ آیا تھا،  جس کی وجہ سے پوری تحصیل میں خدا بخش کی دھاک بیٹھ گئی تھی اور  لوگ  دور دور سے اس کوٹھی کو دیکھنے آتے تھے اور آنکھوں میں حسرت و یاس کے خواب لیے واپس لوٹتے تھے۔۔گاؤں کا آغاز اسی کوٹھی سے ہوتا تھا اور اس کے اردگر د پھیلی ہوئی تا حدِ نظر زمینیں چوہدری کی ملکیت ہی تھیں،۔

خدا بخش کے گاؤں کا نام دارا پور تھا، اس گاؤں میں کُل ڈیڑھ سو گھر تھے اور آبادی ایک اندازے کے مطابق چھ سات سو لوگوں پر مشتمل تھی، گاؤں کے باسی زیادہ تر متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے، بلکہ آدھا گاؤں تو چوہدری کے مزارعین میں شامل تھا، لوگوں کی تعلیمی قابلیت  خط پڑھنے اور لکھنے تک محدود تھی، دارا پور میں ایک بھی سکول نہیں تھا، بچوں کو بنیادی تعلیم کے لیے ساتھ والے گاؤں دھرم پور جانا پڑتا تھا، بچے بھی اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلنا عین فرض خیال کرتےہوئے سکول جانے سے حتی الامکان گریز کرتے تھے، سارا دن فصلوں اور اردگرد کے دیہاتوں کی خاک چھاننے کے بعد دن ڈھلے گھروں کو لوٹ آتے، بیچارے  والدین  بچوں کی آؤ بھگت میں لگ جاتے کہ سارا دن سکول میں منشی (ماسٹر) کی ڈانٹ کھانے کے بعد تھک گئے ہوں گے، یہ بچے اگر سارا دن دیہاتوں کی خاک چھانتے تھے تو ان کی مائیں سارا دن گھر کے کام کاج نپٹاتی تھیں، گاؤں کے زیادہ تر مرد کھیتوں میں چلے جاتے، کوئی ہل جوت لیتا تو کوئی کنوئیں کے پانی سے اپنا کھیت سیراب کرنے لگتا، دارا پور مجموعی طور پر پُر امن گاؤں تھا، لوگ شریف النفس تھے ، لڑائی جھگڑے کی نوبت کبھی نہیں آتی تھی، اگر کبھی کبھار کوئی لڑائی جھگڑا ہو جاتا تو شام کو خدا بخش کی حویلی پر معاملہ رفع دفع ہو جاتا۔

چوہدری خدا بخش ایک رحم دل انسان تھا جو حتی الامکان لوگوں کی مدد کیا کرتا، اپنے مزارعین پر سختی نہ کرتا، حتی  کہ  اس نے کبھی اپنی بیوی پر بھی ہاتھ نہیں اٹھایا تھا ، جب کہ گاؤں میں یہ بات مردانگی کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ کون اپنی بیوی کو  کتنا  زیادہ  مارتا ہے، چوہدری کی بیوی (کنیز فاطمہ) ایک بھلی مانس عورت تھی اور جو اس کی خالہ کی بیٹی تھی، کنیز فاطمہ کا خدا پر ایمان بہت پکا تھا، نماز روزے کی پابند تھی اور ہر مہینے گیارہویں کا ختم ضرور دلاتی تھی، شادی کے دس سال بعدکنیز فاطمہ کے ہاں پہلا اور آخری بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اپنے دادا کے نام پر صدیق رکھا گیا، چودھری اور کنیز فاطمہ اپنے بیٹے کی ہر وقت بلائیں لیتے، اس کو کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے،  حتی کہ حویلی کے ملازمین کو بھی اجازت نہ تھی کہ وہ صدیق کی دیکھ بھال کر سکیں، صدیق چوں کہ جدی پشتی نواب  خاندان میں پیدا ہوا تھا اس لیے دنیا   کی نعمتیں اس کے قدموں میں گلاب کی پتیوں کی طرح نچھاور کر دی گئیں، جو آرام و سکون غریب آدمی جنت میں حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے، وہ صدیق کو بچپن میں ہی اس دنیا میں مہیا کر دیا گیا، گاؤں کے بچے مسجد میں قرآن کی تعلیم ھاصل کرنے جایا کرتے تھے جب کہ صدیق کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے امام مسجد خود حویلی پر آیا کرتا، دارا پور کے بچے اگر پیدل سکول جاتے تو صدیق کے لیے خاص طور پر ٹانگہ مختص تھا جو صبح اسے سکول چھوڑتا اور سہ پہر کو واپس لے آتا، میاں محمد بخش کا شعر صدیق پر صادق آتا تھا۔۔

اک ناں نوں رب اتنا دیوے کہ بس بس کرن زبانوں

اک ناں نوں رب کُج نہ دیوے تے ایویں ای جان جہانوں

عام طور پر امیروں کے بچے اس زمانے میں نالائق ہوتے تھے، عیش و عشرت ان کی دماغی صلاحیت اچک لیتی تھی، یہاں معاملہ مگر دوسرا تھا، صدیق نہ صرف ذہین تھا بلکہ محنتی بھی پرلے درجے کا تھا،  میٹرک کا امتحان صدیق نے امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور بارہویں جماعت کی تعلیم کے لیے نزدیکی شہر کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا،  شہر میں دو سالہ تعلیم کے دوران معمول یہی رہا کہ ملازمین کا  ایک ٹولہ صبح سویرے صدیق کو کالج لے جاتا اور دن ڈھلے واپس لے آتا، اگر کالج سے واپسی پر تھوڑی سی بھی دیر ہو جاتی تو خدا بخش اور کنیز کی روح حلق تک آ جاتی،  دو سال بعد صدیق نے بارہویں جماعت کا امتحان بھی پاس کر لیا جس کی خوشی میں تین دن تک حویلی میں چراغاں کیا گیا، پہلے دن سارے گاؤں والے دعوت پر مدعو تھے اور انواع و اقسام  کے لذیز کھانوں سے گویا گمان ہوتا تھا کہ آسمان سے من و سلویٰ اتر آیا ہے، ان خوشیوں اور چراغاں کے بعد یہ بحث زور پکڑ گئی کہ صدیق کو مزید تعلیم کے لیے لاہور بھیجا جائے یا نہیں، خدا بخش تو رضا مند تھا کہ ان کے بیٹے کو مزید تعلیم کے لیے لاہور جانا چاہیے، مگر یہ کنیز فاطمہ تھی جس کا دل ڈوبا جا رہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے جدائی کیسے برداشت کر پائے گی، وہ فقط آنسو بہاتی رہی، ماں آخر ماں ہوتی ہے، جس کے سینے میں دھڑکتی ہوئی چیز کو دل نہیں کہنا چاہیے، اس دھڑکتی ہوئی چیز کو رحم کہنا چاہیے، محبت کہنا چاہیے، عقیدت کہنا چاہیے، خدا بخش برابر کنیز فاطمہ کو تسلی دیتا رہا کہ بھلیے لوکے فقط چند سالوں کی تو بات ہے، صدیق اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس لوٹ آئے گا اور وہ چھٹیوں کے دوران بھی ہم سے ملنے آتا رہے گا، اگر کبھی تیرا دل زیادہ اداس ہو گیا تو تجھے اس  سے ملوانے لاہور بھی لے جایا کروں گا، ادھر صدیق کی حالت اس مریض کی سی ہو چکی تھی جس کو یہ سمجھ نہ آ رہا ہو کہ یہ دوا لینی چاہیے یا نہیں، وہ اپنی ماں کے آنسو دیکھتا تو اعلیٰ تعلیم کا خواب فوراً جھٹک دیتا، آخر وہ اس کی ماں تھی، اور ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے سے بڑی قیامت کیا ہو سکتی ہے، جسم کو آرے سے ایک ہزار ٹکڑوں میں کاٹنے سے وہ درد محسوس نہیں ہوتا جو ماں کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے، لیکن دوسری طرف بھی اس کا باپ تھا اور باپ کی خواہشوں کا تاج پہننا تو ہر بیٹے کی خواہش ہوتی ہے،  آخر کار فریقین کے مابین یہ طے پایا کہ صدیق لاہور چلا تو جائے لیکن مہینے میں کم از کم ایک بار ضرور گاؤں آیا کرے گا، اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکے تو خدا بخش اور کنیز فاطمہ اپنے بیٹے سے ملنے لاہور جایا کریں گے۔

اب مسئلہ یہ بھی تھا کہ  صدیق اعلیٰ تعلیم کون سی حاصل کرے، سیاست کی، لاء کی، یا صحافت کی،  اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یونیورسٹی کون سی ہو، کیوں کہ خدا بخش تو چٹا ان پڑھ تھا اور دارا پور میں بھی ماشاءاللہ کسی کو تعلیم سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا،  خدا بخش کے کچھ ننھیالی رشتے دار کچھ دو تین پشتیں قبل لاہور منتقل ہو گئے تھے،  ایک دو دفعہ کسی فوتگی پر ہی خدا بخش اپنے رشتے داروں کی طرف لاہور گیا تھا، چودھری کے یہ رشتہ دار نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے بلکہ گورنمنٹ کے مختلف محکموں میں اپنی خدمات بھی سر انجام دے رہے تھے، چوہدری نے اپنے دو ملازموں اور صدیق کو   اپنے رشتے داروں  کا پتہ لکھوایا اور لاہور روانگی کے لیے اسٹیشن تک چھوڑنے چلا آیا، صدیق چوں کہ چند دنوں کے لیے ہی لاہور جا رہا تھا اس لیے اس کی ماں اسے اسٹیشن تک چھوڑنے نہ آئی، ٹرین جب بارہ بجے اسٹیشن پر پہنچی تو دن کے بارہ بج چکے تھے اور سورج عین سروں پر تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ لوگوں کی نگہبانی پر مامور ہے، بہار کا موسم ختم ہوئے ابھی چند روز ہی گزرے تھے اور فضا میں حدت بڑھنا شروع ہو گئی تھی،  ٹرین میں رش قدرے زیادہ تھا لیکن اسٹیشن پر معدودے چند افراد ہی اترے اور ٹرین پر صرف دس لوگ سوار ہوئے جن میں ایک صدیق اور دو ان کے ملازم تھے، ملازموں نے دیسی سوغاتوں کے توڑے اٹھا رکھے تھے، جن میں دیسی گھی، سپر باسمتی کے اصلی چاول، ستو، اور سرسوں کا خالص تیل شامل تھا، اس زمانے میں یہ رواج عام تھا بلکہ آج بھی کسی حد تک ہے کہ گاؤں کے لوگ جب کبھی شہر اپنے رشتے داروں کے ہاں جائیں تو دیسی سوغاتیں ضرور لے کر جاتے ہیں، صدیق  اور اس کے ملازموں کے سوار ہوتے ہی ٹرین کا انجن دھاڑا اور اسٹیشن پیچھے رہ گیا۔۔

صدیق نے دروازے میں کھڑے ہو کر باپ پر نگاہ ڈالی اور ہاتھ ہلایا، خدا بخش نے بھی ہاتھ ہلا کر اپنے بیٹے کو رخصت کیا،  ٹرین جب تک آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئی خدا بخش دھوپ میں مجسمہ بنے کھڑا رہا،  یہ اولاد کی محبت بھی عجیب شے ہوتی ہے، جو والدین کو موسم کی شدت کا احساس ہونے دیتی ہے نہ رنج و الم کا، ٹرین جب لاہور پہنچی تو دن کے چار بج چکے تھے اور سورج سجدہ کرنے کے لیے  مغرب کی سمت بگٹٹ دوڑا جا رہا تھا، ٹرین رکتے ہی صدیق کے ملازموں نے سوغاتوں کے توڑے سروں پر اٹھا لیے،  ملازم چوں کہ صدیق کے ساتھ تھے اس لیے سامان اٹھانے کے لیے قلیوں کی ضرورت نہ پڑی، اسٹیشن کے باہر کوچوان اپنے  تانگوں کے پاس کھڑے تھے، کوئی مسافروں کے ساتھ کرایہ مُکا رہے تھے تو کچھ  سواریاں بٹھا کر عازمِ  سفر ہونے کی تیاریوں میں تھے، صدیق اور اس کے ملازم ایک ٹانگے والے کے پاس رکے، کوچوان نے مطلوبہ پتے کا کرایہ بیس روپے مانگا، تھوڑی سی بحث و تکرار کے بعد پندرہ روپے کرایہ فائنل ہو ا اور ٹانگہ منزل کی طرف چل دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریر کی دُم: دھیرج رکھیے، تحریر کے اگلے حصے میں جولی کا ذکر شروع ہو گا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply