جہدِللبقا/ادریس آزاد

یہ جہدِللبقا ہی ہے جو ایک بچے کو پیدائش کے پہلے دن رونے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر بچہ نہ روئے تو ڈاکٹر اسے نارمل بچہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور یہ بھی جہدِللبقا ہے کہ ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں ہنستا ہے تو ماں کو خوش کرنے کے لیے اور اداس ہوتا ہے تو ماں کو اداس دیکھ کر۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ربّ  اس کی ماں ہے۔ یہ سروائیول کی جنگ ہے جو وہ لڑ رہا ہے۔ اگر اس کی ماں ناخوش ہوگی تو وہ جبلی طور پر اسے اپنے سروائیول یعنی بقاء کے لیے خطرہ سمجھے گا۔

وہ بھی ڈر جائے گا، وہ بھی رو دے گا۔ اگر اس کی ماں ہنس رہی ہے تو وہ بھی خوش ہو جائے گا۔ سروائیول یا بقا کی جدوجہد ہماری گھُٹی میں ہے۔ ایک بچہ جب بڑا ہونے لگتا ہے تو ماں کے علاوہ بعض دیگر لوگ بھی اس کی شرائطِ بقا کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ اس کا باپ، اس کا دادا، بہن بھائی، دیگر رشتہ دار  اور پھر اہلِ محلہ، اہل علاقہ، سکول کے اساتذہ اور بچے وغیرہ وغیرہ۔ وہ اس پورے ماحول میں اگر موجود رہ پاتا ہے تو صرف اور صرف اپنی حسِّ بقا کے بَل بوتے پر۔ اس کی کوئی حرکت کسی کو ناپسند آتی تو وہ اپنی جبلت کے پرچے پر اُسے مارک کر لیتا ہے۔

اس کی کوئی حرکت کسی کو پسند آتی تو وہ اُس کو بھی مارک کر لیتا ہے۔ اس کے پاس تمام صلاحیتیں ہیں لیکن وہ صرف ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنا چاہتا ہے جو لوگوں نے پسند کی ہیں۔ اگر اس کے ماحول میں سارے چور ڈاکو ہیں اور وہ انہی چور ڈاکوؤں کے درمیان رہتے ہوئے بڑا ہو رہا ہے تو اپنی صلاحیتوں کے چناؤ میں بھی وہ انہی چیزوں کو مارک کرےگا جو اس کے ماحول میں معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ ایک سال کا بچہ جس کسی تماشے کا مظاہرہ کرتا ہے وہ جہدِ للبقا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے، اپنے سروائیول کے لیے کر رہا ہے، کیونکہ وہ ایک فرد ہے، اور نظریۂ ارتقاء افراد کے بقاء کی جنگ کا نظریہ ہے۔

اخلاقیات کیا ہے؟ ہم کسی اجنبی کو دیکھ کر کیوں سنجیدہ ہو جاتے ہیں؟ اگر وہ ہماری طرف مسکراہٹ اُچھالے تو ہم جواب میں اس کی طرف مسکراہٹ کیوں اچھالتے ہیں؟ مسکراہٹ کا کیا مطلب ہے؟ یہ کہاں سے برآمد ہوتی ہے؟ ہم کسی سے ہاتھ کیوں ملاتے ہیں؟ گلے کیوں ملتے ہیں؟ ہم ایک دوسرے کا خیال کیوں رکھتے ہیں؟ اسلام میں پڑوسی کا خیال رکھنے پر کیوں زور دیا گیا ہے؟

ذرا غور کریں تو یہ سب جہدِ للبقا ہے۔ یہ ہمارے ہتھیار ہیں۔ جیسے درندوں کو پنجے اور دانت ملے۔ چرندوں کو سینگ عطا ہوئے۔ کسی کو ڈنک مارنا آتا ہے۔ کوئی کانٹے چُبھو سکتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو کیموفلاج کر لیتا ہے۔ کسی کو تلوار تو کسی کو ڈھال، لیکن ہر کسی کو فطرت نے کچھ نہ کچھ عطا کیا ہے۔ اور ہم انسانوں کو فطرت کی طرف سے جو ہتھیار عطا ہوا ہے وہ اخلاقیات ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں فطرت نے اتنا حسین ہتھیار عطا کیا۔ لیکن ہم ہمیشہ اس کے استعمال پر جانوروں کے ہتھیاروں کو ترجیح دیتے رہے۔

ہم نے تلواریں بنائیں، تِیر اور تبر تراش لیے۔ بندوقیں، پستول، توپیں، ٹینک، جہاز اور بم۔ ہم نے فطرت کا عطا کردہ ہتھیار اختیار نہ کیا جو ہمیں ان خوفناک مرگ ہائے مفاجات سے بچا سکتا تھا۔ ہم نے اخلاقیات کو پسِ پشت ڈالے رکھا۔ حالانکہ ہماری ایک مسکراہٹ بڑے سے بڑے خطرے کو ٹال سکتی تھی۔ ہمارے فطری ہتھیار قوت میں زیادہ بڑے تھے، لیکن ہم یہ بات سمجھ نہ پائے۔ ہم نے ارتقاء کے دوران جو ہتھیار اُٹھا لیے تھے، اُنہی کو خطرناک سے خطرناک بناتے چلے گئے۔ تکونی پتھروں سے بھالوں کے چھوٹے چھوٹے پھل بناتے بناتے ہم کہاں آ پہنچے ہیں؟

مجھے تو ہمیشہ سے لگتا ہے کہ رسولِ اطہر ﷺ کی یہ جو صحیح حدیثِ مبارکہ ہے کہ۔

المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ ہیں۔

اس حدیثِ مبارکہ میں، صاف الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ ہاتھ اور زبان کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں، سَلِم”، یعنی جس سے (دیگر مسلمان) محفوظ ہیں۔ محفوظ تو کسی ہتھیار سے ہی ہوا جا سکتا ہے۔ اور اس لیے ہاتھ اور زبان ہتھیار ہیں۔ اور ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ ہاتھ اور زبان انسانی اخلاقی عمل میں سب سے بڑھ کر شریک ہیں۔ الغرض اخلاقیات بھی انسانوں کو فطرت کی طرف سے بعینہ اُسی طرح عطا ہوئی جیسے دیگر مخلوقات کو سروائیول کے لیے مختلف ہتھیار اور خول (shell) عطا کیے گئے۔

آرکیالوجی کے پاس اس بات کے خاطر خواہ شواہد موجود ہیں کہ ماضی قدیم کا انسان جو غاروں میں رہتا تھا، اخلاقیات کی اوّلین شکلوں کا خالق ہے۔ یاد رہے کہ کم سے کم دس لاکھ سال پہلے انسان کے آگ جلانے کے شواہد موجود ہیں۔ اور میری رائے میں اگر وہ اِس آگ پر اپنی غذا بھی پکانے لگ گئے تھے تو یہ بھی ایک اخلاقی عمل تھا۔ کوئی بھی اخلاقی عمل ارتقاء کے مراحل طے کیے بغیر وارد نہیں ہوا۔ لاکھوں سال پہلے ایک دوسرے سے چھین لینے کے عمل کو اوّلین عہد کے خراج کی اخلاقیات نے ختم کیا۔ پھر خراج نے صدیوں راج کیا اور بالآخر خراج کو خیرات اور تحائف کی اخلاقیات نے ختم کیا۔ چھین لینے سے تحفہ دینے تک انسان نے لاکھوں سال گزار دیے۔

الغرض اخلاقِ انسانی خدا کی طرف سے نازل ہونے والی اجتماعی وحی ہے۔ اجتماعی وحی کیا ہوتی ہے؟ وہ وحی جو جنگلوں اور باغوں پر نازل ہوتی ہے۔ وہ وحی جو شہد کی مکھیوں پر نازل ہوتی ہے۔ یعنی فطرت کی جانب سے عطا کردہ کسی نوع کے بقاء کا وہ اجتماعی شعور جو ان کے اندر ودیعت ہوتا ہے۔ جیسے کسی گاؤں میں دوہا ماہیا کہتا ہوا ان پڑھ پنجابی شاعر اور اسلام آباد میں فیصل مسجد تعمیر کرتا ہوا تہذیب کا کوئی فرزند، دونوں مل کر ایک ہی وحی لکھ رہے ہیں، جو ان پر الگ الگ نازل ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جیسے کسی قوم کا ادب پورے معاشرے پر نازل ہونے والی اجتماعی وحی ہوتا ہے۔ یہ شہد کی مکھیوں پر نازل ہونے والی فطرت کی وہ ہدایت ہے، جو انہیں میٹھے پھولوں کا پتہ بتاتی ہے۔ اور اخلاقیات تو کم و بیش تیس لاکھ سال سے نازل ہوتا ہوا، فطرت کا وہ تحفہ ہے، جو اس نے صرف انسان کے لیے چُنا تھا۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں، “آنسو خُدا کے خزانے کا آخری موتی ہے”۔ اور یہ سچ ہے کہ آنسو اخلاقِ انسانی کی معراج ہے۔ آنسو کا ہتھیار وہ ہتھیار ہے جس کا کوئی مقابلہ بنایا ہی نہیں گیا۔ مسکراہٹ سے آنسوؤں تک باہمی تعلق کی وہ کہانی بکھری ہوئی ہے جو شناسائی سے شروع ہو کر قربانیوں پر ختم ہوتی ہے۔ وہ کہانی جو خدا کو سب سے زیادہ پسند ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply