ریڈر اور رہنما۔۔حسان عالمگیر عباسی

ریڈر اور رہنما۔۔حسان عالمگیر عباسی/سیاست دراصل مثبت تصویر کو اجاگر کرنے کا نام ہے اور مثبت رنگ نمایاں ہو کر ہی رہتا ہے کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ: صبغة اللّٰہ و من احسن من اللہ صبغة یعنی خدا کا رنگ سب سے اچھا اور بہترین ہے۔ حقیقی سیاست خدا کے رنگ میں رنگ جانے کا نام ہے۔ مثبت اور منطقی سیاسی پیش قدمی یہ بھی ہے کہ علاقے کا نام روشن ہو، ثقافت کو چار چاند لگ جائیں، محروم طبقے کو بنیادی حقوق کی فراہمی ممکن ہو سکے اور بنیادی سہولیات مثلاً تعلیم، صحت، کپڑا، روٹی، پانی و گیس کی ترسیل کی عدم فراہمی پہ احتجاجی آواز بلند ہونے لگے۔

خدا کی سیاست جو بھی کرے قرآن کریم کے مطابق عوام الناس کو حتی الامکان تعاون کا ہاتھ بڑھانے میں جلدی کرنی چاہیے۔ ارشاد ہوا: وتعاونوا علی البر والتقوی یعنی نیکی کے کاموں میں بہترین نصرت و تعاون درکار ہوا کرتا ہے۔

ایک سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے والا شخص کبھی بھی خول میں بند نہیں رہ سکتا۔ اسے نئے آئیڈیاز تنگ کرتے ہیں اور مجبور کرتے ہیں کہ وہ مقاصد کے حصول میں جان کھپائے رہے۔ جب مقاصدِ زندگی ترتیب دے دیے جائیں تو اسے تب تک چین نہیں آتا جب تک مثبت نتائج سامنے نہیں آجاتے۔ اسے اپنے کاز کی  خاطر مشکلات اور پریشانیاں بھی جھیلنا پڑیں تو خوش دلی سے ایسا کرتا ہے۔ ایک عظیم اور وژنری قائد روڈ میپ تشکیل دیتا ہے۔ از سر نو جائزہ لیتا ہے۔ بے مقصد کوششوں سے صرفِ نظر کرتا ہے۔ حدیث کے مطابق لا یعنی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتا۔ کتابیں پی کر پیاس بجھاتا ہے۔ اس کے وژن میں یہ شامل ہوتا ہے کہ نیکی کا آغاز گھر سے ہو۔ ارشاد ہے کہ: خیرکم خیرکم لاہله یعنی بہترین وہ ہے جو گھر والوں کے ساتھ بہتر ہے۔

نتائج کے اعتبار سے دیکھیں تو گھروں میں پانی صاف ستھرا ہوتا ہے جو پینے کے علاوہ برتنوں اور کپڑوں کی صفائی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن سمندر بھلے اپنا آپ رکھتا ہو لیکن قابل استعمال تو نہیں ہے! اسی طرح عینک تبدیل کر لیں تو وہی سمندر ہی سب کچھ ہے اور ایک بڑی تعداد کے لیے نعمت سے کم نہیں۔

کالم نگار:حسان عالمگیر عباسی

پس ثابت ہوا کہ زاویہ بدل جائے تو نتائج بھی بدل جاتے ہیں لہذا مقابلہ ہی غیر معقول ہے کیونکہ فورمز اور بڑی سیاسی جماعتوں کا مقابلہ بنتا ہی نہیں ہے۔ اسی لیے فورمز کا قیام حلقے کی اصل نمائندگی اور اس کی محرومیوں کا بہترین علاج ہے۔ ہو سکتا ہے ایک فورم طے شدہ مقاصد منصوبہ بندی سے حاصل کر لے اور سیاسی جماعتیں بڑے مقاصد کے لیے تگ و دو ہی کرتی رہ جائیں مثلاً تمام سیاسی جماعتیں ستر سال بعد آج بھی جمہوریت کے عدم استحکام کا رونا رو رہی ہیں لیکن ایک علاقائی فورم نوجوانان کے مدد و نصرت کے ساتھ ‘مقام’ کو تعلیم میں جلد اوپر پہنچا سکتا ہے۔ضرورت ہی ایجاد کی ماں ہے اور ایسے فورمز کا قیام اور ایسے تجربات تو ناگزیر ہیں کیونکہ ان فورمز میں محرومین کو سیاست سے بالاتر ہو کر ایک بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

تجربات ضروری ہیں اور مستحکم معاشرے کی ضمانت بھی ہیں۔اگر پارلیمانی نظام تبدیلی میں دیر کر رہا ہے تو صدارتی لے آؤ اور اگر صدر صاحب سستی کا مظاہرہ فرما رہے تو وزیراعظم کو نیند سے بیدار کر لیا جائے۔ یاد رہے کہ اگر کرپشن فری پروگریسیو جماعتیں یا فورمز کام کر رہے ہیں اور تعصب و فرقہ واریت سے بھی آزاد ہیں تو یہ ایک مثبت اور صحت مند سرگرمی کہلاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیکھنے والی آنکھ پیاری ہو کیونکہ بیوٹی لائیز ان دی آئیز آف بی ہولڈر!

کیا گھر میں چار دیواری نہیں ہے؟ کیا گھر کی چھت نہیں ہے؟ کیا گھر میں سب ترتیب سے نہیں بچھایا گیا؟ کیا مختلف حیثیتیں اپنے حساب میں مثبت کام نہیں کر رہیں؟ کیا دستوری و آئینی حیثیت بھی کسی چڑیا کو کہتے ہیں؟ رہی بات تقسیم کی تو یہ تب ہو گئی تھی جب قومیں بٹ گئیں اور مقابلہ بازی پہ اتر آئیں۔ تقسیم تو تب ہو گئی تھی جب امت کے ہیڈ کوارٹر سے دیگر مسالک پہ گولا باری ہوئی۔ تقسیم تو ہر ہفتے مراکز سے ہوتی نظر آتی ہے۔ اس سارے معاملے میں تقسیم سے چھٹکارا اب ممکن نہیں رہا کیونکہ انفرادیت پسندی اپنا لوہا منوا چکی ہے۔

ان حالات میں یہ دیکھنا ہے کہ نیتیں مثبت ہیں؟ جدا گانہ حیثیتیں توڑ رہی ہیں یا جوڑنے میں کردار نبھا رہی ہیں؟ نتائج زبردست ہیں؟ وژن مضبوط ہے؟ نام روشن ہو رہا ہے؟ بدنامی دھل رہی ہے؟ لوگ کشش محسوس کر رہے ہیں؟ کیرئیر کونسلنگ ہو رہی ہے؟ علاقے کے محرومیوں کا اپنے تئیں ازالہ ہو رہا ہے؟ ٹیم مضبوط ہے؟ ٹانگیں تو نہیں کھینچی جا رہیں؟ دنیا مان رہی ہے؟ گھر میں پانی کا کنکشن منقطع تو نہیں؟ پانی شفاف ہے؟ علم کی پیاس بجھ رہی؟ شمعیں روشن ہو رہیں؟ میراتھون کے نام پہ نوجوانان بھاگ رہے؟ لیڈر لیڈرز تیار کر رہا ہے؟ لیڈر کتابوں کو تعویز مان کر پی چکا ہے؟ کیا وہ راستہ متعین کر چکا؟ کیا کرپشن سے پاک ہے؟ کیا ایوان میں اچھا لگے گا؟ کیا منفی تقسیم پہ ایمان تو نہیں لاتا؟ کیا اس میں لچک ہے؟ کیا وہ ہینڈسم ہے؟ کیا وہ سرمایہ دار وڈیروں کی آواز ہے یا ان کے سامنے شیر کی دھاڑ ہے؟ کیا یہاں ہر طبقے کو نمائندگی حاصل ہے؟ کیا خواتین، مزدوروں، محنت کشوں اور نوجوانوں کی بھلائی پہ بات ہو رہی؟ کیا طلباء کے حقوق کی آواز بلند ہو رہی؟ کیا مشورے بھی ہوتے ہیں؟ کیا میرٹ کی دھجیاں تو نہیں اڑائی جا رہیں؟ یہ نتائج ہی کفایت شعاروں کے لیے کافی ہیں کیونکہ تفصیلات مثبت نتائج کو منظر عام پہ لانے کے لیے مزید تحقیق کی مرہون منت ہیں۔

اگر منزل ایک ہے تو گاڑی بدلنا بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ اس گاڑی کی اپنی حیثیت اور آئینی و قانونی و دستوری اہمیت ہے۔ ہر باوقار اور مہذب شہری کو اس کی حیثیت ماننی اور تسلیم کرنی چاہیے۔ پتنگ کاٹنے کی وجہ نہیں ہے۔ پتنگ اڑتی اچھی لگ رہی ہے۔ امید ہے کئی پتنگیں اڑیں گیں اور رنگ برنگی دنیا متعارف ہو گی۔ بسنت کا سماں ہو گا۔ مری ڈیویلپمنٹ فورم اڑنے لگے گا، ساتھیوں اور علاقے کو آسمان کی سیر کرائے گا، تعلیم سب کے دروازے پہ دستک دے گی، صحت کے لیے پنڈی کی تعمیرات اور مسیحوں سے آزادی ملے گی اور روزگار بڑھے گا نتیجتاً غربت بھی دم توڑ دے گی۔

میری ناقص سمجھ کے مطابق آپ کے پاس کئی راستے ہیں۔تمام راستے مقدس بھی نہیں ہیں۔ کوئی دعویٰ بھی نہیں کر سکتا۔ البتہ نظریات کا دعویٰ ضرور ہوتا ہے۔ جو بھی نظریہ یا تحریک عوامی مفاد میں ہے ‘تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہے’ کی رو سے انتہائی توجہ کا مرکز ہے کیونکہ ایسی شخصیات اور فورمز وقت کی اشد ضرورت ہیں۔ یہاں نیتوں کا عمل دخل شامل ہے۔ انما الاعمال بالنیات۔ جی ٹی روڈ سے پنڈی تو کوئی موٹر وے سے جارہا ہے۔ کسی کی نیت یہ ہے کہ کھونٹی اکھاڑ لی جائے تاکہ کوئی زخمی نہ ہو اور کوئی چاہتا ہے کہ کھونٹی برقرار رہے تاکہ گھوڑوں کو باندھنے میں آسانی میسر آ جائے۔ منزل ایک ہے۔ اگر منزل ایک نہیں بھی ہے تب بھی کئی منزلیں بیک وقت مثبت بھی ہو سکتی ہیں۔ دست شفقت ہی بڑھانا بڑائی ہے۔ دعا ہے کہ ترقی کی راہیں کھلتی رہیں اور ہر مثبت فورم کے پھول کھلتے اور وہ خوشبوئیں بکھیرتے رہیں۔ ہمیں ڈائیورسٹی پہ یقین بڑھانا چاہیے۔ برداشت پیدا کرنی چاہیے۔ جب ایسا ہو گا تو سب اچھا ہو گا!

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تحریر ثاقب محمود عباسی بھائی کے تعارف کی ایک جھلک ہے۔ آپ سے آن لائن تعلق ہے البتہ ملاقاتیں بھی رہی ہیں۔ مجھے کس فیلڈ میں جانا چاہیے کے لیے مفید مشورے دختران اسلام اکیڈمی میں آپ ہی کے دیے ہوئے ہیں۔ آپ کو سنا کم ہے لیکن پڑھا ضرور ہے۔ تحریروں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے البتہ آج کل شاید ہنی مون پہ ہیں۔ آپ کے ماضی سے سب واقف ہیں۔ آپ کی وابستگیاں سب جانتے ہیں۔ جامعات میں لیکچرر ہیں۔ سوشل سائنسز آپ کے مضامین ہیں۔ آپ کا حال اور مستقبل روشن اور چمکدار ہے۔ آپ ایڈوینچرر ہیں۔ پہاڑ اور برف پسند ہیں۔ تجربات کرتے ہیں۔ نوجوانان آپ کا ٹارگٹ ہیں۔ لکھاری ہیں۔ مصنف ہیں۔ کتاب شائع ہو چکی ہے۔ افکارِ ثاقب میں وزن ہے۔ مختصراً آپ مری کا ایک مثبت اور تعمیری کردار ہیں۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply