نتھو رام کا بھارت۔۔۔روبینہ فیصل

جب گلاب سنگھ نے عہد نامہ امرتسر کے تحت 16مارچ 1846کو انگریزوں سے کشمیر خریدا تو ریاست کا کل رقبہ 84,471 مر بع میل تھا یعنی مہاراجہ کو زمین 155روپے فی مربع میل اور ایک انسان سات یا سوا سات روپے فی کس میں پڑا۔۔ زمین کی ملکیت، خرید و فروخت سے ممکن ہے مگر انسان کی ملکیت کا تعلق صرف مالکانہ حقوق سے نہیں ہو تا۔ ایک انسان دوسرے انسان کی ملکیت نہ تو کسی دستخط شدہ کاغذ کی وجہ سے ہو سکتا ہے اور نہ ہی زمین کو فتح کر لینے کے بعد دوسرے مال غنیمت کے ساتھ فاتح کی گود میں جا گرتا ہے۔ انسانوں کو جیتنے، انہیں اپنا بنا کر رکھنے میں خلوص، مساوات اور احترام کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے کشمیری کو سات روپے فی کس بکنے پر،پہلے دن سے ہی نہیں ملا تھا۔

ہم تاریخ سے پیچھا چھڑا کر آگے بڑھنا بھی چاہیں تو نہیں بڑھ سکتے کیونکہ تاریخ کے صفحات ایک بھوت کی طرح ذہن پر چمٹے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں جانے بغیر، ہم سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں اور ہم سے پیچھا چھڑائے بغیر مستقبل کا امن اور خوشحالی کا سفر ممکن نہیں۔کشمیر کے خریدار،گلاب سنگھ سے رنبیر سنگھ اور رنیبر سے پرتاپ سنگھ اور آخر میں کشمیر1925میں ہوتے ہوتے، اس ہری سنگھ کے ہاتھ جالگا جس نے سالہا سال کشمیری مسلمانوں پر نا انصافی اور ظلم کی حد تو ڑنے کے باوجود 1947 میں ہندستان کی تقسیم کے وقت بھی اس کہانی کو اچھا موڑ دے کر چھوڑنے کی بجائے مظلوم کشمیریوں کو وہ دائمی روگ دیا جس کا آج دن تک علاج نہیں ہو سکا۔

انڈیا کے لئے،کشمیر، پاکستان کو مزہ چکھانے کا ایک بہت کا آمد مہرہ بنا۔۔ ایک زمین کے ٹکڑے، ایک لوگوں کے ہجوم، سے زیادہ اسے نہ” مزہ چکھانے والوں ” نے سمجھا اور نہ ہی اپنی” بقا کی جنگ لڑنے” والوں نے جانا۔ طاقتور اور کمزور، دونوں کے ہاتھ جیسے ایک پتھر کا کھلونا آگیا ہو، جسے طاقتور ملک، کمزور کے سر پر مار کر اس کو توڑ ہی دینا چاہتا ہو، تاکہ اس کو اکھنڈ بھارت کو توڑنے کی سزا دی جا سکے۔تقسیم کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو دونوں ممالک کا مشترکہ گورنر بنانے کی تجویز کو ٹھکرانے کا مزہ چکھائے جانے کی سزا بھی اس میں شامل تھی۔ اور کمزور ملک اس پتھر کو پیچھے سے طاقتور کی کمر میں مار کر اسے گرانا چاہتا ہے تاکہ وہ خود کو کھڑا کر سکے اور وہ پتھر کا کھلونا کس کے  سر اور کس کی کمر پر حملہ آوار ہونا چاہتا ہے،یا وہ اس نفرت اور بقا کے کھیل میں حصہ بھی لینا چاہتا ہے کہ نہیں؟ اس سے کوئی نہیں پو چھتا۔۔۔

سالوں سے کشمیریوں کی بھارت کے تسلط سے اپنی آزادی کے لئے ناکام جد و جہد مہاراجہ کے دونوں ممالک کے ساتھ سٹینڈ سٹیل معاہدے کی نحوست کی وجہ سے ہے جس کا سایہ جموں کشمیر کی خوبصورت وادی سے ٹل ہی نہیں رہا۔ نحوست کے بادل، ہر طرف کے دوغلے اور منافق لیڈروں کی صورت، کشمیر کے آسمان پر تنے ہی رہے ہیں۔۔ اور ان دو ممالک کے بیچ ڈولنے والا یہ پنڈولم، ڈولتے ڈولتے تھک تو گیا ہے مگر ٹوٹا نہیں۔۔ کمزور کشمیری آج بھی باہمت ہیں اور نعرہ آزادی لگانے کے لئے ان کی آوازیں اور حوصلے بلند ہیں۔

تاریخ کا یہ سبق یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی لڑائی ہے کیا؟ بظاہر وجوہات کوئی بھی ہوں۔۔کشمیر یا پانی یا کچھ بھی مگر جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لڑائی پاکستان کی بقا اور ہندوستان کی انا کی لڑائی ہے۔ تقسیم کے وقت کے ہندوستانی لیڈر،آخری فیصلے کے بعد بھی اس امید پر تھے کہ یہ تقسیم عارضی ہے اور بقول سردار پاٹیل کے زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک پاکستان تھک ہار کر، انڈیا سے واپس آملے گا۔۔پنڈت جواہر لعل نہرو اور گاندھی جی اس تقسیم پر ماتم کناں نظر آتے تھے اور اس بات پر پچھتاتے تھے کہ کاش کرپس یا کیبنٹ مشن مان ہی لیتے۔۔ گاندھی جی کو اپنی ہٹ دھرمی اور دہری چالوں کا احساس ہوا تو انہوں نے تقسیم کے بدلے پیدا ہونے والی خونی درندگیوں کو کم کرنے میں اپنا کردار نبھانا شروع کیا۔وہ کہتے تھے انسانوں کو بنیادی حقوق دلوانے کے لئے ہی تو بر طانوی راج سے ہماری لڑائی شروع ہو ئی تھی۔ گاندھی جی کو اس بات کا احساس کیوں نہ ہو تا کیونکہ جب وہ  ساؤتھ افریقہ میں تھے، تو وہاں سکن کلر کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ جو متعصبانہ سلوک ہو ا کرتا تھا، وہ ان کو بہت تکلیف دیتا تھا۔ اپارتھیڈ کے خلاف آواز اٹھانے والے نے جب وطن واپسی پر اپنی ہی دھرتی پر اسی کے باشندوں کے ساتھ، گوری چمڑی والوں کا وہی امتیازی سلوک دیکھا تو ان سے چپ نہ رہا گیا۔ مگر یہ کیا کہ انہیں آزادی کی صورت کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی ناکامی کا احساس ہورہا تھا کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ تعصب کے خلاف ایک آگ سے نکل کر وہ دوسری میں جاگرے ہیں۔ پنڈت نہرو اور سردارپاٹیل کی سوچ یہاں پر ان سے مختلف ہو گئی تھی۔۔وہ دونوں قائد اعظم اور پاکستان بنانے والوں کو مزہ چھکانے والے موڈ میں چلے گئے تھے۔ ان کے اور گاندھی جی کے سوفٹ وئیر میں نمایاں فرق آگیا، جو تقسیم سے پہلے تقریبا ایک ہی جیسا تھا۔گاندھی جی نے کہا زمین کی آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی انسانوں کی آزادی، سماجی انصاف کی بات کرو ۔او ر وہ اپنے نوجوانوں کو زمین کے ٹکڑوں کے لئے مروانے کٹوانے کی بجائے انہیں پر امن معاشرہ اور خوشحالی دینے کی بات کرنے لگے تھے کہ اسی کی خاطر تو سب نے اتنا طویل اور اعصاب شکن سفر طے کیا تھا۔ مگر پاٹیل اور نہرو، پاکستان کوعلاقائی تقسیم سے لے کر ہیومن ریسورسز اور قدرتی ذرائع کی تقسیم میں، ہر جگہ نقصان پہنچانا چاہتے تھے جس کی ایک کڑی پاکستان کا جو متحدہ ہندوستان کے مشترکہ کیش میں حصہ بنتا تھا، دینے کو ہر گز تیار نہیں تھے اور دوسری کڑی کشمیر جیسے معاملے میں الجھا کر، جنگ کر کے، انہیں بنک کرپٹ کرنے کے درپے تھے۔

یہ بات کئی تاریخ دانوں نے جن میں ہندوستانی بھی ہیں، جا بجا لکھی ہے۔ دوسری طرف گاندھی جی نے کہا کیا جنگ اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہوگی؟ اس سے پہلے وہ انسانی تاریخ کے  سب سے بھیانک قتل و غارت کو روکنے گاوں گاؤں پیدل چل کر جا رہے تھے۔ دوسری طرف محمد علی جناح اپنی بگڑتی صحت کے باوجود اپنے لوگوں کے لئے ایک الگ ملک بنا کر جس میں انہیں اب گورا گورنر جنرل بھی منظور نہیں تھا، ہندو اور انگریز دونوں کے عتاب کو آواز دے چکے تھے۔ گاندھی جی نے کہا تھا مسلم اکثر یت والی ریاست ہو نے کی وجہ سے کشمیر پرپاکستان کا حق ہے۔سٹینلے ولپرٹ نے اپنی کتاب میں اس وقت کے پاکستان کے ایک ہندوستانی ہائی کمشنر سر پراکساکے الفاظ  نقل  کیے ہیں کہ” ہندوستان کو خطے میں امن کی خاطر، کشمیر، پاکستان کو دے دینا چاہیے “۔ جس پر نہرو نے بعد میں خفگی کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔ دہلی سنٹرل بنک،نے پاکستان کا550ملین کیش روک دیا تھا۔ گاندھی جی نے اپنا آخری مرن بھرت12 جنوری8 194میں پاکستان کو اس کا جائز حق دلوانے کے لئے رکھا تب کہیں جا کہ پاکستان کو اس کے حصے کا کیش ملا۔ مگر گاندھی جی نے اس کی سزا یوں پائی کہ 30جنوری 1948کو نتھو رام گوڈسے نے، انہیں گولی مار کر موت کی نیند سلا دیا۔

نتھو رام، اس راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ۔۔آر ایس ایس۔۔جماعت کا ایکٹیو ممبر تھا، جس کا سیاسی ونگ آج بی جے پی کی صورت ہمارے سامنے ایک نفرت کے ناگ کی صورت پھن پھیلائے کھڑا ہے اور اس ناگ سے صرف ہمسایہ ممالک کو ہی خطرہ نہیں بلکہ اس ہندوستان کو بھی ہے جہاں کبھی عدم تشدد کے داعی گاندھی اور انسانوں کی مدد گار اور خلوص کی دیوی مدر ٹریسا پیدا ہو ا کرتے تھے۔۔۔۔نتھو رام جس آر آر ایس کا پر چاکار تھا، اس کی کہانی کسی سے چھپی ہے؟ برطانوی راج میں اس دہشت گرد سوچ کی حامل جماعت پر اس لئے پابندی لگا دی گئی تھی کہ اس وقت ان کا تعلق نازی فوج کے ساتھ تھا۔گاندھی جی کے قتل کے بعد بھی، نہرو نے اور اندراگاندھی کی 1975-77والی ایمرجنسی میں اور 1992میں بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد بھی اس جماعت کو بین کر دیا گیا تھا۔ 1948 میں حیدر آباد میں اس جماعت نے تقریبا ً دو لاکھ اور کشمیر میں پانچ لاکھ مسلمانوں کا قتل ِ عام کیا تھا۔ ویڈ بھاشن جو اس کے چشم دید گواہ تھے لکھتے ہیں کہ یہ آر ایس ایس کے ہاتھوں منظم قتل ِ عام تھا اور ریاست اس کی سر پرستی کر رہی تھی۔ اس دہشت گرد تنظیم نے تقسیم سے پہلے کلکتہ میں خونی فسادات کئے اور بعد میں مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے یونیفارم میں، حتی کہ کشمیر میں آج بھی انڈین فوج کے یونیفارم کی آڑ میں قتل، اغوا اور ریپ جیسی گھناونی واردتیں کرنا اس جماعت کا معمول ہے۔

دنیا کا دستور ہے، لوگ ہوں یا ممالک، ساتھ طاقتور کا دیا جا تا ہے۔ آج بے بس کشمیری، اور اپنے حالات میں الجھا پاکستان (جسے پہلے دن سے ہی اس امتحان میں ڈال دیا گیا ہو کہ۔۔ ہمارے بغیر جی کے دکھاؤ تو سہی، اور صرف کہا ہی نہ ہو عملی طور پر قدم قدم، راہ میں کانٹے بچھائے گئے ہوں اور اسے اندرونی اور بیرونی سازشوں سے کمزور کر دیا گیا ہو۔ شکست خوردہ نظر آئیں بھی تو کل کس نے دیکھا ہے؟

کون جانتا تھا کہ دنیا کی سپر پاور روس، افغانستان جیسے چھوٹے ملک پر حملہ کر کے خود ہی پاش پاش ہو جائیگی؟ کون کہہ سکتا تھا کہ فتوحات کے جھنڈے گاڑتا، جرمنی، پولینڈ پر حملہ کر کے اپنی ہی موت کو دعوت دے بیٹھے گا۔۔۔ہاتھی کی موت کا باعث ایک چیونٹی بن سکتی ہے اور ایک مچھر مرد کو ہیجڑہ بنا  سکتا ہے تو کل کیا ہو ،کس نے دیکھا۔۔ سر پر گلابی پگ باندھے، آنکھوں میں دنیا کے لئے تحقیر لئے، خود کو سب سے برتر ریس سمجھنے والا مودی اسی دنیا کے نظام کا حصہ ہے جس میں ہر عروج کو ایک زوال ہے۔۔۔۔

ہر دور میں زمانہ شناس، ابن الوقت، اور بزدل دنیا کی اس بھیڑ میں مٹھی بھر باضمیر لوگوں کی آوازیں بلند ہو تی رہتی ہیں اسی لئے نا انصافی اور ظلم کا زوال شروع ہو تا ہے۔ آج دنیا کا کچھ با ضمیر میڈیا، انڈیا کی ہٹ دھرمی اور منافقت سے پردہ اٹھا رہا ہے تو یہ مظلوم کشمیری کی فتح کی پہلی سیڑھی ہے، اور انڈیاکی انتہا پسند ی،تنگ نظری اور غرور پر زوال کا پہلاچھینٹا ہے۔۔ جس دن یہ بارش انڈیا کے اپنے میڈیا اور دانشوروں کے ذریعے بر سنے لگ گئی اس دن ہندوستان بھی اس آفت سے بچ جائے گا۔۔آگا ہی کا ہونا، اور اسے وقت کی ضرورت کے ہاتھ فروخت نہ کرنا، آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔آج اگر ہندوستان کا پڑھا لکھا طبقہ، اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف خود نہیں کھڑا ہو گا، یہ مچھر، اس قوم کو ہیجڑا بنا دے گا، یا یہ چیونٹی ان کے ناک میں گھس کر انہیں تبا ہ کر دے گی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج ہندوستانیوں کو خود یہ سوچنا ہے کہ کیا کشمیریوں پر ایسا غیر انسانی ظلم ڈھا کر وہ ہندوستانی ہونے پر شرمندہ ہیں کہ نہیں؟ اگر نہیں تو مان لیں کہ سوچوں کو ہیجڑا کرنے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔۔تعصب کا مچھر اپنا کام دکھا چکا ہے۔۔ اورجس دن نتھو رام نے گاندھی جی کو گولی ماری تھی، وہ اس دن نہیں۔۔ آج مر ے ہیں۔ اور انہیں مار کر تنگ نظر نتھو رام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، ہندوستان کی وسیع دھرتی میں امر ہو گیا ہے۔۔
آئیں !ہم سب، آنکھیں بند کیے یا آنکھیں چراتے ہندوستانیوں کے ساتھ مل کر نعرہ لگائیں۔۔ امن، انصاف، مساوات اور انسانی حقو ق مردہ باد۔نتھو رام زندہ باد۔۔۔۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply