• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آمریت اور جمہوریت کی پگڈنڈیوں پر گزرتا 72 سالہ پاکستان۔ غیور شاہ ترمذی

آمریت اور جمہوریت کی پگڈنڈیوں پر گزرتا 72 سالہ پاکستان۔ غیور شاہ ترمذی

پاکستان کی آدھی عمر جمہوریت کے بغیر ہی گزری ہے لیکن جو بھی بقیہ جمہوری ادوار بھی تھے وہ بھی ایسے ہی تھے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ڈگڈگی پر ناچتے تھے اور اب بھی ناچ رہے ہیں۔ کارکردگی کے لحاظ سے اگر اسٹیبلشمنٹ ناکام رہی تو یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ضمن میں سیاست دان بھی ناکام ہوئے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہی آزادی حاصل کرنے والے انڈیا کے برعکس پاکستان میں صورت حال مختلف رہی ہے۔ وہاں شروع سے ہی جمہوریت پنپتی رہی مگر اس کے برعکس پاکستان پر سکیورٹی دباؤ رہے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک کسی ملک میں بیرونی اور اندرونی سکیورٹی دباؤ رہیں گے تب تک ملک میں فوج کا پلڑا بھاری رہے گا۔ وہ ممالک جہاں جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں وہاں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سول حکمرانوں کے تابع ہوتی ہے۔ امریکہ کا صدر طاقتور ترین فیلڈ مارشل جنرل آرتھر کو سبکدوش کر دے تو وہ چوں و چرا نہیں کرتا۔ انڈیا کی وزیراعظم اندرا گاندھی اپنے آرمی چیف کو ملاقات کے لئے بلا کر کئی گھنٹے ویٹنگ روم میں بٹھا دیتی تھی۔ ترکی کے وزیراعظم عبداللہ گل نے کئی جنرلوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا مگر ہمارے ملک میں کوئی سول حکمران ایسا کرے تو اسے معزول کر دیا جاتا ہے۔ پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے یا جلا وطن کر دیا جاتا ہے اور آئین کو معطل کرنے والوں کے خلاف نہ تو حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو قابل عمل سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کارگل کمیشن یا ایبٹ آباد کمیشن کے ذریعے کوئی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف نے بڑی کوشش کی کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے پر مقدمہ درج کیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا بلکہ پرویز مشرف دھڑلے سے پاکستان سے دبئی بھی چلا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے اُس کے اعمال کی سزا دینا کبھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ کیا ایوب، یحیٰ، ضیاء اور مشرف یا سرکاری ملازم ہوتے ہوئے بھی آئی جے آئی  بنانے والے جنرل حمید گُل، جنرل اسلم بیگ، جنرل اسد درانی یا کارگل کا مس ایڈونچر کرنے والوں کا کسی نے آج تک احتساب کیا ہے؟۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیاست میں فعال طبقات میں یہ تاثر عام ہے کہ ہمارے یہاں سیاست میں آگے بڑھنے کا راستہ راولپنڈی سرکار کی طرف سے گزر کر ہی اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچ پاتا ہے۔ مسلم لیگ نون لیگ کا حصہ رہنے والے ایاز امیر کہتے ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا یہی طریقہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاست دان بے بس نہیں ہوتے۔ میاں نواز شریف اور ایم کیو ایم کے الطاف حسین بے بس نہیں تھے، ان کی یہ دانستہ سوچ تھی کہ اسی سہارے سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لوگ جاتے ہیں، ان سے ملتے ہیں ان کی مدد لیتے ہیں۔ ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور یہ پاکستانی سیاست کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ سیاسی امور پر نظر رکھنے والے کچھ دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے اثر کی وجہ نا صرف سیاست دانوں کی نادانیاں بنی ہیں بلکہ ابتدا ء سے ہی ہمارے سیاستدانوں کی درست خطوط پر تربیت نہ ہونا بھی ایک وجہ تھی۔ مثال کے طور پر معروف دانش ور ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ دس، بارہ بڑی پارٹیاں ہمیشہ سے یہ کوشش کرتی رہی ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا ان جماعتوں کے اپنے مفاد میں نہیں ہو گا اور ان کا الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں نظم وضبط کا فقدان ہوتا ہے، وہ عوام کو جماعت میں پذیرائی نہیں دیتے اور نہ ہی اپنے عہدے داران کے تقرر میں کارکنان کو ملوث کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے عام لوگوں اور سیاسی کارکنوں میں ایک بڑا خلاء پیدا ہو جاتا ہے جس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ اٹھاتی ہے۔

دوسری طرف جب بہت سے سویلین امور مثلاً انتخابات، سیلاب اور دیگر کاموں میں فوج کو بار بار بلایا جاتا ہے تو فوج میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ وہ کام کو زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں اور عوام میں بھی فوج کا مقام بڑھ جاتا ہے۔ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ فوج نے سیاست میں آ کر رضا کارانہ طور پر سیاست چھوڑی ہو۔ اسی لئے چاہے براہ راست مارشل لاء لگائیں یا بالواسطہ مگر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا پلڑہ ہمیشہ سے بھاری ہی رہا ہے۔ کیا پاکستان میں آج عملاً بالواسطہ سول مارشل لاء نافذ نہیں ہے؟۔ کیا عدلیہ کا ایک مخصوص حصہ اسٹیبلشمنٹ کے انہی جہادی عناصر کے ہاتھوں کھلے بندوں استعمال نہیں ہو رہا جن کا خیال ہے کہ وہ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے ذمہ دار ہیں اور ٹھیک اُسی طرح وہ انڈیا بلکہ امریکہ کے بھی حصےّ بخرے کر دیں گے؟۔ ان کے برعکس عام لوگوں میں پراپیگنڈہ کے زیر اثر یہ خوش فہمی پائی جاتی ہے کہ بدعنوان حکمرانوں کے خلاف احتساب ہو رہا ہے؟۔ یہ وہ معاملات ہیں جو آج ہر گلی، محلہ کی سطح پر عامہ الناس میں زیر بحث ہیں۔ اپوزیشن سے منسلک عام لوگوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کی عدلیہ جیسے اہم اور عزت دار ادارہ کو ربڑ اسٹمپ کی طرح استعمال کرکے اس کو تہس نہس کر رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ایک دفعہ پھر ایک سیاسی نابالغ کو گود لیا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ اور دھرنا اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے اسی جبر کے خلاف ایک آواز ہے۔ یہ دھرنا سیاستدانوں کی طرف سے اُس جدوجہد کا مظہر ہے جس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اقتدار کے اس کیک میں اپنے لاڈلے کو نوازنے کی بجائے سول سپریمیسی کو تسلیم کرے۔

دوسری طرف سنہ 2019ء یا اب سنہ 2020ء میں اگر براہ راست مارشل لاء نہیں لگایا جا سکتا تو یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کافی سالوں تک بھی اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی عوام کے مسائل کو حل کرنے میں قطعاً ناکام ہو چکی ہیں۔ عوام دونوں بڑی پارٹیوں سے مایوس ہیں تو ایسے حالات میں اگر اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے عمران خان کی غیراعلانیہ حمایت کرنے پر مجبور ہے تو یہ اس کی ایک فطری اور عملی سوچ ہے۔ عمران خان ایک اچھی بین الاقوامی شہرت کی حامل مشہور شخصیت ہے اور اب تو امریکہ و سعودیہ کو بھی عمران خان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں اب ملکی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی بھی سٹیک ہولڈر اس قدر طاقتور نہیں ہے کہ وہ اقتدار کا تمام کیک خود ہی ہضم کر جائے لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری ہے کہ وہ کسی ایسی شخصیت کو سپورٹ کرے جو عوام میں پاپولر بھی ہو اور اس پر کرپشن کا بھی بظاہر کوئی داغ نہ ہو اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی قابل قبول ہو اور ان کے مفادات کا تحفظ بھی کرنے کا اہل ہو۔

اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں تبدیلی کی وجوہات:

اسٹیبلشمنٹ میں سوچ کی اس تبدیلی کے پیچھے ساکھ بحال کرنے کی پالیسی (Damage Control) کارفرما ہے جس کا آغاز جنرل پرویز کیانی کی سربراہی میں پاک فوج کی قیادت نے جنرل مشرف کو صدارت سے چھٹی کرا کے باہر بھجوا کر کیا تھا کیونکہ آخری باقاعدہ مارشل لاء یعنی جنرل مشرف دور کے دوران ادارے کی حیثیت میں پاک فوج کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی اسٹبلشمنٹ کے بڑوں کی جانب سے یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ براہ راست فوجی اقتدار سے عوامی تاثرات میں بنیادی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ تب سے ہی ملکی اقتدار پر بلا شرکت غیرے قبضہ جمائے رکھنے کی اس لڑائی میں اسٹیبلشمنٹ بیک وقت حملے بھی کررہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنا دفاع بھی۔ جنرل کیانی دور میں یہ بھی طے کیا گیا کہ اب براہ راست مہم جوئی کا وقت نہیں رہا لہذا ریاستی معاملات کو بالواسطہ طور پر کنٹرول کیا جائے گا۔ آج بھی اسی پالیسی پر عمل جاری ہے اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔

کالم نگار اور روزنامہ ایکسپریس کے نیوز ایڈیٹر نوید چوپدری کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمشنٹ کی اس پالیسی کے مقابلہ میں عمومی تاثر یہ ہے کہ اگر براہ راست مہم جوئی ممکن نہیں رہی تو بالواسطہ طور پر ایڈونچر بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا کیونکہ بالواسطہ طور پر حکومتی امور کنٹرول کرنے کے راستے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کی طرف سے شدید مزاحمت ہے۔ بات صرف پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی ہی نہیں رہی بلکہ اس میں دیگر چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے آصف علی زارداری کو جمہوری حلقوں کی طرف سے یہ کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے کہ 2008ء میں پیپلز پارٹی کو جیسی بھی لولی لنگڑی جمہوریت ملی اُس نے سمجھوتے کر کر کے وقت گزارا مگر نظام کو چلتا رہنے دیا۔

دوسری طرف فوجی گملے میں سیاسی پرورش پا کر قد آور لیڈر بننے والے نواز شریف نے بہت کم وقت میں ہی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر رقص کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل اسلم بیگ سے لے کر جنرل مشرف تک وہ ہر کسی کے سامنے ”باغیانہ“ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے رہے۔ جسٹس منیر کی روایات والی عدلیہ کے ججوں نے بھی جب کبھی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر کوئی چاند چڑھانا چاہا تو نواز شریف کھل کر سامنے آگئے۔ یہ کھیل کسی نہ کسی طریقے سے آج بھی جاری ہے۔ مائنس ون اور پھر مائنس ٹو یعنی نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو سیاست سے باہر کرنے کی باتیں 1990 ء کی دہائی میں ہی شروع ہو گئی تھیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ بعض صحافی اُن دنوں یہ برملا کہا کرتے تھے کہ بے نظیر کوئی بات سننے پر تیار نہیں ہوتیں جبکہ نواز شریف کسی بات کو سمجھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ دونوں کے خلاف کردار کشی کی مہم وقتاً فوقتاً چلائی جاتی رہی۔ وہی غداری، ملک دشمنی، کرپشن اور سب سے بڑھ کر بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزامات۔ یہ آخری مضحکہ خیز الزام جنرل ایوب نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح پر بھی لگایا تھا۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ الزام سکرپٹ کا مستقل حصہ ہے۔ سنہ 1990ء کی دہائی ان ہی الزامات کے اندر گزر گئی اور پھر 1999ء میں کارگل برپا ہو گیا۔ جنرل حمید گل کے مطالبات دہراتا ہوں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مِس ایڈونچر کے ذمہ داروں کو احتساب کے دائرے میں لا کر کورٹ مارشل کیا جاتا کیونکہ اس حوالے سے خود فوج کے اندر بھی مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔ اُس دور کے کئی ریٹائرڈ جنرلوں کی کتابوں میں اس ایشو کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ خیر کورٹ مارشل کی نوبت تو نہ آسکی بلکہ الٹا کارگل کے ہیروز نے مل کر سول حکومت کا تختہ ہی الٹ دیا۔ وزیراعظم نواز شریف اندر ہو گئے اور جیل، نااہلی، عمر قید اور پھر جلاوطنی وغیرہ بھگتنا پڑی۔ مشرف دور میں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ملک میں جمہوریت بحال ہونے کی امید پھر سے پیدا ہوئی تو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جیسے ”ناپسندیدہ“ کردار پھر سے ملکی قیادت سنبھالنے کے لئے لوٹ آئے کیونکہ اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں دھماکے کے ذریعے مائنس کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کا 5 سالہ دور مکمل ہونے کے قریب آنے لگا تو ملک میں پھر سے ہلچل پیدا کر دی گئی۔

آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا نے تحریک انصاف کو تیسری طاقت بنانے کے لئے تمام وسائل اور صلاحیتیں جھونک دیں۔ سب سے پہلے ق لیگ کا کباڑا ہوا۔ یہ بات ریکارڈ پر بھی ہے کہ چودھری برادران کئی ثبوتوں و شواہد کے ہمراہ جنرل پاشا کی شکایت لے کر آرمی چیف جنرل کیانی سے ملے مگر جنرل کیانی نے دلاسہ دے کر انہیں رخصت کر دیا۔ ہر طرح کی کاوشوں کے باوجود تحریک انصاف مطلوبہ مقبولیت حاصل نہ کر سکی تو پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ عام انتخابات رکوائے جائیں۔ لمبا نگران سیٹ اپ آئے، طاہرالقادری کو باہر سے بلوا کر اسلام آباد میں دھرنا دلوایا گیا۔ سازش کو بھانپتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ایک ہو گئے تو پلان تبدیل کرنا پڑا۔

سنہ 2013ء میں عام انتخابات ہوئے تو ن لیگ کو اکثریت مل گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ نواز شریف کو اردلی ٹائپ وزیراعظم بنا کر کچھ وقت گزارا جائے پھر چھٹی کرا کے کوئی اور ڈمی مسلط کر دی جائے۔ یہ کام عدالتوں کے ذریعے کرانے کا منصوبہ تھا مگر اس مقصد کیلئے پہلے اسلام آباد میں شرمناک دھرنے دلوائے گئے۔ اس غلیظ کھیل میں کئی چہرے بے نقاب ہوگئے۔ سی پیک کے خلاف بھی باقاعدہ سازش کی گئی۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ پارلیمنٹ متحد رہی، سو کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر معاملہ طے پا گیا۔ یہی وہ موقع تھا جب نواز شریف سے ایک چوک ہو گئی۔ انہوں نے فریق ثانی کے دعوؤں پر اعتبار کر لیا۔ خود کو ایوان وزیراعظم تک محدود کر کے اہم ریاستی معاملات میں غیر سیاسی فریقوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا۔ یہ سچ ہے کہ اپنی پارٹی کی تنظیم نو اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی بجائے انہوں نے بڑی حد تک تساہل کا مظاہرہ کیا۔ دوسری جانب سے اسی منصوبے پر کام جاری رکھا گیا جو درحقیقت طاہر القادری کے پہلے دھرنے کے وقت ہی تیار کر لیا گیا تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کو یہ ”اعزاز“ حاصل ہے کہ ان کے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی انہیں ہٹانے کے اقدامات عملی طور پر شروع کر دئیے گئے۔

اور پھر پاناما لیکس آئیں اور پھر سے سازشوں کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ اسلام آباد لاک ڈاؤن اور اس سے پہلے ہی سپریم کورٹ کی جانب سے اس کا نوٹس لینا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پانامہ لیکس کا فیصلہ اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ”پیٹرن“ واضح طور پر سامنے آجاتا ہے۔ نگران جج کے تقرر اور چھ (6) ماہ کے اندراندر احتساب عدالت کو فیصلے سنانے کے لئے پابند کرنے کے اقدامات پر خود کئی قانون دانوں نے بھی سخت اعتراضات کئے۔ پھر یہ اطلاعات آنے لگیں کہ طویل نگران سیٹ اپ آئے گا، سینیٹ الیکشن کا انعقاد ہی ممکن نہیں رہے گا۔ اس تمام ”گھڑمس“ کے دوران نواز شریف نے اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ پرجوش عوامی رابطہ مہم چلا کر اپنی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ سینیٹ الیکشن سے قبل ہی دھڑا دھڑ ضمنی انتخابات میں کامیابیاں حاصل کر کے نواز شریف نے یہ ثابت کیا کہ ”مجھے کیوں نکالا“ کا بیانیہ کامیاب جا رہا ہے۔

نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد بقول مرحومہ عاصمہ جہانگیر ”اپنی جانب سے توازن پیدا کرنے کی کوشش میں جہانگیر ترین کی بھی نااہلی کر دی گئی“۔ اگر یہ واقعی توازن پیدا کرنے کی کوشش تھی تو اس پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ خیر اصل واقعہ تو اس کے بعد رونما ہوا۔ کھرب پتی جہانگیر ترین جو پچھلے 40 سال سے اس حلقے پر انویسٹ کررہے ہیں اور 2013ء میں شکست کھانے کے بعد اپنے حریف کو نااہل کرا کر ضمنی الیکشن جیت کر ایم این اے بنے تھے، اپنی نااہلی کے بعد اس حلقے میں اپنے بیٹے کو بری طرح سے ہروا بیٹھے۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کی انتخابی سیاست کا پول بھی کھول کر رکھ دیا۔ یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا۔ اسی دوران ہر ایک سے بنا کر رکھنے والے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے لاہور آ کر نون لیگ کی پنجاب حکومت کو غیر متوقع طور پر تڑیاں لگائیں تو اندازہ ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ پروردہ سیاسی گروپوں کے ان دعوؤں میں بھی دم ہے کہ شہباز شریف کو بھی سبق سکھایا جائے گا۔

اس اہم ترین موڑ پر نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد میں محض علامت کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ مگر سیاسی شعور کی بیداری کی اس لہر میں اگر وہ کوئی مؤثر کردار نہ بھی ادا کر پائے تو کوئی دوسرا ایسا کر گزرے گا۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے مرحلے بھی آتے ہیں جب جیل تو کیا جلاد کا سامنا بھی بے معنی ہوتا ہے اور خوف غائب ہو جاتا ہے۔ بندوقیں محض لوہے کے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ لندن سے واپسی کے وقت اگر نواز شریف بحران کے عین عروج پر پیش کردہ پیکیج قبول کر کے بیرون ملک پناہ لے لیتے تو ان کی سیاست اور شخصیت کا حقیقی معنوں میں کباڑہ ہو جانا تھا۔ سیاست کے میدان میں ساتھیوں پر اعتبار کرنا پاکستان میں بہت مشکل ہو چکا ہے۔ سینیٹ الیکشن کے لئے جس طرح سے بلوچستان میں ”کھوتا کریسی“ کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس سے واضح ہو گیا کہ اعتبار ممکن ہی نہیں۔ اب تک کی صورت حال کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ نواز شریف اور ان کے ہم خیال سیاستدانوں کے پاس لڑ کر مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی کوئی اور راستہ نہیں، پیچھے ہٹی تو ”شراکت اقتدار“ کا نیا اور ناقابل تنسیخ فارمولا لاگو ہو جائے گا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی آہنی گرفت کو مزید کمزور کرتا چلا جائے گا۔

دوسری طرف حسین حقانی کے میمو سکینڈل سے سیاستدان یہ سمجھ چکے ہیں کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکہ، ہندوستان، افغانستان، بلوچستان اور فاٹا کے ایشوز پر جمہوری حکمرانوں کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔کچھ ماہرین سیاست کہتے ہیں کہ حقیقتاً ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پاکستان کے اداروں اور معیشت کو جس حد تک تباہ و برباد کر دیا ہے اور وہ کرپشن، ذاتی مفادات اور آپس کی لڑائی جھگڑوں میں جس قدر مشغول ہیں، ان حالات میں کیسے ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کی تابع سول بیورو کریسی اپنے ادارتی مفادات کے تحفظ کے لئے عمران خاں کی ہنگ پارلیمنٹ بچاتے ہوئے سیاسی عمل کو کنٹرول کرنے کی بالواسطہ کوشش جاری نہ رکھے۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ اپوزیشن رہنما جتنا زیادہ عمران خان پر یہ الزام لگائیں گے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ پروموٹ کر رہی ہے اتنا ہی عوام اور نچلے درجے کے سیاستدانوں کی اکثریت اِن کے نزدیک آئے گی کیونکہ پاکستانی عوام کی اکثریت کا یہ مزاج ہے کہ وہ اُن سیاستدانوں کی حمایت کرتے ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ کا تعاون حاصل ہوتا ہے۔ لوگ ایسے جیتنے والے گھوڑوں پر خوشی سے انویسٹ کرتے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں ایسا اس وجہ سے بھی ہے کہ جب کبھی بھی مضبوط سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کر کے اقتدار حاصل کر لیتی ہیں تو اقتدار میں آ کر وہ عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے کچھ نہیں کرتیں۔ ایسے میں پاکستان کے عوام، میڈیا اور بیورو کریسی میں یہ سوچ جڑ پکڑ لیتی ہے کہ آزادانہ جمہوریت سے بہتر ہے کہ کنٹرولڈ جمہوریت ہو تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو فکس کرنے کی بجائے اپنے اپنے حصے کا کیک حاصل کرنے کے بعد تھوڑا بہت عوام کو ٹریکل ڈاؤن کر دیں تو بس یہی غنیمت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کی عمران خاں کی حکومت انہی پالیسیوں اور سوچ کے تحت بنی ہے اور چلائی جا رہی ہے اب بے شک عمران خان اور اُن کے حمایتی لاکھ کہیں کہ وزیراعظم کی حیثیت سے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی حقیقتاً ان کے ماتحت ہیں اور وہ ان کے باس ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت صرف اسٹبلشمنٹ کے مقاصد پورا کرنے کے لئے حکومت میں لائی گئی ہے۔ اگرچہ ہر جمہوریت پسند کی شدید خواہش ہے کہ کاش ایسا ہی ہو جائے جیسا عمران خان اور اُن کی پارٹی کہتے ہیں مگر شاید پاکستان میں یہ کسی بھی سیاستدان اور جمہوریت پسند کے لئے صرف خواب ہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply