مانند اور بے مانند/ اقلیدس اور الجبراء۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کیسے ہو سکتے ہیں ’بے مانند‘ او ر ’مانند ‘۔۔ایک؟
ایک یعنی ایک جیسے؟
ہاں ۔۔مگر، اک دوسرے کی حدّ و ضد بھی
میر و غالب کو ہی دیکھیں ذرا ۔۔۔پرکھیں
کہ دونوں میں کہیں ّ”مانند” ہونے یا نہ ہونے
کے کوئی اشہاد ہیں بھی؟
آئیے، آنند صاحب ، دیکھتے ہیں

ایک اقلیدس ہے، بیّن اور عیاں اشکال میں۔۔
سب کچھ صریح الفہم ، یعنی صاف ، ستھرا
سب لکیریں ، زاویے نقشہ نویسی کے نمونے
گول یا چوکور یا ترتییب میں۔۔ ترچھی تکونیں
سبھی شیرازہ بند و صاف۔۔
نستعلیق اپنی کلمہ جنبانی، ادا، اظہارمیں ۔۔
کُل عبارت معنی و مفہوم کا واضح خلاصہ
میر ؔ ہیں یہ۔۔
صاف گویندہ ہیں اپنی شاعری میں

اور غالب؟
دیکھتے ہیں ، ستیہ پال آنند صاحب

حضرت ِ غالب کہ جومغلوب تھے اک اور پہلو میں ریاضی سے
جسے کہتے ہیں
الجبراء
بمعنی جبر و نسبت اور تقابل

لفظ’’ ظاہر ‘‘ ہے مگر ہے معنی و منشا عبارت میں مقید‘‘
صنعت ِ تو شبیہہ ہے اک چیستاں سی
ذو جہت، گہرے معانی
اور استبصار ۔۔؟ گویا گتّھی سلجھانا ، سمجھنا!

میرؔ ، (نستعلق اپنی کلمہ جنبانی میں) اقلیدس سے نسبت
اور غالبؔ، (جبر و نسبت اور تقابل) یعنی الجبرا سے نسبت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقلیدس اور الجبراء
( یعنی میرؔ اور غالبؔ )
ا یک اقلیدس ہے، بیّن اور عیاں اشکال میں
سب کچھ صریح الفہم ، یعنی صاف ، ستھرا
سب لکیریں ، زاویے نقشہ نویسی کے نمونے
گول یا چوکور یا ترتییب میں ترچھی تکونیں
پر سبھی شیرازہ بند و صاف۔
نستعلیق اپنی کلمہ جنبانی، ادا، اظہارمیں ۔۔
کل عبارت معنی و مفہوم کا  واضح خلاصہ
میر ؔ ہیں یہ!
صاف گویندہ ہیں اپنی شاعری میں

اور غالب؟
یعنی اسد اللہ خان غالبؔ ۔۔
جی ہاں، الجبرابمعنی جبر و نسبت اور تقابل ۔۔۔
لفظ’’ ظاہر ‘‘۔۔ ، معنی و منشا عبارت میں’’ مقید‘‘
صنعت ِ توشیہہ میں اک چیستاں
ذو جہت، لاینحل، ادّق، گہرے معانی

اور استبصار ۔۔؟ گویا گتّھی سلجھانا ، سمجھنا!

میرؔ ، (نستعلق اپنی کلمہ جنبانی میں) اقلیدس سے نسبت
اور غالبؔ، (جبر و نسبت اور تقابل) یعنی الجبرا سے نسبت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

(دو)   ماہ
کیسی تخلیقی ہے اس کی فکر ہم سب جانتے ہیں
کیا سخن ہے! نرم، نازک، اطلس و مخمل ، حریری
دودھیا، چمپا، چمبیلی ۔۔ابرقی ،اُجلا، زلالی
صاف ، نستعلیق،یکساں۔۔سادگی کا اک مرقع
چھاننے یا بیننے، آلودگی کو دور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے
یک نواخت۔۔۔اوّل سے آخر۔۔۔
روتے روتے سو بھی جائے، تو سرہانے دھیرے بولو
جاگ اٹھے گا تو پھر رونے لگے گا۔۔کون تھا وہ؟
ہاں وہی سادہ طبعیت میرؔ، جو اک چاند سا تھا
رہنے والا تھا اسی اجڑی ہوئی دِلّی کا جوپھر بس گئی ہے!
چاند جیسا حسنِ سادہ ۔۔۔سادگی یا سادہ وضعی کا نمونہ
مہر
شاعر ِ دربار۔۔۔خوش اسلوب، خوش گو
، مجلسی شائستگی ، رسمی، رواجی وضعداری
کیا نمود ِ علم، ادعائے فضیلت، کسر نفسی، خود نمائی
لفظ یا کلمہ، عبارت ۔۔۔
مستند، صرفی و نحوی ماقل و دل کا نمونہ
سطوت و شیوہ بیانی ، طمطراق و گرم جوشی
اور ہر اک لفظ میں ایجاز، فی الجملہ خلاصہ
توانائی، حذوبت، سطوت و زور ِ بیاں
تلخیص میں، دریا کو کوزے میں سمونا
پُر تکلف ۔۔۔ اور کچھ کچھ پُر تصنع ۔۔
کیا مجازِ مرسل ِ تمثیل !
وسعت میں بھی حشو و زائد و اطناب سے پرہیز
پھر بھی خوش وضعی، بداہت، شستہ و رفتہ تکلم
’’غالب ِ خستہ ‘‘ کہے تو ’’غالب ِ واہب‘‘ سمجھئے
مومن و کافر کا آخر اور کیا الحاق ہو
غالب ِ بے دین، تیرا اللہ حافظ!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply