سقراط کے شاگرد انٹستھینز نے حقیقت کو عقلی مشاہدے سے سمجھنے کی بجائے فرد کی اندرونی دنیا کے احساس کو ترجیح دی، اس فلسفے کے مطابق خیر کو پانے کا اصلی دروازہ خالصتاً اپنے نفس و فطرت پر زندگی گزارنا ہے، رول ماڈل کے طور پر انہوں نے کتے کو سامنے رکھا، یہیں سے اس فلسفے کا نام cynicism پڑا، اردو کے مہذب الفاظ میں اسے تارک لذات یا ترش رو کہیں گے۔ دنیا سے کنارہ کشی، نہانے دھونے جیسے بے کار مشاغل اور صفائی ستھرائی جیسی فضولیات سے اس فلسفے کے بانیوں کو خدا واسطے کا بیر تھا ۔
اس فلسفے کے معروف ترین علمبردار انٹستھینز کے شاگرد دیو جانس گزرے ہیں، ان کی اصل وجۂ شہرت وہ نعرۂ مستانہ ہے جو انہوں نے سکندر مقدونی کی پیشکش ، کہ وہ ان کی کیا خدمت کر سکتا ہے، پر لگایا کہ سامنے سے ہٹ جاؤ، سورج کی روشنی آنے دو۔ دنیا کی لذتوں ، سماج کی اقدار و دیگر رائج انسانی لوازمات سے دستبردار ہو کر کتوں جیسی زندگی گزارنے پر انہیں دیوجانس کلبی کے نام سے جانا جاتا ہے، دیوجانس کلبی سرعام مشت زنی کی مشق کرتے ہوئے فرماتے کہ کاش اسی طرح پیٹ پر ہاتھ پھیر کر معدے کی بھوک بھی مٹائی جا سکتی۔ دیو جانس کے ایک شاگرد فیوانسکی اس فلسفے کی گویا کہ عملی تصویر تھے، انتہائی بدصورت، بدبودار اور جسم پر برائے نام چیتھڑے اوڑھے رکھتے، لیکن ان کی فکر، خیالات، قوت گفتار انتہائی غیر معمولی تھیں، ایتھنز کے بڑے خاندان کی معروف اور مشتری شمائل حسینہ ان کے عشق میں مبتلا تھیں، ان سے شادی کی خواہش پر حسینہ کے گھر میں کہرام مچ گیا، سمجھانے بجھانے دھمکانے کی جب تمام کوششیں بے کار گئیں تو فیوانسکی سے درخواست کی گئی کہ وہ ہی انہیں راہ راست پر لاسکتے ہیں، فیوانسکی محل میں حاضر ہوئے، بہلانا اور پھسلانا جب کام نہ آیا تو فیوانسکی نے اپنے بھدے جسم سے آخری چیتھڑا اتار پھینکتے ہوئے کہا کہ ، یہ ہے میری حقیقت،
خاتون نے کہا۔۔ قبول ہے !
جنابِ مسیح کو سزا ان کے عقائد نہیں بلکہ سلطنتِ روما کی نافرمانی پر دی گئی، یہ اور بات کہ احکامِ سلطنت ان کے عقائد کے خلاف تھے، ان کے بعد عیسائیوں کے پاس تین راستے تھے، پہلا راستہ اپنے پیغمبر کی پیروی کرتے ہوئے موت کو گلے لگانے کا تھا، ایسے ٹھوس مومنین کی تعداد قلیل تھی اور انہوں نے اسی راستے کا انتخاب کیا، دوسرا گروہ مصلحت پسندی کا شکار ہوا، اپنے مذہب سے بغاوت کرتے ہوئے وہ سلطنت کے احکام کی پیروی بجا لائے اور سلطنت نے انہیں تحفظ فراہم کیا، تیسرا گروہ وہ جو قدرے کمزور ایمان رکھتے تھے، انہوں نے راہبانیت میں پناہ ڈھونڈی، رہبان کے دو ذیلی گروہ بنے، ایک نے انفرادی طور پر جنگل بیابانوں کی راہ لی اور دیوجانس کلبی کی فکر کے زیرِ اثر تارک لذات ٹھہرے، دوسرا ذیلی گروہ اجتماعی شکل میں اس طرح زندگی کی ڈگر پر چلا کہ کامل کی بجائے جزوی تارکیت کو ترجیح دی، اسی ذیلی گروہ نے آگے چل کر کلیسا کی بنیاد ڈالی، یہیں سے پادری اور راہبات سامنے آئیں، سیاہ لباس اور کلیسا کا پُراسرار ماحول جزوی راہبانیت کا اشارہ دیتے ہیں۔
اسلامی تصوف کی ابتداء آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں مصر، شام اور عراق کے علاقوں سے ہوئی، تب ان علاقوں میں عیسائی رہبان حکمت و الہیات کی علامت سمجھے جاتے تھے،اگرچہ وقت کے ساتھ تصوف نے فارس اور ہندوستان میں جڑ پکڑی، اس کی وجہ برصغیر اور فارس میں پہلے سے موجود مذاہب کا اثر تھا، لیکن ابتداء میں عیسائی رہبان ہی معاون رہے، جن کی بڑی تعداد یونانی ترش رو فلسفے کے زیرِ اثر تھی, مسلم صوفی مذکورہ بالا تمام گروہوں کی نسبت زیادہ باوقار اور الٰہیات میں غرق تھا، اس نے الہامی کلام کو محسوس کیا، خدا کی بڑائی بیان کی اور عقل و ادراک دونوں کے ساتھ انصاف کیا، ہمارے ہاں اس بات کو بھلا دیا گیا، ہر چیز اپنے مرکز کو لوٹتی ہے، کے محاورے مطابق آج کہیں ،سگ مدینہ اور غوث پاک کے کتے ہیں، جیسے نعرے سننے کو ملتے ہیں، افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے نعرے لگانے والے دیوجانس کلبی جیسی زندگی اور رویوں سے باغی ہیں، عیسائی انفرادی رہبانیت پر بھی قائم نہیں کہ اسلامی شعار اس کے حق میں نہیں، البتہ کسی حد تک اجتماعی عیسائی رہبانیت کا سایہ قائم ہے جس پر کچھ سنتوں جیسے، شادی، کاروبار وغیرہ کا رنگ چڑھا دیا گیا ہے۔
انٹستھینز کا بنیادی نکتہ لاشعور کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر شعور کو دھتکارنا تھا، کہ انہی گہرائیوں میں حقیقی خزانے پائے جاتے ہیں، عقل سے پرے کے جہان کی کھوج بنیادی مقصد تھا، لیکن ہمارے ہاں مصلحت پسند عیسائیوں کی طرح سماج و ریاست سے رشتہ استوار کیا گیا ، عقلی مشقت سے پرہیز تبھی ممکن ہے جب تن آسانی کی خواہش غالب نہ ہو، افسوس کہ یہ مختلف گروہ بیچ میں کہیں لٹک گئے ، اہل بصارت کے ہاں یہ مضحکہ خیز ہیں اور اہل بصیرت انہیں مردود گردانتے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں