ٹپڑی واس/خنساء سعید (مقابلہ افسانہ نگاری)

شمیم تم یہ غبارے بھرو، میں ذرا رفیق کے سٹور سے اور غبارے لاتا ہوں ۔”

مجھے لگ رہا جیسے آج غبارے کم ہیں۔“

یہ کہہ کر محمود غبارے لینے چلا گیا، سٹور سڑک کے دوسرے پار تھا، اُس نے سڑک پار کی تو ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ سڑک کے کنارے علی الصبح ہی آ بیٹھی تھی،اُس کے سامنے ایک بوسیدہ سے ٹاٹ پر ناڑے جو عموماً وہ ہاتھ سے بناتی تھی ،بچوں کے رومال اور ہاتھ سے ہی بنے ہوئے پنکھے رکھے ہوتے تھے۔

محمود آج بھی اُن حسرت و یاس بھری آنکھوں کی چبھن اپنے وجود پر محسوس کر رہا تھا، وہ آنکھیں ہر گزرنے والی گاڑی، موٹر سائیکل، بس، ٹرک کو ایسے ہی دیکھتی تھیں، مگر کسی کے پاس کہاں وقت تھا اُن سوکھے، پیلے لبوں پر ایک گلابی، پرکشش مسکراہٹ بکھیرنے کا،ہر کوئی ایک فراٹے سے گاڑی دوڑا کر اُن کے سامنے سے گزر جاتا، ویران آنکھیں   دور تک اُس گاڑی کا تعاقب کرتیں۔

محمود غبارے لے کر سٹور سے باہر نکلا تو اُس نے ایک لمحے کو کھڑے ہو کر دیکھا! کیسی نفسا  نفسی کا عالم ہے، ہر کسی کو اپنی پڑی ہے، ہر کوئی جلدی میں ہے۔

وہ گھر گیا اور غبارے بھر کر سائیکل کے ساتھ باندھے، اور روزگار کی تلاش میں نکل گیا۔محمود سارا دن گلی محلوں میں بچوں کو غبارے بیچتا، بچوں کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگتیں، مگر ایسی چمک محمود کو اُس سڑک کنارے منتظر آنکھوں میں دور تک کہیں نظر نہ  آتی۔ شام کو جب محمود گھر جانے کے لیے رفیق کے سٹور والا راستہ لیتا تو سامنے وہ اپنے بچوں کو لے کر بیٹھی ہوتی۔محمود آج فیصلہ کر کے آیا تھا۔

وہ جب اُن کے پاس سے گزرنے لگا تو دو غبارے اُس نے دونوں بچوں کے ہاتھوں میں تھمائے جیب میں سے 50 کا ایک نوٹ نکالا اور اُس بوسیدہ سے ٹاٹ پر رکھ دیا، جہاں ساری چیزیں ہنوز اپنے خریداروں کی منتظر تھیں، جن کو کسی نے بھی نہیں خریدا تھا۔

غبارے اور پیسے لے کر بچے چہکنے لگے اُن کے لبوں پر ایک سحر انگیز مسکراہٹ اُبھری محمود آنکھوں سے نکلتی اُن ضوفشاں کرنوں اور اُس جادوئی مسکراہٹ کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔

اور اب تو یہ اُس کا روزانہ کا معمول بن گیا تھا وہ گھر سے سائیکل پر غبارے باندھ کر نکلتا سارے غبارے بیچ کر دو غبارے بچا لیتا۔

واپسی پر رفیق کے سٹور کے سامنے بیٹھے بچوں کو غبارے دیتا اور ماں کے لیے ٹاٹ پر پیسے رکھ دیتا، اُس کے اس عمل کو رفیق اپنے سٹور پر بیٹھ کر بڑے انہماک سے دیکھتا۔

رات کو جب وہ تھکا ہارا کھلے آسمان کے نیچے چارپائی بچھا کر لیٹتا تو ستاروں بھرے آسمان میں اُسے ہر جھرمٹ بچوں کی شکل کا دکھائی دیتا۔

کیا سوچ رہے ہو محمود؟

برابر کی چارپائی پر لیٹی شمیم نے پوچھا۔

تم جانتی ہو شمیم “گرد و غبار سے اٹے، تھکان سے چور، دن بھر گلیوں محلوں میں   روٹی کے پیچھے بھاگنا، اُس کے بعد گھر لوٹ کر نہا دھو کر بستر پر آرام کرنا بہت فرحت بخش لمحہ ہوتا ہے ۔بستر کسی بادشاہ کا ہو یا کسی مزدور کا تھکان میں بڑا ہی آرام دہ محسوس ہوتا ہے، بغیر گدے روئی اور چادر کے، بان کی ننگی چارپائی بھی محنت کش کو مخملیں فرش محسوس ہوتی ہے۔

اس پر اگر آپ کا چھوٹا سا عمل کسی کے مسکرانے کا سبب بنے ،تو پتہ ہے کیا محسوس ہوتا ہے؟

یوں لگتا ہے جیسے بنجر ویران سرزمین میں اچانک بہار آ گئی ہو ،رنگ برنگے پھولوں پر ست رنگی تتلیاں اُڑ رہی ہوں، جیسے یہ دنیا کوئی سکون کا رنگ محل ہو۔”

یہ کہہ کر اُس نے اپنا منہ شمیم کی طرف کیا تو وہ سو چکی تھی ۔ اُس کو سوتا دیکھ محمود ہلکا سا مسکرا کر کہنے لگا!

ہمیشہ ایسا ہی کرتی ہو تم میری باتیں تمہیں سلا دیتی ہیں شمیم۔

اگلے دن اُس نے معمول کے مطابق غبارے سائیکل کے ساتھ باندھے اور زمین پر اپنے حصے کا رزق تلاشنے نکل پڑا،آج بھی وہ ہر گلی ہر محلے میں آوازیں لگا رہا تھا، مگر آج شاید بچے کہیں مصروف ہو گئے تھے یا بچوں کے پاس آج پیسے نہیں تھے، اُس کے غبارے آج نہیں بِکے  تھے مگر وہ پریشان نہیں تھا اُس کے بچے تو تھے نہیں بس اُس کی زندگی میں اُس کی بیوی شمیم ہی تھی،مگر ایک بات سوچ کر وہ اداس ہونے لگا کہ آج وہ ٹاٹ پر پیسے نہیں رکھ پائے گا، اسی سوچ میں وہ رفیق کے سٹور کی جانب سست رفتار چل رہا تھا کہ سٹور سے تھوڑے فاصلے پر ایک تیز رفتار ٹرک محمود پر چڑھ دوڑا، اُس کی سائیکل اُس سے دور جا گری ،سائیکل کے ساتھ باندھے گئے غبارے کھل کر زمین سے اونچے آسمان کی طرف آکاس بیل کی طرح دھیرے دھیرے بلند ہونے لگے،محمود نے رنگ برنگے غباروں کو آسمان کی طرف اڑتے دیکھا مگر وہاں غبارے اکیلے نہیں تھے محمود کی روح بھی اُن غباروں کے سنگ پرواز کر رہی تھی اُس کے ذہن میں شمیم، بچوں کے مسکراتے لب، چمکتی آنکھیں گڈمڈ ہونے لگی اور پھر،بچوں کا وہ مسیحا چلا گیا۔

لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہونے لگا ،کوئی کہتا ایمبولینس کو بلاؤ، تو کوئی ٹرک والے کو پکڑنے کا کہنے لگا، کوئی جائے حادثہ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنے لگا تو کوئی محمود کے خون میں لت پت پڑے وجود کی تصویریں بنانے لگا، اتنے میں رفیق دوڑتا ہوا اپنے سٹور سے نکلا وہ دور سے ہی محمود کی سائیکل دیکھ چکا تھا۔

محمود کے بے جان پڑے وجود کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا جو وہ ہر روز اپنے سٹور پر بیٹھ کر دیکھتا تھا۔

کہنے لگا۔

محمود ہائے! جنتی روح جنت کی طرف پرواز کر گئی، اس پر ہجوم میں کھڑا ایک متشدد نوجوان بولا۔۔

کون سی جنتی روح رفیق چاچا؟؟

تجھے پتہ بھی ہے یہ کون ہے؟ یہ جھگیوں میں رہنے والا ایک چنگڑ ہے ،ایک ٹپڑی واس اور ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

Advertisements
julia rana solicitors london

اس پر سارا ہجوم اُس جذباتی، شدت پسند نوجوان کو ملامت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply