ایک اخبار والا/مطیع اللہ

کیلنڈر کا آخری ڈبہ جس پر بڑے بڑے الفاظ میں 31 دسمبر لکھا نظر آرہا تھا اب یہ کیلنڈر ایک خزاں رسیدہ  درخت کی مانند تھا ۔اس کی شاخوں کا ہر پتہ  گر کر زمیں بوس ہورہا تھا اور جیسا کہ یہ درخت سوکھ رہا ہو ایسے قہقہے کا شور بلند ہوا جس میں ان توپوں کی آواز تھی ،  نئے سال کی خوشی میں  چل رہی تھی جب تک ان گولیوں کا شور جاری رہا اس کے سوکھے ہوئے حلق سے قہقہے خشک آتش لاوے کی طرح نکلتے رہے مگر وہ بے حد خوش تھا ۔

وہ خالی اور بےفائدہ کیلنڈر اس کی   عجیب و غریب حرکت کی تصدیق کرتا رہا ،ہر چیز پر ایک وقت آتا ہے مگر وہ وقت کبھی کبھی تو چلا جاتا ہے اسی طرح کبھی اس کیلنڈر پر اچھا وقت تھا مگر اب زوال پذیر تھا اب اگلا سال شروع ہوچکا تھا یہ نئے سال کا آغاز تھا آج سے کچھ عرصہ قبل جب میں مصیبتوں کو کندھے پر رکھ کر روٹی کی خاطر ہاکر بن کر  نکلا تو لوگوں نے اچھا سلوک نہ کیا مگر میں نے ان کی بے فائدےوبےمقصود باتیں جو میرے لیے کچھ نہ تھی ان کا کوئی اچھا اثر ثابت نہ ہو سکا تھا جب مجھے پیسوں کی ضرورت پیش آئی تھی تو میں اپنے شہر کے بڑی دھن والے لوگوں کے پاس جاتا تھا مگر بھیک قتعاً نہ مانگتا تھا میں ان کے راز ان ہی کے پاس بیچ دیا کرتا تھا حکومت کی کتابوں میں میرے نام کے ساتھ ہیلتھ آفیسر لکھا ہوتا تھا لیکن میری اپنی کتابوں میں میرا نام امراض فروش کی فہرست میں آتا تھا مجھے زیادہ تر آگے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ میرا سودا کم گفتگو میں ہی ہوجاتا تھا کیونکہ میں ایک بازاری سستے اور معمولی سے اخبار کا ایڈیٹر تھا جس کی قیمت ۱۰۰روپے سے زیادہ نہ تھی میں اخبار اس لیے نئیں بیچتا تھا کہ میں مشہور ہوجاؤں نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں نگا دیا کرتا تھا جو کئے برسوں سے میرے دل و دماغ میں گھوم رہی تھی میں چاہتا تھا کہ ایک ایسا مقام حاصل کیا جائے جہاں کوئی تنگ کرنے والا نہ ہو اور میں اطمینان سے زندگی بسر کرنے لگوںوہ یہ چاہتا تھا کہ کاش وہ ایک ایسی جگہ زندگی بسر کرے جہاں کوئی اسے تنگ کرنے والا نہ ہو وہ اپنے خوابوں کی تعبیر پاسکے اس لیے وہ اپنی دل و جان سے محنت کرتا تھا بلکہ زیادہ کا ہونے کہ صورت میں وہ رات کو بھی اپنے کام میں ہی مشغول رہا کرتا تھا وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے بہت محنت کرتا تھا وہ اپنے کام کو دل لگی محنت اور اچھے طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کرتا تھا وہ غربت سے نکل کر اچھے طریقے سے زندگی بسر کرنا چاہتا تھا وہ صبح سویرے ہی اٹھ کر کام کی طرف چلا جاتا تھا وہ دفتر میں کچھ وقت پہلے ہی جانے کی کوشش کرتا تھا کیونکہ وہ اتنا غریب تھا اس کے پاس کوئی بائیک یا سائیکل نہ تھی وہ وہاں خوب اچھے طریقے سے کام سر انجام دیتا تھا وہ شدید گرمی میں تمام شہر مجں پیدل چل کر اخیار بیچتا تھا اور چند سکے حاصل کرنے کیلیے سارا دن ایسے ہی گزر جاتا تھا وہ روزانہ پیدل ہی اخباد فرخت کرتا اور گھر کا چولہا جلاتا تھا کیونکہ وہ گھر مجں کمانے والا ایک ہی تھا لیکن اسے اپنے کام سے بہت محبت تھی وہ کبھی کبار تو رات کے آخری پہرتک بھی کام کرتا رہتا تھا اس نے کچھ پیسے کمائے اور کچھ پیسے اپنے شہر کے امیر تمیر آدمی چودھری شجاعت سے لینے گیا اسے پیسے تو مل گئے مگر بڑی مشکل سے اور وہ پیسے اب ۳ماہ کے اندر واپس بھی کرنے تھے اب اس کا دل یہ چاہتا تھا کہ وہ ایک سائیکل موٹر ہی کیونہ خریدے وہ صبح سویرے ہی شہر کی باییک ورکشاپ میں گیا اور ایک بائیک خریدی مگر چلانے کا پتا ہی نہ تھا مشکل سے گرگر کر اس نے دو چار دنوں میں بائیک چلانا سیکھ لیا اب وہ اگلے دن کام پر گیا اس نے کم وقت میں زیادہ اخبار بیچ لیے اور معقول نفہ بھی حاصل کیا اب تو وہ بہت خوش تھا اور بار بار اللّٰہ کا شکر ادا کرتا تھا
اب دو ماہ گزر گئے اور پیسے بھی واپس کرنے تھے اس نے پیسوں کا مشکل سگ انتظام کیا اور اس چودھری کو پیسے واپس کردیے وہ حیران تھا کہ اس نے اتنی جلدی میں اتنے پیسے کہا سے لیے تھے۔۔۔
وہ اب سارا دن اخبار بیچتا اور شام کو واپس گھر آجاتا تھا اسے پیٹ پالنے کیلئے کیا کچھ نہ کرنا پڑا تھا اس کا اخبار چینل دن بہ دن بہت بلندیوں کو چھورہا تھا اس کو اس بات سے زیادہ خوشی نہ تھی کیونکہ وہ تو اپنی اصل منزل پانے کے چکر میں یہ سب وقتی طور پر کررہا تھا وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چاہتا تھا اور ایک اچھے سے سکول میں داخل کروادیا ۔۔
وہ کام سے شام کو واپس گھر آجاتا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ کب اس کے وہ خواب پورے ہوں گے اس کے اخبار پڑھنے والوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوریا تھا اور ترقی کررہا تھا اب اس کو اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت تھی تاکہ منزل تک پہنچ سکے۔۔۔۔۔
اس نے اپنی رقم برے کاموں میں نہ لگائی کیونکہ وہ اپنے معاشرے کا ایک شریف آدمی تھا وہ پیسوں کو اکھٹا کرکے منزل تک پہنچنے کی طلب میں تھا
آخر کار اب دوسال بعد اس کا یہ شوق پورا ہوا اور اپنی منزل تک پنہچ گیا تھا اس نے سب لوگوں سے اچھا منفرد اور بڑا اعلٰی شان گھر بنایا اور اب اس نہ سمجھا کہ اس کی منزم اس کے قدموں میں آگئی ہے وہ اس روز بہت خوش تھا کیونکہ اس کو حقارت اور بری نظروں سے دیکھنے والا کا سر ہمیشہ کیلئے جھک گیا تھا ۔۔۔۔
اب یہ اس سال ۲۰۲۲کا آخری دن تھا اس نے کیلنڈر کی طرف دیکھا اس کو ایک بڑے اور آخری ڈبے میں ۳۱دسمبر لکھا نظر آیا ۔
سبق’ یہ ہمارے لیے ایک افسانہ ہی نہیں ہے اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ منزل لانے تک کوشش میں لگے رہنا چاہیے آخرکار انسان منزل تک پہنچ جاتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply