بوڑھا فنکار /خنساء سعید

وہ پاؤں گھسیٹتا ہوا ہسپتال کے اندر داخل ہوا تو پرچی لینے والوں کی لمبی لائن دیکھ کر گھبرا گیا ،اُس کی کانپتی ہوئی نحیف و ناتواں ٹانگیں مزید کانپنے لگیں ۔مگر وہ ہمت کر کے لائن میں لگ گیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ۔اس دوران اُس کو دمے کا اٹیک ہوا تو اُس نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے جیب سے انہیلر نکالا اور اپنا سانس بحال کرنے لگا ۔یہ دیکھ کر لائن میں لگے ایک نوجوان نے اُسے کرسی پر بٹھایا اور خود اُس کے حصے کی پر چی لینے لگا ۔پرچی لے کر  نو جوان اُسے  ڈاکٹر کے کمرے کے باہر بٹھا آیا ۔وہ باہر بیٹھ کر مسلسل کھانستا رہا اُس کے جسم کا ایک ایک حصہ دُکھ رہا تھا اور سانس اُکھڑ رہا تھا ۔
٭٭٭٭٭٭
سعادت کمال اپنے ایک شعر پر سینکڑوں قارئین کی داد وصول کرتا، کہانیاں لکھتا تو قارئین کو اُس کی کہانیوں کے کردار یوں معلوم ہوتے جیسے اُن کے آس پڑوس میں رہتے ہوں، وہ بہترین نثر نگار، ایک اعلیٰ پائے کا شاعر بن کر لوگوں کے دِلوں پر راج کرتا رہا ، داد وصول کرتا  رہا۔سوشل میڈیا پر اپنا ایک شعر ،ایک کہانی لکھ کر لگاتا تو لوگ ایسے پیار نچھاور کرتے جیسے موجودہ صدی میں اس سے بہتر تخلیق کار پیدا ہی نہ ہوا ہو۔
اور وہ ایک بہترین تخلیق کار ہی تو تھا جو زندگی کی تمام تر چیرہ دستیوں کا بڑی بہادری سے مقابلہ کرتا، مشکلوں پر ثابت قدم رہتا، لڑکھڑانا تو اُس کے لیے شجر ممنوعہ تھا، زندگی کی تمام تر مصیبتوں، آزمائشوں، مشکلوں کے باوجود وہ صفحہ قرطاس پر اپنے عمدہ اور نادر خیالات بکھیرتا اور قاری کو اپنے لفظوں کے سحر میں گرفتار کر لیتا۔

پھر یوں ہوا کہ کہ عمر رفتگاں گزرتے پتہ ہی نہ  چلا، اُس کی حساس طبیعت نے اُسے بہت جلد بوڑھا کر دیا، اب لکھتے ہوئے اُس کے ہاتھ کپکپانے لگتے، عمر کے اس حصے میں ایک تو اُسے اب کوئی آمد ہی نہ  ہوتی اور اگر کوئی خیال ذہن میں آ بھی جاتا تو جب تک وہ اُسے رقم کرتا آدھا خیال بھول چکا ہوتا،اُسے لگتا وہ اپنے قلم سے لاکھوں تخلیقات ادب کے نام کر چکا ہے اب نیا کچھ بھی تخلیق نہیں کر پائے گا۔ اُس کے فن پارے دنیا بھر میں مختلف کتابوں، رسالوں، سوشل میڈیا پر چھپ چکے تھے لوگ سالوں سے اُس کے فن پارے پڑھتے آ رہے تھے، ہزاروں ایوارڈ وہ اپنے نام کر چکا تھا،مگر اب وہ وقت گزر چکا تھا، اب وہ بالکل اکیلا اپنے ایک خستہ حال سے گھر میں رہتا ، اُس کی بیوی اُس کی کم مائیگی کی وجہ سے اُسے پہلے ہی چھوڑ کر جاچکی تھی ،کسمپرسی کی اس زندگی میں اُس کا تو کوئی بھی پرسانِ حال نہیں تھا،اُس نے اپنا گزر اوقات کرنے کے لیے اپنے سارے میڈل سارے ایوارڈ بیچ ڈالے تھے۔

اس کی شہرت نے اُسے کچھ نہیں دیا تھا ،چولہا تو آج بھی اُس کے گھر کا بند تھا، پیٹ میں آج بھی بھوک دھرنا دئیے بیٹھی تھی۔
یہ قدرت کا وہ ہی شاہکار تھا کہ جس کے قارئین دنیا بھر میں پھیلے ہو ئے تھے ۔ مگر آج کہاں تھے وہ سب لوگ؟؟

آج وہ دھکے کھاتا ،اپنا نحیف و ناتواں وجود لے کر شہر کے سرکاری ہسپتال میں دوائی لینے پہنچ ہی گیا تھا ۔ڈاکٹر نے جب باہر کسی مریض کو مسلسل کھانستے سنا تو خو داُٹھ کر باہر اُسے دیکھنے آ گئی ، باہر کرسی پر ایک نڈھال سے بوڑھے وجود کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی ،دوڑتی ہوئی اُس کے پاس آئی اور زمین پر بیٹھ کر اُس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بولنے لگی ۔

سعادت کمال صاحب آپ ۔۔
آپ یہاں ،اس حالت میں ،کیا آپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے ؟
“نہیں بیٹی میرے ساتھ کوئی نہیں ہے”
مگر تم کون ہو بیٹی، اس نے لرزتی ہو ئی آواز میں پوچھا ؟

میں ایک قاری ہوں، آپ کی کہانیاں پڑھتی ہوں، آپ کی شاعری سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔ آپ کو پتہ ہے سر! آپ کی کہانیوں نے مجھے جینا سکھایا ہے آپ کے کرداروں کو میں نے ہمیشہ اپنے آس پاس پایا ہے،میں نے آپ کی تحریروں سے سیکھا کہ میں بھی معاشرے کی اصلاح کا کام سر انجام دے سکتی ہوں معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے میں بھی اپنی آواز بلند کر سکتی ہوں
وہ اُسے اپنے جذبات بتاتی رہی ،اور اُسے لگا جیسے اُس کی کھانستی نسوں میں زندگی واپس آ رہی ہے ۔آپ کی یہ حالت دیکھ کر میرا دل دُکھ رہا ہے سر!آپ نے ادب کی خدمت کرتے کرتے اپنی ساری زندگی گزار دی ۔ آج آپ کا کوئی بھی پرستار آپ کے ساتھ نہیں ہے مگر اب میں آپ کو اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑوں گی ۔
یہ کہہ کر وہ بڑی محبت اور شفقت سے اُس بوڑھے، ناتواں، ذہین و فطین تخلیق کار،فن کار کو سہارا دے کر اُٹھانے لگی۔
چلیں سعادت کمال صاحب! میں آپ کو اپنے ساتھ لے چلتی ہوں، آپ اب میرے ساتھ رہیں گے ، میں آپ کی خدمت کروں گی۔

اور وہ دم بخود ہو کر اُس کے ساتھ چلنے لگا، اُس نے اُس بوڑھے ،بیمار وجود کا معائنہ کیا میڈیکل سٹور سے دوائیاں لیں اور اُسے اپنی چمکتی ہوئی لمبی سی  گاڑی میں بٹھا کر گاڑی گھر کی جانب موڑ دی ۔

گاڑی میں بیٹھ کر سعادت کمال نے تشکر بھری نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور کہنے لگا! پروردگار یہ لڑکی میری کسی کہانی کا ایک نیک اور عظیم کردار لگ رہی ہے ایسا بھی ہوتا ہے؟ میں نے سوچا نہ  تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری طرف بالکل اُس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھی وہ سوچتی رہی کہ کتنے ہی ایسے تخلیق کار ہیں فنکار ہیں جو ادب کا اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کرتے ہیں مگر بڑھاپے میں اُن کو مرنے کے لئے بالکل تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔
آخر ہم لوگوں کی نظر میں فن کی کوئی قدر قیمت کیوں نہیں؟
یہ سوال اُس کی ایک ٹھنڈی آہ کے ساتھ فضا میں معلق ہو گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply