یک سنگھے- ہاروکی مورا کامی/تبصرہ:ربیعہ سلیم مرزا

جو ہم سوچتے ہیں،یا لکھتے ہیں، وہ انہی خیالوں کی کاپی پیسٹنگ ہے جو اس سے پہلے سوچے جاچکے ہیں ۔
المیے اور خوشیاں ہر خطے کے سماجی رحجان کی وجہ سے مختلف تو ہو سکتے ہیں،مگر لکھنے والوں کے احساسات اور نقطہ نظر ہمیشہ ایک سا ہوتا ہے ۔اسلوب کچھ بھی ہو بڑے مصنف ہمیشہ واقعات کے انسان پر اثرات پہ بات کرتے ہیں ۔سماجی ،سیاسی اور جغرافیائی محرکات ادب کی راہوں کا تعین کرتے ہیں ۔

میری طرح آپ سب کو کہانیاں اچھی لگتی ہیں ۔رویوں اور روایتوں سے رچی بسی ان کہانیوں سے سیکھنے کو ملتا ہے ۔واقعات کے تناظر میں حالات کو سمجھنے کی صلاحیت بڑھتی ہے ۔

“یک سنگھے “کے افسانوں میں محبت اور معاشرت کو رویوں میں گوندھا گیا ہے ۔جب بونا کہتا ہے “میرا تعلق شمال سے ہے، وہاں کسی کو ناچنا نہیں آتا، وہاں کوئی رقص نہیں کرتا، حالانکہ وہ ناچ سکتے ہیں۔نہیں ناچتے۔۔ میں  ناچنا چاہتا تھا، اپنے پیر زور سے زمین پہ مار کے، بازو لہرا کے، سرکو جھٹک کر گھومنا چاہتا تھا، ایسے ۔۔”
تب میں کتاب رکھ دیتی ہوں، سوچتی ہوں، میں تو شمال سے دور جنوب میں رہتی ہوں ۔میں بھی تو ناچنا چاہتی ہوں ۔
“لوگ کیا کہیں گے، بچے کیا سوچیں گے “؟

پھر میں نے اس کتاب سے کیا سیکھا، کتابوں سے تو حالات کا ادراک ہوتا ہے ۔سوچنے کی صلاحیت بڑھتی ہے ۔یہاں تو بیٹھے بیٹھے اگر میں ذہن میں گونجتے کسی گانے کی دھن پہ ٹانگ ہلاؤں تو پاس بیٹھا کوئی بھی ٹوک دیتا ہے “ٹانگ ہلانا نحوست ہوتی ہے ۔”

معاشرتی رویوں میں اتری سرد مہری فنون لطیفہ کی عدم موجودگی ہے ۔عدم برداشت کا، سبب بھوک ہے ۔اور بھوک سب سے بڑی نحوست ہے ۔اسی کتاب میں “ہاروکی موراکامی “اپنے افسانے “بیکری پہ دھاوا”میں لکھتے ہیں ۔
“صرف ہمارے پیٹ خالی نہیں تھے، دراصل ہم بھوک سے مررہے تھے، ایسے لگتا تھا جیسے ہم نے خلا کا سارا خالی پن نگل لیا ہو، شروع میں یہ خالی پن ڈونٹ کے سوراخ جتنا چھوٹا تھا، جیسے جیسے دن ڈھلتا گیا، یہ وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں بے وجہ کی محرومیاں شروع ہوتی ہیں، بھوک سے معدوں کی گڑگڑاہٹ مندرکی گھنٹیوں جیسی سنائی دیتی ہے ۔”

میں کتاب رکھ دینا چاہتی ہوں ۔مجھے ٹوکیو میں بیٹھے ہاروکی مورا کامی کے بیتے معاشرے کی بھوک، اور تکلیف کو گوجرانوالہ میں کاپی پیسٹ نہیں کرنا ۔
المیے اور خوشیاں ہر خطے کے سماجی رحجان کی وجہ سے مختلف تو ہو سکتے ہیں ۔مگر لکھنے والوں کے احساسات اور نقطہ نظر ہمیشہ ایک سا ہوتا ہےوہ سارے افسانے جو وہاں بیت چکے ہیں ۔ہم پہ بیت رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قیصر نذیر خاور نے ترجمہ کرکے وہ ساری آگہی ہمیں سونپ دی ۔۔۔کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ثابت ہاتھی ہر روز تحلیل ہوجاتا ہے اور کوئی نہیں سوچتا ۔ہم اندر باہر سے بے حس ہوچکے ہیں ۔۔لیکن میں رقص کرنا چاہتی ہوں۔”مگر پنجاب میں عورتیں ناچتی نہیں ہیں۔ “

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply