بوسنیا کی یہودی عبادت گاہ/ڈاکٹر حفیظ الحسن

“یہ لو ٹوپی۔ یہودیوں کی عبادت گاہ یعنی سیناگاگ میں جانے سے پہلے سر ڈھانپنا ضروری ہے۔”
یہ کہہ کر اُس نے مجھے ٹوپی پکڑائی۔
“نکالو 5 بوسنین مارک؟”
پانچ؟
“ہاں اس ٹوپی کی قیمت پانچ مارک ہے اور سیناگاگ دیکھنے کی فیس 10 مارک۔ تو نکالو 15 مارک۔ ”
میں نے اُس یہودی راہِب کو 15 مارک دیے اور وہ مجھے سیناگاگ کے اندر لے گیا۔
“آج جمعہ ہے۔ جب سورج ڈھلے گا تو شبات شروع ہو جائے گا اور ہفتے کی شام تک ہو گا۔ یہاں یہودی عبادت کے لئے آئیں گے۔ ”
یہاں؟
“ہاں ادھر ہی۔وہ یہاں نہا کر، خوشبو لگا کر، اچھے کپڑے پہن کر آئیں گے۔ تورات پڑھی جائے  گی، گناہوں کی معافی مانگی جائی گی۔ کوئی یہودی باقی دنوں میں عبادت کرے نہ کرے شبات میں ضرور کرتا ہے۔ ”
ارے یہ تو ہمارے اسلام میں بھی ہوتا ہے۔ جمعے کے دن۔
“تم مسلمان ہو؟ ”
ہاں۔ میں بولا۔
“کہاں سے آئے ہو؟”
پاکستان سے۔
“اچھا وہ تو مسلمان ملک ہے ۔”
ہاں وہاں پر ہر جمعہ نماز کے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ وہ ںھی یہی کرتے ہیں جو تم کل ہفتے کے روز کرو گے۔
میں مسکرایا۔
تم لوگ عبادت کیسے کرتے ہو؟
میں نے پوچھا۔
“کھڑے ہو کر اسے ہم شِمونے ِاسرے کہتے ہیں۔ عام دنوں میں تین بار، شبات پر چار بار۔ ”
اوہ۔۔ دلچسپ۔ اور تم بھی کیا حلال کھاتے ہو؟ میں نے استفسار کیا۔
“نہیں ہم حلال نہیں کھاتے، ہمارے ہاں اسے کوشر کہتے ہیں۔ اسکی حلال سے بھی زیادہ کڑی شرائط ہوتی ہیں۔”
اچھا یہ بتاؤ، یہ عبادت گاہ، غیر یہودی کو دکھانے کے پیسے کیوں لئے؟
“کیونکہ یہودی تو عبادت گاہ کے لئے پیسے دیتے ہیں۔ ہماری کمیونٹی چھوٹی ہے۔ عبادت گاہ کی دیکھ بھال کے لئے یہ پیسہ ضروری ہے۔”
صحیح۔
یہ ٹوپی رکھ لوں؟ میں نے پوچھا۔
” نہیں ، سیناگاگ سے نکلنے سے پہلے یہ واپس کرنی ہوگی۔ ”
مگر میں نے تو پیسے دیے تھے۔
میں نے احتجاج کیا۔
“وہ تو کرایہ تھا۔ ہا ہا ہا۔ جب کوئی دوسرا سیاح آئے گا اُسے پہناؤں گا۔ ”
سنو!
“ہاں”
بوسنیا میں یہودی اور یہودیوں کی عبادت گاہ۔ یہ تو مسلم اکثریت ملک ہے۔
اُس نے مجھے غور سے دیکھا اور بولا:
“ہاں ہے تو مگر ہم بوسنیا کے یہودی ہیں۔ تو کیا ہم کہیں اور جا کر عبادت کریں۔ کیا تمہارے ہاں کسی غیرمسلم کی کوئی عبادت گاہ نہیں؟۔”
نہیں نہیں میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ یہاں کیسے آئے؟
اُس نے مجھے گھورا اور بولا:
“پندھوریں صدی میں جب سپین میں عیسائیوں نے دوبارہ حکومت حاصل کی تو اُنہوں نے یہودیوں کو نکال باہر کیا۔اُس وقت بوسنیا ترک خلافتِ عثمانیہ کے قبضے میں تھا۔ اُنہوں نے یہودیوں کو یہاں قبول کیا اور پناہ دی۔”
اچھا۔ بوسنیا میں اس وقت کتنے یہودی ہونگے؟ میں نے پوچھا۔
“لگ بھگ تین سو۔”
اوہ اتنے کم؟
“یہاں دوسری جنگ کے خاتمے تک بائس ہزار یہودی آباد تھے۔
ہم اشکنازی یہودی ہیں یعنی وہ یہودی جو جرمن علاقوں سے آئے”
مگر ابھی تو تم نے کہا کہ سپین سے آئے۔
“وہ یہودی سیفاردک یہودی کہلاتے ہیں جو سپین کے علاقوں سے آئے۔ اُنکا سیناگاگ وہ سامنے ہے۔ ”
دلچسپ۔
” اور کچھ پوچھنا ہے۔ ”
نہیں بس ایک تصویر کھینچ  دو۔
“موبائل؟ ”
ہاں یہ لو۔
میں نے کہا
“ٹھیک ہے، یہاں درمیان میں ٹھہر جاؤ۔” کلک کلک۔۔
شکریہ۔
“کوئی بات نہیں”
میں بوسنیا کے دارلحکومت سارایوو کے سیناگاگ سے نکلا تو سورج ڈھلنے والا تھا۔ شبات کا وقت شروع ہونے والا تھا۔ ٹوپی میرے سر پر ہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply