ہوٹل کے کمرے سے نکلے تو باہر شٹل تیار کھڑی تھی ، شٹل سے مراد وہ بس سروس ہے کہ جو ہوٹل سے زائرین کو لے کر حرم جاتی ہے ۔ ووکو ہوٹل کی یہ سروس بلا شبہ شان دار← مزید پڑھیے
‘‘ایسا تو ہوتا ہے۔ معاشی انقلاب جب کسی معاشرے میں جگہ بنائیں تو پہلی زد اقدار پر پڑتی ہے۔ یہ فطری امر ہے۔ اس سے فرار نہیں۔’’ راحیل میرے ساتھ ہی پرانا محل دیکھنے چل پڑی۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر← مزید پڑھیے
سات آٹھ سیڑھیاں اترنے میں میں نے خاصی دیر لگائی تھی۔ پوڈے کافی اونچے اور چھوٹے سے زینے کی ترتیب تقریباً سیدھی تھی۔ گر پڑنے کا خطرہ تھا۔ فوراً بعد ایک چھوٹا سا کمرہ دیکھنے میں آیا۔ اس سے آگے← مزید پڑھیے
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی۔۔ گاڑی تیزی سے اپنی منزل کو بڑھتی جا رہی تھی ، دائیں بائیں دونوں طرف سبزے کی بہار تھی ، ایسا ہمیشہ سے نہیں کہ یہاں پہاڑوں پر سبزہ آ جائے بلکہ جدہ← مزید پڑھیے
باری دوآب کے سب سے بڑے شہر لاہور کو اُس کی وسعت اور کثرتِ آبادی کی وجہ سے بینظیر کہا جا سکتا ہے۔ لاہور کا ایک علاقہ ہے جہاں کسی زمانے میں مغل شہزادوں کی پُر تعیش رہائش گاہیں واقع← مزید پڑھیے
ہم صدر بازار سے گزر رہے تھے جہاں ریستوران اور ہوٹل تھے۔ ڈور کھن کے بعد گنش جا کر گاڑی رک گئی۔ میں اتر کر یادگار دیکھنے لگی۔ اب کریم آباد جانے کا مسئلہ تھا جو راستے میں ہی حل← مزید پڑھیے
ہوٹل کی کھڑکی سے ہمیں مسجد نبوی کے منور دمکتے ہوئے مینار دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نہائے، شلواریں قمیصیں پہنیں اور پوچھتے پچھاتے مسجد نبوی کے ایک دروازے سے کچھ دور پہنچ گئے۔ مسجد نبوی ہوٹل سے تقریبا” نصف← مزید پڑھیے
ایک شور مچا تھا۔ رخصتی کا سمے آن پہنچا تھا۔ مان روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اندر باہر کے چکر کاٹ رہی تھی۔ باہر سازندوں نے ‘‘چلاہو’’ کی دردناک دھنیں چھیڑ دی تھیں۔ میری چچیوں’ پھوپھی اور دیگر رشتہ دار← مزید پڑھیے
یامین نے دس ہزار کے نوٹوں کی گڈی بابو کی گود میں ڈال دی یہ کہتے ہوئے: ‘‘ہمارا مذہب اگر شراب پینے کو حرام کہتا ہے تو اسے بنانے اور بیچنے کے عمل کو کیسے پسند کر سکتا ہے’’؟ بابو← مزید پڑھیے
گزشتہ اقساط کا لنک میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) یُورمس اگر شنا زبان کے نامور شاعر رحمت جان ملنگ کی محبوبہ تھی تو تاجور خان میرا محبوب تھا۔ یورمس کا چہرہ چاند کی کرنوں جیسا تھا تو تاجور خان کی پیشانی← مزید پڑھیے
ہوٹل کیا تھا بقول جمشید صافی کے سیاہ رنگ کا “تیورما” یعنی قید خانہ تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے ماڈرن دکھائی دینے والا ایک عرب نوجوان تھا۔ رشیت حضرت سے اس نے عربی میں کچھ کہا جس کا مطلب یہ تھا← مزید پڑھیے
سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکو کو اشتراکیت نواز افراد کا مکہ کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ مکہ کا لوگوں کے لیے مکہ ہونا تھا کیونکہ کم علم مسلمانوں کا جم غفیر مکہ کی تعظیم کو تقدیس کا چولا پہنانے← مزید پڑھیے
گزشتہ اقساط کا لنک سفرنامہ”گلگت و ہنزہ” برآمدے میں ایک سرخ و سفید باریش معمر مرد چارپائی پر بیٹھا تھا۔ صاحب خانہ اس سے باتوں میں مصروف تھے۔ سبز اوڑھنی والی دوشیزہ پر چھائیوں کی طرح انگنائی اور برآمدے میں← مزید پڑھیے
صبح نماز کے لئے آنکھ کھلی تو مجھے یوں لگا جیسے رات سوتے میں کسی منچلی نارنے میرے پپوٹے اٹھا کر شرارت سے ان میں روڑ بھر دئیے ہوں۔ ملکہ جوار خاتون جب رات کے ڈھائی بجے ہماری دنیا سے← مزید پڑھیے
آپ کی کوئی بہن بھی ہے؟ شہزادی نے آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ اس کی سبز بلوری آنکھوں سے تیز وحشیانہ چمک شہزادے کی جانب یوں لپکی تھی جیسے گھپُ اندھیرے میں آسمانی بجلی کا لشکارے مارتا کوندا کسی راہ گیر پر← مزید پڑھیے
اگر میٹر کا پیمانہ انسانوں کا ہے، تو جسامت میں ہم کواسارز کی بہ نسبت کوارکس کے زیادہ قریب ہیں۔ اگر سیکنڈ کو انسانی زندگیوں کی ہارٹ بیٹ شمار کرلیں، تو پھر ہم ایلیمنٹری پارٹیکلز کی پوری زندگی کے مقابلے← مزید پڑھیے
حیدر آباد جیسے شہر میں مجھے بہت سے مقبرے اور سندھی ثقافت سے مزین عجائب گھر تو ملیں گے ہی لیکن ساتھ میں ایک منفرد طرزِ تعمیر کا حامل ایسا گھر بھی دیکھنے کو ملے گا یہ میں نے نہیں← مزید پڑھیے
ایسا ہوتا ہے کبھی کبھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ سالوں قرنوں کی گزری پر چھائیں اپنے کچھاروں سے نکل کر رواں دواں ساعتوں کے سینوں سے آچمٹتی ہیں۔ وقت کے بہتے ہوئے پانیوں کی گم شدہ لہریں پھر سے مخالف← مزید پڑھیے
‘‘پاتھی گورس’’ نے اگر کر سٹوفر کو لمبس کے دل میں دنیا کی حقیقتیں جاننے کی لگن پید اکی تھی تو میرے بچپن کے وہ دن بھی ‘‘گورس’’ کی کتاب جیسے ہی تھے کہ جس کے ہر صفحے پر گلگت← مزید پڑھیے
پہلی قسط کا لنک شری کٹاس راج مندر/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری(1) کٹاس راج کمپلیکس طرزِ تعمیر ؛ اس پورے کمپلیکس میں ستگرہ (سات قدیم مندروں کا مجموعہ)، ایک بدھسٹ اسٹوپا کی باقیات، قرون وسطی کے پانچ دیگر مندر، ہندؤو← مزید پڑھیے