• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) علاقائی ثقافتی رنگوں کی قوس و قزح کہانی کے آئینہ خانے میں/سلمیٰ اعوان(قسط10-ج)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) علاقائی ثقافتی رنگوں کی قوس و قزح کہانی کے آئینہ خانے میں/سلمیٰ اعوان(قسط10-ج)

ایک شور مچا تھا۔ رخصتی کا سمے آن پہنچا تھا۔ مان روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اندر باہر کے چکر کاٹ رہی تھی۔ باہر سازندوں نے ‘‘چلاہو’’ کی دردناک دھنیں چھیڑ دی تھیں۔ میری چچیوں’ پھوپھی اور دیگر رشتہ دار عورتوں نے یاماگی (بابل کے گیت) گانے شروع کر دئیے تھے۔ اس وقت میری آنکھوں سے آنسو یوں بہے جیسے بکرے کی کٹی گردن سے خون بہتا ہے۔ میں پالکی میں بیٹھی جسے کہاروں نے اٹھایا۔ میری ‘ سکھیاں سہلیاں بہت دور تک میرے ساتھ ساتھ چلیں۔
ہولو سے آگے دریا تھا جسے جالو (مقامی کشتی) کے ذریعے پار کیا گیا۔ اِس کی وادی پھمانی پنیال کا آخری گاؤں ہے۔ آگے اشکومن کی وادی شروع ہو جاتی ہے۔ دو میل کے فاصلے پر چٹور کھنڈ کا بازار ہے۔
میں ایک ایسے گھر کے سامنے کھڑی تھی جس کے بڑے بڑے دروازوں کو نیلا رنگ کیا ہوا تھا۔ میرے اردگرد باراتی اور نال کے لوگ کھڑے تھے۔ تاجدار خان کے چچا نے زور سے آواز لگائی تھی۔
‘‘میری بیٹی ملکہ کے لئے تم گھر والے کیا دان کرتے ہو’’؟
اندر سے آواز آئی تھی:
‘‘وادی کے شمال کی سمت اترائی میں دو کھیت اس کے ہیں’’۔ تب میں اندر داخل ہوئی۔ مجھے اور تاجدار کو اکٹھا بٹھایا گیا۔ لکڑی کی تھالیوں میں اشپری آئی جسے ہم دونوں نے تین تین بار کھایا۔
اس کے بعد تاجدار کی بہن مل (گندم کے آٹے کا نمکین حلوا) پکا کر لائی۔ تاجدار خان نے چکھا اور اسے پیسے دئیے پھر میں نے چکھا اور اسے نیگ دیا۔
‘‘اچھا گھر ہے’’۔ میری بہن نے میرے کانوں میں سرگوشی کی تھی۔
صبح میری پھوپھی نے میرا ٹرنک کھولا۔ تاجدار خان کے بڑے بھائی اور بھاوج کو سوٹ دئیے۔ دوسری بھاوجوں کو ٹوپیاں اور چادریں۔ چھوٹے بچوں کے لئے خوبانیوں کی گریوں کے ہار اور کانٹے جو میں نے خود بنائے تھے۔ لڑکیوں کے لئے ٹوپیاں بھی کاڑھ کر لائی تھی۔ بچیاں مجھ سے یوں چمٹی ہوئی تھیں جیسے شہد کی مکھیاں چھتے سے ۔
شادی کے اس ہنگامے کے ہر ہر لمحے سے میں نے لطف اٹھایا تھا۔ سرشاری محسوس کی تھی۔ مگر وہ لمحے اس کا عروج تھے جب شام ڈھلے مجھے بڑے کمرے میں لے جایا گیا۔ آگ جلتی تھی۔ کمرے میں خوشگوار سی حدت محسوس ہوتی تھی۔ میرے عزیز و اقارب اور اردگرد کے سب لوگ وہاں موجود تھے۔ جلتے چولہے پر توا دھرا تھا اور مجھے روٹی پکانا تھی۔
ہوہا کا شور‘ گیتوں کی آوازیں ‘قہقہوں کی برسات ‘سب میرے اوپر برف باری کی پھوار کی مانند گر رہے تھے۔ میرے بالکل قریب بیٹھا تاجدار خان مجھے شوخ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ نگاہوں کے ایک بار اتفاقیہ ٹکراؤ نے مجھے بوکھلا دیا تھا۔ یہ بوکھلاہٹ مزید بڑھ گئی جب اس نے میری چادر میری پشت پر سے کھینچ کر میرا گھونٹ چھوٹا کرتے ہوئے کہا۔
‘‘جانم روٹی ایسی پکنی چاہیے کہ آج تک کسی کی دلہن نے نہ پکائی ہو۔ ا سکی اس بات نے مجمع کو گویا پھلجڑی بنا دیا تھا۔
سسرالی لڑکیوں نے میر ے بازوؤں کو بہانے بہانے سے کھینچا تاکہ روٹی خراب ہو جائے۔ میں نے اڑتے حواس ٹھیک کئے اور کمال ہوشیاری سے اُن کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ دونوں بازوؤں کو دونوں گھٹنوں میں سمیٹتے ہوئے میں نے روٹی آہستہ آہستہ بنائی ‘توے پر جب ڈالی تو اس کی وضع قطع بہت اچھی تھی۔ میرے رشتہ داروں نے تالیاں بجائیں۔
اب تاجدار خان کی باری تھی۔ اسے روٹی کو پلٹا دینا تھا۔ پلٹتے وقت روٹی اگر ٹوٹ جاتی تو گویا اس بازی میں یہ اس کی ہار تھی ایک عورت کے ہاتھوں ہار۔
اس نے سب پرطائرانہ نظر ڈالی۔ ہنسا اور بولا۔
‘‘دلہن مجھے بہت پسند ہے۔ لیکن زندگی میں میں نے ہارنے سے ہمیشہ نفرت کی ہے۔ بے شک یہ ہار ملکہ جیسی خوب رو دلہن کے ہاتھوں مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔’’
اور اس نے برق رفتاری سے مہارت کے ساتھ روٹی کو پلٹا دیا۔ پھر وہاں تاجدار خان کے نام کا وہ شور مچا کہ یوں لگتا تھا کمرہ اڑ جائے گا۔
اس شب کے پہلے پہر تارجدار خان کی بھاوج مجھے جس کمرے میں لے کر گئی وہ اگرچہ تھا تو چھوٹا سا پر صاف ستھرا تھا۔ چھت اور فرش لکڑی کے تھے۔ فرش پر دری اور دری پر موٹا گدا بچھا تھا۔ لالٹین کا شیشہ اتنا صاف تھا کہ اُس نے اندر کی روشنی کو دو چند کر دیا تھا۔ کھونیٹیوں پر تاجدار کے کپڑے لٹک رہے تھے۔
میں نے نمکین چائے کا پیالہ پیا۔ رضائی کو اپنے گھٹنوں پر اچھی طرح پھیلایا اور آنکھیں بند کر لیں۔
تاجدار خان جب کمرے میں آیا۔ میں نے باہر قہقہوں کی آوازیں سنی تھیں۔ یہ یقینا اس کی بھاوجیں اور گاؤں کی شوخ و شریر عورتیں تھیں۔
تاجدار خان میرے پاس بیٹھا۔ اس نے گھٹنوں میں دیا میرا سر اٹھایا اور بولا ‘‘تمہارا گھونگھٹ تو میں یاسین کی کسی وادی میں اٹھانا چاہتا تھا پر رسم و رواج کے ہاتھوں تھوڑا سا مجبور ہو گیا ہوں’’۔
میں نے بند آنکھیں کھولیں۔ اس کی آنکھوں میں میرے لئے محبت کا سمندر تھا۔ جذبوں کی تڑپ تھی۔ بے اختیار میرا سر اس کے شانے سے جا لگا تھا۔ روایتی لڑکیوں کی طرح شرمانے ‘سکڑنے نہ نہ کرنے کو میرے اندر نے پسند نہیں کیا تھا۔ وہ ساری رات اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر ان کہانیوں کو سنانے میں گزاری تھی جو اس نے ان سالوں میں میرے متعلق سنی اور فرض کی تھیں۔
میں نال والوں کے ساتھ واپس اپنے میکے نہیں آئی۔ تیسرے دن ایک صحت مند پولو کھیلنے والا گھوڑا باہر خوبانی کے پیڑ کے ساتھ بندھ گیا۔ تاجدار نے مجھے اونی پاجامہ ‘اونی ٹوپی اور گرم سوٹ پہننے کو دیا جو وہ نیچے سے لایا تھا اور اس کے بکس میں بند تھا۔ اس نے خود بھی گرم کپڑے پہنے۔ بندوق کو صاف کیا۔ کارتوس کی پیٹی کمر میں ڈالی۔ ضروریات کی سب چیزیں ایک بڑے تھیلے میں رکھیں۔
ہم یاسین جانے کے لئے تیار تھے۔
گھوڑے پر پہلے میں بیٹھی پھر وہ۔ اس کی بھاوجیں ٹکر ٹکڑ میری صورت دیکھتی تھیں۔ شاید میرے نصیبے پر رشک کرتی تھیں۔ بھائی بھی پاس کھڑے تھے۔ کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ اسے کوئی بات کہہ سکے۔ وادی سے باہر آنے کے بعد تاجدار خان نے مجھ سے پوچھا تھا۔
‘‘ملکہ تمہیں یہ سب کیسا لگ رہا ہے’’؟
میں نے بازو اس کی کمر کے گرد پھیلا کر سر اس کی پشت سے ٹکاتے ہوئے کہا تھا
‘‘میرے خوابوں کو تعبیر مل رہی ہے’’۔
چمکتا سورج ہمارے سر پر تھا۔ دکنی ہواؤں میں تیزی تھی۔ گھوڑا سرپٹ بھاگے جاتا تھا۔ وادیاں گزر رہی تھیں اور میں اس کی پُشت سے سر ٹکائے اپنے مقدر پر رشک کر رہی تھی۔ تاجدار میری کہانیوں کے ہیرو جیسا تھا۔
یاسین کے لئے گاہکوچ اور گوپس سے جانے کی بجائے اس نے شارٹ کٹ راستہ اختیار کیا۔ ہواؤں کے دوش پر اڑتے ہوئے اس نے مجھے بتایا کہ وہ سب سے پہلے یاسین میں گوہرامان کے مزار پر اپنی عقیدتوں کے پھول چڑھائے گا۔
شام کے وقت ہم نے ایک چھوٹی سی وادی میں پڑاؤ کیا۔ تاجدار خاں گھوڑے سے چھلانگ مار کر اترا مگر میری ٹانگیں شل تھیں۔ میں نے اس کی طرف بے بسی سے دیکھا۔ اس نے میری مشکل کو سمجھا۔ اپنے بازو بڑھائے۔ میں اس کے بازوؤں میں سما کر اتری مگر میرے قدموں نے زمین پکڑنے سے انکار کر دیا۔
‘‘مجھے چھوڑنا مت’’ میں چلائی۔
وہ ہنسا اور اس نے کہا
‘‘ملکہ بھلا تمہیں چھوڑنے کو تھوڑی پکڑا ہے میں نے’’۔
دیر تک وہ مجھے اپنے آپ سے لگائے کھڑا رہا۔ جب پیروں کی سنسناہٹ کم ہوئی تب ا سنے مجھے چھوڑ کر گھوڑے کا رخ کیا۔
یہ چھوٹا سا گھر تھا جہاں ہم نے رات گزاری۔ مخلص اور مہمان نواز لوگ تھے۔ جنہوں نے ہمیں سفر کے لئے انڈے ابال کر دئیے اور تھرموس کو چائے سے بھر دیا۔ علی الصبح ہم نے سفر کا آغاز کیا۔ اور جب سورج نصف النہار پر تھا۔ ہم یاسین میں گوہر امان کے مزار پر کھڑے تھے۔
گلگت اور یاسین کا را جہ گوہر امان جس کی دہشت سے کبھی زمین کانپتی تھی۔ مٹی کا ڈھیر بنا پڑا تھا۔ مزار کے اردگرد دیودار کے درختوں کا ایک جنگل سا پھیلا ہوا تھا۔ قبرستان یوں تو ہوتے ہی ویران ہیں۔ پر یہاں اداسی اور ویرانی دوچند تھی۔ درختوں کے پتے اپنے اپنے ٹھکانوں سے بے گھر ہو رہے تھے۔ آسمان شندھور جھیل کے پانیوں جیسا نیلا اور شفاف تھا۔ مزار کے اطراف میں لگے ہوئے پتھروں میں ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی۔ بیشتر اپنی جگہ سے سرک کر دور نزدیک پڑے تھے۔ مزار کے چاروں کھونٹ گڑی لمبی باریک لکڑیوں پر زائرین کے رومال ہوا سے پھڑ پھڑا رہے تھے۔
میں نے فاتحہ پڑھی۔ تھیلے میں سے سرخ رومال نکالا اور اسے لکڑی کے ساتھ ٹانگ دیا۔ تاجدار خان کی فاتحہ خوانی بڑی لمبی تھی۔ بہت کچھ پڑھنے کے بعد جب وہ اس جگہ آیا جہاں دھوپ کے رخ پر میں بیٹھی فضا کو دیکھتی اور دھوپ میں اپنے جسم کو پگھلا رہی تھی جو مکھن کے پیڑے کی مانند ٹھندا اور ماش کے آٹے کی طرح اکڑا ہوا تھا۔
تاجدار نے میرے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔
راجہ گوہر امان کے بارے میں کیا جانتی ہو؟
مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے اس کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا تھا۔
‘‘یہ تم ہمہ وقت میرا امتحان لیتے رہتے ہو۔ میں راجہ غازی گوہر امان کے بارے میں بہرحال تم سے زیادہ جانتی ہوں’’۔
‘‘خوب! اب اس کے ہنسنے کی باری تھی۔ وہ ہنساپھیپھڑوں کی پوری قوت سے اس کے قہقہے اس ویران فضا میں بہت دور تک گونجے۔ وہ میری بات سے محظوظ ہوا تھا۔
میں نے تھیلے سے چھپٹھی نکالی۔ انڈے چھیلے۔ انہیں چھوٹے سے کپڑے پر رکھا اور تھرموس کا ڈھکن کھولتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔
‘‘پہلی بات تو یہ کہ وہ صاحب سیف و قلم تھا۔ چائے پیالی میں انڈیلتے ہوئے بات کو جاری رکھا
دوسری بات ایسا دلیر‘ ایسا بہادر‘ ایسا جیالا اور شہ زور تھا کہ سکھوں اور ڈوگروں کو نتھ ڈال دی تھی۔ اس کی ہیبت کی دھاک اس درجہ تھی کہ ڈوگرہ عورتیں اُپنے رُوتے ہوئے بچوں کو اس کا نام لے کر چپ کرواتی تھیں۔ اسلام کا سچا داعی جس نے ایک سو سال قبل اس چھوٹے سے خطے کو بیرونی دشمنوں سے محفوظ کر کے ایک چھوٹے سے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی’’۔
تاجدار خان گنگ بیٹھامیری صورت دیکھتا تھا۔
اونی تھیلے میں سے گھر سے لائی ہوئی چھپٹھینکالتے ہوئے میں زیر لب مسکراتی تھی۔ اس نے جب چائے کی پیالی اٹھائی تو کہا۔
‘‘مجھے تم پر فخر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تم نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ راجہ گوہر امان کی شخصیت پر اس سے بہتر الفاظ میں خراج پیش ہی نہیں کیا جا سکتا۔’’
اور جب شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ میں وادی یاسین کے مرکزی گاؤں تھوداس میں کھڑی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ میل چوڑی اور چار میل لمبی یہ وادی زمانوں سے میرے حواسوں پر سوار تھی۔ قلعہ ڈور کھن اب خستہ حالت میں ہے۔ اس کی سیر کرتے ہوئے میرے تصورات اور حقائق میں تصادم ہوا تھا۔ جو تصویریں میرے ذہن نے سن کر تراشی تھیں وہ یکسر فرق تھیں۔ اس کی بھول بھلیوں میں میں نے ایک پل کے لئے بھی تاجدار خان کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ مجھے یونہی وہم ہونے لگا تھا کہ کہیں میرا اس رات کا خواب سچا نہ ہو جائے۔
پولو گراؤنڈ اور ڈسپنسری کے اوپر سے ہوتے ہوئے ہم اس گھر میں آگئے جہاں میری رشتے کی پھوپھی رہتی تھی۔
وادی یاسین دفاعی اعتبار سے وادی اشکومن کی طرح خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے شمال اور شمال مشرق میں سطح مرتفع پامیر ‘روسی ترکستان اور واخان کاعلاقہ ‘مشرق میں اشکو من ‘آگے نکل کر چینی ترکستان ‘جنوب میں گلگت اور مغرب میں چترال واقع ہے۔
یہ بہت خوبصورت شام تھی۔ میری زندگی کی چند حسین شامو ں میں سے ایک حسن اور راگ و رنگ سے لدی پھندی شام ‘جب وادی کے کئی لوگ ہم سے ملنے آئے تھے۔ بیٹھک کے درمیانی حصے میں عین گنبد کے نیچے آگ جل رہی تھی اور اردگرد ہم سب بیٹھے تھے۔ اس ادھیڑ عمر آدمی نے جو درکوت درّے کی کسی وادی کا رہنے والا تھا جس کی مادری زبان پرانی فارسی تھی۔ ا ُسنے کس مہارت سے ستار بجایا تھا۔ اس کی پرسوزآواز ‘فارسی جیسی شیریں زبان کا گیت اور ستار کی دلنواز دھنیں۔
میں تھکی ہوئی تھی۔ پر وہ گیت اور ساز میری تھکاوٹ کے لئے ٹکور جیسے ثابت ہوئے تھے۔ یاسین کی مقامی زبان بلتم اور کھوار ہے۔ ویسے فارسی بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہاں کے لوگ موسیقی سے خصوصی شغف رکھتے ہیں۔ شام کے وقت تقریباً ہر گھر سے ستار کی دلنواز دھنیں سنائی دیتی ہیں۔ ساری شام گیتوں کی نذر ہوئی تھی۔ نہ سنانے والا تھکا تھا اور نہ سننے والوں کی تشنگی مٹی تھی۔
سندھی کا گاؤں یاسین سے صرف دو تین میل اوپر شمال کی طرف ہے۔ قلعہ موڈوری دیکھنے کے لئے ہم دونوں اس پہاڑی ٹیکرے پر کھڑے تھے جہاں قلعے کے آثار ملتے ہیں۔
‘‘مسلمان قوم ہمیشہ اپنوں کی غداری سے تباہ ہوئی’’۔
تاجدار خان کی نظریں دور کھنڈرات میں گھمن گھیریاں کاٹ رہی تھیں۔ موڈوری کی لرزہ خیز داستان جائے عبرت ہے۔
اس کی آواز کہیں دور سے آرہی تھی۔
راجہ گوہر امان کے مرنے کی دیر تھی کہ نگر کے را جہ نے ڈوگروں کو گلگت پر حملے کی دعوت دے دی۔ انہوں نے گلگت کو فتح کیا تو یاسین پر نظریں جم گئیں۔ یاسین کے جیالوں نے سندھی میں قلعہ موڈوری تعمیر کیا۔ تمام لوگ اس میں قلعہ بند ہو گئے۔ آنے جانے کے لئے یہ طے ہوا تھا کہ رات کے وقت جس کی ٹوپی پر پھول ہو گا وہی قلعے میں داخل ہو سکے گا۔ یہ راز بھی ڈوگرہ فوج کو پنیال کی راجہ فیملی کے ایک شخص ارسلا خان کی غداری کے ہاتھوں پہنچا۔ راتوں رات ڈوگرہ سپاہی ٹوپیوں پر پھولوں کے ساتھی قلعے میں داخل ہو گئے۔ بڑی خوفناک جنگ ہوئی۔ پانچ ہزار یا سینی شہد ہوئے۔ بے شمار عورتوں کو ڈوگر ے اور سکھ اپنے ساتھ لے گئے۔ حاملہ عورتوں اور بچوں پر اس قدر ظلم و ستم ہوئے کہ ہلاکو خان کی یاد تازہ ہو گئی۔
‘‘اے میرے رب۔ نیلے چمکتے آسمان کے نیچے تاجدار خان نے اپنی آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھ دعائیں اندا زمیں اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔
‘‘میرے ملک کو سازشیوں‘ غداروں اور دشمنوں سے اپنی پناہ میں رکھنا’’۔
۴۵۷۵ میٹر بلند درکوت درے پر پہنچ کر مجھے اپنا اور یامین کا بچپن یاد آیا تھا۔ جب وہ اپنے سبق کو گھوٹا لگا کر یاد کیا کرتا۔ دو پہاڑوں کے درمیان بننے والے تنگ راستے کو درہ کہتے ہیں۔ درکوت ‘تھوئی اور شندھور وادی یاسین کے درے ہیں جہاں سے واخان ‘یار خون‘ اور چترال کو راستے نکلتے ہیں۔
میں آج اسی درکوت درّے کے دہانے پر کھڑی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے میں نے اس جگہ کو بھی دیکھا تھا جہاں وہ انگریزی سیاح جارج ہائی ورڈ قتل ہوا تھا۔
بیچارہ ہائی ورڈ ایک عظیم انسان کیسے منفی سیاست کی بھینٹ چڑھا۔
درکوت میں ہی وہ گرم چشمہ بھی دیکھا۔ جس کے گرم پانی میں انڈا ابلنے کے لئے صرف ڈیڑھ دو منٹ لیتا ہے۔ بھاپ اڑاتے اس چشمے کے کنارے بیٹھ کر تاجدار خان نے مجھے شہری انداز کی چائے بنانا سکھائی۔ انڈے کھائے اور چائے پیتے فضا کے سناٹے کو اپنی رگوں میں اُتارتے ہوئے دفعتاً تاجدار نے مجھ سے پوچھا۔
‘‘جانتی ہو شہروں میں شادی کے بعد جب نوبیاہتا جوڑے ایسے سیر سپاٹوں کے لئے نکلیں تو کیا کہا جاتاہے۔
میں ہنس پڑی۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے قہوے کا آخری گھونٹ حلق سے اتارا اور بولی ‘‘میرے جسم کا ہر مُویامین کا شکر گزار ہے کہ اس نے مجھے ہر موضوع پر کتابیں بھیج کر میرے ذہن کو وسعت اور کشادگی دی’’۔
‘‘تاجدار خان ہم اپنا ہنی مون منا رہے ہیں’’۔
اس نے مجھے اپنی باہنوں میں سمیٹ لیا تھا۔
‘‘سچ تو یہ ہے بابا تم کسی سقراط بقراط سے کم نہیں ہو’’۔
ناز بر کے اس چشمے کو دیکھنے کے لئے میں نے تاجدار خان سے خود فرمائش کی تھی۔ جس کا رنگ خون سے ملتا جلتا ہے۔ لیکن وہاں پہنچ کر بڑی دہشت طاری ہوئی۔ بڑا ڈرؤانا ماحول تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کہیں مار دھاڑ ہو گئی ہے اور انسانی خون یوں فراوانی سے بہنے لگا ہے۔ ہم لوگ زیادہ دیر نہیں وہاں ٹھہرے۔
گھر سے نکلے کتنے دن ہو گئے تھے میں نے انگلیوں پر گنے۔ ‘‘اب واپسی ہونی چاہیے’’۔پر جان شندھور جھیل دیکھے بغیر نہیں’’۔
تاجدار خان نے میرے سنہرے بالوں کی لٹوں کو سنوارتے ہوئے کہا تھا۔
سات آٹھ میل لمبی پانچ میل سے زیادہ چوڑی یہ خوبصورت ترین جھیل چترال اور گلگت کی سرحد کے قریب چاروں طرف پہاڑوں سے گھری آنے والوں کو اپنے حُسن کے سحر سے مسحور کرتی ہے۔ اس کے کنارے پر برطانوی دور کا تعمیر شدہ ریسٹ ہاؤس بہت اچھی حالت میں ہے۔ ہم لوگ اس میں ٹھہرے۔ دن چڑھتا اور ہماری کشتی نیلگوں سطح پر تیرنے لگتی۔ اس کا پانی میٹھا نکھرا ہوا اور آئینے جیسا شفاف ہے۔ تہہ میں کون کون سے جانور ہیں؟ سب دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ٹراؤٹ مچھلیاں دل بھر کر کھائیں۔ تاجدار نے مارخور کا شکار کیا اس کے گوشت کو ریسٹ ہاؤس کے عملے نے ضیافت کے طور پر اڑایا۔
‘‘کاش اس جھیل سے نہریں نکالیں جائیں۔ یہ چترال اور گلگت کے علاقوں کی خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہیں’’۔ تاجدار خان نے کہا تھا۔
ہم پورے بیس دن بعد لوٹے تھے۔ سنگل میں اپنے گھر جہاں بابو یامین اور مان تھے۔ چھوٹے بہن بھائی تھے۔ جنہوں نے مسرتوں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا تھا۔ ہمیں خوش دیکھ کر نہال ہوئے تھے۔ پندرہ دن ان کے پاس رہنے کے بعد میں کراچی آگئی تھی۔جہاں تاجدار خان نوکری کرتا تھا۔ پڑھتا تھا۔ محنت مزدوری کرتا تھا۔ جہاں اس کے شب و رو زکولہو کے بیل کی طرح تھے۔
سلمیٰ اعوان نے رضائی پرے پھینکی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ملکہ کی گفتگو کا سحر ایسا تھا جس نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ آپ بیتی میں انتی دلکشی اور حسن تھا کہ ذہن اسی زمان و مکان میں قید ہو گیا تھا۔ انداز بیان کسی کامیاب داستان گو جیسا تھا کہ میں کہیں پیچھے چھپ گئی تھی۔
سچی بات یہ بھی تھی کہ اس کہانی میں مجھے اپنے وجود کا احساس دلانا کچھ ایسا لگا تھا جیسے لذیذ کباب کھاتے کھاتے اچانک ہڈی آجائے یا کسی سنجیدہ سی محفل میں کسی فرد کی خواہ مخواہ ہی مداخلت پر کہا جائے۔ ‘‘پرے ہٹ تو کی لُچ پیا تلدا ایں’’۔(یعنی تم کیا بیچ میں فضول حرکتیں کرتے ہو)
لیکن کراچی پہنچ کر ملکہ کو جو فل اسٹاپ لگا اس نے مجھے تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ میں نے رضائی پرے پھینکی اور اٹھ بیٹھی۔ باہر ٹھنڈی ہوائیں دف بجاتی پھرتی تھیں۔
‘‘آگے چلیں نا۔
تب سے اب تک کی زندگی میں تو بہت سے نشیب و فراز آئے ہوں گے۔ کچھ کہیں‘کچھ بتائیں’’۔
فراز کہاں؟ نشیب ہی نشیب تھے۔ تاجدار خان بہت بڑا فراڈ ثابت ہوا۔ ڈیڑھ سال بعد ہی گود میں پانچ ماہ کا بچہ دے کر فرار ہو گیا۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے دف بجاتی یخ ہوائیں دروازہ توڑ کر اندر آگئی ہیں اور سارے میں انسانی حسیات کو سُن کر دینے والے عمل جاری ہو گیا ہے۔ میرے اوپر دورے کی سی کیفیت طاری تھی۔
‘‘کیا ہوا تھا؟’’ میرا ہاتھ میرے سینے پر تھا۔
روڈ ایکسیڈنٹ میں اس نے موقع پر ہی دم توڑ دیا تھا۔ کچھ کہنے سننے کی مہلت ہی نہ دی۔ چھ فٹی گھبرو جوانی کو منوں مٹی تلے دبا کر مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں کیسے زندہ ہوں؟
وادی سنگل کی خاموشی میں ڈوبی ہوئی وہ رات میرے لیے بڑی ہنگامہ خیز تھی۔ میرے ذہن میں اتھل پتھل تھی۔ ایک ٹک میں کھڑکی کے راستے باہر تاریکیوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ اس اتنی خوبصوبرت کہانی کا انجام اتنا المناک کیوں ہے؟ پیدا کرنے والا بھی کبھی کبھی اذیتوں کی عنایت میں لذت محسوس کرنے لگتا ہے۔
پھر میں نے اس خوبصورت چہرے کو بار بار دیکھا‘ یہ جاننے کے لئے کہ سفر کیسے کٹا؟ پہاڑوں کی بیٹی تھی۔ پہاڑوں جتنا حوصلہ کر لیا۔ اس کے ساتھ گزرے ہوئے پانچ سو اڑتالیس دن رواں دواں ماہ و سال پر پھیلا دئیے۔ جس دن کو چاہتی منہ میں رکھی چیونگم کی طرح کھینچ کر لمبا کئے جاتی۔
یامین میرے پاس تھا۔ دو کمروں کا چھوٹا سا گھر۔ ہر روز کمرہ اسی انداز میں سجاتی جو اُسے پسند تھا۔ شام کو اپنا کھانا اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آتی۔ خود کلامی کی عادت میرے اندر یہیں سے پروان چڑھی۔ میں بالکل ایسے ہی باتیں کرتی جیسے وہ میرے سامنے بیٹھا ہو۔ دن بھر کی کارگزاری کی ایک ایک تفصیل ‘بیٹے کی شرارتوں کا ذکر’ اڑوس پڑوس کی باتیں۔ سب کچھ کہہ دینے کے بعد آنکھیں موند کر سو جاتی۔ بس تو یونہی اتنی عمر گزر گئی اور باقی بھی گزر جائے گی۔
ہاں مالی تنگی کا کبھی احساس نہیں ہوا۔ پہلے یامین نے سنبھالا دیا۔ بیٹا بڑا ہوا تو میں نے سلائی کڑھائی کاکام سیکھا اور سکول چلایا۔ بہت پیسہ کمایا۔ بیٹا ہارٹ سرجری میں سپشلائزیشن کے لئے باہر گیا تو میں یہاں آئی ہوں۔ دیکھو مستقل ڈیرے ڈالتی ہوں یا واپس چلی جاتی ہوں۔
‘‘اور یامین’’ میں نے پوچھا۔
‘‘رحیم یار خان کا ڈپٹی کمشنر ہے آج کل۔
میں نے رضائی میں منہ دے کر آنکھیں موند لی تھیں۔ مگر میں جانتی تھی مجھے نیند نہیں آئے گی۔ میرا ہر مُو سراپا احتجاج بنا ہوا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply