2023’اور پاکستانی معاشرے کی ذہنی صحت/ڈاکٹر اختر علی سیّد

یہ چند سال پہلے کا واقعہ ہے ملتان میں اپنے گھر کے قریب فارمیسی میں ایک نوجوان کو دیکھا جو سیلز مین (جو فارماسسٹ نہیں تھا) سے ایک ہائی پوٹینسی کی اینٹی انگزائٹی دوا مانگ رہا تھا اور وہ بھی کسی نسخے کے بغیر۔ سیلز مین نے 10 گولیوں کا ایک پتا بغیر کسی سوال کے اس کے حوالے کر دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ نے نوجوان کو کسی نسخے کے بغیر اتنی ہائی پوٹینسی کی دوا کیسے دے دی۔ سیلز مین کا جواب آج تک میرے کانوں میں گونجتا ہے۔ وہ کہنے لگا “سر لوگ یہ دوائیں یہاں چنوں کی طرح پھانکتے ہیں۔ وہ بھی کیا کریں ٹینشن ہی اتنی ہے”. اس جواب سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں ذہنی دباؤ کس طرح لوگوں کی زندگیاں متاثر کر رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ دوائیں جو سختی سے صرف ڈاکٹرز کے نسخوں پر فروخت ہونی چاہیے تھیں پاکستان میں ان کی فروخت بغیر کسی کنٹرول اور ریگولیشن کے جاری ہے۔ اور تیسری سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ لوگوں کے پاس اپنے روز مرہ معمولات سے پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ کا علاج صرف اور صرف ان مسکن گولیوں میں ہے۔

سالہا سال سے ہم ذہنی صحت کے ماہرین کی یہ باتیں سن رہے ہیں کہ پاکستان میں کس طرح ذہنی امراض کے علاج کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ کس طرح ہسپتالوں میں ذہنی امراض کے شعبے سہولتوں اور ماہرین کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ ان ماہرین کی تربیت کے ناکافی انتظامات کس طرح ذہنی امراض میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ بڑے شہروں میں ذہنی امراض کے شفا خانے تو پھر موجود ہیں مگر چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں تو اس طرح کے امراض کے جدید علاج کا تصور تک موجود نہیں ہے۔ یہ سب باتیں ہم سالہا سال سے سن رہے ہیں اور اس کو یہاں دہرانا تکرار عبث کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔

وہ پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک ذہنی امراض کی بنیادی وجوہات معاشرے میں موجود سیاسی سماجی اور اقتصادی صورتحال میں مضمر ہوتی ہیں جن کو ذہنی صحت کے ماہرین اور محققین بالعموم نظر انداز کر جاتے ہیں۔ ان ماہرین کا یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ دنیا بھر میں پایا جانے والا ایک عمومی رجحان ہے۔ ہر سال فارماسیوٹیکل کمپنیاں ذہنی امراض کے علاج کے لیے نئی دوائیں نئے دعوؤں کے ساتھ فروخت کرتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ برطانیہ میں صحت کا شعبہ ہر سال لاکھوں پاؤنڈز نفسیاتی علاج (سائیکوتھیراپی) کے ان طریقوں پر خرچ کرتا ہے جن کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ علاج کے بہترین  طریقے ہیں۔ اسی برطانیہ میں جہاں ہر روز نئی دوائیں متعارف ہو رہی ہیں اور سائیکوتھیراپی کے جدید طریقے بھی ہر ضرورت مند کی دہلیز پر میسر ہیں ہر سال خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر یہ دوائیں اور سائیکوتھیراپی کے یہ طریقے اتنے ہی مفید اور کارگر ہوتے جتنا کہ ان کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے تو کم از کم برطانیہ میں تو خودکشی کی شرح وہ نہ ہوتی جو اَب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذہنی صحت کا کوئی ایسا پہلو ہے جس پر ماہرین ابھی تک پوری توجہ نہیں دے سکے جس کی وجہ سے ذہنی امراض کے شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر برطانیہ جیسے ترقی یافتہ معاشرے میں ذہنی امراض کی صورتحال یہ ہے تو پاکستان کے بارے میں یہ گفتگو کہ یہاں وسائل کم ہیں،شفا خانے کم ہیں،ماہرین کم ہیں،ایک انتہائی سطحی اور بے سروپا گفتگو ہوگی۔ کیونکہ علاج کے لیے تجویز کردہ دوائیں اور سائیکوتھیراپی ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں جن کی وجہ سے کسی بھی معاشرے کے افراد ذہنی امراض کے شکار ہوتے ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں موجود سائیکو سوشل مسائل اصل میں ذہنی مسائل کی سب سے بنیادی وجہ ہے اور ہر معاشرے میں یہ مسائل ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ یعنی پاکستان میں یہ مسائل کسی بھی دوسرے معاشرے سے مختلف ہیں۔ اگر ایسا ہے اور یقیناً ایسا ہے تو ذہنی مسائل کی تشخیص کے لیے تشکیل دیا گیا انٹرنیشنل سسٹم (ڈی ایس ایم اور آئی سی ڈی) اور طریقہ ہائے علاج پاکستان کے ذہنی امراض کے علاج کے لیے کس طرح تسلی بخش سہولت فراہم کر سکتے ہیں؟ ذہنی امراض کے ذیل میں ہر معاشرے کو یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ وہ کون سے مسائل ہیں جو اس معاشرے میں رہنے والے افراد کے لیے ذہنی امراض کا سبب بن رہے ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

گزشتہ 40 برسوں میں پاکستانی معاشرے نے مہلک اور شدید سیاسی سماجی صورتحال جھیلی ہے۔ اس کا ایک محتاط پیشہ ورانہ جائزہ لیے بغیر پاکستان میں ذہنی اور نفسیاتی امراض کو سمجھنا اور ان کا علاج کرنا قریباً ناممکن ہے۔ دنیا کے جن ملکوں نے بدترین دہشت گردی کا سامنا کیا ہے پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ یہاں ہونے والی دہشت گردی دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت یکسر مختلف تھی۔ صرف 10 سالوں میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 80 ہزار سے زائد افراد نے دہشت گرد حملوں میں اپنی جان گنوائیں۔ ان دس سالوں سے پہلے اور ان کے بعد جتنے   لوگوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے ،وہ اس تعداد میں شامل نہیں ہیں ۔ ہمارے اداروں کی تمام تر دلچسپی صرف جہاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد میں تھی۔ جو زخمی ہوئے یا مستقل معذور ہوئے وہ کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ گنتی کی چند تحقیقات ہیں جن میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ان دہشت گرد حملوں نے معاشرے میں کس طرح خوف بکھیرا ہے۔ مگر اس بات کا پورا جائزہ کیسے لیا جا سکتا ہے کہ بچوں کو سکول بھیجنے والی مائیں کس دل سے صبح ان کو روانہ کرتی ہیں۔ دہشت گردوں کے نشانے پر آنے والے طبقات اور ان سے منسلک افراد کے خوف کا جائزہ کیسے لیا جا سکتا ہے کہ جن کے نام، شناخت اور مسلک ان کے لیے پھانسی کے پھندے ثابت ہوئے۔ ان طبقات پر کیا گزرتی ہوگی جب ان کے مبینہ قاتلوں کے بارے میں سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ افسران یہ کہتے پائے جائیں کہ یہ قاتل تو “ہمارے بازوئے شمشیر زن ہیں”۔

آپ نے پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کے بارے میں سن رکھا ہوگا۔ اس مرض کی ایک علامت یہ ہے کہ مریض یہ سمجھتا رہتا ہے کہ وہ واقعہ جس نے ٹراما پیدا کیا ہے وہ ضرور دوبارہ ہوگا۔ پاکستان میں رہنے والوں کے لیے یہ کسی مرض کی ایک علامت نہیں، ایک زندہ اور سامنے کھڑی بھیانک حقیقت تھی اور ہے۔ ان حرماں نصیبوں کو آج کی تاریخ تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ  مصائب کے پہاڑ ان پر کس نے، کس کے ایماء پر اور کیوں توڑے۔

دہشت گرد حملوں کا زور ابھی ٹوٹا ہی تھا کہ “توہین” کا بازار گرم ہو گیا۔ “توہین” کے نام پر جو ہا ہا کار مچی اس میں بھی سینکڑوں لوگ جان سے گئے۔ مذہب کے نام پر بہیمانہ طرز عمل کو نہ صرف جواز دیا گیا بلکہ نوجوانوں کے لیے اس میں فخر و مباہات کو بھی شامل کر دیا گیا۔ توہین کے جھوٹے الزامات لگا کر درجنوں افراد کو مریض ہجوم نے زندہ جلا دیا۔ تشدد پر آمادہ یہ ہجوم اور جو تشدد کا نشانہ بنے دونوں کو ذہنی امراض میں مبتلا کر دیا گیا۔ آپ نے پاکستان کے پاور سینٹر کی اس دو دھاری تلوار کو محسوس کیا۔؟ نہیں کیا تو اب کیجئے اور ذہنی صحت کے ماہرین سے جا کر پوچھیے کہ ایسے حالات میں پورے معاشرے کی ذہنی صحت پر کیا گزرتی یا کیا گزر سکتی ہے اور کیا ایسے میں ذہنی صحت کے مسائل کا علاج امپورٹڈ دواؤں اور سائیکوتھیراپی سے ممکن ہے؟

1988 میں مارشل لا کے اختتام اور جمہوریت کی بحالی پر ایک توقع یہ تھی کہ اس سے ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی اور عوام کے لیے ایک غیر یقینی صورتحال اور بے بسی کے احساس کا خاتمہ ہوگا۔ عوام کے لیے ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگی کہ جہاں وہ یہ محسوس کر سکیں گے کہ ان کے حکمران ان کے آگے جواب دہ ہیں۔ اس کے برعکس ہوا یہ کہ یکے بعد دیگرے اقتدار سنبھالنے والی سیاسی جماعتوں کے دور حکومت میں سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی تفرقے میں اضافہ ہوا۔گزشتہ 20 سالوں میں تو یہ سیاسی تفرقہ باہمی تعلقات پر اس طرح اثر انداز ہوا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ سیاسی اختلافات جانی دشمنیوں اور کفر کے فتووں تک پہنچے۔ جس ملک میں سیاسی اختلافات کی نوعیت اور شدت یہ ہو جائے وہاں پر اقتصادی استحکام کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔ جو آج ہمارے سامنے ہے یعنی 40 فیصد تک پہنچا ہوا افراط زر ۔۔۔

گو 2023 میں تشدد کے واقعات میں کسی حد تک کمی دیکھنے میں آئی۔ لیکن جو سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بدحالی دیکھنے کو ملی اس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے بسی اور نا امیدی کو خلاف توقع نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایسے میں یہ سوچنا بھی محال ہے کہ بے بسی اور نا امیدی کی اس حالت نے عوام کی ذہنی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالا ہوگا۔ یہ صورتحال پاکستانی معاشرے سے مخصوص ہے یہاں رہنے والوں کی ذہنی حالت اس صورتحال سے متاثر ہوتی ہے ایسے میں یہ سوچنا کہ وہ طریقے اور دوائیں جو ترقی یافتہ ممالک میں موثر ثابت ہوئی ہیں وہ اپنا وہی اثر پاکستانی عوام پر بھی مرتب کریں گی، کس حد تک درست ہو سکتا ہے۔؟

ہمارے سارے اہم تجربات ہمارا ذہن محفوظ کرتا ہے۔ ذہن میں محفوظ یہ تجربات ہمارے جسم اور ہماری سوچ کو مسلسل متاثر کرتے رہتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی انسان اس طرح کے تجربات سے گزرے مگر اس کی ذہنی صحت متاثر نہ ہو۔ پاکستانی عوام کی ذہنی صحت کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آنے والا کل ان کے لیے کیا خبریں لے کر آتا ہے۔ کیا پاکستان میں موجود ذہنی صحت کے ماہرین اس قابل ہیں کہ وہ معاشرے کو ان ہولناک تجربات کے اثر سے باہر نکالنے کا کوئی راستہ دریافت کر پاتے ہیں یا نہیں؟۔ کیا یہاں کے ارباب حل و عقد اس بات پر سوچ رہے ہیں کہ پاکستانی قوم دوبارہ اسی طرح کے تجربات سے دوچار نہ ہو؟ کیا سیاسی قیادت کو اندازہ ہے کہ ان کے طرز عمل اور طریق گفتار سے معاشرہ کس طرح تفرقے کا شکار ہوتا ہے اور یہ تفرقہ کس طرح معاشرتی تار و پود بکھیر کے رکھ دیتا ہے؟۔ کیا مذہبی رہنماؤں کو اندازہ ہے کہ وہ مسجد کے منبر سے جو زبان بولتے ہیں اس زبان کا سننے والوں کے ذہن پر کیا اثر ہوتا ہے؟ کیا معاشرے سے بتدریج ناپید ہونے والے دانشوروں نے کبھی اپنی عظیم الشان ناکامیوں پر غور کیا ہے؟ وہ کس طرح مسلسل عوام کی رہنمائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کیا ماہرین نفسیات نے اس بات پر غور کیا ہے کہ وہ معاشرے کی اجتماعی نفسیات کو سمجھنے میں مسلسل ناکام کیوں ہو رہے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

سن 2023 ذہنی صحت کے حوالے سے ان تمام طبقات کی مسلسل ناکامیوں کا تسلسل تھا۔ تاہم زیادہ تکلیف دہ بات ناکامی نہیں بلکہ مسلسل ناکامیوں سے لاتعلقی ہے۔ ان طبقات کو ان کی ناکامیوں سے مطلع کون کرے گا؟

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply