خالد حسن ؛ایک طلسماتی شخصیت /تحریر:عاصم کلیار

لوگ خالد حسن جیسے با کمال آدمی کو بھولنے لگے ہیں جس کو کرکٹ،انگریزی و اُردو ادب اور موسیقی پر مکمل عبور تھا ۔وہ مادام نورجہاں،فیض صاحب اور قرۃ العین حیدر کے قریبی دوست تھے۔انہوں نے بھٹو صاحب کے ساتھ بھی کام کیا اور بےنظیر بھی ان کے مشوروں سے مستفید ہوتی تھیں، خالد حسن مرنے والے دوستوں کے بارے انگریزی نثر میں با کمال مرثیہ لکھتے تھے۔
انگریزی صحافت میں ان کا درجہ ایسا کہ واشنگٹن پوسٹ میں ان کا کالم شائع ہوتا  تھا۔ بطور سی۔ایس۔پی افسر وہ اقتدار کی بے وفا غلام گردشوں سے بھی واقف تھے۔

میری خوشی قسمتی کہ مجھے خالد حسن سے گورنمنٹ کالج لاہور میں دو بار ملنے کا اتفاق ہوا ۔دونوں بار وہ اپنی مادرِ علمی میں اپنے دوست پروفیسر ڈاکٹر فرحت سے ملنے آۓ، فرحت صاحب میرے مہربان تھے ،مجھے بطور خاص خالد حسن سے ملنے کے لیے اپنے دفتر بلوا بھیجا، خالد حسن جیسے باکمال لکھاری تھے میں نے مختصر ملاقاتوں میں ان کو ویسا خوش گفتار نہ پایا۔ 6۔2005 میں عینی آپا کے حوالے سے میرے اور ان کے درمیان چند ای۔میلز  کا تبادلہ بھی ہوا۔ وہ ملکوں ملکوں گرد ِسفر بنے رہے، مگر سرینگر،سیالکوٹ اور لاہور ان کے دل کے نہِاں خانوں میں چراغِ عشق کی مانند ہمیشہ جگمگاتے رہے، جموں کے بارے ان کی دلچسپ کتاب سیالکوٹ کے بارے طویل مضمون اور لاہور کے بارے ان کے بےشمار کالم ان شہروں کی سماجی تاریخ کے مستند حوالے ہیں۔

میرے دوست مرزا جاوید خالد حسن کے جموں کے قبل از تقسیم نہ صرف پڑوسی تھے بلکہ دونوں کا یارانہ اس وقت سے تھا جب بمشکل ان کی عمر چھ سات برس ہو گی، خالد صاحب کے بارے وہ کئی دلچسپ واقعات سناتے ہیں اور اکثر قہقہہ لگاتے ہوۓ کہتے ہیں کہ بچپن میں تو وہ بہت نکما تھا سارا دن جوتے اتار کر ہمارے ساتھ پتنگ اڑاتا رہتا، خدا جانے اس نے انگریزی پر کیسے کمال پا لیا۔ ایک آدھ بار میں نے محمود الحسن سے کہا کہ مرزا صاحب کی یادشتوں کو ریکارڈ کر کے خالد حسن کے بارے ایک مضمون ہی لکھ دیں۔

خالد حسن اپنے زمانہ طالبعلی کے دوران منٹو کو ایک بار گورنمنٹ کالج لاہور کی مجلس ِاقبال میں بطور میزبان طالبعلم لےآۓ ،میں نے ملاقات پر دریافت کیا کہ مجلس کا وہ اجلاس کہاں ہوا تھا جس میں منٹو نے اپنی تخلیق پیش کی تھی۔ خالد صاحب نے تھورے  توقف کے بعد ان کمروں کی طرف نشاندہی کی جہاں اب شعبہ فارسی موجود ہے، ابو جس زمانے میں لارنس کالج میں  پڑھتے تھے تو کچھ عرصہ کے لیے  خالد حسن بطور استاد وہاں کام کرتے رہے۔

خالدحسن سرفراز اقبال کے بھی دوست تھے سرفراز ان کا ذکر اکثر مہر و محبت کے ساتھ کرتیں۔

عید کی چھٹیوں کے دوران مجھے پرانے کاغذات کھنگالنے کی فرصت میسر آئی تو ایک فائل میں سے خالد حسن کے انتقال کے بعد ان کے بارے انگریزی اخباروں میں چھپنے والے مضامین کے تراشے برآمد ہوۓ۔

آئی۔اے رحمٰن نے خالد حسن کی کرکٹ سے دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوۓ اپنے مضمون کا عنوان Breezy innings with magnificently played میں خالد حسن کے ساتھ پاکستان ٹائمز میں گزرے ہوۓ دنوں کے احوال کا لکھا ہے ،عرفان جاوید نے اپنے مضمون میں لکھا کہ منٹو،فیض اور زمرد ملک خالد حسن کے عدم آباد پہنچنے سے قریبی دوست کی صحبت میں مطمئن و شاداں ہوں گے، عرفان جاوید کا خالد صاحب کی وفات کے بعد ایک مضمون پہلے دنیا زاد میں شائع ہوا، جو بعد  میں ان کے خاکوں کے مجموعے” سرخاب” میں بھی” انوکھا لاڈلا” کے نام سے شامل اشاعت ہے۔

اختر مرزا نے Friends for fifty years میں خالد صاحب کا تذکرہ کرتے ہوۓ ان کی بے لوث اور پُر خلوص دوستی کے حوالے سے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

خالد حسن ذاتی زندگی کے حوالے سے بہت private آدمی تھے، انہوں نے اہل خانہ کو سختی سے ہدایت دے رکھی تھی کہ ان کی بیماری کے حوالے سے ہرگز تشہیر نہ کی جاۓ ،مگر اکمل علیمی نے اپنے مضمون Farewell,my friend میں خالد صاحب کے آخری دنوں کا احوال حقیقت پسندی کے ساتھ لکھتے ہوۓ مضمون کا اختتام میرؔ کے اس شعر پر کیا ہے۔
منہ پہ رکھ دامنِ گُل روئیں گے مرغانِ چمن
ہر روش خاک اُڑاۓ گی صہبا میرے بعد

اسی مضمون کا اردو ترجمہ “پہاڑ کے پگھلنے کا منظر” کے نام سےعلیمی صاحب کی کتاب لاہور کے اہل قلم میں بھی شامل ہے۔

مسعود حسن کا اپنے بڑے بھائی کے بارے مضمون Date with Khalid Hassan ایک جذباتی نوعیت کی تحریر ہے، جبکہ دوسرے نسبتاً طویل مضمون Jungle fresh’ days and desi nights میں انہوں نے 1979 میں لندن میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے بارے دلچسپ سفر اور وہاں خالد حسن کی صحبت میں گزارے ہوۓ روز و شب کا مفصل احوال بڑی دلچسپی کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔

‏The Friday times کے ادارتی عملے نے In memoriam کے تحت خالد حسن کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

اخباری تراشوں پر مشتمل ایک فائل میری لائبریری کے فلم و موسیقی سے متعلقہ گوشے میں بھی موجود ہے جس میں کندن لال سہگل کے سو سالہ یوم ولادت پر ایاز میر کے 2004 میں Dawn میں شائع ہونے والے کالم سے جنم لینے والی controversy سے متعلق تمام تراشے ترتیب کے ساتھ محفوظ ہیں، اس ضمن میں letters to the editor کے تحت خالد حسن نے بھی ایاز میر کے کالم میں موجود کئی اغلاط کی نشاندہی کرتے ہوۓ ایک خط اخبار کے مدیر کو لکھا جس میں ماسٹر مدن جیسے کمسن گائیک کا حوالہ بھی موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خالد حسن کی کتاب Scorecard اور Give ur our onions back کی میں اکثر ورق گردانی کرتا رہتا ہوں۔ آپ دوست بھی خالد صاحب کی کتابیں ضرور پڑھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply