اور میں نم دیدہ نم دیدہ (1)-ابوبکر قدوسی

پاکستان سے روانگی  
۔۔۔۔ بیٹھے بیٹھے پروگرام بنا اور کچھ روز میں ہم چل دیئے
ﮔﻮ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺩﺳﺘﮏ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﺭِ ﺟﺎﮞ
ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﮐﮭﻮﻻ ﮐﮧ ﺍﻣﮑﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺗﮭﮯ
پچھلے کئی ماہ سے ایسا ہوا تھا کہ میں نے حرم کا تصور کیا اور آنکھیں ساون بھادوں ہو گئیں ۔۔۔
آقا میریاں اکھیاں مدینے وچ رہ گئیاں
ابھی بھی معاملات ایسے نہ تھے کہ میں آسانی سے چل پڑتا لیکن ” حکم حاکم ” کے آگے کسے مفر ہے ۔ یہاں “حاکم” سے مراد کیا ہے آپ سمجھ سکتے ہیں 😊 خاتون خانہ دو ماہ سے جانے کی ضد کر رہی تھیں اور ہم
آج جانے کی ضد نہ کرو ۔۔۔۔۔
لیکن چند ہی گھنٹوں میں دل ٹھہر گیا اور میں نے اپنے پاسپورٹ کی تصویر موذن کو بھجوا دی ۔ موذن برادر ابتسام الہٰی ظہیر کے بیٹے ہیں جنہوں نے ابھی حال ہی میں ” ٹریول ایجنسی ” کو بطور کاروبار اختیار کیا ہے یقیناً سعادت کا کاروبار ہے ۔ اگلے روز ویزہ لگ کر آ گیا اور جانا طے ہو گیا ۔
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
کچھ ضروری تیاری کی ، ہمارے بہت قریبی دوست برادر عمر فاروق جو مکرم حافظ ایوب صاحب ( فیصل آباد ) کے بیٹے ہیں اور مکتبہ اہل حدیث فیصل آباد کے نام سے کتابوں کا کام کرتے ہیں ، انہوں نے مجھے فوری طور پر احرام بھجوا دیا اور ساتھ درجن بھر لمبے وائس میسج کہ ” البیک کہاں سے خریدنا ” ہے اور فلاں کام اور فلاں کام کیسے کرنا ہے ۔ بلاشبہ اس وقت “لبیک” اور “البیک” ہم پاکستانیوں کے لیے لازم ہوئے پڑے ہیں ۔
انتیس نومبر کو رات کے دوسرے پہر مسیب قدوسی صاحب ہمیں ایئرپورٹ چھوڑنے جا رہے تھے ، لاہور کے موسم میں خنکی اتر رہی تھی ۔ سردیوں کی اداس شامیں اور پت جھڑ کا یاسیت زدہ موسم پیچھے رہ رہا تھا اور امید کا چاند آسمان پر طلوع ہونے کو تھا ۔
میں نے اپنے بیگ میں گرمیوں کے کپڑے بھر لیے تھے کیونکہ کہا جا رہا تھا کہ مدینے کے موسم میں گو کچھ خنکی ہے لیکن مکے کا موسم ابھی گرم ہے ۔
یہ ایک نجی ائیرلائن کا نسبتاً چھوٹا جہاز تھا ، میں نے ویسے بہت کوشش کی تھی کہ سعودی ایئر لائن سے ٹکٹ مل جائے لیکن ایسا ممکن نہ ہوا ۔ سبب یہ تھا کہ سعودی ایئر لائن کے جہاز عمدہ ہوتے ہیں دوسرا جس ٹرمینل پہ وہ اتارتے ہیں وہاں سے باہر نکلنے میں اور ایئرپورٹ پر خاصی سہولت ہوتی ہے ۔ جدہ میں میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر ابو الحسن علی کئی برس سے روزگار کے سلسلے میں قیام پذیر ہیں ، انہوں نے ہمیں لینے آنا تھا ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ کسی صورت سعودی ایئر لائن پر آ جائیے ، لیکن ہمارے نصیب کی بارشیں اس مقامی ائیر لائن پر ہی برس رہی تھی۔۔
لاہور ایئرپورٹ پر نصف درجن مرحلوں سے گزرنا بذات خود ایک مشکل کام تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کے بعد اگر جہاز بہت آرام دہ ہو تو پچھلی مشکل کچھ ہی دیر میں دل و دماغ سے نکل جاتی ہے ۔ لیکن ایسا نہ تھا پاسپورٹ ، ویزا چیکنگ اور جامہ تلاشی غرض ہر مرحلے سے فارغ ہو کر لاونج میں چلے آئے اور احرام باندھ لیا ۔ مجھے ایک صاحب نے پوچھا کہ احرام باندھ کر دو نفل کیوں نہیں پڑھے ؟؟
میں نے عرض کیا کہ یہ ثابت نہیں ہے البتہ اگر آپ وضو کر کے وضو کے دو نفل پڑھتے ہیں تو وہ درست ہے ۔ اس پر وہ میری طرف کچھ بے یقینی اور کچھ حیرت سے تکنے لگے ، میرا گمان ہے کہ ان کے دل میں آیا ہوگا کہ
” سفر کا آغاز ہی کسی وہابی کے ٹکرانے سے ہو رہا ہے آگے نہ جانے کیا ہو ” ۔
بہرحال لاؤنج میں موسم خوشگوار تھا اور لاہور کی سردی ایئرپورٹ سے باہر ہی رہ گئی تھی ، سو احرام باندھے کوئی ایسی دقت نہ ہو رہی تھی لیکن میں نے اپنے ہمراہ گرم چادر رکھ چھوڑی تھی میں نے احرام کے اوپر گرم چادر لے لی ۔ یہاں یہ بتانا ضرور چاہوں گا کہ احرام اس مقام سے باندھنا چاہیے جو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم کعبہ کے چہار سمت مکمل مقرر کر دیے ہیں۔ ان مقامات کو میقات کہتے ہیں ۔ جب پاکستان کی طرف سے جاتے ہیں تو میقات ایسے وقت میں آتا ہے کہ جب آپ کا جہاز ہوا میں ہوتا ہے اور جہاز کا عملہ اعلان کرتا ہے کہ آپ کا میقات آ چکا ہے ۔ جہاز کے اندر احرام باندھنا خاصا مشکل اور قریب قریب ایسا ہوتا ہے کہ اس آپ خود بھی مشکل میں پڑیں گے اور دوسروں کو بھی مشکل میں ڈالیں گے۔ اور جب جہاز بھی حاجیوں سے بھرا ہوا ہو تو یہ مزید مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس لیے علماء فتوی دیتے ہیں کہ آپ گھر سے احرام باندھ کر نکل سکتے ہیں یا ایئرپورٹ سے باندھ لیجئے ۔ تو مجھے ایئرپورٹ سے باندھنا اس لیے زیادہ بہتر لگا کہ ایک تو آپ تیاری وغیرہ کے مراحل اور مقامی سفر سے نکل چکے ہوتے ہیں ، پھر ایئرپورٹ پر پاسپورٹ ، سامان کی چیکنگ سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں ۔ ان سارے امور سے احرام کی حالت میں نپٹنا نسبتاً مشکل ہو جاتا ہے ، سو لاونج میں جا کر احرام باندھا جائے تو بہتر ہے ۔ دوسرا اس میں مجھے بہتری کی صورت یہ بھی لگی کہ چاہے ایک قدم ہی ہو آپ میقات کے قریب تر ہوں تب احرام باندھا جائے ۔ احرام باندھ کر ہم سب لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ کب اذن رخصت ہو اور ہم لاہور کو چھوڑ کر سوئے حرم چلیں ۔
ابھی تک جو اعلان ہو رہا تھا اس کے مطابق جہاز وقت مقررہ پر ہی رخصت ہو رہا تھا سو جب عملے کو منظور ہوا تو اعلان ہوا کہ جہاز کی طرف چلیں ۔ وفور شوق سے قافلے آگے بڑھے اور قطار میں کھڑے ہو گئے ۔ چھوٹا جہاز تھا لیکن مسافر ٹھونسے ہوئے تھے نشستوں کے درمیان فاصلہ اتنا تو تھا کہ انسان بیٹھ جائے لیکن پاؤں پسارنے کی سہولت موجود نہ تھی ۔ چھ نشستیں ایک لائن میں یوں تھیں کہ دائیں طرف تین اور بائیں طرف تین ، درمیان میں مناسب سا فاصلہ اتنا ہی جتنا مشتاق احمد یوسفی نے اندرون لاہور کی گلیوں کا بیان کیا ہے کہ بیک وقت اگر دو آدمی آمنے سامنے آ جائیں تو بیچ میں گنجائش نکاح کی رہ جاتی ہے اور یہاں پر تو معاملہ اور بھی زیادہ خطرناک تھا کہ چھ عدد خواتین ہوائی میزبان دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں بھاگی چلی آ رہی ہیں اور جا رہی ہیں کہ :
یہ آ رہے ہیں وہ جا رہے ہیں یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں
جگر مراد آبادی بھی کس وقت یاد آئے ۔ کچھ ہی دیر میں جہاز کے دروازے بند ہو گئے
میری بیٹی وفور شوق سے کھڑکی کے ساتھ لگی بیٹھی تھی کہ جہاز ہوا میں بلند ہوا ۔ نیچے رات کی گہری تاریکی اور ان تاریکیوں میں چمکتا لاہور تھا ۔
اس کے دروازے اور دروازوں سے جھلکتے عشق سمندر سب نیچے روشنیوں میں چمک رہے تھے ۔ قطار اندر قطار روشنیاں بتا رہی تھیں کہ یہ ٹھنڈی سڑک اور یہ فیروز پور کو جاتی شاہراہِ محبت ہے ، اور بہتی ہوئی مجسم داستان محبت لاہور کی نہر ۔۔۔۔
دس کھاں شہر لاہور اندر
کنے بوہے تے کنیا باریاں نے.
دس کھاں شہر لاہور اندر
کھویاں کنیاں مٹھیاں نے تے کنیاں کھاریا ں نے
پھر دور کسی کونے سے کوئل ” کوکتی ” اور جواب آتا ہے کہ اس شہر میں لاکھوں دروازے اور کھڑکیاں ہیں جن کنوؤں سے محبوب پانی بھریں وہی کنویں میٹھے ہیں باقی سب کڑوے ۔۔۔۔۔
دساں میں شہر لاہور اندر
لکھاں بوہے تے لکھاں با ریاں نے
جیا کھویاں توں بھر گئے معشوق پانی
اویو مٹھیاں نے تے باقی کھاریا ں نے
لیکن ہمیں کیا ، ہم آج کون سا فقیر اور تہی دامن تھے کہ لاہور کے میٹھے کھارے کنوئیں شمار کرتے کہ ہم تو اس ازل ازل کے میٹھے پانی کو جا رہے تھے کہ جسے زم زم کہتے ہیں ۔
کچھ ہی دیر میں ہدایات کی ٹیپ چلنا شروع ہو گئی کہ آپ نے جہاز کی نشست و برخواست کیسے کرنی ہے اور اس ریکارڈنگ کے ساتھ ساتھ میزبان خواتین عملی مظاہرہ کر کے دکھا رہی تھیں ۔ سارا کچھ ٹھیک تھا کہ بیلٹ کیسے باندھنی ہے ، کھانے کی ٹرے کیسے سیدھی کرنی ہے ،اگر اکسیجن کا دباؤ کم ہو جاتا ہے تو آپ کے سامنے ماسک آن گرے گا تو ماسک کیسے لگا کر سانس کیسے بھرنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایمرجنسی کے دروازے کس طرف ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن کلائمکس تب تھا جب خاتون میزبان نے اپنے جسم پر لائف جیکٹ پہن لی اور بتایا کہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں آپ کی نشست کے نیچے لائف جیکٹ ہے اور اس لائف جیکٹ کو یوں باندھنا ہے اور اس نلکی سے آپ نے منہ لگا کے ہوا بھرنی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ سیٹی لگی ہوئی ہے کہ آپ نے دوسروں کو اس سیٹی کے ذریعے متوجہ کرنا ہے ۔۔۔۔۔
صاف سیدھا نہیں کہہ رہی تھی کہ اگر ہمارا جہاز سمندر میں گر جائے تو ایمرجنسی دروازے فلاں جگہ ہیں لائف جیکٹ آپ کے نیچے ہے تو کاندھے پہ چڑھانی ہے ، ہوا بھرنی ہے اور ٹائٹینک کا ہیرو بن جانا ہے ۔۔۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ جب سیٹی بجانے کا طریقہ بتا رہی تھی تو میرے کانوں میں ٹائٹینک کی سیٹیاں بج رہی تھی اور شرم بھی آ رہی تھی کہ حرم کے سفر پہ نکلا یہ رند بے عمل اس وقت بھی اس سیٹی کے ذریعے کس رومانس کو یاد کر رہا ہے ۔
ابھی اعلان ختم ہوا تو ایک دیہاتی خاتون نے جلدی سے سیٹ کے نیچے ہاتھ سے ڈالا اپنے حصّے کی جیکٹ نکال لی ۔ بلاشبہ پیش بندی کی انتہا تھی اور احتیاط کا بہترین منظر ۔۔۔ خاتون میزبان جلدی سے آگے بڑھی اور اسے ایسا کرنے سے منع کیا ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں کھانے کا اور چائے پانی کا دور شروع ہو گیا اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہماری یہ بہنیں مارچ کے ہفتے میں اتنا غصے میں ہوتی ہیں اور اپنے گھر والوں کو کارڈ اٹھائے کہہ رہی ہوتی ہیں کہ
” اپنے کپڑے خود استری کرو ، اپنا کھانا خود گرم کرو ، میں ہرگز نے ایسا نہیں کروں گی ”
اور اس وقت جہاز میں دو سو مہمان ہیں ، جن کو یہ خاتون گرما گرم کھانا فراہم کر رہی ہے اور ان کے آنکھوں میں موجود ہر رنگ کو پڑھ رہی ہے اور اس کے باوجود بڑے حوصلے اور ضبط کے ساتھ ان کو گرما گرم کھانا دے رہی تھی ۔
قریب پانچ گھنٹے کا سفر کروٹیں بدلتے اختتام کو پہنچا غیر آرام دہ نشستوں کے سبب ہم نے اس جہاز کو ہوائی چنگچی کا نام دے دیا ۔ جدہ ایئرپورٹ پر اترنے سے لے کر ہینگر پر لگنے تک آہستہ آہستہ رینگتا ہوا جہاز نصف گھنٹہ لے گیا یہ وقت خاصا صبر آزما تھا۔۔۔البتہ خوشگوار طور پر جہاز سے اتر کر ایئرپورٹ سے نکلنے تک کا تمام تر مرحلہ خاصا آسان ثابت ہوا کہ جس کے بارے میں جدہ میں موجود چھوٹے بھائی ابو الحسن نے مجھے ڈرا رکھا تھا لیکن ایسا کچھ نہ تھا ممکن ہے ان کا ماضی کا تجربہ ہے ایسا ہی رہا ہو ۔ بعد میں دوسرے احباب نے بھی ان دور کے حج ٹرمینل پر ایسی ہی مشکلات کا ذکر کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا ۔
اترتے ہی پہلی تبدیلی دکھائی دے گئی کہ امیگریشن کے کاونٹروں پر مردوں کی تعداد کم تھی اور خواتین زیادہ بیٹھی ہوئی تھیں ۔۔۔ البتہ سب نے عبایا پہن رکھے تھے اور ساتھ چہروں پر بھی پردہ سجا رکھا تھا ۔
ہم جس خاتون کے حصے میں آئے اس نے منٹوں میں ہمارے پاسپورٹ پر ٹھپے لگا کر ہمیں باہر کا راستہ دکھا دیا ۔ ہم دوستوں کی ہدایات کے مطابق آسانی سے باہر آئے ، سامان لیا اور ائیرپورٹ سے باہر نکل آئے ۔ پہلے وہاں سعودی موبائل کمپنی کی سم خریدی اور وہیں کھڑے کھڑے پاکستانی سم سے بدل لی ۔ میں نے ہمیشہ کی طرح لاپرواہی سے سم بیگ میں ڈال دی ، جو اگلے روز ہی نہ ملی اور یوں بہت سے احباب کے نمبروں سے اب محروم ہوا بیٹھا ہوں ۔
ابوالحسن باہر اپنی گاڑی پر انتظار کر رہے تھے ، آسانی سے مل گئے ۔ رات کا آخری پہر تھا جو ڈھل رہا تھا سڑک پر کھجوروں کے قطار اندر قطار لگے درخت بتا رہے تھے کہ ہم کھجوروں کے دیس میں ہیں ۔
کہتے ہیں کہ ایک سعودی سے کسی نے پوچھا کہ
” اپ کے یہاں کون سا پھل زیادہ پایا جاتا ہے ؟”
تو عرب نے کہا” کھجور ” ۔
پوچھنے والے نے دوبارہ پوچھا :
“کھجور کے علاوہ کون سا دوسرا پھل ہے”
اس نے کہا : “ہاں ہے کھجور ”
اس پر اس نے دوبارہ پوچھا :
“چلئے ! کھجور تو ہو گیا ، کھجور کے علاوہ بھی کوئی پھل ہے؟”
اس نے کہا “ہاں کھجور کے علاوہ بھی ہے ”
اب وہ شخص متجسس ہوا “وہ کون سا ہے ؟”
تو وہ بولا ” کھجور ”
مجھے دور سے ابو الحسن نظر آئے ، بازو کھولے ہوئے
آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply