عاشق۔۔۔۔۔مرزا مدثر نواز/قسط2

اپنے محبوب کے عشق میں ڈوبا ہوا سیالکوٹ کا باسی اپنے پروردگار سے دعا کرتا تھا کہ
؂تو غنی ازہر دو عالم من فقیر
اے مالک تو دونوں جہانوں سے بے نیاز ہے اور میں ایک سائل و فقیر ہوں
روزِمحشر عذر ہائے من پذیر
روزِ قیامت میری بے شمار معذرتوں کو قبول فرماتے ہوئے مجھے معاف کر دینا
وَر حسابم را تو بینی ناگزیر
لیکن اگر میری معذرتوں کے باوجود میرا حساب لینا لازمی ہو جائے
اَز نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
تو پھر میرے رسولﷺ کی نگاہوں سے بچا کر میرا حساب لینا۔

ساری دنیا کی ٹیمیں عالمی کپ کے مقابلوں میں اپنے کھیل کا جادو جگا رہی ہوں لیکن پاکستانیوں کو پاکستانی کھلاڑی ہی بھاتے ہیں‘ سارے ضلع کی ٹیمیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں‘ ہر گاؤں والوں کو اپنے گاؤں کے کھلاڑی ہی اچھے لگتے ہیں۔ اگرفتوے دینے والے اجازت دیں توقرآن پاک میں آپﷺ کی تعریف میں بیان کی گئی کچھ آیتوں کی تشریح اسطرح کی جاسکتی ہے کہ جیسے مالکِ کائنات کہہ رہا ہو کہ مخلوق تو ساری میری ہے مگر مجھے محمد ہی سب سے پیارا لگتا ہے‘ سجدے کرنے والے تو میرے لاتعداد ہیں مگر مجھے سب سے عزیز سجدے اسی کے ہی ہیں‘ عبادت اسی کی ہی اچھی لگتی ہے‘ یار اسی کے ہی سب سے زیادہ محبوب ہیں جبھی تو انہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارتیں دینی پڑیں اور کہنا پڑا کہ میں ان سے راضی اور وہ مجھ سے راضی‘ قسمیں صرف اسی کے ہی شہر کی کھاتا ہوں جو ساری دنیا میں معزز بنایا ہے لہٰذا کائنات والو اگر مجھے منانا ہے سجدے کر کر کے‘ تو سجدے ویسے کرنا جیسے میرا محمد کرتا تھا‘ میرا مقرب بننا ہے عبادت سے‘ تو طریقہ عبادت وہی اپنانا جو میرے نبی نے سکھایا‘ قیامت والے دن قد اونچے کروانے ہیں تو پیروی فقط اسی کی کرنا‘ میری رحمتوں کا حقدار بننا چاہتے ہو تو درود وہی لے کر آنا جو میرے محمد نے سکھایا جس کا نام درود ابراہیمی ہے‘ کسی سے عشق کر کے اور اس کی زندگی کو نیک نمونہ سمجھ کر مجھ تک پہنچنا ہے تو تمہاری نظریں میرے محبوب پر ہی ٹکنی چاہییں۔

مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ محبت کی وضاحت نہیں کی جا سکتی ‘ تا ہم خود محبت ہر شے کی وضاحت کرتی ہے۔

نبی اکرمﷺکے عشق کے دعویدار کو اپنے کردارو عمل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ واقعی میں سچا عاشق ہے نہ کہ صرف نعروں کی حد تک۔

آئیے سیرت کے چند واقعات پر نظر ڈالتے ہیں جن سے ایک سچے عاشق کو ضرور آگاہ ہو نا چاہیے۔اربابِ سِیَر نے تصریح کی ہے اور تمام واقعات شاہد ہیں کہ آپﷺ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا‘ صحیحین میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپ نے کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملہ میں انتقام نہیں لیا بجز اس صورت کے کہ اس نے احکام الٰہی کی تفضیح کی ہو۔ جنگ احد کی شکست سے زیادہ رؤسائے طائف کے تحقیر آمیز برتاؤ کی یاد خاطر اقدس پر گراں تھی‘ تاہم دس برس کے بعد غزوہ طائف میں جب وہ ایک طرف منجنیق سے مسلمانوں پر پتھر برساتے تھے تو دوسری طرف ایک سراپائے حلم و عفو انسان یہ دعا مانگ رہا تھا کہ خدایا انہیں سمجھ عطا کر اور ان کو آستانہ اسلام پر جھکا‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا‘ ۹ہجری میں جب ان کے وفد نے مدینہ کا رخ کیا تو آپ نے صحن مسجد میں ان کو مہمان اتارا اور عزت و حرمت کے ساتھ ان سے پیش آئے۔

قریش نے آپﷺ کو گالیاں دیں‘ مارنے کی دھمکی دی‘ راستوں میں کانٹے بچھائے‘ جسم اطہر پر نجاستیں ڈالیں‘ گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا‘ آپ کی شان میں گستاخیاں کیں‘ نعوذ باللہ کبھی جادوگر‘ کبھی پاگل‘ کبھی شاعر کہا لیکن آپ نے کبھی ان کی باتوں پر برہمی ظاہر نہیں فرمائی‘ غریب سے غریب آدمی بھی جب کسی مجمع میں جھٹلایا جاتا ہے تو وہ غصہ سے کانپ اٹھتا ہے‘ ایک صاحب جنہوں نے آپ کو ذی المجاز کے بازار میں اسلام کی دعوت دیتے ہوئے دیکھا تھا‘ بیان کرتے ہیں کہ آپ فرما رہے تھے کہ’’ لوگو لا الہ الا اللہ کہو تو نجات پاؤ گے‘‘ پیچھے پیچھے ابو جہل تھا‘ وہ آپ پر خاک اڑا اڑا کر کہہ رہا تھا’’لوگو! اس شخص کی باتیں تم کو اپنے مذہب سے برگشتہ نہ کر دیں‘ یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے دیوتاؤں لات و عزیٰ کو چھوڑ دو‘‘۔ راوی کہتا ہے کہ آپ اس حالت میں اس کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہ تھے۔

سب سے بڑھ کر طیش اور غضب کا موقع افک کا واقعہ تھا‘ جب کہ منافقین نے حضرت عائشہؓ پر نعوذ باللہ تہمت لگائی تھی‘ حضرت عائشہؓ آپﷺ کی محبوب ترین  زوج  اور حضرت ابو بکرؓ جیسے یار غار اور افضل الصحابہ کی صاحبزادی تھیں‘ شہر منافقوں سے بھرا پڑا تھا‘ جنہوں نے دم بھر میں اس خبر کو اس طرح پھیلا دیا کہ سارا مدینہ گونج اٹھا‘ دشمنوں کی شماتت‘ ناموس کی بدنامی‘ محبوب کی تفضیح یہ باتیں انسانی صبر و تحمل کے پیمانہ میں نہیں سما سکتیں‘ تا ہم ہم جانتے ہیں کہ رحمت عالمﷺ نے ان سب باتوں کے ساتھ کیا کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply