ایسا ہوتا ہے کبھی کبھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ سالوں قرنوں کی گزری پر چھائیں اپنے کچھاروں سے نکل کر رواں دواں ساعتوں کے سینوں سے آچمٹتی ہیں۔ وقت کے بہتے ہوئے پانیوں کی گم شدہ لہریں پھر سے مخالف بہاؤ پر بہنا شروع ہو جاتی ہیں۔ تاریخ کے گزرے ہوئے واقعات پرانے جامے اتار کر نئے پہناوے پہن کر سامنے آجاتے ہیں۔
وہ تاروں بھری رات تھی۔ مصر کے آسمان پر بکھری اس رات جیسی جب شاہ عزیز کی ملکہ نے یوسف کے حسن و جمال کانظارہ خوابوں میں کیا تھا۔ کوہ ہندو کش’ کوہ قراقرم اور ہمالیائی سلسلوں کے دامن میں لپٹی اس وادی میں جہاں سناٹا اور اندھیرا وقت کی گود سے لمہہ لمحہ سرک رہا تھا۔ شہزادہ فردوس نے بھی ایک پری پیکر کا دیدار کیا تھا۔
آنکھیں کھول کر اس نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
‘‘پروردگار یہ میں نے کیا دیکھا ہے؟ ایسا چہرہ’ ایسا حسن تو میرے آس پاس کہیں نہیں۔ صبح وہ بے کل تھا۔ مضطرب تھا۔ کوئی ماورائی مخلوق’ کوہ قاف کی کوئی پری’ اپسرا کیا تھی وہ؟ جسے اس نے رات خواب میں دیکھا تھا۔ وہ سوچتا رہا’ الجھتا رہا’ دنوں اس گھتی کو سلجھاتا رہا اور پھر یوں ہوا کہ اس نے اس حسین شبیہ کو اپنی آنکھوں سے اپنے دماغ اور دماغ سے دل میں اُتار لیا تھا۔ آنکھیں دل اور دماغ سبھی مطمئن ہو گئے تھے۔ کیونکہ جب اور جس وقت اس کا جی چاہتا وہ تصویر یار دیکھ لیتا۔
میں چنار باغ سے جب لوٹی اس وقت گھر کے برقی چراغ جل رہے تھے۔ آنگن صاف ستھرا تھا اور وہاں بستر بچھے ہوئے تھے۔ خاتون خانہ ایک پر بیٹھی شفقت سے مسکراتی تھی۔
‘‘کہاں کہاں کی سیر کی؟ ساتھی لوگ ملے’’۔
میں نے ہنس کر ساری روئیداد سنائی انہیں۔
رات کے کھانے اور عشاء کی نماز سے فارغ ہوئی تو محسوس ہوا کہ گھر والی باتوں کے موڈ میں ہیں۔ انکی آنکھیں کچھ دکھانا اور ہونٹ کچھ سنانا چاہتے ہیں۔
میرے اس سوال پر کہ کچھ گلگت کے بارے میں بتائیے انہوں نے کہا تھا۔ گلگت کی قدیم تاریخ ملکہ جوار خاتون کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ کیونکہ موجودہ گلگت کی زرخیزی ‘شادابی‘ تازگی اور آبادکاری اسی کے کاموں کی مرہون منت ہے۔
گلگت کو ڈوگروں کی غلامی سے آزاد کروانے اور اسے پاکستان کا ایک حصہ بنانے کا اعزاز کرنل مرزا حسن خان کے کھاتے میں جاتا ہے کہ جس کے بغیر تحریک آزادی شمالی علاقہ جات کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکتی تھی۔ آپ دونوں میں سے کسے پہلے سنیں گی۔
گلگت کی یہ رات بہت خوبصورت تھی۔ ہوا میں خنکی تھی اور ستارے سیاہ آسمان کے سینے پر کسی شوخ حسینہ کی چمکتی آنکھوں کی طرح مسکراتے تھے۔ ماضی کو کریدے بغیر حال تک نہیں پہنچا جاتا۔ میں نے اپنا رخ ان کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
‘‘چلئے آج کی شب ملکہ جوار خاتوں کے نام کرتے ہیں۔’’
بدرکامل تھی وہ ‘رعنائیوں کا ایک تراشید ہ پیکر’ حسن و شباب کا ایک لبالب بھرا جام’ پر کیا مجال کہ اس جام سے ایک قطرہ بھی باہر چھلکا ہو یا کسی کو ایک گھونٹ بھی پینا نصیب ہوا ہو۔ حتی کہ وہ بھی پیاسا تھا۔ وہ جو اس کا محسن تھا۔ راجہ احمد خان جس نے اُسے پناہ دی تھی اس کڑے وقت جب وہ اپنی سلطنت گلگت پر دشمن کے قبضے کے بعد بھاگی تھی۔
اپنی ریاست میں اسنے اس کا شاہانہ استقبال کیا۔ شاہی زندگی کے تمام لوازامات مہیا کئے اور اس کے سر پر ملکہ کا تاج سجایا۔
یہ راجدھانی گلگت کے نامدار خاقان مرزا کی دُلاری بیٹی شہزادی جوار خاتون تھی۔
وہ دلیر تھی’ شہ زور تھی’ سپاہیانہ طرز زندگی کو پسند کرتی تھی۔ روایتی شہزادیوں اور ملکاؤں کی طرح خود کو زیور لتے سے سجانے کی بجائے تلوار کو پہلو سے لٹکاتی تھی۔ نیزہ کمان ہاتھ میں پکڑتی تھی۔
یہ آتی بہاروں کی ایک دل آویز سی شام تھی جب ہواؤں کا دامن بادام اور چیری کے شگوفوں کی خوشبوؤں سے بوجھل تھا۔ جب سارے میں جنگلی گھاس اور عناب کے پتوں کی مدہوش کن مہک حواس کو متاثر کرتی تھی۔ فضا کسی کنواری دوشیزہ کی مانند پاکیزہ تھی۔ پہاڑوں کی برفانی چوٹیوں پر سورج کی آخری کرنیں اس انداز میں اپنے جلوے دکھاتی تھیں کہ سونے اور چاندی کے دریا بہتے محسوس ہوتے تھے۔
ایسے میں وہ اپنے محل کے بالا خانے کی چھت پر کھڑی تیر اور کمان سے دور جھیل پر اڑتی مرغابیوں کو نشانہ بنا رہی تھی۔ کمان سے زن کرتے ہوئے تیر نکلتا اور فضا کا سینہ چیرتا ہوا مرغابی کے دل میں کہیں پیوست ہو جاتا۔
دفعتاً وہ رک گئی۔ جنگلوں سے آتی اس خوشبو کو اس نے اپنے سینے میں اُتارنا چاہا پر پتہ نہیں کیوں اس کا دم گھٹنے لگا تھا؟
اس وقت ہوائیں پچھمی تھیں اور پچھم اسے ہمیشہ مضطرب رکھتا تھا۔ اسنے پہاڑوں پر جمی نگاہوں کا رخ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور اس سے ہمکلام ہوئی۔
کہتے ہیں کبھی کبھی تو اپنی آسمانی دنیا سے اتر کر نیچے بہت نیچے کسی کے دل میں آجاتا ہے اور وہ سب کچھ جان لیتا ہے اور سن لیتا ہے جو وہ جانے کب سے تجھے سناتا چلا آتاہے اور جسے تیرے کانوں کے بند دروازے ذرا سی درز کھول کر اندر نہیں جانے دیتے ۔ کچھ ہرج ہے اگر آج چند لمحوں کے لئے تو میرے پاس آجائے اور یہ جان لے کہ میں اپنے وطن گلگت جانے کی آرزو مند ہوں۔
تب بالا خانے کی سیڑھیوں کے آخری پوڈے پر محل کی پرانی خادمہ نسلاً دُرد سکینہ بروک پا دیودار کی چھڑی دیواروں سے ٹکراتی ظاہر ہوئی تھی۔ ا سکی تیز اور پاٹ دار آواز خاموش اور سناٹے میں ڈوبی فضا پر اسی طرح برسی تھی جیسے ہتھوڑا لوہے پر۔
‘‘تمہارا اقبال بلند ہو۔ ابھی ابھی سپدر (را جہ کے ملازم) دربار سے آئے ہیں۔ بتاتے ہیں تمہاری راج دھانی گلگت سے وزیر رشو آیا ہے۔ اس کے ساتھ بے شمار نوکر اور خادم ہیں جو سبک رفتار گھوڑوں پر سوار یہاں پہنچے ہیں۔ خوان پوشوں سے ڈھپنی سینیوں میں بہت قیمتی تحائف آئے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر قبل وہ راجہ کے پاس پہنچے ہیں اور بس کسی بھی لمحے یہاں آیا چاہتے ہیں۔
وہ آپ کو لینے آئے ہیں۔ گلگت کی راجدھانی آپ کو سونپنا چاہتے ہیں۔ آپ کو اپنی ملکہ بنانے کے آرزو مند ہیں۔ آپ سنتی ہیں نا ملکہ عالیہ!’’
سماعت پر بجتی اس آواز کو اس نے حیرت سے سنا۔
ہاتھ میں پکڑی کمان اک ذرا لرزی تھی۔ چھ فٹی قامت نے پورے سر یر میں ہلکا سا جھٹکا کھایا تھا۔ اس نے آسمان کو دیکھا اور سرگوشی کے انداز میں کہا۔
‘‘تو پھر تو آج نیچے آہی گیا کھلے کانوں اور کھلے دل کے ساتھ’’
‘‘میں تیری شکر گزار ہوں’’۔
اور جب چوب چراغوں کی روشنی سے محل جگمگا رہا تھا وہ پر تمکنت چال چلتی دیوان عام میں داخل ہوئی تھی۔
پر اندر قدم بڑھانے سے پہلے وہ دہلیز میں رکی تھی اور ا سنے ناقدانہ نظریں اندر پھینکی تھیں۔
وزیر رشو اور اس کے معتمد ساتھی کھڑے ہو گئے تھے۔ سر کو تعظیمی جھکاؤ دینے کے بعد جب وہ سیدھا ہوا تو دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا تھا اور کچھ کچھ جانا تھا۔
سوا چھ فٹ کا پینتالیس سالہ مرد افگن ‘بلا کا زیرک ‘چالاک اور کائیاں تھا۔ کمان جیسے ابرؤں اور گھنی پلکوں کی حفاظت میں سبزی مائل چمک دار شعلوں کی مانند دہکتی آنکھیں جن کی مماثلت کے بارے میں اس کے ذہن نے پل بھی نہیں لگایا تھا اور جان لیا تھا کہ یہ خونخوار چیتے کی آنکھوں سے بہت مشابہ ہیں۔
سپدروں (نوکروں) نے رشو کے اشارے پر خون پوش سینیاں شہزادی کے حضور پیش کیں۔
تب اس نے نہایت عجز و انکساری کے ساتھ مدعا پیش کیا۔
اس وقت گلگت کا تاج و تخت خالی ہے۔ صرف شہزادی جوار خاتون کی ذات شرعاً و رواجاً اس کی جائز وارث ہے۔ حق بحق را رسید میرا ایمان ہے۔ اس لئے میں حاضر خدمت ہوا ہوں اور خواہش مند ہوں کہ شہزادی عازم گلگت ہوں۔
اس نے شہزادی کے خاوند راجہ احمد خان کو بھی پیشکش کی کہ وہ بھی اس کے ہمراہ چلیں اور ایک مشیر کی حیثیت سے شہزادی جوار خاتون کی مدد کریں۔
رشو سیاست کا شاطر کھلاڑی تھا۔ اقتدار کے جس سنگھاسن پر وہ بیٹھا تھا۔ اس کی چند حماقتوں کی وجہ سے وہ ڈولنے لگا تھا۔ گلگت پر نگر کے راجہ شاہ کمال کا قبضہ تھا۔ پر یہ قبضہ برائے نام سا تھا۔ راجہ شاہ کمال کا بڑا بیٹا شہزادہ فردوس کبھی کبھی گلگت ضرور آتا پر انتظامی معاملات میں دخل نہ دیتا۔ اقتدار کی ساری کنجیاں رشو کی جیب میں تھیں۔ تکبر’ نخوت اور ذاتی شخصیت پرستی نے مکڑی کی طرح اس کے گرد جالا بن دیا تھا۔ امراء و وزراء سے سلوک توہین آمیز تھا۔ معاملاتِ عدالت میں جانبداری کا ر فرما تھی۔ عوام میں ہیجان تھا۔ صورت حال کو سدھارنے میں شاہ کمال نے معذوری ظاہر کی تھی اور اب وہ عوام کی خواہشات کے مطابق شہزادی کو لینے آیا تھا۔
وہ شہزادی کی سحر زدہ شخصیت سے متاثر ہوا تھا۔ لیکن اس کی سبز آنکھوں میں چھلکتے جاہ و جلال کے رنگوں سے اتنا وہ ضرور سمجھا تھا کہ اسے وہ کٹھ پتلی نہیں بنا سکے گا۔ پر شطرنج کے ماہر کھلاڑی کی طرح مہروں کے ہیر پھیر سے اس نے بازی کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اس ضمن میں اٹھایا جانے والا پہلا قدم دانشمندی اور تدبر سے پر تھا۔ شہزادی جوار خاتون کو احمد خان کی زوجیت سے آزاد کروا کے اس نے شہزادی کوحد درجہ ممنون کیاتھا۔
دوسرے ٹھاٹھ باٹ اور شان و شوکت سے شہزادی کا شاہانہ جلوس گلگت کی طرف روانہ کیا۔
دنیور کے قریب شہزادی کا استقبال گلگت کے باسیوں نے حفظ مراتب کے ساتھ کیا۔ رونو (شاہی خاندان) شین (درباری امراء و وزراء) اور ان کے پیچھے یشکن (عوام)۔ لوگوں نے محبت و خلوص اور جوش عقیدت سے شہزادی پر پھولوں اور موتیوں کی بارش کی۔ ڈوم (ناچنے گانے والے) قوم اپنے آلات موسیقی کے ساتھ موجود تھی۔ فضا میں شہنائی کی آوازیں بکھری ہوئی تھیں۔ کہیں کوئی من چلا ستار بجا رہا تھا۔ ڈوم عورتیں رقص اور مرد گیت گا کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔
خوبرو شہزادی چھلانگ لگا کر گھوڑے سے اتری تھی۔ اس کی خوبصورت آنکھیں اتنی پرتپاک پیشوائی پر گیلی ہو رہی تھیں۔ وہ فرداً فرداً سب کے پاس گئی۔ انکساری سے ان کے احوال دریافت کرتی رہی۔
پھر لوگوں کے ہجوم میں اس کی سواری قلعہ فردوسیہ کے شاہی محلات میں داخل ہوئی۔
محل میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلا کام سجدہ شکر کی ادائیگی تھا۔
وہ نبض شناس تھی اور نظر شناس بھی‘ پر تھوڑا سا دھوکا کھا گئی۔ تاج پوشی کی رسم دو دن بعد تزک و احتشام سے منائی گئی۔ اس وقت جب دربار لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور درباری لوگوں کے چہرے وفور مسرت سے گلنار تھے وہ کھڑی ہوئی اور اس نے کہا۔
ان تاریخ ساز لمحوں میں میں اسلام کے جید عالم ابن سماک کی خلیفہ ہارون الرشید سے گفتگو کا حوالہ دوں گی۔ خلیفہ شدید پیاسے تھے۔ دربار میں ہی پانی کا پیالہ طلب کیا۔
عین اسی وقت ابن سماک نے پوچھا ‘‘یہ پانی اگر آپ کو نہ مل سکے تو اس کی کیا قیمت دینا پسند کریں گے’’۔
‘‘نصف سلطنت بھی سستی سمجھوں گا۔’’
پانی آیا۔ انہوں نے پیا ۔دوبارہ سوال ہوا۔ ‘‘یہ پانی اگر آپ کے پیٹ سے نکلنا چاہے اور نہ نکلے تب کیا کریں گے؟ خلیفہ جواب دیتے ہیں ‘‘باقی سلطنت بھی دے دوں گا’’۔
ابن سماک نے فرمایا ‘‘تو یہ جان لیجئے امیرالمومنین کہ آپ کی ساری سلطنت ایک گھونٹ پانی اور چند قطرے پیشاب کی قیمت کے برابر ہے تو پھر اس پر کیا تکبر کیسا؟
چونکہ ایک طویل عرصے کی جلا وطنی کے بعد مجھے سلطنت کے حالات کو سمجھنے اور جاننے کے لئے وقت درکار ہے۔ ا سلئے وزیر رشو میرے قائم کے طور پر کام کریں گے۔ میں ان سے یہ توقع کروں گی کہ وہ رعایا سے حسن سلوک کریں اور ہمیشہ اپنی عاقبت کو مدنظر رکھتے ہوئے عدل و انصاف کامیزان قائم رکھیں اور اس سلطنت کو اپنے لئے ایک آزمائش جانیں۔
اور اس نے دیکھا تھا وہی چہرے جو تھوڑی دیر قبل مسکر رہے تھے۔شاداں و فرحاں تھے۔ وہ یکلخت سناٹوں کی زد میں آگئے۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی جابر نے ان کی رگوں میں دوڑتا پھرتا سرخ خون کشید کر لیا۔
اس نے سرجھکا لیا تھا۔ کچھ سنے اور پوچھے بغیر وہ بہت کچھ جان گئی تھی۔ پر زبان سے نکلی ہوئی بات اس تیر کی طرح تھی جو کمان سے ایک بار نکلنے کے بعد واپس نہیں آتا۔
باشعور او ربیدار مغز شہزادی حالات سے جلد آگاہ ہوئی۔ اراکین دربار کو تسلی و تشفی دے کر مطمئن کیا اور رشو کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔
اب یہ معمول بنا کہ عوام کی تکلیف اور ان کے خانگی معاملات کا جائزہ لینے کے لئے وہ ریاست کے گشت پر نکل جاتی۔ فنون سپاہ گری میں طاق اور شکار کی بے حد شوقین تھی۔ شکار کا تعاقب پیدل اس تیزی سے کرتی تھی کہ کوئی تیز رفتار مرد بھی اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ وہ دریائے گلگت و ہنزہ کے ساتھ کچی سڑک پر گھوڑا دوڑاتی متم داس کی وادی سے آگے نکل گئی۔ یہاں سے نگر کا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ اس وقت دھوپ بہت تیز تھی۔ گھوڑا تھکا ہوا تھا اور خود اس کی زبان پر پیاس سے کانٹے پڑے ہوئے تھے۔ گھوڑے کو خوبانی کے ایک پیڑ کے نیچے باندھ کر وہ خود کسی چشمے کی تلاش میں پیدل ہی چل پڑی۔ کافی آگے جا کر سپروس کے درختوں کی چھاؤں میں اس نے کچھ انسانوں کو سوتے ہوئے پایا۔ ذرا فاصلے پر گھوڑے آرام کرتے تھے۔ پانی کا مشکیزہ اور چند کٹورے بھی وہیں پڑے تھے۔ گھوڑوں کے قدبت ان کی صورتیں اور وہاں موجود چیزیں ان کے حسب نسب کی نشان دہی کرتی تھیں۔ راجہ لوگ معلوم ہوتے تھے۔ جو شکار کے لئے نکلے ہوئے تھے۔
اس نے پانی پیا اور واپسی کے لئے قدم اٹھائے۔ پر جھٹکا کھا کر یوں رکی جیسے قدموں کو آگے کھائی نظر آگئی ہو۔ دو ہاتھ کے فاصلے پر ایک نوجوان دونوں بازورخساروں کے نیچے رکھے سوتا تھا۔
یوں لگا جیسے سورج دیوتا اور اس کا رتھ آسمان کے سینے پر دوڑتا دوڑتا اچانک زمین کے اس گوشے پر ٹوٹ کر گر گیا ہو اور اب سوتا ۔
اس نے چند بار پلکیں جھپکیں اور پھر رخ موڑ لیا۔
وہ برفانی تودے سے ٹوٹے ہوئے اس ٹکڑے کی مانند تھی۔ جو سورج کی کرنوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی پتھر جیسا بنا رہتا ہے۔
لیکن گھوڑے پر جب چھلانگ مار کر بیٹھی تو محسوس ہوا جیسے پتھر ٹوٹ پھوٹ رہا ہے اور برف کا تودہ پگھلنے لگا ہے۔
اس کا جی چاہا تھا وہ اپنے گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس کا رخ سپروس کے درختوں کی طرف موڑ دے جہاں کوئی سوتا تھا۔
دنوں وہ بے کلی کا شکار رہی۔ پھر اس نے سورج دیوتا کو اپنی پلکوں کی چھاؤں میں بٹھایا اور خود سلطنت کے کاموں میں جذب ہو گئی۔ کبھی کبھی فرصت کے لمحوں میں اسے وہاں سے اٹھ اکر اپنے پاس بٹھا لیتی اور یوں وقت گزرتا گیا۔
پورے ملک کا دورہ کرنے سے شہزادی پر واضح ہو گیا تھا کہ غریب عوام میں وزیر رشو کی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں سے ہیجان ہے۔
اب مداخلت اور نوک جھونک کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ رشو آمریت اور مطلق العنانی کے منہ زور اندھے گھوڑے پر سوار تھا۔ جسے روکنا ٹوکنا اسے گوارا نہ تھا۔ عوام میں شہزادی کی بڑھتی ہوئی ہر دل عزیزی بھی اس کے لئے خطرے کا نشان بن رہی تھی۔ اس کی سوچیں اب اس نقطے پر مرکوز ہو رہی تھیں کہ وہ کسی طرح شہزادی کا خاتمہ کر دے۔
یہ خزاں کے دن تھے۔ کسانوں نے چاول’ مکئی’ کنگنی اور چینا (آنو) کی کٹائی کر لی تھی اور اب سردیوں کے انتظامات میں مصروف تھے۔ جب شہزادی نے بگروٹ جانے کا ارادہ کیا۔ بگروٹ شدید سردی کی زد میں رہنے والا پہاڑی علاقہ ہے۔
اس دورے کے دو اہم مقاصد شہزادی کے پیش نظر تھے۔ ایک باج اور خراج کا معاملہ دوسرے لوگوں کے مسائل کا جاننا۔ کیونکہ بگروٹ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے سال میں صرف ایک فصل پیدا کرتا تھا۔
شہزادی کا بگروٹ کے قلعے سینکر میں قیام ہوا۔
اب رشو نے سوچا بس یہی موزوں وقت ہے۔ اس نے اپنے خیر خواہوں کی ایک جماعت کو اس ہدایت کے ساتھ کہ وہ فوراً قلعہ سنیکر کے دروازے پر قبضہ کر لے بگروٹ کی جانب روانہ کر دیا۔ ان مسلح لوگوں نے شہزادی کی مہربانیوں اور نیکیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سنیکر میں داخل ہوتے ہی سب کچھ اسے بتا دیا۔ شہزادی نے انہیں انعام و اکرام سے نوازتے ہوئے کہا ‘‘رشو کو اطلاع دے دو کہ اس کے حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے’’۔
وہ اسلحہ جنگ سے لیس ہو کر آیا۔ شہزادی کے روبرو حاضر ہوا۔ اس کا لہجہ درشت تھا۔ آنکھوں میں رعونت اور تکبر کا رنگ تھا۔ شہزادی کو تعظیم دئیے بغیر شمشیر پر ہاتھ رکھتے ہوئے تحکمانہ انداز میں بولا۔
‘‘تم جانتی ہو۔ اچھی طرح سمجھتی ہو۔ والئی یاسین تمہارے دادا کا قاتل ہے۔ نگر کا راجہ شاہ کمال تمہارے باپ خاقان مرزا کا مجرم ہے۔ یہ صرف میں ہوں جس نے تمہاری جلاوطنی کو ختم کیا اور تمہیں تخت سونپا۔ میری جوانمردی’ دلیری اور شجاعت سے دشمن لرزاں ہیں۔
وہ تھوڑی دیر کے لئیے رکا۔ شہزادی کو اس نے گہری نظروں سے دیکھا اور پھر بولا۔
‘‘تمہاری عمر اس وقت پچیس سال ہے۔ میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ مجھ سے بہتر شوہر تمہیں نہیں مل سکتا یا مجھ سے شادی کرو اور یا مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ سوچ لو تمہیں زندگی قبول ہے یا موت۔’’
شہزادی کا چہرہ غیض و غضب کی آگ سے دہکنے لگا تھا۔
‘‘موت مگر اپنی نہیں تمہاری’’۔
اس نے نیزہ رشو کے سینے پر مارا۔ وہ بھی بلا کاشمشیر زن تھا۔ مہارت سے اپنے آپ کو بچا گیا۔ شہزادی نے فن سپہ گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خوبی سے وار کیا کہ رشو زمین پر گرا۔ باہر لوگوں کو پتہ چل گیا تھا۔ سنیکر کے دلیر اور غیرت مند جوان قلعہ میں داخل ہوئے۔ شہزاری کو انہوں نے منت سماجت سے ہٹایا اور آخری سانسوں پر رشو کو فی الفور موت کے گھاٹ اتار دیا۔
امراء وزراء کا ایک وفد فوری طور پر بگروٹ پہنچا۔ اس سانحہ سے پہلے وادی بلچھار کے لوگوں نے شہزادی کو وہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ اس نے اپنے معتمد وزرا ء کو ہدایات کے ساتھ گلگت روانہ کیا کہ وہ بلچھار کے دورے سے فارغ ہو کر پہنچتی ہے۔
وہ راکھا پوشی اور بلچھار دوبانی کی حسین چوٹیوں کو دیکھنے کی بہت مدت سے خواہش مند تھی۔ اب اتنا قریب آکر یونہی لوٹ جانا ٹھیک نہیں تھا۔ اس نے سوچا۔
اس نے چوٹیوں کے حسن سے جی بھر کر آنکھوں کو سینکا۔ وادیوں کے لوگوں سے دل کھول کر باتیں کیں۔ ان کے مسائل جانے۔ باج خراج معاف کیا۔ پولو میچ کے کھلاڑیوں کو انعام دئیے اور سنیکر کے لئے روانہ ہوئی۔ اس وقت سورج نصف النہار پر تھا۔ اور گھوڑے تازہ دم تھے۔
راستہ بلاشبہ دیکھا بھالا نہ تھا پر جو لوگ ساتھ تھے وہ ا تنے ناواقف بھی نہ تھے اور پھر بھی وہ بھٹک گئے۔ پہاڑوں میں ٹھوکریں کھاتے کھاتے ایک ایسی جگہ جا پہنچے جہاں چند لوگ خیمہ زن تھے۔ کائنات کے اس حصے کو ڈھانپتی سفیدی اور سیاہی کا ملا جلا عکس بڑا پراسرار اور خوفناک تھا کہ بھوج پتر اور ایش کی جلتی لکڑیوں کے شعلے لپ لپ کرتے آسمان کی طرف بھاگے جاتے تھے۔ یوں جیسے اژدھے پھنکارے مارتے ہوں۔ تین مار خور زمین پر پڑے تھے۔ دو آگ پر بھونے جا رہے تھے۔ چکور اور مرغابیوں کا ڈھیر ایک طرف پڑا تھا۔
شہزادی مردانہ لباس میں تھی۔ آگ کے پاس کوئی کھڑا تھا۔ ذرا فاصلے پر تین چار مرد کچھ کام کاج میں مصروف نظر آتے تھے۔ غالباً رات کے کھانے کا انتظام ہو رہا تھا۔ سرپٹ بھاگتے گھوڑوں کی آوازوں پر وہ سب اپنی اپنی جگہوں پر انہیں دیکھنے لگے تھے۔ گھوڑے سے کود کر شہزادی کے قدموں نے جب زمین کو چھوا تو نگاہوں کا رخ بھی اس سمت اٹھا جہاں ایک رعنا نوجوان کھڑا تھا۔ دونوں کے چہرے اور چمکتی آنکھیں آگ کی روشنی میں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ دونوں پل بھر کے لئے لڑکھڑائے۔ انہوں نے پلکیں تیزی سے جھپکائیں۔ ان کی آنکھوں میں حیرت اور تعجب کے رنگ تھے۔ پر کمال سلیقے سے انہوں نے اپنے اپنے جذبات پر قابو پا لیا تھا۔
علیک سلیک کا تبادلہ ہوا۔ تعارف کروایا گیا۔ لطف کی بات دونوں نے اپنا آپ چھپا لیا تھا۔ دونوں شہزادی جوار خاتون اور شہزادہ فردوس کے مصاحب بن کر ایک دوسرے کے سامنے آئے تھے۔ دونوں کے ساتھیوں نے خاموش ہونٹوں کے ساتھ ان کے اس جھوٹ پر سچ کی مہرثبت کی۔
رات کا کھانا مار خور کے لذیذ گوشت اور قہوے پر مشتمل تھا۔ ایسا ہوا’ ایک بار نہیں کئی بار’ شہزاد فردوس کی وارفتگی میں ڈوبی نگاہیں اس نے اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے اپنے سارے سریر میں لطیف سے جھٹکے محسوس کئے تھے۔
دفعتاً اس نے کہا۔
ایک خاص ذاتی سوال اگر اجازت ہو تو پوچھوں؟
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں