‘‘ایسا تو ہوتا ہے۔ معاشی انقلاب جب کسی معاشرے میں جگہ بنائیں تو پہلی زد اقدار پر پڑتی ہے۔ یہ فطری امر ہے۔ اس سے فرار نہیں۔’’
راحیل میرے ساتھ ہی پرانا محل دیکھنے چل پڑی۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے۔ تو ایک نو عمر لڑکے نے آگے بڑھنے سے یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ ٹکٹ لیں۔
میں نے پیسے بچانے کی بہتری کوشش کی۔ پر بٹوے کا منہ اس لمحے ایک جھٹکے سے آناً فاناً کھل گیا جب لڑکے نے کہا تھا۔
یہ محل ہنزہ کا ہی نہیں پورے ملک کا اہم تاریخی اثاثہ ہے۔ کیا آپ نہیں چاہیں گی کہ اسے زمانے کے ہاتھوں دست برد ہونے سے بچایا جائے۔
‘‘اگر یہ بات ہے تو جتنی بار کہو گے ٹکٹ خریدوں گی’’۔
میں ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔
محل قدیم طرز تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے مغرب کی بڑی اہم شخصیتوں نے اپنے اپنے وقتوں میں ہنزہ کا دورہ کیا۔ لارڈ کرزن’ روز ویلٹ’ تھیو ڈورا اور سر سٹیفن کے نام نمایاں ہیں۔ سیڑھیاں عمودی اور شکستہ تھیں۔ آخری پوڈے پر کھڑے ہو کر وادی کامنظر بہت دلفریت نظر آتا ہے۔
کمرے اتنے بڑے بڑے ہیں کہ اچھی خاصی تگڑی بارات ایک کمرے میں کھلی ڈھلی بیٹھ سکتی ہے۔ جس کمرے میں صوفے اور دوسرا آرائشی سامان سجا ہوا تھا وہ غالباً را جہ فیملی کی نششت گاہ تھی۔ آرٹ گیلری’ مختلف النوع ہتھیار’ ملبوسات سب ایک عہد کی تاریخ بتاتے اور سناتے تھے۔ کبھی یہ کمرے کتنے آباد ہوں گے ‘کتنی چہل پہل ہو گی یہاں۔ میں نے گیلری میں کھڑے کھڑے سوچا آج یہاں ویرانیاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ محل کے عقب میں ایک تالاب ہے۔ اونچائی سے دیکھنے پر یہ اتنا خوبصور ت نظر آیا تھا کہ میرا جی بے اختیار اس میں چھلانگ مارنے کو چاہا۔ راحیل چپ چاپ میرے ساتھ ساتھ چلتی جا رہی تھی۔ میں نے جب تالاب میں چھلانگ مارنے کی خواہش کا ذکر کیا وہ ہنس پڑی۔ بڑی من موہنی سی ہنسی تھی اس کی۔
‘‘اللہ کیسی فرماں بردار ‘مودب اور معصوم سی لڑکی ہے یہ راحیل’’۔ باجی باجی کہتے اس کی زبان خشک ہوئی جاتی تھی۔ میرے تو لڑکے ابھی بالشت بھر کے ہیں۔ کوئی گبھرو جوان ہوتا تو اٹھاکر لے جاتی اسے۔
نیچے اترنے سے پہلے میں نے اسے اپنی بانہوں کے کلاوے میں سمیٹا تھا۔ اس کی پیشانی پر پیار کیا تھا۔ اور کہا تھا
‘‘جتنی اچھی ہو خدا کرے تمہار بخت اس سے بھی اچھا ہو۔’’
سڑک پر آکر دیکھا تو لوگوں کو عجیب افراتفری میں بھاگتے ہوئے پایا۔ ایک راہگیر سے پوچھا۔ اس نے بتایا۔ ‘‘پولو کا میچ ہو رہا ہے’’۔
‘‘ارے کدھر’’ میں چلائی۔
‘‘پولو گراؤنڈ میں’’۔
اب میرے بھاگنے کی باری تھی۔ پولو شمالی علاقہ جات کا قومی کھیل ہے۔ ہر وادی میں اس کھیل کے لئے ایک قطعہ زمین مخصوص کیا جاتاہے۔
پولو بلتی زبان کا لفظ ہے۔ اس کھیل کی ابتدا کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ یہ کھیل مختلف قوموں اور ملکوں میں کھیلا گیا ہے۔ ایران اور ترک جنگ سے فراغت کے دنوں میں پولو بھی کھیلتے تھے۔ گلگت میں طراخان کا زمانہ خصوصیت کے ساتھ پولو کا دور شمار ہوتا ہے۔
طراخان اول کے بارے میں ایک دلچسپ اور عجیب و غریب روایت ہے کہ وہ جب داریل تانگیر کے دورے پر گیا تو وہاں پولو کی شرائط بڑی سنسنی خیز تھیں۔ فراخان کے سات سالے تھے۔ انہوں نے چیلنج دیا کہ جو کھیل ہارے گا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ چنانچہ مقابلہ ہوا اور مسلسل دو دن جاری رہا۔ طراخان کامیاب ہوا۔ اس نے ساتوں سالوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خدا جانے یہ واقعہ صحیح یا غلط لیکن اس سے اتنا ضرور پتہ چلتاہے کہ یہ کھیل ایجنسی میں زمانوں سے رائج تھا۔
انگریزوں نے پولو کا لفظ مشرقی ممالک سے لے کر اپنایا ہے۔ انگلینڈ’ امریکہ اور آئرلینڈ میں پولو ہی کے نام سے یہ کھیل رائج ہے۔ برصغیر میں باقاعدہ کھیل کا آغاز ۱۸۵۹ء میں ہوا۔ پہلے اس کھیل میں وقت کی پابندی نہیں تھی۔ البتہ کامیابی کے لئے نوگول مقرر تھے۔ برٹش دور میں وقت مقرر ہوا۔ جو ایک گھنٹہ تھا۔ پاکستان کے قیام سے قبل علاقائی بنیادوں پرپولو کے مقابلے ہوتے تھے۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے۔
جس شاعر کا بھی یہ شعر تھا۔ حقیقت کا ترجمان تھا۔ اس بھاگنے ‘دوڑنے‘ رک رک کر وادی کا نظارہ کرنے کے دوران مجھے عزیز ملا تھا۔ ہنس مکھ سا نوجوان جو میچ دیکھنے ہی جا رہا تھا۔ جس نے چلتے چلتے میری ملاقات پولو کی تاریخ سے کروا دی تھی۔
یہ بہت مہنگا کھیل ہے۔ پرانے زمانے میں راجے اس کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ اس لئے یہ کھیل زندہ رہا۔ عام آدمی نہ ایک اچھا گھوڑا خرید سکتا ہے اور نہ اس کی پرورش اور دیکھ بھال اس کے بس کی بات ہے۔ بہرحال اب محکمہ سیاحت اور پی آئی اے کی مشترکہ کاوشوں سے اس کی سرپرستی شروع ہو گئی ہے۔ اگر ا س کھیل کو منظم بنیادوں پر فروغ دیا گیا تو یہ ملک کے لئے زرمبادلہ کمانے کے ساتھ ساتھ اس کے تعارف کا بھی وسیلہ بنے گا۔
میں رک گئی تھی۔ راکا پوشی کی مکمل طور پر برف پوش چوٹیاں’ کہیں کہیں کسی چوٹی سے لڑھکتے برف کے تودے شاہ بلوط کے درختوں کے درمیان ڈھلوانوں پر پھنسے ہوئے۔ سرسبز و شاداب کھیت گندم کی بسنتی فصلیں۔ جھاگ اڑاتی ہوئی ندیاں ‘ننگی اور ابھری ہوئی چٹانوں پر گر کر آبشاروں کی صورت میں نغمے گاتی بہہ رہی تھیں۔
‘‘یا اللہ کیا وہ بھی ایسی ہی دل آویز جگہیں تھیں جہاں بیٹھ کر کیٹس نے عشق کے گیت لکھے تھے۔ یہاں وہاں خدائی حسن بکھرا ہوا تھا جس کے سامنے میری زبان کنگ تھی۔ ورڈز ورتھ کی آنکھوں نے جس کائناتی حسن کو دیکھا تھا وہ اس سے زیادہ خوبصورت نہیں ہو سکتا۔’’
جب ہم علی آباد پہنچے۔ کھیل شروع ہونے والا تھا۔ رات والے من چلے غیر ملکیوں کا ٹولہ بمعہ ان لقی کبوتریوں کے وہاں موجود تھا۔ کیرل بھی مجھے وہاں کھڑا نظر آیا۔ مقامی لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ جمع تھے۔ خوبصورت تنو مند گھوڑے ان پر سوار سرخ و سفید رنگوں والے مردوں کی شان دلربائی قابل دید تھی۔
بہترین اور تیز رفتار گھوڑوں کو تربیت دے کر میدان میں لایا جاتاہے۔ یہ گھڑ سوار کا اشارہ سمجھتے ہیں۔ عزیز مجھے بتا رہا تھا۔
میدان کے آخری حصے میں لمبے لمبے ڈنڈے کھڑے کئے گئے تھے جن کے درمیان گیند گزر جانے پر گول ہو جاتا ہے۔ بڑے خوبصورت اور رعنا جوان تھے جو کھیلنے کے لئے میدان میں اترے تھے۔ مقامی موسیقار گراؤنڈ کی چار دیواری پر بیٹھے گلور دھنیں بجا رہے تھے۔ کیونکہ کھیلنے والے عام کھلاڑی تھے۔ راجے مہاراجوں اور اعلیٰ خاندان کے لوگوں کے لئے بکشا دریا تاجور دھنیں بجائی جاتی ہیں۔ سگراہ کی دھنیں غیر ملکیوں کے لئے وقف ہیں۔
بینڈ کی تیز موسیقی اور مجمع کے ولولہ انگیز نعروں سے کھیل شروع ہوا۔ ‘‘ٹھوکی’’ لگنے پر بینڈ اپنی پوری قوت سے چیخا۔
ایک ٹیم نے دوسری پر گول کر دیا تھا۔ اب گیند پھر مخالف ٹیموں کے درمیان پھینکا گیا۔ سڑا کے کی آواز آئی۔ گھوڑے برق کی طرح اس کے پیچھے لپکے۔ کھیل اب خطرناک رفتار سے کھیلا جانے لگا۔ جوش و خروش بڑھ رہا تھا۔ زمین زلزلے کی مانند کانپتی تھی۔
چھ چھ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں نے جب کھیل ختم کیا ۔میرا دل اس وقت یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی باہر نکل پڑے گا۔ ایسا ولولہ انگیز اور خون کو گرمانے والا کھیل بھلا میں نے کبھی کاہے کو دیکھا تھا۔ دل بیچارہ پھڑک پھڑک نہ پڑتا تو اور کیا کرتا۔
گنش میں دریائے نگر کو دریائے ہنزہ سے ملتے دیکھا۔ پانیوں کو یوں باہم شیرو شکر ہوتے دیکھ کر میں نے بے اختیار سوچا تھا۔
ہم انسان فطرت کے سب سے بڑے شاہکار خود سے کمتر شاہکاروں کو دیکھ کر بھی سبق نہیں سیکھتے۔ حد بندیوں ‘گروہوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے سے سوکنوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔
میں بہت نیچے اتر گئی تھی۔ ڈھلانی جگہ پر پتھروں کے زیر سایہ بیٹھتے ہاتھوں کی اوک میں پانی بھر کر میں نے اس میں سے ان سونے کے ذرات کو تلاش کرنے کی کوشش کی جن کے لئے ہنزہ کا پانی خصوصی شہرت رکھتا ہے۔ ٹھنڈا میٹھاپانی جسے گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے مجھے احساس ہو رہا تھا میں جیسے آب حیات پی رہی ہوں۔ یہ پانی قدرت کا ایک انمول عطیہ جسے غیر ممالک کے سیاح بوتلوں میں بھر کر سوغات کے طور پر ساتھ لے جاتے ہیں۔ یقینا یہ ایسے بلند و عمیق پہاڑوں کے سینے سے رس رس کر آتا ہے جن میں سونا‘چاندی ‘لوہا اور بے شمار دیگر معدنی دھاتیں پوشیدہ ہیں جن سے ٹکرا ٹکڑا کر یہ چشموں کی صورت میں پہاڑوں کے اوپر آکر سردی سے برف کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے طاقتور اجزا سے بھرپور یہ پانی زود ہضم’ خوش ذائقہ اور صحت افزا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی درازئی عمر کا ایک سبب یہ پانی بھی ہے۔
میں پھر جھکی تھی۔ اوپر کھڑا عزیز چلایا تھا۔
اتنا مت جھکیئے۔ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
بدک کر پیچھے ہٹی۔ واقعی خدانخواستہ کہیں پانیوں میں سرک سر کا جاتی تو بیچارے عزیز کو مصیبت پڑ جانی تھی۔ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم عزیز ہنزائی سے زیادہ لاہوری نظر آتا تھا۔ بڑا پیارا لڑکا تھا۔
گنش میں کئی گھروں کی مہمان بنی۔ ہنزہ کے تمدن میں مغربی کلچر کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے۔ گھر صاف ستھرے اور گھر والیاں محنت مشقت کی عادی دبلے پتلے اجسام کی مالک ہیں۔ اردو کم و بیش ہر جگہ سمجھی جاتی ہے۔ کہیں اگر دشواری محسوس ہوئی تو اسکول میں پڑھنے والے بچوں نے ترجمانی کے فرائض انجام دئیے۔
میری حالت کولہو کے اس بیل جیسی تھی جو آنکھوں پر کوپے چڑھائے اپنی دُھن میں چکر پر چکر کاٹے جاتا ہے میں بھی اندھا دھند ہنزہ کے میدانی علاقوں کے گرد چک پھیریاں لے رہی تھی۔
اچھی سی چائے پینے کی خواہش پر عزیز مجھے ایک چھوٹے سے ریستوران میں لے آیا تھا۔ اس ہوٹل کو چندے آفتاب چندے ماہتاب جیسی ایک جوڑی چلاتی تھی۔ پاؤں کی گلابی گلابی ایڑیوں کو چھوتی میکسی گلے میں قیمتی موتیوں کے ہار سر پر دلکش کڑھائی والی ٹوپی اور اس پر کسا ہوا سکارف۔
چائے پیتے ہوئے میرا دھیان اسی وجود میں ہی اٹکا رہا جو باد بہاری کی مانند میرے ارگرد ہی سرسراتی رہی تھی۔ جب میں چلنے لگی اس نے میرے دائیں گال پر بوسہ دے کر کہا۔
‘‘جانے سے پہلے مل کر جانا۔’’
‘‘ضرور’’
میں اس چشم غزال کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائی۔
بس شرط اتنی سی ہے کہ اگر یہ پری پیکر اپنے لب لعلین سے میرے بائیں رخسار پر بھی بوسہ دے۔
اور چھوئی موئی کے پھول کی طرح شرماتی وہ اندر بھاگ گئی تھی۔
کریم آباد میں نہر کے کنارے قدیم اور جدید طرز کی عمارتیں اور مکانات ہیں۔ جہاں شام کے اس سہانے سمے مقامی اور غیر مقامی لوگوں کی بڑی تعداد درختوں کے سائے میں موجیں مار رہی تھی۔
غرا برش محلے میں عزیز مجھے اپنے رشتہ داروں کے گھر لے گیا۔ یہ گھر جس میں داخل ہوتے ہی میں خوشگوار حیرتوں سے دو چار ہوئی تھی۔ و جہ حیرت یہ نہیں تھی کہ امان اللہ شاہ کا یہ مکان نئی اور پرانی تہذیبوں کے سنگم پر کھڑ اہر دو کی نمائندگی دل پذیر انداز میں کر رہا تھا۔
بات یہ تھی کہ وہاں ایک نہیں دو نہیں’ تین نہیں’ پانچ بھی نہیں پوری چھ مستقبل کی ڈاکٹر ہنزائی لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ امان اللہ شاہ کی بیٹی شریں شیشے کے چمکتے گلدان میں سجی منی پلانٹ کی بیل طرح نرم و نازک اورخوبصورت تھی۔
غرابرش سے اوپر حیدر آباد دکھن محلے کی نیک پروین گندو راج کے پھول کی طرح ہنستی تھی۔زیب النساء کو دیکھ کر مجھے یوں لگا تھا جیسے میں نے اچانک جوہی کی کلیوں کو دیکھ لیا ہو۔ تین لڑکیاں فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور تین کراچی کے ڈو میڈیکل کالج سے منسلک تھیں۔ ساتویں لڑکی یاسمین کریم تھی جو آغا خان دیہی ترقیاتی منصوبے کی کوآرڈینیٹر کے طور پر گلگت میں کام کرتی تھی۔
وہ نئی نویلی دلہن تھی جو بیاہ کر بالائی ہنزہ کے علاقے مسگر گئی تھی۔ پھسو‘ چپورسن‘ درہ ہائے کلک‘ منتکہ جس کے اوپر دنیا کی چھت پامیر واقع ہے۔ وہ خوبصورت وادیوں ‘حسین آبشاروں ‘پر اسرار غاروں اور بلند و بالا گلیشروں کی سنسنی خیز باتیں سنا رہی تھی۔ یہ سفر اس نے جالو (مقامی کشتی) خچروں‘ پالکیوں اور پاؤں پاؤں چل کر کیا تھا۔
اس کی سسرال کے لوگ وخی تھے۔ وخی خان کے ساتھ ان علاقوں کے خیرہ کن نظاروں سے آنکھوں کو سیکنتے ہوئے مجھے یاسمین کریم ‘‘ایواراڈو تھورن’’ کی مانند نظر آئی تھی۔ جس نے وینیز ویلا کی پراسرار دنیا دیکھی۔ رو ریما کی چوٹی کو سرکیا اور پھر انگلینڈ واپس آکر اپنی کامیابیوں کی داستانیں یوں سنائیں کہ شرلک ہومز کے خالق سر آر تھر کانن ڈائل نے ‘‘دی لاسٹ ورلڈ’’ لکھی۔
اس وقت میں نے اپنے آپ کو کانن ڈائل سمجھا تھا جو ایسی ہیء کوئی تہلکہ خیز کتاب لکھے گی۔ پر میں ایک بات بھول گئی تھی یہ میری اپنی دنیا تھی۔ میری اور میرے ہم وطنوں کی دنیا جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔
یاسمین دھیمے انداز میں بات کرنے والی ایک دلکش لڑکی تھی۔ اس کی گفتگو میں چاشنی بھی تھی اور تحیر بھی۔
مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں ان لڑکیوں کے دائرے میں نون غنہ بن گئی تھی۔ جب ہوش آیا تو فوراً جھینپ کر پیچھے ہٹی۔
پر بعض اوقات ایسا ہوتاہے نا’ کوئی چھوٹی سی بات ماضی کے کسی بڑے واقعے سے جاجڑتی ہے۔ ہرا سمندر گوپی چندر بول میری مچھلی کتنا پانی۔
میں کسی جرمن بازی گر کی طرح اپنے وجود کو دہرا کرتے ہوئے دائرے میں چکر کاٹتے اپنے پاؤں کو چُھوتے ہوئے کہتی۔
بس اتنا۔
تب میرا جی چاہتا یہ پانی بس اتنا ہی رہے۔ میں یونہی گھمن گھیریاں کاٹتی رہوں۔ دائرے میں سب کی توجہ کا مرکز بننا کس قدر خوشگوار ہوتا۔ میری باری پر پانی کے اوپر چڑھنے کی رفتار بہت سست ہوتی ۔ سکھیاں بڑا بولتیں۔
شیریں کی چھوٹی بہن نے چائے پیش کی۔ پروین کی والدہ مسز جان محمد وہاں آگئیں۔ مسز جان ہنزہ کی پہلی استاد خاتون ہیں۔ بڑی دلچسپ باتیں شروع ہو گئیں۔
‘‘سیر کے لئے تو یہ موسم بہت اچھا ہے۔ شیریں کی والدہ بولی تھیں۔ پر لکھنے لکھانے کی غرض آپ کے مدنظر ہے یا ۱۲ دسمبر کو ہنزہ آتیں یا پھر اکیس جون کا خیال رکھنا تھا۔ ہماری ثقافت کے دو اہم تہوار ان مہینوں اور ان تاریخوں میں منعقد ہوتے ہیں۔’’
پروین کی والدہ نے مسز امان اللہ کی بات ختم ہونے پر متانت سے کہا تھا۔
‘‘ہمارے کلچر کو جاننے کے لئے دو اور تہواروں کا دیکھنا بھی ضروری ہے۔ جشن نو روز جو اکیس مارچ کو اور پرنس کریم آغا خان کی ولادت سعید کا دن۔’’
میں کھڑکیوں سے باہر پہاڑوں کی پر ہیبت چوٹیوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ بات تو ٹھیک ہے پر ان مجبوریوں کا کیا کروں جنہوں نے مکڑی کے جالے کی طرح مجھے اپنے آپ میں جکڑ رکھا ہے۔ میری باغیانہ فطرت نے اسے توڑ کر تازہ ہوا میں سانس لینے کی کوشش کی تو ہے’ پر نہیں جانتی ہوں اس کی سزا کیا ہو گی؟
شیریں کے گھر سے ہی میں نے جوبلی ہوٹل فون کیا۔ عروج کو اپنے بارے میں بتایا۔ اس نے جواباً کہا ‘‘ہم لوگ کل واپس جا رہے ہیں۔ تمہارا کیا پروگرام ہے!’’؟
‘‘میں تمہارے ساتھ چلو ں گی’’۔
پل بھر میں یہ فیصلہ میرے دل نے کیا تھا کہ مجھے ایک بار پھر ہنزہ آنا ہے۔ میں نے کتاب لکھنی ہے خانہ پری نہیں کرنی۔ لہٰذا اب واپسی ہونی چاہیے۔
لڑکیوں کاخیال تھاکہ وہ مجھے رات اپنے پاس ٹھہرائیں گی پر میں نے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ انشاء اللہ اگلے سال تھمو شلنگ کا تہوار تمہارے ساتھ مناؤں گی۔ ہنزہ آؤں گی خواہ ہڈیاں گوڈے تڑوا کر آؤں۔ پر آؤں گی ضرور۔
گزشتہ رات کی طرح دس بجے مجھے پھر ایک ٹولہ چھوڑنے آیا۔ فرق صرف لڑکے اور لڑکیوں کا تھا۔
بیڈ پر لیٹی عروج نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا تھا۔
‘‘لعنت ہے تم جسیے دیوانے ‘جنونی ادیبوں اور صحافیوں پر۔ کمبخت تم نے تو چین حرام کر رکھا ہے اپنا۔ ہے تمہیں کچھ ہوش’’۔
صبح موسم ابر آلود تھا۔ چھ بجے واپسی کے لئے ویگن میں بیٹھے۔ بیگم قدوائی بھی بمعہ اپنی فیملی کے ہمارے ساتھ تھیں۔ راستے میں بارش شروع ہو گئی۔ ڈرائیور گھبرایا ہوا تھا۔ مسز قدوائی کے بچے بار بار دہل کر ماں کے سینے سے لگ جاتے۔ شاہراہ ریشم کی تعمیر کے دوران چٹانیں بارود سے اُڑانے کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ سڑک کے کناروں پر پہاڑوں کے بعض حصے کمزور ہو گئے ہیں۔ بسا اوقات تیز بارش اور آندھی سے اچانک کوئی ٹکڑا ٹوٹ کر سڑک پر آگرتا ہے۔ جس سے تباہی یقینی ہو جاتی ہے۔ بہرحال عافیت رہی۔
گیارہ بجے گلگت پہنچے۔ پی آئی اے کے دفتر جا کر معلوم ہوا کہ سب پروازیں معطل ہیں۔ پنڈی سے ناران ‘کاغان تک دھواں دھار بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ فلائیٹ کینسل ہونے کا اگلے دن بھی سو فیصد امکان تھا۔
‘‘خدایا’’ شاہراہ قائداعظم پر پی آئی اے کے دفتر میں کھڑی میں سوچتی اور اپنے آپ سے کہتی تھی۔
کیا میں اب پھر اٹھارہ گھنٹے کے صبر آزما سفر کی صعوبت میں سے گزروں گی۔ ایسا دشوار گزار راستہ کہ بندہ ہر پل دہل دہل جائے۔
سانپ کے منہ میں چھچھوندر والی بات تھی نہ اُگلے بنے اور نہ نگلے۔
میں نے بچوں کی خیرت دریافت کرنے کے لئے پنڈی فون کیا۔ کوئی شبھ گھڑی تھی فوراً رابطہ ہو گیا۔ چھوٹی خالہ نے چھوٹتے ہی مجھے کوسنوں سے نوازتے ہوئے کہا۔
‘‘کمبخت تیرا چھوٹا بیٹا ہر شام گھر سے نکل کر سڑک کے کنارے کھڑا ہو جاتاہے۔ بسوں ویگنوں رکشاؤں کو آتے جاتے دیکھتا رہتا ہے۔ جب شام دھند لانے لگتی ہے تب چہرے پر دکھ اور یاس بکھیرے اندر آکر مجھ سے کہتا ہے۔
‘‘خالہ امی میری امی آج بھی نہیں آئیں’’۔
سچی بات ہے میر ادل پنجرے میں بند کبوتر کی طرح پھڑپھڑایا۔ اٹھارہ گھنٹے کا سفر واپسی اب میرے لئے اس قدر کوفت کاباعث نہ رہا۔
‘‘خدا کا شکر میں نے اپنے آپ سے کہا تھا’’۔
مجھے یہاں سے نکالنے کا ایک راستہ تو موجود ہے۔’’
وہ لفنگی جوڑی جس کا نام عروج اور زمان تھا پھر کہیں گم ہو گئی۔ میں اپنے میزبانوں کے گھر چلی گئی۔ نسیم سینما کے نزد جے ایس آر پلازہ میں ملنے کا طے ہوا تھا۔ مغرب تک کوئی چھ چکر لگائے ہوں گے۔ پر خدا جانے وہ پھر کہاں دفع ہو گئے تھے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں