ماسکو سے مکّہ (1)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکو کو اشتراکیت نواز افراد کا مکہ کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ مکہ کا لوگوں کے لیے مکہ ہونا تھا کیونکہ کم علم مسلمانوں کا جم غفیر مکہ کی تعظیم کو تقدیس کا چولا پہنانے کا مرتکب ہوتا ہے۔ ماسکو سے متعلق بھی بائیں بازو کے عقیدہ پرستوں کا تصور کچھ اسی قسم کا ہوا کرتا تھا۔ اصل میں مکہ وحدانیت پرستی کا مرکز تھا اور ماسکو کو اشتراکیت پرستی کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ تعظیم اور تقدیس میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا عقیدے اور عقیدت میں۔ عقیدہ یا ایمان منطقی یا الوہی (یاد رہے الوہیت بالکل بھی منطق سے مبرّا نہیں، یہ اور بات ہے کہ منطق کے کچھ زاویے شعور سے بالا تر ہیں) اصولوں کو تسلیم کرکے ان پر عمل درآمد کرنے کی دیانت دارانہ سعی کا نام ہے جبکہ عقیدت کسی فرد، مقام یا معاملے سے بلاجواز والہانہ بلکہ مجنونانہ وابستگی سے عبارت ہوتی ہے۔کیونکہ عقیدت احترام سے فروتر ہوتی ہے اس لیے وہ بیشتر اوقات عقیدے یا ایمان کی اصل ہئیت کو مسخ کرنے کا موجب بن جایا کرتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے کسی کو یہ کہتے سنا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ سے عقیدت ہے یا کسی ملک میں توہین الٰہی سے متعلق کوئی قانون ہے؟ نہیں ناں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ سے پیار کیا جا سکتا ہے، لو لگائی جا سکتی ہے، احترام و تعظیم پیار کا جزو ہوتے ہیں مگر عقیدت کوئی بہت ہی دنیاوی قسم کی سی شئے ہے۔ میں نے اس دور میں بھی جب میں باقاعدہ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کا رُکن تھا، ماسکو سے عقیدت روا نہیں رکھی تھی چہ جائیکہ کسی شہر کا احترام کرنے کی بدعت کا مرتکب ہوتا۔
لیکن اب میں اس شہر کا احترام کروں گا کیونکہ مجھے اس شہر سے ہی مدینہ منورہ اوروہاں سے مکہ مکرمہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، جس کے بارے میں مَیں نے سوچا تک نہیں تھا۔ یوں میرے لیے یہ بدعت “نعمت البدعۃ” یعنی اچھی بدعت ہوگی۔ ایمان کی ضرورت اور اہمیت بھی مجھ پر ادھیڑ عمری میں اسی شہر میں منکشف ہوئی تھی۔ میں نے کچی عمر میں ہی آباء کے مذہب کو بقول وراثت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

9 مئی 1999 کو پیش آنے والے ایک حادثے کے بعد میری چولیں جو مقام سے ہٹی ہوئی تھیں بتدریج اپنے درست مقام پہ واپس آنا شروع ہو گئی تھیں جبکہ میرے سابق ہم خیال لوگوں کے مطابق میری چولیں پہلے درست مقام پر تھیں اور اب ہلنا شروع ہو گئی ہیں۔ بہر حال ایک یکسر تبدیلی کا عمل جاری ہے، سفر حج بھی اسی تبدیلی کا حصہ تھا۔

جب تک اللہ راستہ نہ دکھائے تب تک راستہ دکھائی نہیں دے سکتا اور جب تک اللہ کی ہدایت دل میں جگہ نہ پالے تب تک کوئی بھی اس راستے کو اختیار نہیں کر سکتا جو اس نے انسان کے لیے متعین کیا ہوا ہے یعنی صراط المستقیم۔ مگر کیا کریں ہم انسان ہیں ہمارے اختیار کردہ راستے میں ہماری ذات کی غلطیوں کی وجہ سے کجی ہوتی رہتی ہے۔ یقیناً  اگر آپ کی مذہب کے ساتھ وابستگی نہیں ہے تو آپ کو اس قسم کی باتیں بوڑھوں یا ملاؤں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کی سی لگیں گی لیکن اگر آپ مذہب سے شیفتگی کی بجائے ایک عقلی تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو یہ باتیں دو جمع دو چار کی طرح سادہ اور سچی لگیں گی۔ میری دعا یہی ہے کہ اللہ سب کو ہدایت کاملہ عنایت فرمائے۔

اصل میں نور حبیب شاہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے چِین دکھانے اپنے ساتھ لے جائے گا۔ اس کا ٹیکسٹائل کا کاروبار چین کے ساتھ وابستہ ہے دوسرے وہ مجھے وہاں کے راحت بخش مساج  بارے قائل کر چکا تھا۔ نور حبیب شاہ ایک وزیری پٹھان ہے، جس کے نام کی وجہ سے بشمول میرے اکثر لوگ اسے شاہ جی سمجھتے ہیں۔ مبالغہ آرائی میں یہ صاحب ید طولیٰ  رکھتے ہیں، اس لیے مساج سے متعلق اس کے ذکر کو میں دس بارہ پہ تقسیم کر دیتا تھا البتہ مجھے چین دیکھنے کا شوق تھا اور ہے تاہم چین ساتھ لے کر جانے کا اس کا وعدہ “سعید خان کی باتیں” ہی رہا۔ گورنمنٹ ہائی سکول علی پور میں کہیں آٹھویں جماعت میں آ کر ایک سیاہ و سپید نوجوان پٹھان ہمارا ہم جماعت ہوا تھا، نام اس کا تھا سعید خان اور قیام اس کا سکول کے ہوسٹل میں تھا۔ باتیں بڑی بناتا تھا۔ جب اس کی کہی باتیں پوری نہ ہو پاتیں اور کوئی اس سے توجیہہ طلب کر لیتا تو وہ کہہ دیا کرتا تھا “وہ تو سعید خان کی باتیں تھیں”۔

گذشتہ برس نور حبیب شاہ نے اپنی تاتار اہلیہ کے ہمراہ حج کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کا پاکستانی پاسپورٹ یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا تھا کہ وہ سفر حج اپنے ملک سے ہی کر سکتا ہے۔ اس سال اس نے روسی پاسپورٹ حاصل کر لیا تھا۔ میں نے گرم لوہے پہ چوٹ ماری تھی کہ چین تو نہیں لے گئے اس سال حج تو کرواؤ گے ناں؟ اس نے حامی بھر لی تھی۔ پھر اسے دل کی تکلیف ہو گئی تھی۔ ماسکو کے ڈاکٹروں نے اسے بہت خوفزدہ کر دیا تھا اور اوپن ہارٹ سرجری کی تجویز دی تھی۔ وہ پاکستان چلا گیا تھا۔ آغا خان ہسپتال میں اسے stent چڑھائے گئے تھے، جس کے بعد وہ اپنے شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان استراحت کرنے چلا گیا تھا۔ اگست کے اوخر میں لوٹا تو میں نے اس سے استفسار کیا کہ کیا حج پر جانے کا ارادہ ہے تو اس نے جواب اثبات میں دیا تھا۔ میں نے ماسکو کی تاریخی مسجد، جو ریڈیو صدائے روس کے میرے دفتر کے نزدیک ہی ہے اور جہاں میں نمازِ ظہر جماعت کے ساتھ پڑھتا ہوں، کے دفتر سے معلوم کیا تو وہاں روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ عمرہ وحج کے سربراہ رشیت حضرت خالیکوو کی معاون آئے نارا نے بتایا کہ نشستیں تو پوری ہو چکی ہیں لیکن اگر رشید حضرت کہہ دیں تو میں آپ کا نام لکھ سکتی ہوں بصورت دیگر میں آپ کا نام آئندہ برس کے حج کے لیے ہی درج کر سکتی ہوں۔

دوسری جانب میری ہم کار خواتین کی چھٹیاں بھی ایام حج کے دوران ہی پہلے سے ہی طے تھیں مطلب یہ کہ حج کے سفر کے راستے میں دوہری رکاوٹیں پیدا ہو چکی تھیں۔ میں نے حبیب شاہ کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا اور دفتر والوں پہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں ملازمت ختم ہو جانے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس سفر سعید پہ روانہ ہو جاؤں گا۔ کہیں ایک ڈیڑھ ہفتے کے بعد حبیب شاہ نے دفتر کے باہر آ کر میر ا پاسپورٹ اور دو تصویریں مجھ سے لیں اور آدھے گھنٹے بعد حج کا نام درج ہونے کی دستاویز لا کر میرے حوالے کر دی اور بتایا کہ اس میں درج کمپنی والے فون کرکے جانے کے بارے میں بتائیں گے۔ دو ہفتے بعد بھی کوئی فون نہ آیا تو میں نے اس دستاویز کو دیکھا، جس میں روس کے مفتیوں کی کونسل کے توسط سے Slots نام کی کمپنی نے چار ہزار آٹھ سو ڈالر وصول کیے تھے لیکن اس کاغذ پہ کمپنی کا کوئی فون نمبر یا ای میل درج نہیں تھا۔ ایک روز، بعد از نماز ظہر میں آئے نارا کو ملا تو اس نے اپنا وزٹ کارڈ دے دیا کہ   چند روز بعد معلوم کر لیں۔ چند روز کے بعد نہ تو وہ فون پہ ملتی تھی اور نہ دفتر میں۔ مناسک حج سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں۔ بالآخر ایک روز وہ مل ہی گئی تو کہنے لگی ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ آپ کب جائیں گے۔ حج سے متعلق ایک کانفرنس پہلے ہو چکی ہے اور ایک اس اتوار کو گیارہ بجے ہوگی۔ آپ آ جائیں ۔ میں بھی آؤں گی اور آپ کو بتا دوں گی۔ کانفرنس کیا تھی بارہ چودہ افراد پر مشتمل ایک اکٹھ تھا، جس سے مخاطب ہوتے ہوئے مسجد کے نوجوان نائب امام نے  پہلا فقرہ یہ کہا تھا کہ ان سے حج پہ جانے سے متعلق کوئی سوال نہ پوچھا جائے کیونکہ یہ کام آئے نارا کا ہے اور جہاں تک انہیں معلوم ہے اس سلسلے میں اسے بھی شاید ہی کچھ علم ہو کیونکہ قافلے جانے سے محض ایک دو روز پیشتر ترتیب دیے جاتے ہیں۔ پھر انہوں نے مناسک حج اور ساتھ لے جانے والی ضرورت کی چیزوں اور دوران قیام احتیاطوں کے بارے میں بتایا۔

ظہر پڑھنے کے بعد چند عورتیں اور چند مرد آئے نارا کے دفتر کے باہر موجود تھے لیکن وہ حسب معمول دفتر میں نہیں تھی۔ دفتر کو تالا لگا ہوا تھا۔ مولانا کی گفتگو کے بعد سوال و جواب کے سیشن میں ایک داڑھی والے شخص نے جو تاجک نہیں تھا جبکہ میرے علاوہ موجود بیشتر لوگ تاجک تھے، اہرام کے ساتھ ماسک استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا تھا، جس سے لگا تھا کہ وہ “ہیلتھ کانشیس” شخص ہے یا اس کا تعلق کسی حوالے سے طب کے ساتھ ہے۔ آئے نارا کے بند دفتر کے باہر اس سے علیک سلیک ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ افغانستان سے ہیں۔ وہ یہاں آنے سے پہلے کابل کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر تھے اور ان کا نام جمشید صافی ہے۔ اکتا کر بالآخر انہوں نے ہی آئے نارا کے ساتھ فون پہ رابطہ کیا تھا جس نے آنے سے انکار کیا تھا کیونکہ اسے تاحال کچھ معلوم نہیں تھا یعنی کہ مولانا موصوف نے درست فرمایا تھا۔

اگلے روز بھی آئے نارا فون پہ میسر نہیں تھی البتہ دوسرے روز اس نے بتایا کہ آپ آٹھ مارچ دس بجے دن ایئر پورٹ دومادیوا سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوں گے، یعنی سفر حج پہ روانہ ہونے میں محض پانچ روز باقی تھے۔ دو روز بعد اس سے معلوم کیا کہ اہرام کہاں سے خریدیں تو اس نے بتایا تھا کہ مدینہ سے ہی خرید لینا باقی مجھے کچھ اور معلوم نہیں ہے۔ جب اس سے حبیب شاہ کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام تو فہرست میں ہے ہی نہیں۔ یا مظہر العجائب، مجھے حج پہ لے جا رہا ہے اور خود نہیں جا رہا کیا؟ اب حبیب شاہ ٹیلی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ بالآخر رشیت حضرت کو فون کیا۔ وہ میرے نام ایم ایم ایم سے خوب محظوظ ہوئے وجہ یہ تھی کہ اس نام کی ایک کمپنی بہت سے شہریوں کو ڈبل شاہ کا سا غچہ دے کر بدنام ہو چکی تھی۔ حضرت نے عقدہ کھولا کہ بھئی دس بجے ایئر پورٹ پہ اکٹھے ہونا ہے، روانگی البتہ ڈیڑھ بجے دن ہوگی۔ اگلے روز حبیب شاہ بھی فون پہ مل گیا۔ میرے متعجب ہونے پہ گویاا ہوا “میں تو وی آئی پی لسٹ میں ہوں ناں”۔ طبیعت بہت مکدر ہو گئی تھی کہ اس نے یہ امتیاز کیوں روا رکھا۔ بس اسے اتنا کہا کہ جا بچّو! مجھے حج کروانے کا تجھے ثواب بھی آدھا ہی ملے گا۔ حبیب شاہ کی روانگی چار اکتوبر کو تھی۔ اب وہ ساتھی نہیں رہا تھا، اس لیے جمشید صافی سے رجوع کیا کہ چلو اور کچھ نہیں تو ہمسایہ ملک سے تو ہے ہی ناں۔ ساتھ میں یا تو تاجک تھے یا قفقاز کی ریاستوں کے لوگ جن سے کبھی راہ و رسم ہی نہیں رہی، میری علیک سلیک اور تعلق روسی النسل لوگوں سے رہا جو ظاہر ہے مسلمان نہیں۔

خیر جانے کی تیاری شروع کر دی تھی لیکن دل بجائے خوش ہونے کے کچھ بجھا بجھا سا تھا جس کی وجہ حبیب کی حرکت، حج کی سفری کمپنی کا گم سم ہونا اور شاید اس سفر میں کسی اپنے کا ساتھ نہ ہونا تھا یا کوئی اور مخفی وجہ جس کا مجھے کوئی علم نہیں۔ گاڑی والے ایک نوجوان کو فون کیا تھا کہ وہ مجھے صبح آٹھ بجے گھر سے لے لے اور ہوائی اڈّے پر پہنچا دے۔ اس نے خود کہا تھا کہ جی سات بجے نکلنا چاہیے کیونکہ ٹریفک بہت جیم ہوتی ہے۔ میں نے اسے آٹھ بجے ہی آنے کو کہا تھا۔ اس نے وعدہ کر لیا تھا لیکن مجھے شک تھا کہ وہ سویا رہے گا۔ وہی ہوا میں نے پونے آٹھ بجے صبح سے اسے فون کرنا شروع کیا تو نو رپلائی تھا۔ سوا آٹھ بجے تک تین بار فون کیا نتیجہ وہی جواب نہ داشتم۔ ایسے وقت میں ٹیکسی بلانا مزید وقت کا ضیاع ہوتا چنانچہ میں ایک بیگ اور ایک دستی تھیلا لے کر زیر زمین ریل سے جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا تھا۔ اگرچہ بیگ کے پہیے تھے لیکن سیڑھیاں اترنے، سیڑھیاں چڑھنے، زیر زمیں راہداریوں سے گذرنے، پاولیتسکی سے نکل کر اسی نام کے ریلوے سٹیشن سے چلنے والی ایئر پورٹ ایکسپریس کے ٹکٹ گھر تک پہنچتے پہنچتے میرے پسینے چھوٹ گئے تھے۔ ٹکٹ دینے والی نے تین سو بیس روبل یعنی مبلغ دس ڈالر لے لیے اور چپ کرکے بیٹھ گئی۔ میں بولا بی بی ٹکٹ؟ بولی میں آپ کو دے چکی۔ جبکہ ٹکٹ بنانے کے دوران وہ اپنی پشت پہ کھڑی ہم کار سہیلی کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے ٹکٹ ادھر اُدھر رکھ بیٹھی تھی۔ میرے تحیر پہ جز بز ہو کر ادھر اُدھر ہاتھ مارے، ٹکٹ مجھے تھمایا، معذرت کی بجائے مسکراہٹ بکھیری اور پوچھنے پر مجھے ایک راستے کی جانب جانے کا اشارہ کر دیا۔ ایک اور طویل راہداری اور پھر پلیٹ فارم تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں۔ میں بیگ اٹھا کر سیڑھیاں چڑھا تو کھڑی ایکسپریس کے دروازے بند ہوئے اور وہ روانہ ہو گئی۔ میں پسینے میں شرابور تھا۔ پلیٹ فارم پہ خاصی خنکی بلکہ سردی تھی لیکن مجھ میں واپس ویٹنگ روم میں جا کر بیٹھنے کا یارا نہیں تھا۔ اس لیے اگلی ٹرین کی روانگی تک کا آدھ گھنٹے کا وقفہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر بتانے کا ہی فیصلہ کر لیا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد آرا  دہ ریل گاڑی میں پاؤں  پسار کر بیٹھے ہوئے پینتالیس منٹ کے سفر کے بعد ایئر پورٹ پہنچا۔ گاڑی رکنے سے پہلے ہی جمشید صافی کا فون آ گیا تھا، انہوں نے پوچھا تھا کہ مجھے آنے میں تاخیر تو نہیں ہو جائے گی۔ میں نے بتایا کہ میں بس پہنچ گیا ہوں، ریل گاڑی بس رکنے ہی والی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دوسری منزل پہ فلاں جگہ آ جاؤ ۔ وہاں پہنچا تو پورا قافلہ موجود تھا جن میں صرف جمشید شناسا تھے ،البتہ مولانا رشیت (رشید) سے میں نے خود بڑھ کر مصافحہ کیا تھا اور اپنا نام ایم ایم بتایا تھا۔ رشیت حضرت کوئی اڑتیس چالیس برس کے درمیانے قد ، چھوٹی داڑھی اور کج نگاہ شخص تھے۔ کرو کٹ بال تھے اور پاؤں  میں چپل پہنے ہوئے تھے۔ پرواز ڈیڑھ بجے بھی روانہ نہیں ہوئی تھی۔ اس کی تاخیر کا اعلان مانیٹر پہ عیاں تھا۔ میں اور جمشید نماز پڑھنے کے لیے جگہ کی تلاش میں لگ گئے تھے۔ ایک کینٹین کے پیچھے کاریڈور میں بڑے سے گملے میں لگے پودے کی اوٹ میں کھڑکی کے سامنے نماز پڑھنے کی تیاری کی تھی ۔ ایک تاجک نوجوان بھی آ شامل ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک جائے نماز تھا۔ وہ اس نے آگے بچھا دیا تھا اور مجھے امامت کرنے کو کہا تھا۔ میں نے بھی عجلت میں اللہ اکبر کہہ دیا تھا لیکن وہ نماز نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ فارسی یا دری و توجکی زبان میں محو کلام تھے۔ میں نے کسر فرض پڑھ لیے تو وہ تاجک نوجوان اذان کہنے لگا۔ حج کا ماحول بن چکا تھا۔ کہیں جاکر تین بجے اردن ایئر لائن کا طیارہ روانہ ہوا اور ہم پونے چار گھنٹے کے سفر کے بعد عمان کے ہوائی اڈے پر تھے۔ وہاں عصر اور مغرب کی نماز پڑھی تھی۔ مجھے ایئر لائن، عملہ، کھانا، عمان کا ہوائی اڈہ اور اہلکار سب اچھے لگے تھے۔ دو گھنٹے کے انتطار کے بعد ایک اور طیارہ مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم مدینہ ایئر پورٹ پر تھے۔ امیگریشن اور دیگر اعمال سے گذرنے کے بعد ایک بس میں سوار ہو گئے تھے جو ہمیں لے کر ایک ہوٹل پہنچی تھی۔ یہاں سے سفر کی صعوبتوں کو سہنے اور کمپنی سلوٹس اور روس کے مفتیوں کی کونسل کی چابک دستیوں کو سہنے کا آغاز ہوتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply