سفر نامہ:مونا عمیدی۔۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط27

دمشق میں چم chamپیلس ہوٹل کے بالمقابل نوبل بک شاپ پر دھری مونا عمیدی کی نظموں کے مجموعے کی پھولا پھرولی میں اِس نظم نے پل بھر میں ہی گرفت میں لے لیا تھا۔
آہ بغداد کے سٹور بند ہیں
تریپولی کی گلیاں ویران ہیں
غزہ پر بمباری ہے
فلوجہ شعلوں میں نہا رہا ہے
دنیا سو رہی ہے
اور عرب دنیا
بحث میں اُلجھی ہوئی ہے کہ
ورلڈ کپ میچوں میں کون جیتا ہے؟
رہے نام اللہ کا
یہ چونکا دینے والی نظم تھی۔وہیں کھڑے کھڑے پانچ چھ مزید نظموں کے مطالعہ نے بتایا کہ شاعرہ نے بشار الاسد کے آغاز اقتدار سے جس سیاسی تبدیلی کی خوشبو محسوس کرتے ہوئے بہت سی امیدیں وابستہ کیں۔فکری انقلاب مشرق وسطیٰ کے درودیوار پر دستک دیتا محسوس کیا۔2000 سے 2001 کے مختصر وقت کو” دمشق بہار “کے نام سے موسوم کیا تھا۔ آنے والے وقتوں میں اس نے مایوس کیا۔
نثر اور کورس کی کتابیں لکھتے لکھتے دلی جذبات شعروں میں ڈھلنے لگے تھے۔
کھلتی رنگت والے سیلز مین نے صاحب کتاب سے مزید تعارف کی غرض سے ایک اور خوبصورت کتاب سیرین فوک ٹیلزSyrian Folk talesہاتھ میں پکڑا دی اور ساتھ ہی بڑے میٹھے سے لہجے میں بیٹھ کر کتاب کو تفصیلی دیکھنے کی دعوت بھی دے دی۔

دیدہ زیب طباعت و کتابت اور ٹائیٹل نے توجہ فوراً کھینچی۔صفحات الٹنے پلٹنے اور کہیں کہیں پڑھنے سے احساس ہوا کہ بلادا لشام کے مختلف علاقوں کی یہ کہانیاں ایک انتہائی شاندار پیش کش تھی۔گرفت میں لینے والی عام فہم زبان جو حقیقت اور طلسم،معلوم اور نامعلوم کے درمیان سفر کرتی تھیں۔مصنفہ شاعرہ بھی کمال درجے کی تھی۔دونوں کتابیں خرید لیں۔میری درخواست پر بک شاپ کے مالک نے مصنفہ کا فون نمبر اور پتہ بھی کاغذ پر لکھ دیا تھا۔یہ 2008 تھا۔شام پُرامن تھااور عام آدمی کب جانتا تھا کہ فضاؤں میں کہیں اس کی بربادیوں کے چرچے گردش میں ہیں۔
کہانیوں نے مجھے سحر میں جکڑ لیا تھا۔یہ تعارف تھا اِس خوبصورت ملک کے ماضی کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے۔یوں محسوس ہوا تھا جیسے میں عمیدی کی دادی سے بیٹھی کہانیاں سن رہی ہوں۔شام کے شہروں کے گھروں کے پرسکون ماحول میں، شام کے مختلف دیہی علاقوں میں روایتی زندگی کے سارے رنگ اِن کہانیوں میں اڑتے پھرتے تھے۔

رات گئے نظمیں پڑھتی رہی۔اگلے دن ال فردوس سٹریٹ پر واقع گھر پر ملاقات کے لیے پہنچ گئی۔گھر ڈھونڈنے میں پِتہ پانی ہوگیا۔ٹیکسی ڈرائیور بڑا اناڑی سا تھا۔خوب خوب گھمایا۔ اس پتھر کی طرح رولا جوفٹ پاتھ پر پڑے کسی شرارتی سے چلنے والے راہگیر کی ٹھوکروں پر آجائے جو پاؤں کے ٹھڈوں سے اُسے لڑھکا لڑھکا کر اس کا حشر نشر کردے۔
مونا عمیدی قدرے فربہی بدن کی سُرخ و سفید خاتون نے مجھے اپنے گھر کے دروازے پر خوش آمدید کہا تھا۔دروازہ ایک معمر عورت نے کھولا۔ایک اجنبی صورت سامنے تھی۔زبان یارمن ترکی والا معاملہ تھا۔تاہم مونا آگئی۔پاکستان کا جان کر اتنا خوش ہوئی کہ جتنی سفر سے کوفت ہوئی تھی سب اُڑنچھو ہوگئی۔چھوٹے سے سجے ہوئے ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی کولڈ ڈرنک آیا،پھرقہوہ،کجھوریں اورمٹھائی آگئی۔ باتیں شروع ہوئیں اور پھیلتی چلی گئیں۔ اپنی دونوں کتابیں میرے پاس دیکھ کر خوش ہوئی۔میں نے کہا کہ وہ اُن پر کچھ لکھ دے۔
”سکون سے بیٹھو۔لکھ دوں گی۔“ محبت بھرا اظہار تھا لہجے میں۔”یہ شاعری“

اُس نے کتاب کی طرف اشارہ کیاشاید اس معیار کی نہ ہوجو شاعری کا ہوتا ہے۔اصل میں تو فوک ٹیلرز کی یہ کتاب ہے جسے میں نے اہتمام اور محبت سے لکھا ہے۔یہ تو بس ایسے ہی جذبات کا اظہار ہے۔
باتیں شروع ہوئیں وہ بھی دوعورتوں کی جو دو مختلف ملکوں،دو مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھتی تھیں۔عورتوں کے حوالے سے جو تصویر مونا نے مجھے دکھائی وہ ہماری تصویر سے کچھ ہی مختلف تھی۔شہری اور دیہی عورت کا جائزہ بھی تھا۔تاہم سیریا میں زیادہ آبادی شہری ہے۔ملکی قانون میں بھی مرد عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔
تاہم سیاسی طور پر جو کچھ سُننے کو ملا وہ صحت مند نہ تھا۔مونا بہت سلجھی ہوئی اور ملکی حالات پر گہری نظر رکھنے والی خاتون تھی۔اس نے مختصراً شام کی سیاسی تاریخ میرے سامنے کھول دی تھی۔میری درخواست تھی کہ وہ کچھ حالات پر روشنی ڈالے کہ جانوں تو سہی۔
خادمہ ٹرالی گھیسٹتی ہوئی لائی۔جس پر ڈش میں سُرخ کٹا تربوز سجا تھا۔مونا نے پلیٹ میرے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے اُسے بھرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی کانٹا بھی ہاتھوں میں تھمادیا۔
شہد جیسا میٹھا ٹھنڈا تربوز حلق سے نیچے کیا اُترا کہ روح تک سرشار کرگیا۔
عرب دنیا میں دراصل بعث پارٹی نے بہت سرعت اور جانفشانی سے نوجوان طبقے کو متاثر کیاتھا۔ اِس کی واحد مثال اسلامی بھائی چارے سے ہی دی جاسکتی ہے۔حافظ الاسد ایسا ہی ایک مضطرب نوجوان تھا جو قومی کردار میں اپنا حصّہ ڈالنے کیلئے بے قرار تھا۔وہ فائٹر پائلٹ تھا۔اپنی فوجی وابستگی کو اُس نے پارٹی میں اپنے کردار کیلئے بہت سمجھداری سے استعمال کیا۔ سیاسی سوجھ بوجھ، مہارت،ذہانت،فراست اُسے 1971تک ملک کی صدارت کے عہدے تک لے گئے۔
اُس کی فتح یابی یقیناکِسی معجزے سے کم نہیں تھی۔وہ اگر چاہتا تو اپنے اِس اقتدار میں سیریا کو آسمان پر لے جاتا۔مگر اُس نے بنیادی مسائل جن میں سرفہرست نسلی امتیازات اور “معاشرے میں اسلام کا کردار “کی طرف توجہ نہیں دی۔

یہ سلسلہ جو آج سیریا میں اپنی تلخیوں اور المیوں کے ساتھ سامنے آیا ہے۔شاید نہ آتا اگر اس کا تدارک کرلیا جاتا۔
1973کے نئے آئین میں درج تھا۔فرانسیسی غلبے کے دوران بھی جو آئین وضع تھا اسمیں بھی یہ درج تھا کہ صدارت پر متمکن صرف مسلمان ہوگا۔سیکولر سیاست کے ساتھ مخلص ہونے کے باوجود حافظ الاسد نے اس مسلم آراکو دو طریقوں سے سبوتاژ کیا۔پہلے کے مروجہ آئین ایک شق داخل کرتے ہوئے اسلام کو نئے معنی پہناتے ہوئے اُسے نئی تعریف دی۔
اسلام امن،عدل،سلامتی،محبت اور مساوات کا مذہب ہے۔اُس میں علویوں Alawis کو شیعہ مسلک سے جوڑا گیا اور کافر یا بدعتوں کی فہرست سے نکال باہر کیا۔یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ جو 1982حماHama کے شہر میں پہلی بار فسادات کا باعث بنی۔ان کی شدت اِس درجہ تھی کہ شہر کھنڈر بن گیا۔
یہ اور بات تھی کہ اس کی بھرپور توجہ،دلچسپی اور فراخدلانہ وسائل کے استعمال نے کیاگھروں،کیاسڑکوں،اسپتالوں،پارکوں کی تعمیر کروا کے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ جلا بھنا کھنڈر شہر کیسے ایک زندہ شہر بن سکتا ہے اور حکمران اگر چاہیں تو چیزیں کیسے ممکن ہوتی ہیں؟

یہاں تک تو ٹھیک تھا۔مگر بنیادی جھگڑا تو جوں کا توں تھا۔ نسلی مسائل کو حل کیسے کرنا ہے اور اسلام کا معاشرے میں کیا کردار ہو جیسے اہم مسائل پر اُس کی عدم دلچسپی آنے والے خونی حادثات کا باعث بنی۔اُس کے ہاں اسلام اور بعث پارٹی سنی اور علویوں،شہروں اور دیہی علاقوں میں سماجی تضادات کی گھتیوں میں الجھتی رہیں اور اُس نے انہیں سلجھانے اور حل کرنے کی طرف قطعاً توجہ نہ کی۔
2000میں بشار کے آنے سے احساس ہوا کہ شاید تبدیلی کی کوئی خوشگوار سی لہر چلے۔اس کی برطانوی نژاد بیوی اسما ال عکراس Akhrasبھی بہت تیز اور ڈرامیٹک قسم کی اپروچ کی حامل نظرآئی تھی۔
دراصل اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اس نے دمشق بہار کا نعرہ لگاتے ہوئے درجنوں سٹڈی سرکلز اور بحث مباحثوں کے مراکز قائم کیے۔سچی بات ہے2001میں دانشوروں اور وکلاء کے گروپوں نے آئین میں اصلاحات کے لیے زوردار قسم کی مہمات  چلائیں۔جن میں سرفہرست ایمرجنسی قوانین کا ہٹانا اور مکمل شخصی آزادیوں کا حصول تھا۔مگر جابرانہ ہتھکنڈے اتنے زبردست تھے اور اندر خانے ایسی ایسی گھناؤنی سازشیں تھیں کہ بظاہر ہر سطح بہت پرسکون نظرآنے کے باوجود تہہ میں بہت طوفان مچلتے تھے۔
جب ہم شام کی چائے پیتے تھے۔ملحقہ کمرے سے مدھم سروں میں کِسی گیت کی آواز نے جیسے مجھے مضطرب سا کردیا۔آواز اتنی خوبصورت تھی کہ سمجھ نہ آنے کے باوجود بھی گیت دل میں اُترا جاتا تھا۔
مونا نے پوچھاتھا۔عربی کی شدبُد ہے۔
”بس پڑھنے کی حد تک سمجھنے کی نہیں۔“
یہ نزار قبانی کی شاعری تھی۔ترجمہ بھی اُس نے کردیا تھا۔اور گانے والے کا نام بھی۔نزارقبانی پر بات ہوئی تو کہنے لگی۔وہ زمانوں کا شاعر ہے۔مخصوص وقت کا نہیں۔
عورت مرد کی امارت سے
نہ ہی اس کی خوبصورتی سے
اور نہ ہی اس کی شاعری سے
کچھ نہیں چاہتی
اس کی تمنا ایک ایسا مرد ہے
جو اس کی آنکھوں کی زبان سمجھ سکے
جب وہ اداس ہو
وہ اپنی چھاتی کی طرف اشارہ کرے
اور کہے
یہ ہے تمہاری جائے پناہ
پھر مونا کی ذاتی زندگی کے بارے جانا۔ امریکن ماں اور شامی باپ کے گھر پیدا ہونے والی یہ بچی 1962میں دمشق میں پیدا ہوئی۔انگریزی ادب میں گریجوایشن اُس نے دمشق یونیورسٹی سے کیا۔اس کے ساتھ اس نے انگلش عربی ٹرانسلیشن کا ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔آغاز میں اس نے بچوں کے لئیے انگریزی کورسز مرتب کیے۔اور انگریزی زبان کیسے پڑھائی جائے پر نصابی کتب لکھیں۔بعدازاں عربی کہانیوں کا ترجمہ شروع کردیا۔
دو بچے بیٹا اور بیٹی باپ کے ساتھ دیمس Dimasکسی عزیز کے ہاں گئے تھے۔
”دراصل اُن کی بیٹی میری بیٹی کی ہم عمر ہے۔بہت پیار ہے دونوں میں۔آج اس کی سالگرہ تھی۔“
”آپ نہیں گئیں؟“ پوچھا۔
”کچھ طبعیت ٹھیک نہ تھی۔“ پھر ہنستے ہوئے بولیں۔
”ہاں چلی جاتی تو تم سے کیسے ملتی؟“
اور واقعی میں نے سوچا یہ جو دانے دانے پر مہر ہے ایسے تو نہیں کہا گیا۔

 

ہمارے درمیان اب اس کی فوک کہانیوں کے حوالے سے باتیں ہونے لگیں۔
فوک کہانیوں کی ان سلسلہ وارکتابوں نے ایک دھوم مچادی۔عام شامی کیا پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے ملک کی ثقافت کے اِن خوبصورت رنگوں سے ناواقف تھے۔بہت پذیرائی ہوئی۔انگریزی میں شاعری بھی چونکا دینے والی تھیں۔یہ جذبات و احساسات کا ایک جہاں کھولتی تھیں۔عراق سے متعلق نظمیں، لیبیا،مصر عرب دنیا کِس بے حسی کا شکار ہے۔بڑی طاقتوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں،غلبے کی خواہشیں اور طاقت کے اندھے اظہار کیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے عام لوگوں کے خوابوں،خواہشوں،امیدوں اور ان کے بستے رستے خوش و خرّم گھروں کو کھنڈر بنادیتے ہیں۔ وہ جو کہانیاں اور محبت کے گیت لکھتے اور گاتے لوگ کیسے میٹھے جذبات سے ناطہ توڑ کر خنجر ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں۔بے حد عام فہم لفظوں میں حقیقت کا چہرہ اور اپنے جذبات و احساسات کِس خوبی سے اپنے اندر سے نکال کر وہ باہر صفحے پر بچھا دیتی ہے۔
جب عراق خاک و خون میں نہارہا تھا کہیں کِسی وژن رکھنے والے نے کہا تھا۔عراق سے فراغت کے بعد شام کی باری ہے۔آپ اِس بارے میں کیا کہتی ہیں؟
اِس بات پر اُس نے دکھ سے بھرئی ہوئی لمبی گہری سانس باہر نکالی تھی۔اور مجھے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
”حافظ الاسد غیر معمولی ذہانت والی شخصیت تھی۔ سوال ہے کہ1982کی تباہ کن بغاوت سے اُسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کس طرح بیرونی طاقتیں اس کے لوگوں میں گُھسی کام کررہی ہیں؟جب 1500سے سے زائد مشین گنیں پکڑی گئیں۔لوگ گرفتار ہوئے اور معلوم ہوا کہ ان کی سی آئی اے نے تربیت کی ہے تو پھر عزائم کو پڑھ لینا کوئی مشکل کام تھا۔مگر بات تو اتنی سی ہے کہ آمرانہ اقتدار کا مزہ اس نشہ آور مشروب کی طرح ہے جسے حالات کی تیز ترین ترشی جھنجوڑتی ضرور ہے مگر ہوشیا ر نہیں کرتی۔“
رات کے کھانے کے بعد مونا کا ڈرائیور مجھے چھوڑنے آیا تھا۔ہم نے فون،ای میل کے تبادلے کیے تھے۔

پاکستان آکر کبھی کبھی میرا اُس سے رابطہ ضرور ہوتا۔تاہم 2011میں اخبارات نے بتانا شروع کیا کہ خانہ جنگی شام کے خوبصورت شہروں پر اپنی نحوست کے سائے پھیلانے شروع ہوگئی ہے۔
آنسووں نے آنکھیں دُھندلادی تھیں کہ اندھی عرب دنیا اور دیگر اسلامی ملکوں کی قیادتیں سب آلہ کار بنی ذاتی اعتراض کیلئے ضمیر کے سودے کرتی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے اپنی اپنی دنیاؤں میں گم تھیں۔کوئی بینون منصوبہ بھی ہے۔کہیں پر عظیم تر اسرائیل کے لئیے کام ہورہا ہے۔امریکی تھنک ٹینک اب عرب اور تیسری دنیا کے مفلوک الحال ملکوں کو کِس اندھے کنوئیں میں دھکیلنے کیلئے سرگرم ہیں۔ انہیں کوئی غرض نہیں۔
اور یہ جنگ پھیلتی جارہی تھی۔اپنی ایک میل میں اس نے لکھا تھا۔
اِس عقل کے اوندھے بشار کو کون سمجھائے کہ سیاسی مخالفت کا مطلب ہتھیاروں کو اٹھانا نہیں ہوتا۔سیریا کا جھگڑہ پر امن احتجاج کے طور پر شروع ہوا تھا۔اِسے لڑائی میں کیوں بدلنے دیا گیا؟احمق مغرب کی چالوں کو نہیں سمجھتا۔جانتی ہو کتنے لوگ مارے گئے۔وہ مجھ سے مخاطب تھی۔ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے اور دربدری کا المیہ تم دیکھتی ہی ہوں گی۔
اور یہ اِس کی نیٹ پر باتیں تھیں۔جنہوں نے مجھے بتایا تھا کہ عمیدی کہیں نہیں بھاگی۔دمشق میں رہی۔کیونکہ دمشق سے اُسے عشق ہے۔لینن گراڈ کے اُسے بوڑھے موسیقار کی طرح جو سمجھتا تھا کہ وہ اگر شہر سے چلا گیا تو فصیلِ شہر گر جائے گی۔ اپنے خوبصورت ملک کے خوبصورت شہروں کو عراق کے شہروں کی طرح کھنڈر بنتے دیکھتی اور اپنے دکھوں کولفظوں کے ہاروں میں پروپرو کر اس کا اظہار کرتی رہی۔
دمشق خوبصورتیوں، پرانی اور نئی تہذیبوں کا شہر
آہ روشنیوں کا شہر مگر اب بجلی نہیں
چنبیلی جیسی کلیوں کا شہر، مگر اب پانی نہیں
محبتوں کا شہر، مگر دوستوں سے خالی
تاریخ سے بھرا شہر مگر مستقبل سے خالی
وہ ہمسائیوں کو آواز دیتی ہے اور سنتی ہے سارے شہر میں پانی نہیں۔بجلی نہیں،گیس نہیں۔تب دکھ نس نس اوررگ رگ سے پھوٹتا ہے۔پھر وہ معصومیت سے خود سے سوال کرتی ہے۔ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔دمشق میں فیجاFijehچشمہ سلامت رہے۔اس نے تو شہریوں کا ہمیشہ خیال رکھا تھا۔
پھر جیسے وہ ماضی کی یادوں سے حال میں آتی ہے۔میں اسلامی کیلنڈر کے صفحات الٹتی ہوں۔جو میری کچن کی دیوار پر آویزاں ہے۔دو ماہ بعد رمضان ہے۔میرے بچپن کے رمضان کی خوبصورت یادیں اپنی پوری توانائی سے میری آنکھوں سے باہر جھانکی ہیں۔کیسے دل موہ لیتے منظر تھے۔افطاری کے کھانوں کی خوشبوئیں۔اذان کی پرسوز آواز،تراویح کی رونقیں۔ٹپ ٹپ آنسو آنکھوں سے گرتے ہیں۔یہ رمضان کیسا ہوگا؟
صُبح کے منظر رلا دینے والے ہیں
دمشق کے لوگوں کو کس جرم کی پاداش میں
سزا دی گئی ہے
میں کیسے بتاؤں کہ
دمشق کے رمضان کی مقدس راتیں
مگر رنگین لالٹینوں اور قمقوں کے بغیر
اب
خاموشیوں کو توڑتی ذکر کی آوازیں نہیں
دمشق میرے خوبصورت شہر
زندگی تو یہاں غروب ہوتے سورج جیسی ہوگئی ہے
جولوگوں کے دلوں میں ڈوبتی ہے
بڑی ہی آتشسیں دھمکیوں کے سگنل دیتی
اداسی اور مایوسی کی لہروں کو پھیلاتی
گھپ اندھیروں میں گم ہوتی
یہ جولائی 2014ہے اور وہ لکھتی ہیں۔
میں شہر کا چکر لگانے کا ارادہ کرتی ہوں۔اپنی گلی کے ہمسائیوں کے دروازوں کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے ہوا کی چال میں لڑکھڑاہٹ اور بین کی سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔بند دروازوں پر دستک میں درد کی ایسی چیخ ہے کہ جیسے وہ اچانک کسی میٹھے مسحور کن خواب سے جاگی ہے اور اُسے یہ کربناک احساس ہوا ہے کہ اس کے مکین ہمیشہ کے لئیے کہیں چلے گئے ہیں۔ میرا یہ شہر جو کبھی لوگوں سے بھرا پُرا ہوتا تھا۔زندگی کی گہماگہمی سے ہنستا مسکراتا جانے کہاں گم ہوگیا ہے؟امیدوں سے بھرا میرا یہ بلادالشام مایوسیوں اور ناامیدیوں کے پاتال میں گر پڑا ہے۔ دیکھئیے تو یہ درد مونا کے شعروں میں کیسے در آیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہش ہش
قدموں کی چاپ دروازے کی طرف بڑھتی ہے
تالے کے سوراخ میں چابی گھومنے کی آواز
کہیں خوشی و مسرت کا در کھلنے کی امید
ہمیشہ رہنے والی تاریکی کو روشن کرنے کی آرزو
نہیں نہیں
اردگرد صرف تاریک سائے منڈلاتے ہیں
دروازے کے سوراخوں سے ہوا سیٹیاں بجاتی ہے
خاموش دروازہ بند رہتا ہے
اپنی افسردگی کو گلے سے لگائے
کھلنے کا خواب دیکھتے ہوئے
دمشق کے گلی کوچوں میں پھرتے ہوئے میرا دل دُکھ اور یاس سے بھر جاتا ہے۔ہر کوئی ملک سے بھاگ رہا ہے۔آپ باہر نکلتے ہیں خوبصورت گھروں کے دروازے بند ہیں،کھڑکیاں بند ہیں۔
میں رک جاتی ہوں۔دروازے جیسے مجھے کہتے ہیں ہم اپنے مکینوں کا انتظار کررہے ہیں۔وہ کب واپس آئیں گے؟
ضروریات زندگی کی چیزیں بمشکل خرید کر ایک پارک میں تھوڑا سا سستانے کیلئے آبیٹھی ہوں۔یہاں کچھ بچے کھیل رہے ہیں۔بحث و مباحثے میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ اب کِس کی شیل بننے کی باری ہے۔
ان کا یہ کھیل مجھے میرے ان دنوں میں لے گیا ہے جب ہم بھی یہی کھیل کھیلتے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ اب کی کس کی باری ہے۔چڑیل،جادوگر یا سپاہی بننے کی۔لیکن یہ شیل shell۔میں بیک وقت اُداس اور پریشان ہوگئی ہوں۔پھر جیسے شیل میرے تصور میں ابھرا ہے اور وہ اپنے موت کے سفر کا احوال بیان کرتا ہے۔
شیل کا سفر
جیسے شہاب ثاقب کے ٹوٹنے کا سفر
انہوں نے مجھے دور اور نزدیک مارنے کے لئیے چنا
میں دہکتا گولہ سا دمشق کا چکر لگاتا ہوں
کہیں میناروں کہیں گھاٹیوں پر سے
اوپر اور نیچے
مصروف لوگوں کوادھر اُدھر پھرتے دیکھتے
خوش و خرّم بچے یہاں وہاں پھرتے
جونہی اچانک میں نیچے اُترتا ہوں
ایک زبردست جھٹکے کے تعاقب میں چیخیں اور کراہیں
اس کے بعد کیا ہوا
میں نہیں جانتا
زار زار بہتے میرے آنسوؤں نے اُن ناموں کو دھندلا دیا ہے۔جو میں گلیوں کی دیواروں پر لکھے دیکھتی ہوں۔ان نوجوانوں کے نام جن کی ابھی شادیاں ہوئی تھیں۔اُن کی دلہنیں کہاں چلی گئی ہیں؟کتنے بیٹے اور بیٹیاں اپنے والدین کو کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔جب وہ لکھتی ہے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک برسات ہے۔
شیلزshells چھتوں اور فرشوں پر بارش کی صورت برس رہے ہیں
دیواروں پر مرنے والوں کے نام لکھے ہوئے ہیں
دلہنیں تو رات بھر میں ہی بیوہ ہوگئی ہیں
بچے محاذ جنگ سے باپ کی واپسی کے منتظر ہیں
جہاز طوفان کی مانند بمباری کررہے ہیں
کہیں بچے سکول بیگوں کے ساتھ
کہیں لوگ شاپنگ بیگز کے ساتھ
خون میں لُتھڑے پڑے ہیں۔
29دسمبر 2014کو اس نے لکھا۔
لگتا ہے جیسے میں اپنے ہی شہر میں اجنبی ہوں۔
اجنبی
جس نے اپنے خوابوں کو
چوما اور شب بخیر کہا
پھر انہیں ڈھانپ دیا
اور خاموشی سے رخصت کردیا
اپنی زندگی سے چلتے ہوئے نکل گئی ہوں
اب اور اسی وقت سے
میں تو خود سے اجنبی بن گئی ہوں۔
میری بیٹی ابھی ایک ٹرپ سے واپس آئی ہے۔غم زدہ ماحول کے باوجود وہ خوش ہے اور مسکراتی ہے۔وہ پرانے سٹیم انجن کے ساتھ اپنی دوستوں کے ہمراہ برادہBaradaدریا کے کنارے کنارے منائے جانے والے اپنے ٹرپ کا احوال سناتی ہے۔
میں اپنی بیٹی کی آنکھوں سے چھلکتی امید کی روشنی دیکھتی ہوں۔
میرے اِس اداس شہر کے باسیوں میں سے وہ لوگ جو موت نہیں زندگی کے دوسرے راستے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں۔اُس روشنی کو اِن آنکھوں سے چھلکتے محسوس کرتی ہوں۔
ہم ہیں
ہم بکھرے شکستہ خوابوں والی نسل
جو شیلوں پر سوتی،جاگتی اور قہقے لگاتی ہے
اِس نسل کا غم اور دکھ بس صرف اتنا
کیا بجلی اور انٹرنیٹ جلد بحال ہوگا
ہم وہ نسل جس کی خوشیاں چوری ہوگئی ہیں
تاہم ہمارے نوجوان دل زندگی کیلئے ابھی بھی کشادہ ہیں
ہم وہ نسل جو کبھی کِسی دن کہیں گے
ہم نے تاریکیوں سے جنگ کی اور اُسے کہیں دور دھکیل دیا
عمیدی کی نظمیں اور یادداشتیں حکومت شام کی سرکاری سطح پر اُن بڑھکوں یانظم و نسق کی ابتری کی یا وہ گوئیوں کی قلعی کھولتی ہیں جو حکومت نے اپنا طرزعمل بنالیا ہے۔
تاہم اس کی نظمیں اگر ایک طرف اس کے دکھوں کا اظہار ہیں تو وہیں وہ ہمارے لئے اس صبح کا بھی پیغام ہیں جو طویل اور تاریک رات کے بعد طلوع ہوگی۔اور جو ہم جیسے مایوس اور ناامید لوگوں کے لئے ایک نوید ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply