گنجوں کی مانگ میں اضافہ

ماں کا لاڈ پیار موسمی اثرات کے زیر اثر ہوتا ہے۔اماں موسم سرما میں ہمیں مٹھو،راجہ اور سوہنا کہتی تھیں اور جونہی گرمیاں آتیں تو ہم سارے بھائی ٹنڈیں کروا لیتے تولاڈبھی بدل جاتا۔گرمیوں میں ہم اماں کے ٹینڈے ، مینڈے اور کدو ہوتے،موسم گرما کی ابتدا ہوتے ہی ہم گرم پہناووں کی طرح بال بھی اتار دیتے کیونکہ ٹنڈ کی تاثیر ستُو جتنی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ ٹنڈ اور ختنے ہمارے ایسے تہوار ہیں جس کا مزہ صرف دیکھنے والےلیتے ہیں۔ مجھے یادہےگرمیوں میں ہمارے ہاں ٹنڈیں کروانے کی اجتماعی تقریب ہوتی،تقریب کے دوران ہم رو رو کر اور بڑے ہنس ہنس کر ہلکان ہوجاتے،ہم چونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے اس لئے ہم کزنز کی ٹنڈ بھی جوائنٹلی ہوتی۔بڑوں کو ٹھولے مارنے کا شوق ہوتا تھا اور ہمیں بچنے کی فکر،یوں سارا دن ٹنڈ پر ہاتھ رکھ کر میراتھن جاری رہتی۔ تب گھروں میں بجلی نہیں ہوتی تھی۔ رات کو کمرے غاربنے رہتے، جونہی لالٹین چالو ہوتی تو سب سے پہلے ٹنڈ چمکتی،ساری ٹنڈیں لائن میں سوتی تھیں جیسے ریڑھی پر تربوز پڑے ہوں۔ تب اے سی صرف امرا کے ہاں ہوتے تھے ،غرباکے ہاں تو ٹنڈ ہی ہوتی تھی ۔
یہ سلسلہ جوانی تک جاری رہا۔ جوانی ہمیشہ آتشِ محبت ساتھ لاتی ہے۔۔’’جرِم جوانی‘‘ میں مزید کئی بارٹنڈ ہوئی۔ ظالموں نےسر کا ہر ہر بال بیکا کیا، محبت کی تپش ہڈوں سے نکال کر چھوڑی۔ابھی ٹھنڈپوری نہ پڑی تھی کہ شادی ہو گئی۔ یوں زندگی میں پہلی بار بال خودگرناشروع ہوئے۔پھر جرم ِضعیفی لاحق ہوگیا۔سر پہ جوتھوڑی بہت جھالرباقی تھی۔ جاتی رہی،پالنے سے آلنے تک سر کو بال دیکھنا نصیب نہ ہوئے۔اب تو دعا ہے کہ ’’خدا مجھے ناخن نہ دے‘‘۔کہتے ہیں کہ شادی زندگی میں ٹھہراؤ لاتی ہے،یہ ٹھہراؤ صرف سر پر ہی آیا وگرنہ دل تو کم بخت اب بھی’’دھڑکتا‘‘ہے۔وہ دوست جوبچپن میں روڈا کہتے تھے اب وہ گنجا کہتے ہیں۔ میرا دوست مریدکہتا ہے کہ ٹنڈ کروانی ہو تو حجام کی دکان پر نہیں محبوبہ کی گلی میں جا ناچاہیے لیکن شیخ صاحب ہسپتال پہنچ گئے۔
ہسپتال کا عملہ شیخ کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔۔لوگوں نے پوچھا کیا ہوا؟۔۔۔۔۔
ڈاکٹر:تین بار ایسا ہو چکاہے کہ یہ بھگوڑا دماغ کا آپریشن کرانے آتا ہے اورٹنڈ کراکے بھاگ جاتا ہے۔
ٹنڈکرنے اور کرانے میں بظاہر تو الف کا ہی فرق ہے لیکن اس کے اثرات رضا مندی اور زبردستی کی شادی جتنے بھیانک ہوتے ہیں ۔ اسی لئےکبھی ٹنڈ کرنےوالے بھاگ جاتے ہیں اورکبھی کرانے والے لیکن ٹینڈے اور گنجے میں خاصا فرق ہوتا ہے،ٹینڈاکبھی بھی ہوا جا سکتاہے،گنجا ہونے کےلئے شوہر ہونا ضروری ہے۔انسان کی عزت بالوں میں ہوتی ہے۔ٹنڈ بے شرمی کی علامت ہے، اسی لئے شرمیلے وِگ پہنتے ہیں، زبردستی کی شادی، زبردستی کی ٹنڈ جیسی ہوتی ہے۔تبھی’’ متاثرین‘‘ شرمندہ شرمندہ رہتے ہیں۔ٹنڈ ایسا پہناوا ہے جسے زبردستی پہنایا جائے تو عزت خاک میں مل جاتی ہے۔شہر ہوں یا دیہات۔۔ لوگ انا کے فیصلے ٹنڈ سے کرتے ہیں، خطا کاروں کے سرمونڈ کربے عزتی کی جاتی ہے۔ شادیوں پر دولہے بے وجہ رومال سے ناک چھپاتے ہیں۔عزت اگر ناک میں ہوتی تو خطاکاروں کے بال کے بجائے ناک کاٹی جاتی۔مرید تو کہتا ہے کہ دولہے ناک اس لئے چھپاتے ہیں کیونکہ شادی بھی ایک خطا ہے جس میں گدھے کو گھوڑے پر بٹھایا جاتا ہے۔
چوہدری شجاعت حسین جب وزیراعظم تھے تو بہاولپورمیں ایک خاتون سے زیادتی ہوگئی، وزیراعظم محمد بن قاسم بن کروہاں پہنچے اور پولیس کوحکم دیا کہ’’زیادتی کے ملزم پکڑیں،انہیں لِتر ماریں،ٹنڈیں کرکے کھوتے پربٹھائیں اور پنڈ کا چکر لگوائیں‘‘۔ پنجاب خواہ جتنی مرضی میٹروبسیں چلالے۔ دیہاتیوں کی سواری آج بھی خطا کار والی ہے۔ کھوتوں پر بیٹھنے والےخطا کار نہ بھی ہوں پھر بھی اوسان خطا ہی رہتے ہیں۔مریدکہتا ہے کہ ٹنڈ ایشیا کے مردوں کا پہناوا ہے۔جو یورپی خواتین میں بھی مقبول ہو رہاہے‘‘۔ ٹنڈ دیکھ کرہمیں تین طرح کے خیالات آتے ہیں۔پہلا کہ آدمی عمرہ کرکے آیا ہے،دوسرا کہیں پکڑا گیا ہے اور تیسرا کہ اسےگرمی زیادہ لگتی ہے۔مرحوم مستانہ(کامیڈین) کہتے ہیں کہ فلم سٹار نرگس نے ایک آدمی سے کہا مجھےگرمی لگتی ہے تو آدمی نے اےسی لگوا دیا، تو میں (مستانہ) نے بھی انہیں کہہ دیا ۔۔۔حاجی صاحب،گرمی تومجھےبھی بہت لگتی ہے،تو انہوں نےمجھےبیس روپے دےکر کہا’’جاؤ ٹنڈکروا لو‘‘۔
پاکستان کے بیشتر امرا بیک وقت نرگس اور نرگسیت کا شکار ہیں۔نرگسیت انہیں ٹنڈ سے بچاتی ہے اوروہ نرگس کی ٹنڈ بچاتے ہیں۔ ۔سعادت حسن منٹوکبھی نرگسیت کا شکار نہیں ہوئے۔انہوں نے ٹنڈ کا تذکرہ گنجے فرشتے لکھ کر کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’میرے شہر کے معززین کو میرے شہر کی طوائفوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا‘‘۔منٹو نے گنجے فرشتے کے ہر کردار کی رُوح کو عریاں کیا، ایک بھی فرشتہ نہ نکلا۔فرشتوں کی تلاش ابھی جاری تھی کہ عطاالحق قاسمی نے مزید گنجے فرشتے لکھ ڈالی’’امریکہ میں نشے میں دھت ایک عورت متلی کرنے کوڑے کے ڈرم پرجھکی اور اندرجاگری، ایک سردار جی ادھر سےگزرے ،انہیں ڈرم سے دو ٹانگیں نظر آئیں۔۔۔۔خاتون کوباہر نکالا،اور بولے’’یار یہ امریکی بھی عجیب ہیں یہ عورت ابھی چار پانچ سال مزید چل سکتی تھی مگر کوڑے میں پھینک گئے‘‘(مزیدگنجے فرشتے سے اقتباس)۔
امریکی سچ میں عجیب لوگ ہیں،ٹائمز میگزین تو کہتا ہےکہ’’ گنجے مرد بال والوں کی نسبت زیادہ پر اعتماد اور ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انہیں نوکری اوربڑے عہدے بھی جلد مل جاتے ہیں، وہ زیادہ پھرتیلے ہوتے ہیں جبکہ۔’’انڈی 100‘‘نامی امریکی ویب سائٹ تو کہتی ہے کہ ’’ہماری ٹیم نے درجن بھر مردوں کی تصاویر لیں، ہر تصویر کی تین بار ایڈیٹنگ کی،اسے گھنے بالوں والے، نیم گنجے اور مکمل گنجے میں تبدیل کر دیا اور یہ تصاویر جب خواتین کو دکھائی گئیں تو انہوں نے گنجے مردوں کو خوبصورت، بہادراور پراعتماد قرار دیا‘‘شائد گنجے کی ایک رگ زیادہ ہو تی ہے،شائد اُن کا سر”اوپر“سے خالی ہوتا ہے،شائد اسی لئے امریکی خواتین گنجے پسند کرتی ہوں۔۔۔۔؟لیکن مرید کہتا ہے کہ’’مردووں کی زندگی میں پریشانیاں سر سے داخل ہوتی ہیں، اسی لئے اکثر شوہرگنجے ہوتے ہیں‘‘۔کہتے ہیں کہ سر پر بال لگوانے سے دماغ کی خزاں بہارمیں نہیں بدلتی،گنجے کے پاس سنوارنے کو ”بال“نہیں ہوتے لیکن دھونے کو کافی سارامنہ ہوتا ہے،سرحدوں کی قید سے آزاد منہ۔۔ ٹنڈ ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہے لیکن گنجے دو جیسے، گھریلو گنجے اور سیاسی گنجے۔ گھریلو گنجے ہرجگہ پائے جاتے ہیں اور سیاسی گنجے ایوانوں میں ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی ٹنڈیں قوم کےمستقبل سے بھی زیادہ روشن ہیں۔ گھریلو گنجے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے ہیں اور سیاسی گنجے از خود سزا ہیں۔ مجھے تو جوؤں کے علاوہ ٹنڈ کا کبھی فائدہ نہیں ہوا لیکن امریکی خواتین گنجوں کی ویسے ہی مداح ہیں جیسی مائیں ہمارے بچپن میں تھیں۔

Facebook Comments

اجمل ملک
مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ بیورو چیف ایکسپریس نیوز۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply