ہر سو ہجوم عاشقاں
اگر آپ نے ویلنٹائن ڈے کے حساب سے سرخ رنگ بلاتفریق مرد و زن ترتیب دے لیا ہے جو بروز منگل مورخہ چودہ فروری کو آپ زیب تن کرنے والے ہیں تو آپ اس جہان فنا کی خوش قسمت ہستیوں میں سے ایک ہیں – مسکین دلوں میں جزبات تو امڈ ہی آیا کرتے ہیں سو یہی کچھ عاجز کے ساتھ بھی اکثر ہو جاتا ھے اور پھر بات سنبھالے نہیں سنبھلتی بلکہ دور تلک نکل جاتی ھے – بچپن سے وہ چیونٹی کئی دفعہ کوشش کے بعد دیوار پر کامیابی سے چڑھ جانے والی کم بخت کہانی دماغ میں مستقل جگہ بنائے ھوئے ھے – اس کہانی کا مرکزی سبق ہم نے خوب از بر کر لیا مگر برا ہو دل پھینک مزاج کا کہ یہ سبق ہمارے کام فقط در معاملات عشق ہی آیا کرتا ھے چہ جائے کہ کبھی کسی پیشہ ورانہ سلسلے میں ہمارے فطین بھیجے میں یہ بات گھسی ہو –
دل و نگاہ کہیں ٹھہرتے ہیں تو ہم بھی وہیں کہ ہو رہتے ہیں جب تک وہاں سے چار الفاظ میں کوئی تشفی بخش جواب نہیں اجاتا جو کہ کم و بیش انہی الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے کہ “یہ منہ اور مسور کی دال” مگر ہم بار بار اپنی قابلیت کا اظہار مختلف اطوار سے کرتے ہیں کہ کوئی تو قبولیت کا شرف بخشے مگر ہمیشہ نامراد لوٹے ہیں یعنی نالوں میں وہ اثر کبھی نہ رہا جو محبوب کے آدم ڈگمگا سکتے – ایک فروری تو لڑکپن میں ایسا بھی گزرا کہ ہم سے زیادہ دوسری پارٹی زیادہ شاطر و عاشق نکلی اور بجائے ہم سے دلبر جاناں کہہ کر کوئی تحفہ وصولنے کے خود ہم پر انہوں نے یہ عنایت کرنے کی پر مسرت نوید سنائی تو ہم پھر سے جی اٹھے کی مانند ہو گئے -عمومی طور پر عاشق معشوق کی آہٹ سے پہچان جایا کرتے ہیں کہ یہ کس کی ھے آہٹ یہ کون ھے آیا مگر ہمارے چونکے الٹی گنگا بہتی تو ہم اسکے آنے سے پہلے گوبر کی جاں سوز خوشبو سے پہچان لیا کرتے تھے کہ اب کون ھے آیا – بروز ویلنٹائن بعد از دوپہر جب گلی میں قدرے رش کم تھا وہ الہڑ مٹیار گوہر کی ٹوکری سر پر اور گوبر کی بھینی بھینی خوشبو اپنے پلو میں لیے گزری تو انتظار میں کھڑے ہم جو بوجہ طویل انتظار جاں بلب تھے گوبر کی اس قاتل خوشبو کو پا کر ایک دم چوکس ہو گئے – وہ حسینہ عالم گوبر ٹوکری سر پر رکھے اسی گوبر سے لبریز پلو کا ایک کونا پیلے دانتوں میں دبائے لچک مٹک کر گو کہ وہ لچکنا ادائے دلبری کی وجہ سے کم اور سر پر لدے گوبر کے بار کی وجہ سے زیادہ تھا بہرھال لچکنا مٹکنا تھا ضرور، گزری اور اسی دوران ایک سرخ پیکنگ میں لپٹا پیکٹ ہماری جانب بذریعہ فضاء روانہ کر دیا جسے ہم نے لپک کر جھپٹ لیا-مگر ہائے زمانہ بڑا ستم گر ھے کہ اسی مشن کی تکمیل کے دوران ہمارے گھر کے بالکل مقابل ایک آنٹی کم جلاد رہا کرتی تھیں اور جو پورے محلے کے بچوں و بچیوں کے لیے بی بی سی تھیں مگر نہیں تھی تو فقط اپنی نور چشم تین عدد صالح کاکیوں کی خبر نہیں تھی، خیر انکی شاہین نگاہ نے ہمیں تاڑ لیا – ابھی وہ پیکٹ کھولنے کی شبھ گھڑی بھی نہ پہنچی تھی کہ وہ آنٹی ہماری اماں کے پاس اور اماں ہمارے سر پر پہنچ گئیں اسکے آگے راوی درد و بکاہ، اور کچھ نیلے پیلے نشانات کی نشاندہی بہرھال کرتا ھے –
سو ہائے وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا چند دن گنگنائے اور پھر اگلی وارداتوں میں یونہی زندگی کے دن گزرتے گئے بلکہ یوں کہیے کہ گزر رھے ہیں مگر تاحال کسی کو ویلنٹائن ڈے والے دن سرخ جوڑے میں سرخ تحائف کا تبادلہ کرتے دیکھتا ہوں تو جی کڑا کرنا پڑتا ھے اور اب مار کھانے کی اتنی سکت اس خستہ جاں میں ویسے بھی نہیں رہی –
Happy valentines day
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں