آپ کی کوئی بہن بھی ہے؟
شہزادی نے آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ اس کی سبز بلوری آنکھوں سے تیز وحشیانہ چمک شہزادے کی جانب یوں لپکی تھی جیسے گھپُ اندھیرے میں آسمانی بجلی کا لشکارے مارتا کوندا کسی راہ گیر پر گرپڑے۔
‘‘کوئی خالص بات’’ شہزادی نے تعجب سے پوچھا۔
‘‘خاص بات۔ شہزادے نے اپنے آپ سے کہا تھا۔ ہاں خاص بات ہی تو ہے۔ وہ جسے سالہا سال سے اپنے سینے میں دفن کئے بیٹھا ہوں۔ آج اس کی جھلک نظر آئی ہے۔ تو کچھ جاننے کی پوزیشن میں نہیں۔’’
‘‘بس ایسے ہی’’۔ اس نے سرجھکاتے ہوئے کہا تھا۔
رات انہوں نے اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ الگ الگ خیموں میں کاٹی۔ پر وہ سوئے نہیں۔ جہاں شہزادہ فردوس اس انوکھے حادثے پر حیران و ششدر تھا۔ وہاں شہزادی جوار خاتون کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری تھا۔
وقت رخصت مصافحہ کرتے ہوئے یکایک شہزادے فردوس کو احساس ہوا تھا کہ اس کے مضبوط ہاتھوں میں پکڑا دوسرا ہاتھ نرمی اور گرمی کا دلکش امتزاج لئے ہوئے ہے۔
جیسے اس میں کچھ نسوانی پن ہو۔
انہوں نے راستہ سمجھا اور گھوڑوں کو ایڑ لگا دی۔
قلعہ سنیکر میں ایک دن قیام کرنے کے بعد شہزادی گلگت کے لئے روانہ ہو گئی۔
اب ملکہ کا اپنی شخصی حکومتی دور شروع ہوا۔ اس نے زنانہ لباس مکمل طور پر اُتار پھینکا۔ شاہی لباس زیب تن کیا۔ عمامہ سر پر باندھا۔ طلائی کمر بند باندھ کر اس کے ساتھ شاہی تلوار باندھی اور تخت پر بیٹھی۔
سنجیدہ ‘ہوشیار ‘تجربہ کار اور صلاحیت مند افراد کا انتخاب کر کے انہیں مختلف عہدوں پر متمکن کیا۔ رعایا کی فارغ البالی‘ ملک کی آبادی اور دیگر رفاہ عامہ کے کاموں میں وہ اپنے آباؤ اجداد پر سبقت لے گئی تھی۔ چلاس و استور گریز اور گلگت خاص میں سڑکیں اور نہریں بنوائیں۔ کوہل بالا اور کوہل پائیں (اوپر اور نیچے کی نہریں) داریل اور تانگیر کے لوگوں کی مدد سے نالہ بسین سے نکلوائیں۔ سونی یب (رانی کی نہر) خومر اور جوٹیال کے درمیان سے نکلی۔
یہ شادمانی کا دور تھا۔ امن و آشتی اور عیش و آرام کا زمانہ تھا۔ جامع اصلاحات کے نفاذ نے اسے سنہری ایام کا نام دیا تھا۔ اس کا طرز جہاں بانی منفرد تھا۔
وہ مطمئن تھی’ مسرور تھی۔ پر کبھی کبھی مضطرب بھی ہو جاتی تھی۔ اس کی بند پلکوں پر تھرکتی وہ صورت اب اسے زیادہ ستانے لگی تھی۔ ابھی رات وہ اس کی ہمراہی میں سنیار باغ میں چکوروں کا شکار کھیلتی رہی تھی۔ صبح دم جب آنکھ کھلی تو شاہی چھپرکٹ پر تھی۔ سارے سریر میں دکھ اور یاس گھل گیا تھا۔
پھر ایسا ہوا کہ ایک بار جب وہ اپنے سالانہ دورے پر داریل ‘ تانگیر اور ہربن کے علاقوں سے ہوتی ہوئی علاقہ گور (موجودہ گوہر آباد چلاس) میں آئی یہ جگہ ایک بلند سطح مرتفع پر واقع ہے۔ پورا علاقہ نہایت دل کش ‘خوش منظر اور صحت بخش آب و ہوا کے لیے خصوصی شہرت رکھتاہے۔ حسن و خوبصورتی سے معمور اس کی راجدھانی کا یہ حصہ اُسے بہت پسند تھا اور وہ اکثر یہاں دنوں پڑاؤ کرتی۔
اس بار دو باتوں سے وہ متفکر ہوئی۔ بہت ساری زمین محض پانی کی کمی کی وجہ سے غیر آباد تھی۔ یہاں آبادی کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔
اس نے حد نظر نگاہ ڈالی اور اپنے آپ سے کہا۔ ایک نئی کوہل (چھوٹی نہر) یہاں زیادہ خوشحالی لانے کی ذمہ دار بن سکتی ہے۔ اس لئے ا سکا بننا بہت ضروری ہے۔
سرکردہ لوگ اس کی طلبی پر حاضر خدمت ہو گئے۔ شفقت اور محبت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
‘‘میں جانتی ہوں کسی دور دراز نالہ سے راستے میں حائل پہاڑوں اور چٹانوں کو کاٹ کاٹ کر ایک نئی کوہل تعمیر کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ لیکن یہ میری خواہش ہے۔ میں اس بنجر اور ویران زمین پر آپ لوگوں کے کھیت کھلیان دیکھنا چاہتی ہوں۔’’
لوگ خاموش تھے۔ یہ تو گویا پہاڑ سر پر اٹھانے والی بات تھی۔
‘‘بولیئے ‘بتائیے۔ چپ کیوں ہیں؟ آپ میری اس خواہش کو بال ہٹ نہیں کہہ سکتے۔ یہ تریاہٹ بھی نہیں۔ آپ لوگ میری ایسی خواہشات کے پس منظر میں میرے جذبات سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔
مجمع پرچھائی خاموش ٹوٹی تھی۔ ایک شریں گفتار مرد جس کا نام طانو جشٹیرو تھا کھڑا ہوا۔ دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے اس نے کہا۔
‘‘اگر جان کی امان پاؤں تو ملکہ کے حضور خاموشی کا عذر پیش کروں۔’’
جواباً شہزادی نے کہا
‘‘اجازت ہے۔ بلا خوف و خطر اپنے جذبات کا اظہار کرو۔’’
طانو جش جشیٹرو بھرے دربار میں یوں گویا ہوا
‘‘ہمیں احساس ہے کہ آپ کی ہر سوچ اور ہر خواہش کے پس منظر میں اپنی رعایا کے کسی ایک فرد کو بھی غربت زدہ یا مفلوک الحال دیکھنا گواراہ نہیں۔ لیکن یہ بھی تو سوچئے کہ آپ اپنی مملکت کو نیک سیرت اور حمیدہ خصلت تاجداروں سے محروم بھی رکھنا چاہتی ہیں۔’’
شہزادی جیسے حیرتوں سے بھرے پانیوں کی کسی جھیل میں دھڑام سے گر گئی۔
‘‘میں تمہارا مطلب نہیں سمجھی۔ جو کہنا چاہتے ہو صاف اور واضح الفاظ میں بیان کرو۔’’
طانو جشیڑو نے مودباً انداز میں بڑا چبھنے والا سوال کر دیا تھا۔
‘‘شہزادی جوار خاتون آپ کے بعد تخت و تاج کا وارث کون ہو گا؟’’
اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے بھرے پرُے دربار کا ہر فرد ایک سوالیہ نشان بن کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ اندر کا اضطراب کرب کی صور ت میں پسینہ بن کر اس کی پیشانی پر پھوٹ نکلا۔ وہ گم سم سوچوں میں گھری ہوئی تھی۔ جب طانو جشیڑو نے اس سکوت کو توڑا۔
‘‘یہ میری ہی نہیں آپ کی قلمرو کے تمام عورتوں’ مردوں’ جوانوں’ بوڑھوں کی خواہش ہے۔ خود سوچئے نا جس ملک اور عوام کے لیے آپ دن رات ہلکان ہو رہی ہیں۔ آپ کے بعد وہ آپ کے بدخواہوں کے تصرف میں ہو گا۔ اپنی رعایا کو اس عذاب میں مت ڈالیں۔ حضور قدرت کے اصولوں کے خلاف کام نہ کریں اور خاندان طرہ خان کے سلسلے کو ختم کر کے رعایا کو مایوس مت کریں۔
اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں سے کاٹ لیا تھا۔ یہ کیساامتحان ہے میرے خدا؟ آزمائش کی یہ کیسی گھڑی ہے؟ خوابوں کی اس جنت سے یہ کیسا دیس نکلا ہے؟
ہر فرد منتظر نگاہوں سے اُسے دیکھتا تھا۔ اس نے پیشانی کا پسینہ پونچھا اور اپنے آپ سے کہا۔
‘‘میں دو دھاری تلوار کی زد میں ہوں۔ ہاں کہتی ہوں تو اپنا گلا کٹتا ہے۔ نہ کہتی ہوں تو یہ سب مرتے ہیں۔’’
تب اس نے ان کی ملتجی نگاہوں کو اپنے دل میں اتارا اور کہا
مملکت گلگت کے بوڑھے مرد اور عورتیں میرے والدین’ جوان میرے بہن بھائی اور بچے میری اولاد کی مانند ہیں۔ اگر یہ سب کا فیصلہ ہے تو میں اس کے سامنے سرجھکاتی ہوں اور ا سکا کلی اختیار آپ لوگوں کو سونپتی ہوں۔
بھرے مجمع نے فرط انبساط سے نعرے لگائے۔ ایک دوسرے کو فرط جذبات سے گلے لگایا اور مبارکباد دی۔
پھر پروگرام کی تفصیلات طے پائیں۔ دن اور وقت مقرر ہوا۔ اکابرین سر جوڑ کر بیٹھے کہ کس ملک اور کس خاندان کا شہزادہ موزوں رہے گا۔
والئی یاسین کی طرف رجحان رکھنے والے ایک نمائندے نے اس خاندان کے ساتھ ناطہ جوڑنے کو کہا۔
اس تجویز پر معتمد ترین بزرگ نے قدرے غصے سے کہا۔
‘‘کبھی ایسا مت سوچنا۔ وائی یاسین کی اولاد محسن کش ہے۔ وہ عوام کا گوشت کھاتے ہیں۔
حراموش کے علاقے کے کسی اکابر نے کہا کہ علاقہ سکردو کے مقیبوں خاندان کا کوئی شہزادہ مناسب رہے گا۔
‘‘ہرگز نہیں بلتیوں کی خوراک زیادہ تر زان ہے۔ ان کی کمر کمزور ہوتی ہے۔ وہ ہماری شجاع اور دلیر شہزادی کے لئے کسی طرح موزوں نہیں۔’’
شاہی خاندان ہنزہ بھی رد ہوا۔ پھر اسی بزرگ نے دھیرے دھرے کہنا شروع کیا۔ میری ناقص رائے کے مطابق نگر کا شہزادہ بہت موزوں رہے گا۔ اس نے دونوں خاندانوں کے درمیان رشتہ داری کا حوالہ دیا۔ ان باتوں کو بھی زیر بحث لایا گیا جو شاہی خاندانوں میں وجہ تنازع بنے۔ اس نے کہا میرے ساتھ طانو جشیٹرو اور دیگر معزز لوگوں کا ایک وفد جائے گا اور نگر کے راجہ شاہ کمال کے حضور اپنی درخواست پیش کرے گا۔
نگر میں وفد کا استقبال شاہانہ انداز میں کیا گیا۔ شاہی محل میں انہیں اتار ا گیا۔ اور اگلے دن دربار عام میں شاہ کے حضور مدعا پیش ہوا۔
شاہ نے شکوے شکایتوں کا جو دفتر کھولا اُسے وفد کے سربراہ نے ذہانت اور متانت سے سمیٹا۔ دلوں کی کدورت صاف ہوئی تو دونوں شہزادوں کو پیش کیا۔ شاہ فردوس اور شاہ رحیم۔ وفد کی نگاہ انتخاب شاہ فردو س پر تھی کہ وہ ایک خوش رو ‘ خوش خو اور وجہیہ انسان تھا۔
پر ایک عجیب سی بات ہوئی کہ شاہ فردوس نے کہا وہ شہزادی سے ملے اور اس سے باتیں کئے بغیر شادی نہیں کرے گا۔
وفد لوٹ آیا۔ شہزادی کو صورت حال سے مطلع کیا گیا۔ ساری روئداد سننے کے بعد اس نے متانت سے جواب دیا تھا۔
‘‘کوئی ہرج نہیں۔ پیغام بھجوا دیں۔’’
وہ ایک شام بونجی کے دورے سے لوٹی تھی۔ اُس نے شہ زور گھوڑے کی طنابیں ایک جھٹکے سے کھینچ کر اسے زمین پر ساکت کرتے ہوئے قلعہ فردوسیہ کے باہر غیر معمولی رونق اور گہما گہمی کا سبب جاننا چاہا تھا۔
‘‘شہزادہ فردوس تشریف لائے ہیں اور آج شب آپ سے ملاقات کے متمنی ہیں۔’’
اس نے یہ سنا اور گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ وہ قلعے کے راستوں پر بگولے کی طرح اڑتا شاہی محل میں اس جگہ آکھڑا ہوا جہاں خدمت گار اس کی پیشوائی کے لیے کھڑے تھے۔
رات کا پہلا پہر تھا۔ چوب چراغوں کی روشنی سے کمرہ منور تھا۔ وہ آنکھیں بند کئے نیم دراز تھی اور دروازے میں کوئی کھڑا تھا۔
وجاہت اور شجاعت کا پیکر چلتا چلتا عین اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ دم بخود ‘ کنگ اور حیرت زدہ۔
‘‘تو یہ تم ہو’’ ساکت لہجہ بالاخر ٹوٹا تھا۔
اس نے آنکھیں کھولیں۔ پلکوں کی چھاؤں میں جو سورج دیوتا ڈیرے ڈالے بیٹھا تھا’ وہ اس وقت سامنے تھا۔ اضطراری حالت میں وہ کھڑی ہو گئی۔ ا سکی زبان نے بھی بے اختیار کہا تھا۔
‘‘یہ تم ہو’’
وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ‘طویل فراق کی داستانیں سناتے ہوئے ۔جانے کتنی دیر بیت گئی تھی’ شاید صدیاں۔ تب اس نے آگے بڑھ کر اس کے شانوں پر اپنے ہاتھ رکھے۔ اسے بٹھایا اور خود بھی بیٹھا اور بولا۔
‘‘تمہیں مجھ پر اپنا آپ ظاہر کرنا چاہیے تھا۔ میرے اندر برسوں کی جلتی آگ پر تو پھوار پڑتی۔
وہ مسکرائی یوں جیسے کوئی عقل مند کسی معصوم اور بھولے بھالے بچے کی کسی بات پر مسکراتا ہے۔
چراغ جلتے رہے۔ باہر ہوا شاہ بلوط کے پتوں کے ساتھ مل کر تالیاں بجاتی رہی اور رات کا اولین پہر پہاڑوں کی چوٹیوں سے پھسل کر نیچے وادی میں اترتا آیا۔
شہزادی کی آنکھوں میں چھلکتے سوال تھے۔ یہ سوال اس کے ہونٹوں پر آنے کے لئے مچل رہے تھے۔ شہزادی فردوس نے انہیں سمجھا اور اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی انہیں زبان دے دی۔
یوں محسوس ہوتا تھا وہ جیسے کسی اور دنیا میں کھو گیا ہے۔ اس کی آواز بھی کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ چوب چراغوں پر جمی نظریں خوابوں کی اس جنت میں جھانک رہی تھیں جہاں جھیلوں’ آبشاروں اور چشموں کے کنارے اس نے اسے بار ہا دیکھا تھا۔ شاید اسی لئے اس کا حقیقی روپ مردانہ صورت میں دیکھ کر گڑ بڑایا تھا۔
‘‘ہاں۔ وہ مسکرایا۔ شادی سے پہلے تم سے ملنے کی شرط اس لئے تھی کہ تمہارے بارے میں بے شمار باتیں گردش میں ہیں۔ تم نفسانی خواہشات سے کسی حد تک مبرا ہو۔ رعایا کے مجبور کرنے پر ولی عہد کے لئے شادی کر رہی ہو۔’’
میں شہزادی جوار خاتون سے یہ جانے کا آرزو مند تھا کہ ولی عہد کے حصوُل کے بعد مجھ سے کیا سلوک ہو گا۔’’؟
شہزادی ہنسی تھی۔ مدتوں بعد ایسی ہنسی اس کے ہونٹوں پر سجی ہوئی خود ہونٹوں کو اجنبی اجنبی سی محسوس ہوئی تھی۔
آہستگی سے اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا۔
شہزادہ فردوس نے یہ ہاتھ اٹھایا۔ اسے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
‘‘عورتوں سے کبھی میرے مراسم نہیں رہے۔ میرے لئے یہ ایک طرح شجر ممنوعہ ہی ہے۔ مگر بگروٹ کی اس صبح یقین کرو تمہارے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہی مجھے نسوانی تپش کا احساس ملا تھا۔’’
پھر وہ اٹھا۔ اس کا چہرہ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما۔ ا سکے چمکتے گھنے بالوں کو چوما۔
میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ چہرہ جو مدتوں میرے خوابوں’ خیالوں اور دل کی دنیا پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھا رہا کسی ایسی خاتون کا ہے۔ جو بڑی شہ زور ‘جیالی اور بڑی خود سر ہے۔ میں اسے ملکہ بنانے کا متمنی ضرور تھا۔ پر اس کا مشیر بننا مجھے تصوّر میں بھی گوارا نہ تھا۔
پر مقدرزور ور ہوتا ہے۔
وہ بہت دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔ اس کی آواز میں اس کے خیالوں کی شکستگی کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔
بس تو اتنی سی بات یاد رکھنا کہ جس دن مجھے یہ محسوس ہوا کہ تمہاری راجدھانی میں میری حیثیت ایک عضو معطل کی سی ہے اور تم مجھ سے اکتا گئی ہو میں اسی لمحے تمہاری دنیا سے نکل جاؤں گا اور پھر تم لاکھ بھی چیختی رہو میری صورت کبھی نہ دیکھ پاؤ گی۔’’
اور شہزادی نے حیرت سے پلکیں جھپکیں۔ اس کا ذہن ماؤف سا ہو گیاتھا۔ دروازے کی کنڈی ہلتی تھی اور کمرے میں یوں لگتا تھا جیسے کوئی بگولا اڑتا اڑتا باہر نکل گیا ہو۔
‘‘کہیں یہ بھی تو سپنا نہیں۔ خوبصورت اور پراسرار سا۔’’
اس نے بے اختیار اپنے آپ سے کہا۔
پھر بڑی دھوم دھام سے بیاہ ہوا۔ شہزادی فردوس کو راجہ کا خطاب دیا گیا۔ سال بعد ولی عہد کی پیدائش ہوئی۔ نومولود کا نام جی خان (حبیب خاں) تجویز ہوا۔
اب محلاتی سازشوں کا دور شروع ہوا۔ مملکت کے چند دانشمد اور دور اندیش افراد کا انتقال ہونے سے شرپسندوں اور مفاد پرستوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا کیونکہ شہزادہ فردوس ان کی راہ میں رکاوٹ تھا جو بڑی زبردست اور دھڑے والی شخصیت ہونے کی وجہ سے پوری سلطنت پر چھایا ہو اتھا۔
ایک دن جب وہ اپنے اکابرین کے ساتھ ہنکا شکار کھیلنے (بازوں اور شکروں کی مدد سے شکار کھیلنا) چلاس گیا۔ واپسی پر اس نے دریائے گلگت پر تعمیر شدہ رسیوں کا پل کٹا ہوا دیکھا۔ پل کے دوسرے طرف گلگت کے چند معتمد لوگ تھے۔
انہوں نے کہا۔ اپنی راجدھانی نگر جاؤ۔ تخت و تاج کا وارث موجود ہے۔ یہاں اب تمہاری ضرورت نہیں۔’’
اس نے غیظ و غضب سے بھری ہوئی نظریں ان پر یوں ڈالیں جیسے شاہین عقاب کبوتروں کے غول پر دالتا ہے۔
شہزادہ جی خان مجھے دے جاؤ۔
جواب ملتاہے۔ ‘‘تھوٹ چھال نش’’۔ (یعنی بچہ بکری والوں کا ہوتا ہے) زہر خند ہنسی ہنستے ہوئے وہ واپس مڑا اور مڑتے مڑتے بولا۔
مجھے اس دن کی توقع تو تھی۔ پر ملکہ جیسی زیرک خاتون سے یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ ممولوں کو شہباز سے لڑانے کی ایسی ناقص تربیت کرے گی۔
اور ملکہ کو جب اس سانحہ کا علم ہوا تو بہت پریشان ہوئی۔ سازش میں شریک لوگوں کو نہ صرف لعن طعن کیا بلکہ انہیں عوام کی عدالت میں پیش کر دیا۔ راجہ فردوس کو سندیسہ بھیجا۔ اپنی پوزیشن واضح کی۔ جواب آیا تھا۔
‘‘میں نے کہا تھا مجھے کبھی کوئی ایسا پالتو جانور نہ سمجھنا جو مالک کے اشارے پر دم ہلائے۔ اس کی مرضی پر آنکھیں کھولے اور بند کرے۔
جواری دل کی دنیا کے دروازے تو صرف ایک بار ہی کھلتے ہیں۔ کھل کر اگر یہ بند ہو جائیں تو میرے جیسا جیالا انہیں دوبارہ کھولنے کی کوشش میں ہی لہولہان ہو جائے گا۔’’
اس نے یہ پیغام سنا۔ نگاہیں اٹھائیں۔ اپنے سامنے دیکھا۔ ان آنکھوں میں فولادی جذبوں کی انگڑائیاں تھیں۔
‘‘تمہیں لہولہان دیکھنا میری کب تمنا ہے؟ فردوس خان تم اور میں آسمان کے ان ستاروں کی مانند ہیں جو قریب آنے پر ایک دوسرے سے ٹکرا کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ پر دور رہ کر روشنی بکھیرنے اور راستہ دکھانے کا موجب بنتے ہیں۔ چلو مجھے تمہارا یہ فیصلہ منظور ہے۔ کیونکہ تاج پہننے والا بیدار مغز سر کبھی اپنے لئے نہیں جیتا۔’’
اور تاریخ گلگت کے اوراق گواہ ہیں کہ صدیاں گزر جانے پر بھی وہ زندہ ہے۔ صفحات میں بھی اور دلوں میں بھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں