سفر نامہ    ( صفحہ نمبر 2 )

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (16)-ابوبکر قدوسی

مقام ابراہیم پر دو نفل پڑھے ۔ چار روز پہلے جب میں نے عمرہ کیا تھا تو پوری چاہت کے باوجود مجھے میرے متعلقین نے اجازت نہ دی تھی کہ میں پیدل چل کر کے سعی کروں۔ میری ڈاکٹر بیٹی←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (15)-ابوبکر قدوسی

گاڑی تیزی سے مکہ کی طرف چلی جا رہی تھی اور میرے دل کے زخم سب میرے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ طائف کے مضافات سے نکلے تو بھوک ستانا شروع ہو گئی ابو الحسن نے “الطازج” کے←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (14)-ابوبکر قدوسی

ہمیں حرم آئے چوتھا دن ہوا تھا کہ جدے سے ابوالحسن علی قدوسی کا فون آ گیا ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ صبح آتا ہوں اور طائف کو چلتے ہیں ۔ ظہر کے وقت ابوالحسن آ گئے اور کچھ←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (13)-ابوبکر قدوسی

سعودی حکومت نے حرم کی توسیع میں جس قدر ذوق اور شوق کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ توسیع شوق سے زیادہ ضرورت بن گئی تھی ۔ موجودہ سعودی خاندان کے سریر آئے اقتدار ہونے←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (12)-ابوبکر قدوسی

اگر کوئی سعودی عرب جائے اور المراعی کا “لبن” نہ پیے تو یوں جانیے کہ اس کا بھی وہی عالم ہے کہ ” جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیاں نئیں” یعنی ، جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (11)-ابوبکر قدوسی

چونکہ ساری دنیا سے مسلمان وہاں آتے ہیں سو ہر رنگ و نسل اور ہر علاقے کے لوگوں نے وہاں پہ اپنے ہوٹل بھی قائم کیے ہوئے ہیں ۔ جابجا پاکستانی ہوٹل نظر آتے ہیں۔ میں نے بہت سارے ہوٹلوں←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (10)-ابوبکر قدوسی

صحن حرم میں ایک خوبصورت نظارہ ابابیلوں کے اڑنے کا بھی ہے ، صبحِ دم یہ بھی تازہ دم ہوتی ہیں سو ان کی آواز بھی تازہ ہوتی ہے ، لیکن ایک نظارہ مغرب سے کچھ وقت پہلے کا بھی←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (9)-ابوبکر قدوسی

اچھا یاد آیا کہ جب مروہ پر ساتواں چکر مکمل ہوا تو مجھے بیت الخلا جانا تھا۔ کوہ مروہ کے بغلی دروازے سے باہر نکلیں تو جو قریبی بیت الخلا ہے ، اس کی اپنی ایک تاریخی اہمیت اور حیثیت←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (8)-ابوبکر قدوسی

یہ کوہ صفا ہے ۔۔۔۔۔اس سے اور بھی بہت یادیں جڑی ہوئی ہیں ۔ رسولِ اکرم و مکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس روز کوہ صفا کے پاس سے ہی گزر رہے تھے کہ ابوجہل کا سامنا ہو گیا ۔←  مزید پڑھیے

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)کہانی را جہ شری بدد کی, جو آج بھی دلچسپ ہے/سلمیٰ اعوان(قسط17 )

بڑی خوشگوار ٹھنڈک تھی۔ ستارے جگمگ جگمگ کرتے تھے۔ نیچے سے آئے ہوئے لوگ گھومتے پھر رہے تھے۔ ہم بھی ٹامک ٹوئیاں مارتے مارتے مطلوبہ جگہ پہنچ گئیں۔ مخصوص روائتی گھر جسے مقامی زبان میں مِمشاسِکی حَہ کہتے ہیں۔ سامنے←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (7)-ابوبکر قدوسی

انسانوں کا ایک ہجوم تھا جو سیلاب کے مانند میرے دائیں بائیں بہہ رہا تھا اور میں جیسے اس سیلاب میں چلا جا رہا تھا اور بہے جا رہا تھا ۔ میں دیکھ رہا تھا یہاں ہر کوئی اپنی دنیا←  مزید پڑھیے

اور میں نم دیدہ نم دیدہ (6)-ابوبکر قدوسی

مغرب کی نماز ختم ہوئی، ہمارا ارادہ تھا کہ صحنِ حرم میں جا کر ارکانِ عمرہ ادا کیے جائیں تاکہ سفر کا مقصد پورا ہو ۔ عمرہ بنیادی طور پر چار امور کا نام ہے ، میقات پر احرام باندھ←  مزید پڑھیے

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)فسانہ شاہراہ ریشم کا۔ احوال قراقرم ہائی وے کا-ملنا کمینے فینی بل سے۔ گنونی کا تہوار اور ہماری مایوسی/سلمیٰ اعوان(قسط16 )

آسمان کسی پرہیز گار کے دامن کی طرح شفاف تھا۔ دھوپ میں ماں کی گود جیسی نرمی اور ملائمت تھی۔ یوربی ہوائیں کسی چنچل دوشیزہ کی مانند اداؤں سے تھم تھم کر چلتی تھیں۔ لوہے کی تاروں‘ سرئیے اور لکڑی←  مزید پڑھیے

آخری اسٹیشن(بہاول پور تا امروکہ تک پھیلی بربادی کی ایک داستان/قسط 2،آخری حصّہ)-ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

3 ستمبر 1947,امروکا  اسٹیشن سطح سمندر سے بلندی 572 فٹ رات کے ڈھائی بجنے کو تھے اور غلام محمد کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ امروکا ریلوے اسٹیشن کا یہ بوڑھا اسٹیشن ماسٹر اس وقت تک سو جاتا تھا لیکن←  مزید پڑھیے

باد کوبیدن نامی شہر میں(2،آخری حصّہ)- ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں ان کی آمد کے انتظار کے دوران باکو گائیڈ دیکھتا رہا تھا اور میں نے حسین سے پوچھ کر وہ لے بھی لی تھی چنانچہ فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کام تمام کرنے کے بعد کچھ مقامات دیکھ لیں←  مزید پڑھیے

باد کوبیدن نامی شہر میں(1)- ڈاکٹر مجاہد مرزا

جب کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر نے اپنی کتاب ” قسطنطنہ سے عمر خیام کے شہر تک” میں لکھا تھا کہ ” باکو دنیا میں استعمال کیے جانے والے تیل کا پانچواں حص}ہ پیدا کر رہا ہے” تب مامید امین رسول←  مزید پڑھیے

آخری اسٹیشن(بہاول پور تا امروکہ تک پھیلی بربادی کی ایک داستان/قسط 1)-ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

18 اپریل 1992 بغداد اسٹیسن سطح سمندر سے بلندی 393 فٹ سمہ سٹہ جنکشن سے بہاول نگر، امروکہ آنے جانے کے لیے ٹرینوں کی واحد گزرگاہ پر 1835 میں بغداد الجدید کا اسٹیشن تعمیر ہوا تو نہ صرف بہاول پور←  مزید پڑھیے

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)بسین اور نوپورہ کی تہذیبی جھلک-بدھ عقیدت مندوں کے شاہکار/سلمیٰ اعوان(قسط15 )

دن کا پروگرام میں نے اپنی مرضی سے ترتیب دیا۔سرفہرست کار گاہ نالہ کی سیر تھی۔ شفقت نے چپ چاپ پیچھے چلنے میں عافیت خیال کی۔ ذرا بھی انتظار کی زحمت نہیں کرنا پڑی۔ سڑک پر قدم رکھے اور ویگن←  مزید پڑھیے

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)چلو کہ چل کے دیدار کریں ،جلتے ہیں جہاں میری یادوں کے چراغ/سلمیٰ اعوان(قسط14 )

اکبر حسین اکبر کے ساتھ دوسری ملاقات اس صبح ہوئی جب میں صدر روڈ پر ہنس راج کی طرح پر پھیلائے پی آئی اے کی عمارت کے ایک چھوٹے سے کیبن میں میز پر ہاتھ پھیلائے جناب زیدی صاحب کے←  مزید پڑھیے

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)مزاج یار برہم ہے، چلو چھوڑو ہمیں پرواہ نہیں -ہمیں تو پر بتوں کے دیس جانا ہے /سلمیٰ اعوان(قسط13 )

میری واپسی قدوائی فیملی کے ساتھ ہوئی۔ مشہ بروم ٹورز کی بس میں بیٹھے جس نے آٹھ بجے شب چلنا شروع کیا۔ باہر گُھپ اندھیرا تھا۔ میں نے الو کی طرح آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ بڑا خوفناک منظر تھا فوراً←  مزید پڑھیے