اور میں نم دیدہ نم دیدہ (11)-ابوبکر قدوسی

چونکہ ساری دنیا سے مسلمان وہاں آتے ہیں سو ہر رنگ و نسل اور ہر علاقے کے لوگوں نے وہاں پہ اپنے ہوٹل بھی قائم کیے ہوئے ہیں ۔ جابجا پاکستانی ہوٹل نظر آتے ہیں۔ میں نے بہت سارے ہوٹلوں پر فیصل آبادی ہوٹل دیکھا چند ایک پر گجرانولہ اور ملتان کا ذکر بھی تھا ۔ ایک عدد مسکین نے شاید لاہور کا بھی لگایا ہوا تھا لیکن فیصل آبادی ہوٹل خاصا زیادہ لکھا جاتا ہے ۔ میرے گمان میں اس کا سبب یہ رہا کہ کلاک ٹاور وغیرہ بننے سے پہلے جب آپ کبوتر چوک سے حرم کی طرف آتے تو کلاک ٹاور تعمیر ہونے سے پہلے یہاں دائیں ہاتھ ایک مشہور فیصل آبادی ہوٹل تھا ۔ وہ ہوٹل سر بازار تھا اور بہت مناسب قیمت میں اچھا میعاری کھانا فراہم کرتا ۔اس سبب اس کی خوب بکری ہوتی ۔ خود میں نے اس ہوٹل سے کئی بار کھانا کھایا ، اچھا کھانا ہوتا تھا ۔ جب کلاک ٹاور بنا تو یہ سارا علاقہ ختم ہو گیا۔ اب یہ تو معلوم نہیں وہ اصلی والا “فیصل آباد ہوٹل” خود کہاں منتقل ہوا لیکن یہ ضرور ہوا ہمارے لاہور کے کراچی نصیب بریانی اور ” پھجے کے پاؤں” کی طرح جگہ جگہ فیصل آباد ہوٹل اگ آئے ۔ اب ہوٹل کا نام اس طرح لکھا ہوتا ہے کہ جیسے ” التوحید بریانی ہاؤس” اور نیچے چھوٹا سا فیصل آباد ہوٹل ۔ بہرحال فیصل آبادی کپڑے اور جگتوں کے بعد تیسری چیز جو فیصل آباد سے متعلق مشہور ہوئی وہ مکہ میں فیصل آباد ہوٹل ہے ۔

ایک روز دلچسپ واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ میں حرم کے صحن میں فجر پڑھ کے بیٹھا تھا جب سورج تھوڑا بلند ہوا تو ہوٹل جانے کے لیے آہستہ آہستہ باہر جا رہا تھا کہ ایک بارش “بوڑھا نوجوان” بڑے تپاک سے آگے بڑھا اور گلے لگ گیا ۔ میں فوراً ہی پہچان گیا کہ یہ ہمارے معروف خطاط اور گہرے بزرگ دوست عبدالرشید قمر کے بیٹے ہیں ۔ مجھ سے عمر میں خاصے چھوٹے لیکن اب ان کی داڑھی میں سفیدی زیادہ تھی اور سیاہی کم ۔ عبدالرشید قمر خطاطی کی دنیا کا ایک بڑا نام ہیں اور انہوں نے اُردو کے نستعلیق رسم الخط کو ایک نئی جہت بھی دی ہے ۔ خاص طور پر اشتہارات میں اپنے دور میں ان کا طوطی بولتا تھا ، پھر وہ اپنے کام سے گہرا شغف رکھتے ،میں ان سے گہرا تعلق تھا سو حرم کے صحن میں ان کے بیٹے فیصل کو دیکھا تو بہت خوشگوار حیرت ہوئی ۔ فیصل مدت ہوئی پاکستان چھوڑ چکے۔ پچھلے صفحات میں آپ نے ان کے بھائی فاروق قمر کا ذکر پڑھا ہوگا ، وہ بھی مدینے میں ہوتے ہیں۔۔ یہ فیصل جدہ میں عمرے کے واسطے آئے ہوئے تھے ۔ مدت سے سعودی عرب میں رہنے کے سبب وہ خود کو میرا میزبان سمجھ رہے تھے اور مجھے مہمان قرار دے رہے تھے ۔ زبردستی میرا ہاتھ تھاما اور ناشتے کے لیے جبل عمر کی طرف چل دیے ، بتا رہے تھے کہ یہاں پر ایک پاکستانی ہوٹل ہے جس کے کھانے کا ذائقہ بہت عمدہ ہے ۔ اب وہاں جا کر بیٹھ گئے تو انہوں نے چاول منگوائے ۔ دو جو دو “فوائل” کے ڈبوں میں بند تھے ، اور اچھی خاصی مقدار میں تھے ۔ میں نے فیصل کو کہا کہ یہ ایک کافی تھا ان کی مقدار کافی زیادہ ہے ۔ وہ میزبان تھے انہوں نے کہا آپ شروع کیجئے ۔ میں نے شروع کیا تو فوراً ہی کہہ دیا کہ ” ان کا دو ہونا ہی بہتر تھا”
یعنی اتنا عمدہ ذائقہ تھا کہ جیسے میں لاہور میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہوں ۔

چند روز بعد میرے عزیز رضوان مقبول جو میرے ساتھ اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے ان کے ساتھ حرم کے صحن میں جا رہا تھا تو وہ مجھے کہنے لگے کہ:
” یہاں جبل عمر پر میں نے ایک ہوٹل دیکھا ہے اور مجھے دیکھنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کا کھانا اچھا ہوگا”
میں مسکرا دیا کہ بھلا دیکھنے سے کھانے کے ذائقے کا اندازہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ پھر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ ” میں آپ کو ایک ہوٹل لے کے جاتا ہوں جس کا کھانا میں کھا چکا ہوں” انہوں نے کہا “نہیں ادھر ہی جاتے ہیں” میں نے کہا “چلیں ایسے ہی کرتے ہیں ۔ ”

اب ہم دونوں چل دیے جب تیسری منزل پر پہنچے تو وہ اسی ہوٹل کے سامنے کھڑے تھے جہاں پر میں فیصل کے ہمراہ کھانا کھا چکا تھا . ہم نے مینیو دیکھا تو اس روز حلیم بنی ہوئی تھی ۔ ہم نے کھانے کے لیے حلیم کا انتخاب کیا ۔۔۔۔ کیا شاندار کھانا تھا ، کھانا کھا کر ہم اندر ان کے کاؤنٹر پہ گئے رضوان نے انہیں کہا کہ
” آپ کا کھانا پکانے والا بندہ بلا شبہ بہت ماہر ہے کہ ہم نے یہاں پردیس میں اپنے ملک سے بہتر ذائقہ پایا ”
پھر اس کے بعد ایسا ہوا کہ میں اگلے روز دوبارہ اپنے اہل خانہ اور بچوں کے ساتھ ادھر صرف حلیم کھانے کے لیے گیا۔۔
اس سفر کی اہم بات یہ ہے کہ کھانا کھاتے وقت انتہائی اطمینان ہوتا ہے کہ اپ جو کھا رہے ہیں وہ حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے معیاری ہے میں نے لاہور میں رہتے ہوئے بازار سے کبھی قیمے کی بنی ٹکیاں یا سالن نہیں کھایا اور اس کا سبب صرف یہی ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بازار کے قیمے کا معیار انتہائی ہلکا ہوتا ہے گوشت انتیں اوجڑی سب کو ملا کر قیمہ بنا دیا جاتا ہے جبکہ اس سفر میں دو بار ایسا ہوا کہ میں پاکستانی ہوٹل میں کھانا لینے گیا تو قیمہ بنا ہوا تھا ۔ میں نہایت اطمینان سے لے کر آگیا ۔

یہ بھی پڑھیں :ماٹی کو مِلنا ، ماٹی سے…..ڈاکٹر صابرہ شاہین

برادر ابو الحسن جدہ کا ہے کہ ایک ہوٹل کا قصہ سناتے ہیں ، بتا رہے تھے کہ وہ ایک پاکستانی کا ہوٹل تھا اور رزق کی فراوانی کا یہ عالم تھا کہ لوگ لائنوں میں لگ کر کھانا لیتے۔ لیکن ان صاحب نے اس فراوانی سے آتے رزق کی قدر نہ کی اور معیار اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا چھوڑ دیا ۔ ایک روز متعلقہ محکمے کے افراد چیک کرنے کے لیے آئے تو ان کے کچن کی صفائی اور ستھرائی کا معیار وہی تھا جو ہمارے پاکستانی ہوٹلوں کے پیچھے ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف ان کا ہوٹل بند کیا گیا بلکہ ان صاحب کے آئندہ سعودی عرب میں کسی بھی قسم کے ہوٹل کا کاروبار کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہوٹلوں پر غیر معیاری کھانا ، گھٹیا مصالحہ جات ، اپنی مدت گزارے تیل اور گھی کا استعمال عام ہے ۔

گزری مدت یعنی ایکسپائری ڈیٹ کا ذکر آیا تو مجھے ڈاکٹر محمد اکرام کہ جو تین عشرے تک ریاض میں رہے اور حضرت علامہ احسان الہی ظہیر شہید کے داماد ہیں کا سنایا ایک واقعہ یاد آگیا ۔
بتاتے ہیں کہ ایک روز وہ کسی بڑے سپر سٹور پر گئے وہاں پر خریداری کرتے ہوئے جوس کا ایک ڈبہ خریدا اس کی ایکسپائری ڈیٹ پر نظر پڑی تو ایک روز پہلے ہی ختم ہو چکی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب کاؤنٹر پر آئے اور متعلقہ فرد کو دکھایا کہ ” یہ ایک روز پہلے ایکسپائر ہو چکا ہے” ۔ بتاتے ہیں کہ اس نے جب یہ دیکھا تو اس کے چہرے سے خون نچڑ گیا رنگ پیلا پڑ گیا اور جیسے ٹانگیں کانپنے لگیں ۔ اس نے اپنے ملازمین کو بلایا ، ڈانٹا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ اگر یہ حکومت تک معاملہ چلا جاتا ہے تو کم از کم سزا یہ ہوگی کہ اس کا کاروبار بند کر دیا جائے گا۔۔

یہ تو تھا پاکستانی کھانوں کا ذکر ، لیکن سچی بات یہ ہے کہ “لبیک اللہم لبیک” کی صداؤں کے بعد جب حرم سے نکلتے ہیں تو ” البیک ” کا تذکرہ نہ ہو تو شاید سفر میں کچھ ادھورا پن رہ جائے ۔۔۔۔
باب ملک فہد سےکچھ آگے سے حرم کے باہر جائیں البیک کی دو شاخیں ہیں ایک جبل عمر اور دوسری کچھ پہلے اور دونوں پر خوب رش ہوتا ہے ۔
اس کی تین وجوہات ہیں ۔۔۔۔۔
سب سے پہلی وجہ ۔۔۔۔۔ تو یہ ہے کہ البیک کے مالکوں نے ہر ڈبے کہ ساتھ ایک ریال اللہ کی راہ میں مقرر کر رکھا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ کوئی شخص کہے کہ کاروبار میں اضافے اور ترقی کا تعلق صرف مادی امور اور انسانی محنت سے ہے تو بصد احترام یہ کہوں گا کہ ایسا ہرگز نہیں ۔ رزق کے فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں ۔جو غریبوں پر خرچ کرتا ہے اس کے مال میں اضافہ ضرور کیا جاتا ہے۔ یہ بڑا مشہور قصہ ہے کہ جب البیک کو قائم کرنے والے اس کے مالک فوت ہوئے تو جن اداروں کو وہ ڈونیشن دیتے تھے ان کو فکر لاحق ہو گئی کہ جان ان کے بچے یہ سب کچھ نبھائیں گے یا نہیں لیکن پھر وہ حوصلہ کر کے ان کے ورثاء کو ملے تو انہوں نے پوچھا کہ وہ کتنا دیتے تھے ؟
جب بتایا گیا تو انہوں نے کمال حوصلے سے کہا کہ جتنا ہمارے والد مکرم دیتے تھے آج کے بعد ہم اس کو دو گنا کرتے ہیں ۔
برادر ابو الحسن علی کو دوسری بتاتے ہیں کہ ایک روز وہ “البیک” کے موجودہ نوجوان مالک سے ملے تو ان کا کاروباری ویژن سن کر حیرت ہوئی کہ اج بھی وہ پوری محنت سے اپنی کوالٹی پر خود نظر رکھتے ہیں نہ کہ پدرم سلطان بود کے مصداق سب کچھ مینجروں پر چھوڑ رکھا ہے۔۔
دوسری وجہ ، اس کا عمدہ ذائقہ ۔

تیسری وجہ ، عمدہ ذائقے کے ساتھ ساتھ اس کا ارزاں ہونا۔۔پانچ ریال کا برگر ملتا ہے جو قریب قریب آپ کے لاہور اور کراچی کا نرخ ہے ۔۔پاکستان کے نوجوان حاجی تو مجھے لگتا ہے کہ جب عمرے کے سفر پر جاتے ہیں تو “لبیک عمرہ” کی نیت کرتے کرتے ساتھ “البیک” بھی ضرور کہتے ہوں گے کہ جس روز مجھے واپس آنا تھا اس سے دو روز پہلے میری بیٹی اور داماد بھی ہفتے کے لیے ادھر پہنچے اور میرے داماد میاں لاہور سے ہی ‘البیک البیک” کرتے چلے آ رہے تھے ، اس ارادے کے ساتھ کہ واپسی پر پیک بھی کروا کر لانا ہے ۔اور میں ابھی یہ تحریر لکھنے سے مہینہ پہلے واپس پہنچا ہوں تو میرے واپس پہنچنے کے بعد مسیب قدوسی اگلے ہفتے ہی اپنی اہلیہ کے ساتھ حرم میں پہنچ گئے اور ابھی ادھر ہیں ۔مسیب قدوسی کی “حرکات و حرکیات ” کو میں ادھر سے ہی نوٹ کر رہا تھا کہ جہاں دعاؤں اور احرام اور طریقہ عبادت کی طرف توجہ ہے وہاں وہاں کھانے کے ہوٹل ، ہوم ڈلیوری سروس اور مکہ میں کس کس جگہ پر کھانے کی کون کون سی شے ملتی ہے اس سب کی معلومات جمع کی جا رہی ہیں ۔
“البیک ” کے علاؤہ ” الطازج ” ایک دوسرا برانڈ ہے جو ذائقے میں بہت اعلیٰ ہے ، اس کے نرخ البیک سے کچھ بڑھے ہوئے ہیں لیکن ذائقہ بھی بہت اچھا ہے ۔
لیکن میں بہت دیسی سا بندہ ہوں میں نے بیشتر اوقات پاکستانی کھانے کھائے البتہ چند ایک پار میں نے غیر پاکستانی کھانے کھائے جیسا کہ اس روز جب میں فجر کی نماز کے بعد بیٹھ کے قران کریم کی تلاوت کر رہا تھا کہ سبز وردی پوش ایک نوجوان آگے آیا ، تھوڑا سا جھجکتے ہوئے پوچھنے لگا کہ “آپ ابوبکر قدوسی ہیں ”

میں نے کہا “جی میں ہی ہوں” اس پر وہ کچھ بیٹھے اور حال احوال پوچھ کے چلے گئے ۔ انہوں نے اپنا تعارف کروایا ، آپ چکوال سے تھے اور قاسم شہزاد تھا ، دیکھنے میں بھی بہت سعید تھے ۔کچھ ہی دیر میں دوبارہ آئے تو ان کے ساتھ ہمارے دوست برادر ” بدر ” تھے جن کا شاہ عالمی بازار لاہور میں بجلی کی مصنوعات کا عمدہ کام ہے ۔ کسی “ہمدم وطنی” کا یوں ملنا خوشی کا سبب ہوتا ہے ۔ سعید حرم میں قرآن کریم کی تقسیم کی ڈیوٹی پر تھے جیسے زمزم والوں کی وردی خاکی ہے صفائی والوں نے نیلالباس پہنا ہوتا ہے تو جو حاجیوں میں لال قرآن پاک تقسیم کرتے ہیں ان کی وردی سبز ہے ۔ پہلے حرم میں یہ شعبہ نہیں ہوتا تھا ، جس کو ضرورت ہوتی تھی وہ پاس پڑے پیتل کے ریکوں میں خود قرآن اٹھاتا اور پڑھ کر خود واپس رکھتا ۔ لیکن اس بار میں نے دیکھا کہ جگہ جگہ سبز لباس پہنے یہ سعید روحیں لوگوں میں قرآن کریم تقسیم کر رہی ہیں ۔ شاید سعودیوں نے دیکھا ہوگا کہ موبائل کی بیماری کے سبب حرم میں بھی لوگوں کے ہاتھوں میں بیشتر وقت موبائل دکھائی دینے لگ گیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان کو ہاتھوں میں جا کے قرآن تھمایا جائے کہ لے بھائی جس کام واسطے آئے ہو وہ کام کر۔۔۔
ہم بیٹھے تھے کہ اسی بیج سفید عربی لباس پہننے سر پر لال رومال سجائے روشن اور مسکراتے چہرے کے ساتھ ایک اور صاحب آئے ، اول مجھے یہی گمان ہوا کہ کوئی عرب ہے لیکن انہوں نے آ کے اردو میں پوچھا کہ :
“آپ ابوبکر قدوسی ہیں ؟”
اس کے بعد وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور یوں فریقین کے باہمی تعارف کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ چل نکلا ۔ یہ حیات عبد العزیز تھے جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا ، اور وہاں متعلم تھے ،انہوں نے بصد اصرار مجھ سے وعدہ لیا کہ آپ نے میرے ساتھ کھانا کھانا ہے ، میری مصروفیات ایسی تھی کہ میں نے احباب سے کہا کہ صبح ناشتے پر ملیں گے سو یہ طے ہوا کہ اگلے روز ہم اِدھر ہی ناشتہ کریں گے ۔ اگلے روز حیات ناشتہ لے کر چلے آئے خالص عربی ناشتہ تھا ہم کہ “ٹھیٹھ دیسی” کھانے والے لیکن سچی بات یہ ہے کہ بڑا عمدہ ذائقہ تھا پہلے شکشوکہ آیا یہ انڈے کے آملیٹ کی عربی نسل تھی جس کے ساتھ روٹی یعنی تمیس   تھی ۔۔ اور ساتھ عربی النسل دال جسے ” قلابہ ” کہتے ہیں ۔۔۔ اب جب ہم بہت اچھے طور پر ناشتہ کر چکے تو انہوں نے آخری ڈبہ کھولا ۔ اب اس ڈبے کے حسنِ ذائقہ کا تو پتہ بعد میں معلوم پڑنا تھا لیکن حسنِ صورت کے سبب میں نے بے اختیار کہا کہ یہ تو آپ نے کھلا ہوا ظلم کیا کہ ہمیں پہلے اچھے طریقے سے ناشتہ کروا کے اب آپ نے یہ ڈبہ کھولا ہے ۔ وہ بطور میٹھا تھا لیکن اس کی پیشکش بہت عمدہ تھی ۔جب کھایا تو ذائقہ اس سے بھی عمدہ تر ۔ اس ڈش کا نام یمنی “عریکہ” تھا یوں سمجھ لیجئے مختلف اشیاء تہہ در تہہ تھیں ، جیسے ہمارے ہاں تہہ در بریانی ۔۔۔ سب سے اوپر خشک میوہ جات ، یعنی کاجو ، پستہ بادام کی تہہ اور پھر مزید ۔۔۔۔
لیکن یہ سب میٹھا تھا نیچے ایک تہہ میں روٹی کا ملیدہ تھا جس میں روٹی ، کھجور ،شہد اور کیلے سب شامل تھے ۔ آپ اس کو چُوری کہہ سکتے ہیں ، وہی چوری جس کا بچے کو اٹھا کے ہماری مائیں بڑے پیار سے کہتی ہیں۔
” میاں مٹھو چُوری کھانی ہے”
نئی نسل برگر پیزے سے نکلے تو اس کو پتہ چلے کہ چُوری کیا ہوتی ہے اور چُوری کی مٹھاس کیا ہوتی ہے ۔
افسوس کھانوں کے ذائقوں نے سب کچھ ہی بدل دیا نئی نسل نے ” میاں مٹھو چُوری کھانی ہے ” کا جملہ تو سنا ہوگا لیکن کبھی چوری چُوری شاید ہی کھائی ہو ۔ مائیں چُوری بناتی ہیں نہ بچے چُوری کھاتے ہیں ۔ سونے جاگنے کے اوقات کی بربادی نے سارا کچھ ہی برباد کر دیا ۔ وہ رومانویت وہ ماحول سب کچھ ختم ہو گیا ، نہ چُوری رہی نہ راتوں کو لوری رہی ۔۔

ایک روز کلاک ٹاور کی اوپری منزل ہر واقع ایک سعودی ہوٹل میں ” فول ” کھایا ، ساتھ میدے کی بنی چھوٹی سی روٹی ، لوگوں کو اسے خاصا پسند کرتے پایا ، لیکن مجھے پسند نہیں آیا ویسے قیمت بہت مناسب تھی ۔
لیکن جو سعودی کھانا اپنی خاص شان رکھتا ہے وہ ” مندی ” ہے ، جو ہم اس سے پہلے کئی بار پاکستان میں کھا چکے ہیں۔ ہمارے قریبی عزیز برادر سعید مغل کے گھر میں دعوتوں کا دور چلتا رہتا ہے اور وہاں احسان سعید کے ہاتھوں کی بنی مندی کھاتے رہتے ہیں ۔ سو مندی سے ہم اجنبی نہ تھے کہ مدتوں سے شناسائی ہے ۔ مندی چاولوں کی ایک ڈش کا نام ہے جس میں گوشت روسٹ کر کے اوپر رکھا جاتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مندی سے مجھے پاکستان میں ایک یادگار دعوت یاد آ گئی ۔ حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے صاحبزادے حافظ احمد شاکر صاحب کے ہاں تھی اور وہ میزبان تھے ۔ ہم سب اردو بازار کے دوست ان کے دستر خوان پر بیٹھے تھے اور آج کھانا کچھ تاخیر سے تھا ۔معلوم پڑا کہ کھانا کچھ دور سے آ رہا ہے اور کچھ خاص بھی ہے ۔بھوک چمک رہی تھی تجسس بڑھ رہا تھا کہ آپ کے بیٹے خلاد شاکر ہاتھوں پر بڑے تھال لیے اندر داخل ہوئے ، یہ عربوں کی مندی تھی ۔ چاولوں کے بڑے بڑے طشت جن پر مٹن دھرا تھا ۔۔۔۔گرما گرم اور کمال ذائقہ ، لیکن حیران کن یہ تھا کہ یہ کھانا سیدھا اسلام آباد سے آیا تھا ۔۔۔۔پہلی بار تو یقین ہی نہ آیا ، لیکن ” خلاد شاکر ” کی مسکراہٹ تصدیق کر رہی تھی ۔کچھ وقت پہلے ہی خلاد اسلام آباد منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے مندی بنانے کا کاروبار شروع کیا تھا ۔یہ ان کی طرف سے کھانا تھا اور حضرت حافظ احمد شاکر کے ذوق میزبانی کا مظہر۔ کتنے روز اس دعوت کا احباب کی مجلسوں میں تذکرہ رہا ۔بلاشبہ اچھا کھاتے تھے اور اچھا کھلاتے تھے ۔ہم کہا کرتے تھے کہ حافظ صاحب کے سامنے جب کھانا لایا جاتا ہے تو اس بکرے کی نسل ، قسم ہی نہیں بتا سکتے شائد شجرہ بھی بتا دیں ۔۔
کھانے پینے کے حوالے سے آگے چلتے ہیں ۔۔۔۔ اگر کوئی سعودی عرب جائے اور المراعی کا “لبن” نہ پیے تو یوں جانیے کہ اس کا بھی وہی عالم ہے کہ “جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا” لیکن یہ بات اگلی قسط میں کریں گے۔۔۔

Facebook Comments