اردو ادب میں رثائی افق۔۔۔محمد نصیر زندہ

مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے۔یہ رثا سے متعلق ہے،جس کے معنی ہیں مردے کو رونا۔درد انگیز الفاظ سے مرے ہوئے انسان کی توصیف کرنا اور اس کی خصوصیات بیان کرنا۔اہل ِ عرب اپنے مقتولوں پر کرب ناک سوز و آہنگ میں اشعار لکھتے تھے۔مرنے والے کی شخصیت کی تصویر بولتی محسوس ہوتی تھی۔ اردو ادب میں مرثیہ کی روایت فارسی شعریات سے منتقل ہوئی ہے۔ فردوسی نے سہراب کا مرثیہ اس کی ماں سے کہلوایا۔محتشم کاشی کے ہفت بند بہت مشہور ہیں۔ جس میں ھضرت حسین علیہ السلام کی شہادت پر استعاراتی حسن ِ بیاں سے مزین شاعری کی گئی ہے۔ہفت بند سے ایک شعر دیکھیے
نخل ِ بلند ِ او چو خساں بر زمیں زدند
طوفاں بر آسماں ز غبار ِ زمیں رسید
جب کمینوں نے اس کے نخل ِ بلند کو زمیں گرایا تو زمین کے غبار کا طوفان آسمان پر پہنچ گیا۔قآنی بھی اہل بیت ؑ کی محبت میں اسیر تھا،اس کی مرثیہ نگاری پر زور اور تحیر انگیز ہے۔ مرثیہ کا اردو ادب میں کب رواج ہوا؟اس کو متعین نہیں کیا جا سکتا۔برصغیر میں ہمایوں سے پہلے مجالس ِ عزا کا دستور نہیں تھا۔مرثیہ کی باقاعدہ فنی ترقی ضمیر،دلگیر،فصیح اور میر خلیق سے شروع ہوئی۔ انھوں نے اس فن کی بنیاد رکھی جس کو بعد میں میر انیس اور مرزا دبیر بام ِ عروج پر لے گئے۔سراپا،رجز،تلوار کی تعریف،گھوڑے کی تعریف،واقعہ نگاری،جذبات نگاری اور شہادت کے عنوانات ان شعرا نے مرثیے کے ساختیے میں شامل کیے۔ایک اور پہلو اگر اس کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ مضمون تشنہ ء تکمیل رہ جائے کہ ان شعرا نے اخلاقیات کو بھی شامل کیا۔اس سے شعری اسلوبیات میں جدت اور ندرت کا زاویہ ء فکر روشن ہو گیا۔لیکن سودا،ضمیر،دلگیر،فصیح،میر خلیق،میر انیس،مرزا دبیر اور ان کے بعدمرزا عشق،مونس،انس،مرزا نعشق اور علی نفیس تک مرثیہ رسمی اور روایتی اسلوب کے گرد گھومتا رہا۔آکر میں شاعرانہ صناعی کو ترجیح دی جانے لگی۔بہر حال میر خلیق کے مراثی میں ایک خاص کیفیت شامل ِ حال ہو جاتی ہے اور انسان کو کربلا کے میدان میں لے جاتی ہے۔میر خلیق کے اشعار دیکھیے۔
سحر کو ہو گیا کم نور منہ پہ تاروں کے
زمیں پہ نیزے چمکنے لگے سواروں کے
نکلا جو سرِ مہر گریبانِ سحر سے
انجم کے گہر گر گئے دامان ِ سحر سے
دلگیر کا قلم بھی اثر انگیز تھا۔اس نے تلوار کی تعریف،سراپا،رزمیہ اور واقعہ نگاری کے میدان میں توسن ِفکر کو خوب مہمیز کیا۔ اس کا اثر ملاحطہ ہو۔
صغرا نے سنا آتے ہیں شبیر سفر سے
اب ہو گی ملاقات شہء جن و بشر سے
گھبرا جو گئی آمد ِ سرور کی خبر سے
بیتابی کی حالت میں ردا گر گئی سر سے
فصیح کا بیاں سادہ اور پر اثر ہے۔ان کے شعر دیکھیے۔۔
لاش ِ اصغر رن سے لاتے ہیں حسین
زخم بازو کا چھپاتے ہیں حسین
لاش ِ اصغر خیمہ میں جب جائے گی
شہر بانو دیکھ کر مر جائے گی
اس کے بعد میر انیس اور مرزا دبیر اپنے زور ِ قلم سے اردو مرثیہ کو ادب ِ عالیہ کے بام ِ عروج تک لے گئے۔دونوں اساتذہ ء فن تھے۔موضوعات اور زبان و بیان پر کامل دستگاہ رکھتے تھے۔دونوں کی قوت ِ متخیلہ مختلف عنوانات پر برابر کی ٹکر لیتی تھی۔لیکن میر انیس شعری تخلیق میں وجدانی جہت سے آگے بڑھے ہوئے تھے۔لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ دبیر کا پلہ ء سخن بہت نیچے کر دیا جائے۔جیسا کہ موازنہ ء انیس و دبیر میں مولانا شبلی نعمانی نے کیا۔دونوں شعرا نے جب مشترک موضوعات پرقلم کا گھوڑا دوڑایا تو ایک زبردست ادبی مقابلہ کی فضا پیدا ہوگئی۔مقابلے کا پہلو کسی بھی عمل کو متحرک انگیز کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ایسی فضا میں میر انیس اور مرزا دبیر کی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا ملنا ایک فطری بات تھی۔صبح کا منظر میر انیس کے قلم سے دیکھیے۔
جب قطع کی مسافت ِ شب آفتاب نے
جلوہ کیا سحر کے رخ ِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہء گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضہ ء سحری کو ادا کرو
اب صبح کا منظر مرزا دبیر یوں بیان کرتے ہیں
جب ختم کیا سورہ ء والیل قمر نے
گردوں پہ ستاروں کے لگے پھول چمکنے
آغاز کیاآیہء والشمس سحر نے
رو رو کے کہا فاطمہ ء خستہ جگر نے
پوشیدہ ہوا روئے قمر چرخ ِ بریں میں
چھپ جائے گا اب چاند ہمارا بھی زمیں میں
دونوں کے اشعار میں استعارے کی بجلی الفاظ کی تہہ میں چمکتی اور گرجتی نظر آرہی ہے۔یہاں مرثیہ اپنی معراج پر پہنچا۔ انسان کی ایک فطرت ہے کہ تکرار کو نا پسند کرتا ہے۔بعد میں بہت سے شعرا نے مرثیہ نگاری کو جاری رکھا اور پیٹے ہوئے مضامین،مرثیے میں کوئی نیا معنویت کا در نہ کھول سکے۔گو یاروں نے زور بہت مارا۔لیکن جوش ملیح آبادی مرثیے کے نئے افق دریافت کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس صنف کو ایک اچھوتا زاویہ ء فکر دیا۔اپنے دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نعرہء انقلاب بلند کیا۔جوش کا بند دیکھیے
یہ صبح ِ انقلاب کی جو آج کل ہے ضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا،پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغِ ظلم کی تھرا رہی ہے لو
در پردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو
یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو
جوش نے حسین اور انقلاب 1961 میں لکھا۔تحریک آزادی کا زور تھا۔ترقی پسند شعرا کا اپنا آہنگ تھا،ایسے میں مرثیہ روایتی اسلوب ِ بیاں اور پیٹے ہوئے مضامین کے ساتھ ادبی اور قومی افق پرکوئی روشنی پیدا نہیں کر سکتا تھا۔ اس لے جوش نے چودہ صدیوں کا فاصلہ ختم کرنے کے لیے اپنے عہد کی کربلا میں عزم ِ حسین کا استعارہ استعمال کر دیا۔لیکن اس معنوی افق کا کہیں شدت سے اشارہ ملتا ہے تو وہ علامہ اقبال کے اشعار ہیں۔جہاں سارا منظر نامہ تبدیل ہو جاتا ہے۔
قافلہ ء حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
اگر کربلا کے استعارہ پر بات کریں تو یہ مضمون پھیل کر ایک کتاب کی شکل اختیار کر لے۔میں یہاں صرف مرثیہ اور نوحہ کی روایتی جہت کے ساتھ ہلکا سامعنیاتی اسلوب ِ بیاں تحریر کرنا چاہتا ہوں۔بہت سے شعرا ہیں جنھوں نے مرثیہ لکھا ہے۔مثلاً یزدانی جالندھری،ڈاکٹر صفدر اور بہت سے شعرا۔لیکن میں یہاںصبا اکبر آبادی کا تذکرہ کر کے نوحے کی ہیئت اور اثر انگیزی پر مختصراً نوٹ لکھوں گا۔
صبا اکبر آبادی کے مرثیوں کے تین مجموعے “سربکف” شہادت،اور خونناب” شائع ہوئے۔انھوں نے اس صنفِ سخن کے معنیاتی اور ساختیاتی پہلو مین نئے آفاق کے روشن دروازے کھولے ہیں اور اس میں جدت کا رنگ بھرا ہے،جس میں وہ منفرد طرزِ سخن کے موجد ہیں۔
ہر شعر میں بجلی سی چمک جاتی ہے اکثر
انوار کی اک قوس جھلک جاتی ہے اکثر
ہیرے کی طرح بیت دمک جاتی ہے اکثر
پڑھتے ہوئے خود آنکھ جھپک جاتی ہے اکثر
جھٹکا جو قلم کو تو شرارے نکل آئے
کاغذ کو جو دیکھا تو ستارے نکل آئے
یاد رہے کہ جو مرثیہ مستزاد کی وضع پر ہو تو سے نوحہ کہتے ہیں۔چونکہ مستزاد میں صوتی تکرار ہوتی ہے،جو سننے والے پر ایک وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے،اہل ِ مجلس روحانی لطف کے جہاں میں چلے جاتے ہیں۔ سودا اپنے مرثیوں کا اختتام نوحہ پر کرتا تھا، منصور شاعر کے نوحے کا شعر دیکھیے
بانو نے یہ اصغر سے کہا گود کے پالے،او گیسوئوں والے
یوں پڑ گیا تو شمر ستم گار کے پالے،او گیسوئوں والے
واجد علی شاہ نے نوحے غزل کی زمین میں لکھے ہیں۔ مثلاً
سکینہ کہتی تھی رو کر مرے بے سر مرے بھائی
علی اکبر علی اکبر،مرے بے سر مرے بھائی
فارسی کے نوحے کی اثر انگیزی دیکھیں
شکوہ از چرخ ِ ستم گر چہ کنم گر نہ کنم
چہ کنم گر نہ کنم
نالہ بر حسرت ِ اکبر چہ کنم گر نہ کنم
چہ کنم گر نہ کنم
ثابت ہوتا ہے کہ نوحہ بھی اردو میں فارسی سے منتقل ہوا ہے۔ اس صوتی آہنگ کا تکرار جوش میں شدت پیدا کرتا ہے،اور اسی وجہ سے آج کل نوحہ زیادہ مقبول ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply