• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • کتھا چار جنموں کی !وزیر آغا (خطوط سے اقتباسات پر مبنی ایک دستاویز)۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط 45

کتھا چار جنموں کی !وزیر آغا (خطوط سے اقتباسات پر مبنی ایک دستاویز)۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط 45

ڈاکٹر وزیر آغا سے میری خط و کتابت پینتیس چالیس بر س کے لمبے عرصے تک پھیلی ہوئی ہے۔ چالیس برس پہلے انڈیا میں فون لگ بھگ نایاب تھا اور  دوسرے کسی ملک میں بات کرنے کی خاطر کال بُک کروانے کے لیے ڈاکخانے جانا پڑتا تھا، اس وقت خط و کتابت ہی رابطے کا ایک ذریعہ تھا۔ 1982ء میں  میرے بیرون ملک آ جانے کے بعد ہمارافون پر بات چیت کرنا لگ بھگ ہفتہ واری معمول ہو گیا لیکن خط و کتابت جاری رہی کیونکہ کچھ باتیں صرف تحریر میں  ہی لائی جا سکتی ہیں۔ ان کی رحلت کے بعد آجکل میں ان کے بے شمار خطوط کی نہ صرف تاریخ وار درجہ بندی کرنے کے عمل میں مصروف ہوں، بلکہ موضوعاتی نکتہ ٗ نظر  سے اقتباسات کو ریسرچ کے معروضی طریق ِکارسے حاشیہ زدکررہا ہوں۔ اس مختصر مضمون میں صرف دو شخصیات پر مختلف برسوں میں تحریر کردہ کچھ خطوط
سے متعلقہ پیرا گرافوں کوہی لیا گیا ہے ۔ ذاتی دعا، القاب وغیرہ اور معاصرین ادباء کے بارے میں ریمارکس کو حذف کر دیا گیا ہے۔یہ بھی عرض کر دوں کہ  کسی تنقیدی مضمون اور ذاتی خط کا اسلوب ایک جیسا نہیں ہوتا۔ خطوط میں عموماً ایک آزاد، ڈھیلا ڈھالا سا طرز تحریر روا رکھا جاتا ہے۔ (س۔ پ۔ آ)

ن۔م۔راشد کے بارے میں
(اقتباس، مکتوب۔ -3-9-1996)
آپ نے درست لکھا ہے، راشدؔکے لیے لفظ ”جدید“ یا ”جدیدیت“ وہ معانی نہیں رکھتے تھے جو آج کل بھارت میں چلائی گئی تحریک کا محرک ہیں۔ راشدؔ نے خود ایک مضمون لکھا تھا، ”جدیدیت کیا ہے“،۔ یہ ان کی وفات کے بعد ”شعر و حکمت“ (حیدر آباد،دکّن) کے راشد نمبر میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس میں راشد نے جدیدیت کی تعریف کرتے ہوئے کچھ مفرضات کی نشاندہی کی تھی۔ مثلاً یہ عام خیال کہ جدیدیت سے مرادصرف سر بمہراستعاروں، علامتوں، تلمیحوں سے رو گردانی ہے، جو روایتی شاعر کاسکہء  وقت ہوتے ہیں،، کلیتاً صحیح نہیں ہے۔ اس بات کا تعلق صرف اسلوب سے ہے، زندگی کے بنیادی حقائق سے نہیں ہے۔ راشد نے یہ بھی لکھا تھا کہ جدیدیت سے مراد محض معاصریت نہیں ہے۔ ہمارے معاصرین میں بھی زیادہ تعداد ان شعرا کی ہے جو انداز ِ فکر میں اپنے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں، صرف ماضی سے تعلق روا رکھتے ہیں۔ اپنی دانست میں جدید انداز ِ فکر کا حامل شاعربھی اگر صرف اپنی کسی کاوش کو اس لیے ’جدید‘ سمجھتا ہے ؎ کہ اس کے اشعار میں ”حسب ِ توقع“ مضمون کی جگہ پر اجنبی اور غیر متوقع مضمون باندھے گئے ہیں، توبھی وہ اشعار جدیدیت کی تعریف پر پورے نہیں اتریں گے۔ جب تک کہ وہ مضمون براہ ِ راست یا علامتی سطح پر اپنے آس پاس کی جیتی جاگتی زندگی سے نہ اخذ کیا گیا ہو، اسے ’جدید‘ کہنا غلط ہو گا۔۔

آپ نے یہ بھی صحیح لکھاہے کہ راشدؔ کی جدیدیت کو یورپی جدیدیت کے پیمانوں سے ماپنا اس کے ساتھ نا انصافی کرنا ہے۔میرے خیال میں اگر ہم منطق کے اس اصول سے چلیں جس میں نفی کی ایک ایک جہت کو لے کر انہیں باری باری سے رد کرتے ہوئے آخر اس مثبت جہت تک پہنچا جاتا ہے جو روح ِ اصل ہے، توہم شاید راشد کو اس کے اپنے اور معاصرانہ سیاق و سباق میں سمجھ پائیں۔ اس کے لیے ہمیں اس کی شاعری کو روایت کے ہی پیمانے سے ماپنا پڑے گا۔ جس قدر وہ ماضی کی روایتی اصناف ِ شعر، رسمی رکھ رکھاؤ، دقیانوسی ہیئت سے قطع تعلق کرتا ہوا نظر آئے گا اتنا ہی وہ ”جدید“ ہو گا۔ اس طریق ِ کار میں ایک اور راز بھی مخفی ہے۔ آج کی جدیدت آنے والے کل کی روایت کا حصہ بن جاتی ہے۔ راشد نے خود لکھا تھا کہ حالی اور آزاد کو اپنی شاعری کی تحریک ”انتقاماً روایت سے بغاوت“ کے جذبے سے ملی۔ یہی بغاوت آج ہماری اس روایت کا ایک حصہ ہے، جسے آپ نے ایک ہندی اصطلاح ”رُڑھی واد“ سے مشابہ کیا ہے۔

مزید راشد کے بارے میں
(اقتباس۔ مکتوب (20-11-96)
آپ نے جو اقتباس راشدؔ کے مضمون سے لیا ہے، وہ خود میں مکمل نہیں ہے۔ راشد پر وقتاً فوقتاً تینوں الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ فحاشی تو عریانی کی آخری حد ہے اور میرے خیال میں راشد کی کسی نظم میں بھی یہ بدعت نہیں دیکھی جا سکتی۔ راشد کی ان نظموں میں جن کا محرک شاید کوئی ہنگامی واقعہ رہا ہو، عریانی صرف اس حد تک ہے کہ وہاں وہ اپنے شاعرانہ ’ابہام‘ کو بروئے کار نہیں لا سکے۔ صاف صاف الفاظ میں نسوانی جسم کے زاویوں کا بیان عریاں نہیں کہا جا سکتا۔کیا یہ ممکن نہیں ہے، کہ شاعر اپنے قارئین کو جھٹکا دے کر یا جھنجھوڑ کر ایک غیر قدرتی نیند سے بیدار کرنا چاہتا ہے، کہ وہ جن موضوعات سے ذاتی زندگی میں دو چار تو رہتے ہی ہیں لیکن مجلسی زندگی میں ان پر بات کرنے سے بھی اجتناب برتتے ہیں، ان پر بھی بات کر سکیں۔ یہ قارئین کے غیر قدرتی ’اخلاقی‘ persona کو صدمہ پہہنچانے کی ایک سعی ہو گی۔دوسرا الزام یہ ہے کہ وہ ہنگامی خیالات کا اظہار کے لیے بھی نظم نویسی کا سہارا لیتے ہیں۔جب کہ ان کے لیے ایک اخباری خبر ہی بہترین ذریعہٗ اظہار ہے۔۔۔
ہنگامی خیالات سے آپ کی مراد اگر یہ ہے کہ راشد نے کسی گوری عورت کے ساتھ ہمبستری کی اور پھر اس پر ایک نظم لکھ دی، تو ہر شاعر محرک کے طور پر کسی تازہ یا بھولے بسرے واقعے کو بنیاد بنا کر ایک مثالی حکا یت(parable)کا چوکھٹا تیار کرتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ راشد نے خود اپنے زیر ِ بحث مضمون میں لکھا تھا، (میں حرف بحرف لکھ رہا ہوں)۔۔۔۔۔”فوری قسم کے خیالات کا اظہار جو جدید شاعری کے ایک طبقے کی خصوصیت ہے، ایک حد تک جدید صحافت نگاری کا نتیجہ ہے۔ دوسرے ان سیاسی اور معاشرتی گروہوں کی تبلیغ کا جو ہمیشہ سے شاعر اور ادیب کو اپنے ”جلال کبریائی“ کے فروغ کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔۔۔۔ اس طرح نہات شخصی قسم کے تصورات کا اظہار بھی اسی اضطراب کا پر تو ہے یا موضوعات کی بنیادی قلّت یا تشنگی کو کم کرنے کی کوشش ہے یا اس اپج اور ندرت کی تڑپ ہے جو جدید عصر کی خصوصیت ہے اور جس کے بغیر کسی فنی کارنامے کی الگ شناخت اور برتری ممکن نہیں۔ یوں بھی جدید شاعر کو اس بات کا احساس ہے کہ پوری بھرپور زندگی کے خفیہ روزن اس وقت تک وا نہیں ہو سکتے جب تک شاعر دوسروں کو دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کو نہ دیکھ سکے، اپنے اندر نہ جھانک سکے اور اپنے اندر جھانکنے میں دوسروں کی رہنمائی نہ کر سکے۔“۔۔اب اس حوالے سے آپ اسی نظم کو دیکھیں جس کا ذکر آپ نے اپنے خط میں کیا ہے، اور جس کے ”جواب“ کے طور پر آپ نے بھی ایک نظم لکھی ہے، ”میرے ہونٹوں نے لیا تھا رات بھر۔۔۔“ تو آپ کو احساس ہو گا کہ راشدؔ عریانی یا فحاشی سے لذت حاصل نہیں کر رہے تھے شاید آپ اور آپ جیسے لاکھوں ہموطنوں کے دلوں میں موجزن اس ’انتقام‘ کے جذبے کا اظہار کر رہے تھے جو ایک طرف تو گوری جلد والی عورت (خصوصاً انگلستان کی ”میم“) سے ہمبستری کی سوقیانہ خواہش ہے اور دوسری طرف اس فعل کو انگریزوں کے ہاتھوں اپنے وطن کے نام و ناموس کو تباہ کرنے ”سزا“ یا ”انتقام“ کے طور پر دیکھنے کی ذہنی عیاشی ہے۔۔

اب آئیں آپ کے تیسرے نکتے یعنی ’ابہام‘ کی طرف۔آپ نے اپنی بات کہنے کے لیے جس استعارے کا استعمال کیا ہے، وہ بہت پہلے راشد خود کر چکے ہیں۔ نگینہ جڑا ہوا انگوٹھی میں، انگوٹھی ایک بند ڈبیا میں، ڈبیا ایک قفل بند صندوق میں اور صندوق سمندر کی گہرائی میں۔ اب وہ کیسا غوطہ خور ہو گا، جو اس کی تلاش میں نکلے گا؟ معنی کا نگینہ شاید رہتی دنیا تک سمندر کی تہہ میں دفن رہے! یہ استعارہ بصری تصویر کی سطح پر لفظ ”ابہام“ سے انصاف نہیں کرتا۔ ’ابہام‘کی صفت ’مبہم‘ہے۔ ’مبہم‘ غیر یقینی یا مشکوک تو ہو سکتا ہے، یعنی ”گوئم مشکل وگرنہ گوئم مشکل“ کے تحت آسکتا ہے، لیکن بالکل مخفی نہیں ہوتا۔ آپ اس بات سے تو اتفاق رکھتے ہیں کہ شاعری میں حتمیت اور قطعیت نہیں ہے، اچھی شاعری کا منشا بھی ترسیل کی صد فی صدکامیابی نہیں ہے۔ اس لیے اسلوب کے مختلف پہلوؤں پر اگر غیر معین، ذو معنی (یا راشد کے ہی الفاظ میں) ثولیدہ ہونے کا الزام لگایا جائے تویہ اس کی تعریف ہو گی، برائی نہیں۔۔

جیسا کہ راشد نے اپنے زیر بحث مضمون میں بھی لکھا تھا، جدید شاعروں کو اپنے نئے، غیر روایتی اور گنجلک تجربات اور مشاہدات کے اظہار کے لیے مناسب زبان نہیں ملتی۔ کانسیپٹ کی سطح پر اگر کسی پیچیدہ مسئلے کو انگریزی میں صرف ایک اصطلاح سے بیان کیا جا سکتا ہے تو، شاعری کی زبان تو درکنا، اردو نثر میں بھی آپ کو اس کے لیے شاید ایک پوری سطر لکھنی پڑے۔ یہ تجربات اور مشاہدات یکسر نئے ہیں ایک حد تک ہمارے معاشرے میں اپنے لیے جگہ بنا چکے ہیں، لیکن ان کے لیے ’لیبل‘ ابھی اردو زبان میں ایجاد نہیں ہوئے۔ ’امرد پرستی‘ قدیم لفظ ہے۔ پنجابی میں کمسن لڑکوں کو خراب کرنے کے لیے ایک بے ہودہ لفظ بھی ہے۔ لیکن امریکی لفظ ”گے“ کا کیا ترجمہ ہے؟ آپ بتا سکتے ہیں؟ نئے تجربات اور مشاہدات (خصوصی طور پر راشد جیسے اور آپ جیسے شاعروں کے لیے جو مغرب میں رہ چکے ہیں یا رہ رہے ہیں) کوئی پہیلی نہیں ہیں اور آج کل تو یہ ایک عام رواج  بن گیا ہے کہ جہاں ہم کوئی صحیح اردو متبادل نہیں ڈھونڈھ سکتے، وہاں ہم انگریزی لفظ ہی جڑ دیتے ہیں۔ لیکن راشد کے وقتوں میں جدید شاعر کے لیے یہ ایک ناقابل ِ حل معمہ تھا۔ اسے زبان کا استعمال، عینی سطح پر بھی، اور زیریں سطحوں پر ایسے کرنا پڑتا تھا کہ ابہام کا در آنا ایک قدرتی بات تھی۔ (میں لفظ ’نیچرل‘ لکھنے والا ہی تھا، کہ میں نے ’قدرتی‘ لکھ دیا۔ در اصل ’قدرتی‘ صحیح طور پر ’نیچرل‘ کے معنی کی سب جہتوں کا حامل نہیں ہے!)

مزید راشدؔ کے بارے میں
(اقتباس۔مکتوب 22-2-97)
آپ نے راشدؔ کے ساتھ سعادت سعیدؔ کے ایک مباحثے کی کچھ تفصیل دی ہے۔ میری نظر سے یہ تحریر نہیں گذری۔ بہر حال آپ نے یہ اچھا کیا کہ اس بات چیت کے کچھ حصے ہو بہو نقل کر دیے۔
(جو اقتباس میں نے واوین میں تحریر کیا تھا۔ وہ حسب ذیل ہے۔ س۔پ۔آ)

ن۔م۔راشد نے سعادت سعیدؔ کے ایک سوال کے جواب میں کہا: ”جب شاعر شعر کہتا ہے تو اس میں دو ہستیاں برابر کی شریک ہوتی ہیں ایک تو شاعر کی شعوری انا اور دوسرے کوئی فرشتہٗ غیب جسے تحلیل نفسی کی زبان میں غیر شعوری انا بیان کیا جاتا ہے۔ ہماری شاعری میں اسی کو سروش یر ہاتف کا نام دیا گیا ہے۔ شعر کی تخلیق کے لیے ان دونوں کا وصال ضروری ہے۔ لیکن یہ دونوں بھی یک جا ہونے پر اس وقت تک آمادہ نہیں ہوتے جب تک انہیں اس بات کا یقین نہ ہو کہ فن کار یا شاعر کسی خاص واقعے کے ساتھ گہری جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔ وہ اس وقت تک فن کار یا شاعر کے اندر ہیجان پیدا کرنے پر مائل نہیں ہوتے جب تک کہ انہیں اس گہری وابستگی کا یقین نہ ہو۔ ہاں، جب یہ دونوں یہ ہیجان پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایک تیسری ہستی، یعنی فن کار یا شاعر کے اندر چھپے ہوئے محتسب کی ہستی اس کو اس کی لغزشوں سے برابر آگاہ کرتی رہتی ہے۔۔اس وصال کے موقع پر (جہاں تک شاعر کے عمل تخلیق کا تعلق ہے) کچھ اور ذوات بھی شریک ہو جاتی ہیں مثلاً الفاظ اپنی اصوات، اپنے باہمی آہنگ اور مفہوم کے ساتھ۔۔مثلاً قافیے، ردیفیں، ’اوزان‘، اصناف ِ سخن، فصاحت و بلاغت کے وہ اصول جن کا علم شاعر نے مدرسے میں یا اپنے معلموں کے ذریعے کسب کیا ہو۔ ان سب کی حیثیت شاعر کے دست بستہ غلاموں کی ہے۔ لیکن اگر شاعر چوکنّا نہ رہے تو ان میں سے ہر ایک اس کا آقا بن کر اس پر سواری کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ ان کا شیوہ یہ ہے کہ اگر شاعر کے ماتھے پر شکن دیکھ پائیں تو فوراً کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور اگر شاعر انہیں شفقت کی نگاہ سے دیکھ لے تو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔“

تخلیقی قوت میلان ِ طبع کی محتاج نہیں ہے۔ (آغا صاحب نے مجھے لکھا۔ س۔پ۔آ)۔ راشد نے جس نفاست اور سادگی کی آمیزش سے فنکار کی کسی ”خاص واقعے سے گہری جذباتی وابستگی“ کو شرط اولّیں تسلیم کیا ہے، اس سے میری تسّلی نہیں ہوتی۔”ہیجانی کیفیت“ کو بھی جن الفاظ میں راشد نے creative faculty کو مہمیز دینے کی شرط کہا ہے، میری سمجھ سے باہر ہے۔ بخار کی سی کیفیت میں یا ہذیان بکتے ہوئے ادب تخلیق نہیں ہوتا۔ لیکن میں ان الفاظ کے استعمال کے لیے راشد کو الزام نہیں دیتا۔ راشد کی شاعری جس دور میں پروان چڑھی (مجھ سے گیارہ بارہ برس ہی تو سینئر تھے!) وہ میرا بھی دیکھا ہوا ہے۔ آپ نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ راشد کا ”جدیدیت“ کی اصطلاح کو استعمال کرنا شاید اس وقت کے قاری کو قابلِ، قبول ہو جس وقت سعادت سعیدؔ اس مباحثے کی روداد لکھ رہے تھے لیکن آج کے قاری کو یہ قبول نہیں ہے۔ راشد (اور میرؔا ؔجی) کا دور، میرے خیال میں، ایک عبوری دور ہے، جس میں یہ دو شعرا ترقی پسند تحریک کے عین بر عکس تو نہیں، لیکن کسی حد تک متوازی اورنیا راستہ بنا کر اس پر گامزن ہوئے۔ (یہ ترقی پسند تحریک کا ہی اثر تھا جس نے انہیں اپنی نظموں میں یورپی امپیریل ازم کے برخلاف لکھنے پر اکسایا)۔۔

آج کا قاری جس تحریک کو ’جدیدیت“ سمجھتا ہے، وہ اس صدی کی پانچویں دہائی کے وسط میں ابھری۔ یعنی آزادی کے دس سال بعد تک تو اُس افراتفری کا دور رہا جس میں مرغوب ترین موضوعات تقسیم وطن سے متعلق تھے۔ اُس دور میں کسی کے پاس وقت ہی نہیں تھا کہ انفرادی اور داخلی تجربات کو جمالیاتی اور وجدانی سونے کا ملمع چڑھا کر پیش کرتا۔ آج کی جدیدیت میں جو بے سمتی ہے، کلبیت ہے، مہملیت ہے، انتشار اور بحران ہے، وہ ایک نپے تُلے منصوبے کے تحت، مجھے محسوس ہوتا ہے، انڈیا میں ادب پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ لیکن راشد کو ترقی پسند تحریک سے کوئی ایسا بَیر نہیں تھا کہ وہ اپنے اغراض و مقاصد کا ایسے ہی اعلان کرتے، جیسے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین نے اپنے زمانے میں اور اس کے بعد ’جدیدیت‘ کے علمبرداروں نے انڈیا میں کیا۔

مجھے یاد ہے برسوں پہلے میں نے کہیں لکھا تھا کہ راشد کی بیشتر نظمیں جوزیادہ طویل نہیں ہیں، ایسے چلتی ہیں جیسے ایک پایاب ندی میں پتھروں کو اس طرح رکھ دیا گیا ہو کہ ندی پار کرنے کے لیے آسانی سے ان پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھا جا سکے۔ ایک مثال جو میں نے دی تھی، وہ ”ماورا “ میں شامل کی گئی ”طلسم ِ جاوداں“ کی تھی۔ یہ نظم خود کلامی کےform-at میں ہے، لیکن اس میں مد ِ مقابل کا وجود،جو شاعر یا اس کے واحد متکلم کی محبوبہ ہے، فرض کر لیا گیا ہے۔ ابتدائی سطریں، درمیان کی کچھ سطریں اور آخری سطریں اس کی Organic Unity کو مستحکم کرتی ہیں۔ اس میں کوئی ’ہیجانی کیفیت‘ نہیں ہے، براہ راست تخاطب ہے جس میں شاعر منطق کا دامن نہیں چھوڑتا۔ آپ اگر اسے پڑھیں تو آپ کو باآسانی یہ اندازہ ہو جائے گا کہ یہ ایک سوچ سمجھ کر لکھی ہوئی،”ٹھنڈے دماغ“ کی نظم ہے،جس میں کوئی ہیجان نہیں ہے۔

پہلی تین سطریں یہ ہیں۔ ”رہنے دے اب، کھو نہیں باتوں میں وقت! / اب رہنے دے / اپنی آنکھوں کے طلسم ِ جاوداں میں بہنے دے“
درمیان کی کچھ سطریں دہرائے جانے کی عمل میں اس احساس کو تیز کرتی ہیں، ”رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت / اب رہنے دے!“

اور آخری سطریں پھر یہی عمل دہراتی ہیں۔ ”رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت / زندگی کی لذتوں سے سینہ بھر لینے بھی دے۔۔۔۔۔“

اب غور کریں تو ان تین ”وقفوں“ میں محیط سارا ڈرامہ ”مصر، ہند و نجد و ایران کے اساطیر قدیم“، شہنشاہوں، شہزادوں، قافلوں وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یعنی، a definite beginning,a definite middle and a definite end There is۔اس کی بُنت میں یہ تاگے ایسے شامل کیے گئے ہیں کہ سب کھڈّی پر چڑھا کر ”بُنا گیا“ سا لگتا ہے۔ایسی نظموں کی شان ِ نزول کو ہم کیسے ایک ایسی ذہنی کیفیت کی آئینہ دار کہہ سکتے ہیں جو ہیجانی ہو۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply