• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)مزاج یار برہم ہے، چلو چھوڑو ہمیں پرواہ نہیں -ہمیں تو پر بتوں کے دیس جانا ہے /سلمیٰ اعوان(قسط13 )

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)مزاج یار برہم ہے، چلو چھوڑو ہمیں پرواہ نہیں -ہمیں تو پر بتوں کے دیس جانا ہے /سلمیٰ اعوان(قسط13 )

میری واپسی قدوائی فیملی کے ساتھ ہوئی۔ مشہ بروم ٹورز کی بس میں بیٹھے جس نے آٹھ بجے شب چلنا شروع کیا۔
باہر گُھپ اندھیرا تھا۔ میں نے الو کی طرح آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ بڑا خوفناک منظر تھا فوراً چہرے کا رخ بدل لیا۔
قدوائی صاحب متین اور بردبار شخصیت کے مالک تھے۔ چائے پانی کے لئے انہوں نے مجھے ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد نہ بنانے دی۔ رات کے اس سفر کا یہ فائدہ ہوا کہ راستے کے وہ حصے جو جاتے ہوئے تاریکی کے باعث میری آنکھوں سے اوجھل رہے دن کی روشنی میں ان کے حسن نے میری نگاہوں کو خیرہ کیا۔
تین بجے سہ پہر میں صدر روڈ پر چھوٹی خالہ کے گھر اتری۔ تمام رات اور پون دن کے سفر نے میری ہڈی ہڈی اور جوڑ جوڑ چٹخا رکھا تھا۔ میرا خیال تھا میں جاتے ہی لمبی تان کر سو جاؤں گی اور ساری رات سوتی رہوں گی۔
پر بیرونی دروازے کی دہلیز پار کر کے ابھی اندر قدم رکھا ہی تھا کہ خوبانیوں کی ٹوکری میرے ہاتھ سے چھٹ کر گری۔ آلو بخارے بکھر گئے تھے اور میں فرش پر پھسکڑا مارے بیٹھی تھی کہ چھوٹی خالہ نے مجھے دیکھتے ہی کہا تھا۔
‘‘تمہارے خصم کو پتہ چل گیا ہے اور وہ رات کی فلائٹ سے بچوں کو لینے آرہا ہے۔ کہتا تھا جہنم میں جائے ایسی بے لگام بیوی’’۔
آئینہ دیکھے بغیر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ میرا چہرہ دُھوں دُھواں ہو رہا ہے اور میری آنکھوں کے ڈھیلے کسی ذبح کئے ہوئے بکرے کی مانند پتھرا رہے ہیں۔
‘‘کیوں کیسے’’ ؟پیڑیاں جمے میرے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا تھا۔
‘‘بولو’’ چھوٹی خالہ یوں چٹخیں جیسے چیل کی جلتی لکڑی ہوا کے کسی ہلکے سے جھونکے سے چٹختی ہے۔ یا فریج سے نکلی ہوئی برف فضا کی گرمی سے ۔
‘‘نیکی برباد اور گناہ لازم اسی کو کہتے ہیں۔ تمہارے چھوکرے کے منہ پر ہاتھ رکھتی تھی جب وہ فون پر باپ سے بات کرتا تھا۔ اس کے طرلے منتیں کرتی تھی کہ ابو کو کچھ نہیں بتانا۔ پر بچہ تھا وہ۔ کل پھٹ پڑا’’۔
اب فون گھمانے شروع کئے۔ دفتر میں چھٹی ہو گئی تھی۔ ان دنوں گھر پر فون نہیں تھا۔ عزیزوں‘ رشتہ داروں کو زحمت دینے کی کوشش کی پر رابطہ نہ ہو سکا۔ بالاخر بیگم ممتاز شفیع کے گھر فون کھڑکایا۔ وہ کوئٹہ گئی ہوئی تھی۔ بریگیڈئیر شفیع صاحب سے درخواست کی کہ وہ میرے گھر اطلاع کر دیں کہ میں شمالی علاقوں سے واپس آگئی ہوں۔’’
رات گئے تک مجھے میاں کے آنے کا دھڑکا لگا رہا۔ تاہم خیریت رہی۔
چھوٹی خالہ بولیں۔
‘‘کمبخت تو نے جو اتنے پر اگے ڈالنے تھے تو بیاہ کاہے کو کیا تھا۔ بچے کیوں پیدا کسئے’’۔
میں نے کھانے کی ٹرالی اپنے سامنے گھسیٹی۔ کریلے گوشت کی پلیٹ پر محبوبانہ نظر ڈالی۔ فرنی کے پیالے کو حریصانہ انداز میں تاکا اور سلاد کے پتوں کو بکری کی طرح چباتے ہوئے کرسی پر بیٹھی۔ چھوٹی خالہ کی گندھارا کے مجسموں جیسی ناک پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔
‘‘ارے واہ۔ کمال کی باتیں کرتی ہیں آپ بھی’’۔
‘‘بھلا بیاہ کیوں نہ کرتی۔ بیاہ کا اپنا حسن ہے اور بچے کیوں نہ پیدا کرتی؟ بچوں کے بغیر عورت کس کام کی؟ واہ چھوٹی خالہ واہ۔ زندگی کے ان پہلوؤں کی مسرت سے آشنا ہوئے بغیر ہی قبر میں اتر جاتی۔ ارے کیوں؟ ہاں رہے یہ پر اگے تو بھئی ان کا اپنا ایک چسکہ ہے’’۔
‘‘ذرا لاہور چلو۔ اس چسکے کی لذت کا پھر پوچھوں گی’’۔ بڑا زہر تھا انکے لہجے میں۔
گلاس اس وقت میرے ہونٹوں سے لگا ہوا تھا اور پانی گھٹ گھٹ میرے حلق سے نیچے اتر رہا تھا جب چھوٹی خالہ کی یہ بات میرے کانوں میں پڑی۔
‘‘خدا گواہ ہے پتہ نہیں کیوں مجھے وہ اس وقت ‘‘ایاگو’’ کی مانند نظر آئی تھیں۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میرا میاں ‘‘اوتھیلو’’ کی طرح بدظن ہو گیا ہے اور اب میرا انجام بھی ڈیسڈیمونا کی طرح ہو گا۔ جسے ‘‘اوتھیلو’’ نے گلا گھونٹ کر مار دیا تھا۔
کھانے میں جیسے ریت مل گئی تھی۔ سارا مزا کر کرا ہو گیا تھا۔ میں نے ٹرالی کو دھکا دے کر دیوار کے ساتھ جا کھڑا کیا اور خود ہاتھ دھونے کے لئے باتھ روم میں چلی گئی۔
پر جب میں روال ڈیم کے ٹھنڈے ٹھار پانیوں سے منہ دھو رہی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
شیکپئیر کے اس المیے ڈرامے کو یا دکرنے کا بھلا یہ کونسا موقع تھا؟ میری ذہنی کمینگی تو دیکھو۔ چھوٹی خالہ کو ‘‘ایاگو’’ بنا دیا۔ بھلا وہ کوئی ایسی ہیں۔
جب میں دوبارہ کمرے میں آئی وہ تشویشناک انداز میں ٹرالی پر دھری پلیٹ کو دیکھ رہی تھیں۔ جس میں ابھی آدھا سالن پڑا تھا۔
‘‘تم نے کھانا ٹھیک سے نہیں کھایا’’۔
‘‘میٹھا تو ابھی لینا ہے’’۔ فرنی کی پیالی میں نے ہاتھوں میں تھام لی تھی۔
ناک کی پھنگی پر پھنسی عینک کے شیشوں میں سے انہوں نے پھر مجھے دیکھا اور کہا تھا۔ ‘‘تو بھرے پرے سسرالی گھر میں رہتی ہے۔ تیرا میاں بپھرا ہوا لگتا ہے کہیں ایسا نہ ہو سب کے سامنے بے عزتی کر دے’’۔
میں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر انگڑائی لی۔ ہنسی اور بولی۔
‘‘ارے آپ کیوں فکر میں گھل رہی ہیں؟ بے عزتی چھوڑ ٹھکائی بھی کر دے پرواہ نہیں۔ آپ کو کیا پتہ میں وہ کام کر آئی ہوں جس کے لئے گزشتہ دو سال سے منصوبے بنائے بیٹھی تھی’’۔
اگلے دن میاں کا فون آیا۔ بچوں نے سنا۔ چہکتی ہوئی آواز میں یہ ضرور بتایا کہ امی آگئی ہیں۔ پر نہ باپ نے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ نہ بچوں نے ایسا چاہا اور رہی میں ‘تو مجھے بھی کچھ ایسی تمنا نہ تھی۔
ایک ہفتے بعد لاہور واپسی ہوئی۔ میاں اسٹیشن پر موجود تھے۔ چہرہ بتا رہا تھا کہ اس پر پھیلے غصے کے بادل گھنیرے ہیں اور آسانی سے چھٹنے والے نہیں۔ دیور دیورانیوں نے سونے کا اہتمام یوں کر رکھا تھا جیسے میرا چوتھی کا ڈولا گھر میں اترا ہو۔
رات چاندی تھی۔ نئی تعمیر شدہ عمارت کے ٹیرس پر دو بستروں پر ہم دو اجنبیوں کی مانند پڑے تھے۔ حبس اور امس نے جان نکال رکھی تھی۔ میرے بیڈ روم کا ائیرکنڈیشنڈ کھلی چھت پر پڑا تھا۔ جب سے میں نے اسے دیکھا تھا باقی فکر کو نے کھدروں میں جا بیٹھے تھے اور یہ سرپر سوار ہو گیا تھا۔
ہمارے درمیان بہت سے اختلافات میں سے ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ میں دن میں سونے کی عادی نہیں جبکہ میاں جی قیلولے کی غرض سے کمر بستر سے چپکائیں گے تو تین گھنٹوں سے پہلے اٹھیں گے نہیں۔ ادھر رات کی سیاہی گہری ہوئی اور میں نے کسی شرابی کی طرح جھومنا ڈولنا شروع کر دیا۔ نوبجے میرے خراٹے کمرے میں گونجنے لگتے ہیں۔
اس شب بھی جب ہمارے درمیان ایک سنگین سی خاموشی طاری تھی۔ میں چاہتی تھی اس جان لیوا جھگڑے کا مک مکا ہو جو اس نے کہنا ہے یا کرنا ہے وہ کہے اور کرے اور جو میں نے سننا اور سہنا ہے ‘میں سن اور سہہ کر کنارے لگوں۔ گزشتہ ہفتہ بھر سے بیچ منجھدار پھنسی پڑی ہوں۔
دفعتاً مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ساڑھے سات ملی میٹر رینج کی رائفل کا بٹ میرے سر پر پڑا ہو۔
پوچھا گیا تھا
‘‘کس کی اجازت سے تم گلگت اور ہنزہ گئی تھیں’’۔
میں نے مسکینی کا پورا جام اپنے لہجے میں انڈیلتے ہوئے کہا۔
‘‘آپ سے تین چار بار کہا تھا’’۔
جیسے بارود کے ڈھیر کو آگ لگ جائے۔ تابڑ توڑ دھماکے ہونے لگے۔
بڑی ایڈونچر س بنتی پھرتی ہو۔ مار کوپولو کی بھتیجی۔ پاکستان کے دشوار گزار علاقے فتح کرنے چلی تھی۔ کوئی ہرج مرج ہو جاتا۔ اغوا کر لیتا۔ کون ذمہ دار تھا۔ بولو۔ بتاؤ۔ سری لنکا سے آنے والی اس عورت کا حال معلوم نہیں۔ کیسے ریپ ہوئی۔ سارا سفارتی عملہ ہلکان ہو گیا۔ پر ملزم کا نشان تک نہ ملا۔ یہاں کِس کی ماں کو ماسی کہنا تھا۔
میری زبان پر کُھجلُی ہو رہی تھی پر میں ایک لفظ بھی بولنا نہیں چاہتی تھی۔ زبان کے کسی ہلکے سے ہتھیار سے بھی غصے میں اضافے کا باعث بننا نہ چاہتی تھی۔ تھوڑا سا امن و امان ہوا۔ تو میں نے میاں کے پاؤں چھوتے ہوئے کہا۔
‘‘میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔ پر میرا سری لنکا کی عورت سے مقابلہ مت کریں۔ میں تو اپنے آپ کو خدا کی تحویل میں دے کر چلی تھی’’۔
میری بات انہوں نے یوں کاٹی جیسے تیز قینچی کپڑے کو کاٹتی ہے۔
‘‘تم اگر جانے پر اُدھار کھائے بیٹھی تھی تو کسی کو ساتھ لے لیا ہوتا۔ اپنے چچا کو تیار کر لیتیں۔ اپنی کزن سے پروگرام بنا لیتیں۔ خدا کی بندی کچھ تو سوچا ہوتا’’۔
میں خاموش تھی۔ اب اگر انہیں یہ سمجھانا چاہتی کہ میں بیساکھیوں کے بغیر چلنے کی عادی ہوں تو بات اور لمبی ہو جاتی۔
میں نے جس تحمل سے میاں کی جلی کٹی باتیں سنیں ‘اس نے حالات کو معمول پر لانے میں بڑی مدد دی۔
لیکن میرے دل میں خلش تھی۔ شمالی علاقوں کا ایک حصہ میں دیکھ آئی تھی اور دوسرا یعنی بلتستان ابھی باقی تھا۔ ایک رات میں نے میاں کے پاؤں پکڑ لئے۔
‘‘اتنا سا احسان کر دو میں نے بلتستان جانا ہے’’۔
‘‘کوئی ساتھی ڈھنڈ لو’’۔ دو ٹوک جواب ملا۔
اب مجھے ایسے ساتھی کی تلاش ہوئی جو اپنے سفر کا بوجھ میری جیب پر نہیں اپنی پر ڈالے۔ آخر یہ تگ و دو کامیاب ہوئی۔ حنا ڈائجسٹ کی مدیرہ نے آمادگی ظاہر کی۔ میاں نے سفر کے سارے انتظامات درست کئے اور یوں ایک دن ہم سکردو پہنچ گئے۔
پر ان حفاظتی انتظامات کا جو میاں نے میرے ساتھ کے سلسلے میں کئے تھے۔ سکردو پہنچنے کے تین دن بعد ہی تارو پود بکھر گیا تھا۔
وادی شگر جاتے ہوئے راستے کی مٹی ‘ریت اوردھول نے ہم سفر محترمہ کے خوبصورت بالوں کا ستیاناس کر دیا۔ پورا سکردو بازار چھان مارا لیکن جب اُسے مطلوبہ شیمپو نہ ملا تو اس نے ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔
‘‘تمہارا جہاں جی چاہے جاؤ۔ گھومو پھرو۔ اپنے آپ کو مٹی میں رولو۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں تمہارے میاں کے فون آنے پر اسے بتاتی رہوں گی کہ تمہاری بیوی خیریت سے ہے۔ بس ذرا لائبریری میں بیٹھی کتابیں کنگھال رہی ہے۔
خپلو’ کھر منگ اور چھوربٹ کے دشوار گزار راستوں نے مجھے یوں دہلایا اور ہلایا جیسے پختہ عمارتیں زلزلوں کے جھٹکوں سے ہلتی ہیں۔ میں ہر روز کسی شرابی کی طرح کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے توبہ کرتی پر اگلی صبح یہ توبہ یوں ٹوٹتی کہ پھر کسی ویگن میں بیٹھی نئے سفر پر روانہ ہو رہی ہوتی۔
گرو اور مٹی میں اٹے پاؤں دھول اور تکان سے آلودہ چہرے کے ساتھ جب میں پرنسپل ہاؤس میں داخل ہوتی وہ ترو تازہ میک اپ کے ساتھ بستر میں بیٹھی کسی کتاب کے مطالعے یا سکردو ریڈیو کے لئے کہانیاں لکھتی ملتی۔
میں جوتے اتار کر پاؤں کی مٹی جھاڑتی اور وہ کہتی
‘‘آج میں نے ریڈیو پر دو پروگرام کئے۔ کل ایک کیا تھا۔ اتنے پیسے ملے’’۔
وہ پیسوں کے ملنے کی تفصیل بتاتی اور میں خرچ کی۔
اور سکردو میں اپنے قیام کی ایک سہہ پہر جب میں بلتستان کی اہم شخصیت جناب غلام وزیر مہدی سے ملنے اور اس ملاقات کے نتیجے میں ہونے والی گفتگو کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہی تھی اس نازنین نے مجھ سے کہا۔
‘‘کپڑے اور کراکری بہت سستی ہے یہاں۔ چلونا۔ کچھ خرید لائیں’’۔
‘‘میری جان میرے پاس چھ کپ ہیں۔ بارہ کپ میری دیور رانیوں کے پاس ہیں۔ جس گھر میں اٹھارہ کپ ہوں۔ وہاں مزید کراکری کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ رہے کپڑے تو مجھے ان کا ذرا سا بھی خبط نہیں۔ میں تو ملنگ بادشاہ ہوں۔ دو جوڑے زیادہ بن جائیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ سنبھالوں کہاں؟
اب وہ ایسی بے سروپا باتوں کا کیا جواب دیتی۔
حسین آباد میں جناب غلام وزیر مہدی کا گھر نیا بھی تھا اور خوب کشادہ بھی۔ نوجوانوں کی ایک ٹولی قناتیں لگوانے اور اندر باہر کے انتظام میں مصروف تھی۔ صاحب خانہ کے بیٹے کی شادی تھی۔
یہ ہماری لمبی اور دلچسپ نشست تھی۔ بلتستان کی موجودہ تاریخ کے اوراق اٹھا کر انہوں نے مجھے جو چہرے دکھائے وہ حقیقتاً سحر زدہ کر دینے والے تھے۔
‘‘دفعتاً انہوں نے مجھ سے پوچھا’’۔
‘‘آپ نے کتنا خرچ کیا ہو گا اپنی اس سیاحت پر’’۔
میں نے کمرے کی خوبصورت چوبی کھڑکیوں پر نظریں جمائیں۔ موٹا سا اندازہ لگایا اور انہیں بتادیا۔
‘‘احمق نکلیں آپ۔ حکومت پاکستان سے مدد لی ہوتی’’۔
ہونقوں کی طرح میں نے انہیں دیکھا۔ یہ میرے لئے ایک نیا انکشاف تھا۔
انہوں نے حماقت برساتے میرے چہرے کو دیکھ کر بہت کچھ سمجھا اور بولے۔
‘‘بھئی حکومت غیر ملکیوں پر اتنا خرچ کرتی ہے۔ ان کا کام بھی اس معیار کا نہیں۔ آپ تو اپنی ہیں۔ ظاہر ہے ہم پر جذبوں سے لکھیں گی۔’’
مجھے اپنی جلد بازی پر افسوس نہیں دکھ ہوا۔ وہ پیسہ جو میرے اس شوق کی نذر ہوا۔ اس سے وہ چھوٹے موٹے کام پورے ہو سکتے تھے جنہیں میں نے مدت سے پس پشت ڈال رکھا تھا۔
میری حالت اس کھسیانی بلی جیسی تھی جو غصے میں آکر کھمبا نہیں اپنا آپ نوچتی ہے۔
بلتستان کے در و دیوار پر بکھرے آرٹ کے نادر شاہکاروں مدھ بھرے بلتی گیتوں‘ موسیقی کی دلنواز دھنوں ‘اور تہذیب و ثقافت کے نمائندہ زندہ شاہکاروں نے مجھے اس درجہ متاثر کیا تھا کہ میں نے بے اختیار سوچا کہ اسے شمالی علاقہ جات کے بقیہ حصوں کے ساتھ گڈ مڈ کر دینا زیادتی کی بات ہو گی۔ اس پر الگ سے ایک کتاب تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔
ذہن کے کینوس پر جب کہانی کا خاکہ بکھرا اور اس میں رنگ آمیزی کا کام شروع ہوا تو احساس ہوا کہ یہ تو پہاڑوں کے سینے سے دودھ کی نہر نکالنے کے برابر ہے۔ اوزاروں کی کمی ہے۔ ضرورت تھی کہ ایک بار پھر وہاں کا چکر لگتا۔ جزوی تفصیلات جن کے بغیر کہانی کی صورت نہیں بن رہی تھی’ جانی جائیں۔ ذہن میں جناب وزیر مہدی کی گفتگو کا وہ ٹکڑا بھی تھا جس نے اسے مزید محرک کر دیا تھا۔
Prsident has a soft corner for Baltistan
صدر مملکت کو آہ و زاری سے بھری ہوئی لمبی چوڑی چٹھی لکھی گئی۔ جس کا جواب کوئی ماہ بعد آیا۔ لکھا تھا۔
‘‘شمالی علاقہ جات آزاد کشمیر کے زیر ہیں۔ ان کی وزارت اطلاعات و نشریات سے رابطہ کریں۔’’
‘‘جو حکم حاکم’’۔ میں نے اپنے آپ سے کہتے ہوئے ایک نئی چٹھی لکھ ڈالی۔
ڈیڑھ ماہ بعد ڈاکیے نے وزارت و نشریات آزاد کشمیر کی جانب سے جو خط مجھے تھمایا اسے میں نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ کھولا۔
‘‘محترمہ شمالی علاقہ جات مرکز کے تابع ہیں۔’’
پہلے میں نے ایک چھوٹی سی گالی خودکو دی۔ چند لمحوں بعد پھر ایک بڑی گالی سے اپنے آپ کو نوازا۔ پر دل کی دھڑکن اور چہرے پر پھیلی غصے کی لالی کم نہ ہوئی۔ لان میں اُگے شہتوت کے پیڑ سے گرتے زرد پتے بگلوں کے ساتھ مل کر میرے سامنے گھمن گھیریاں کاٹ رہے تھے۔ بالکل میری طرح جو تین ماہ سے لاہور ‘اسلام آباد اور آزاد کشمیر کی چک پھیریوں میں پھنس گئی تھی۔
میں نے خط کو لیر لیر کر دیا۔
سفید براق کاغذ کے منے منے ٹکڑے ہواؤں کے زور سے اڑ کر یہاں وہاں بکھر کر لان کی بدنمائی کو مزید نمایاں کرنے لگے جو مالی کی ہڈ حرامی اور گھر کی چار رانیوں کے پھوہڑ پن کا پہلے ہی شکار تھا۔
اپنی تواضع میں نے گالیوں سے کی اور بڑے لوگوں کی تبروّں سے۔ تب کہیں جا کر کلیجے میں ٹھنڈ پڑی۔ پرسکون سی ہو کر میں نے خود سے کہا تھا۔
‘‘ہٹاؤ یار مفت خوری ہمارے مقدر میں نہیں’’۔
جس طرح شکاری کتے دوڑ دوڑ کر بھاگ بھاگ کر شکار کو ڈھونڈ نکالتے ہیں‘ اسی طرح میں نے بھی لاہور میں بکھرے ہوئے بلتی لوگوں کو کھوج کر لیا تھا۔ میاں دفتر سے آتے۔ کھانا کھاتے۔ قیلولے کی غرض سے لیٹتے۔ ذرا آنکھ بند ہوتی اور میں بھاگ نکلتی۔
میاں کے پاس گاڑی ہے پر ۷۲ء ماڈل کی گاڑی میاں جی کو ۷۳ (ہماری شادی کا سال) کے ماڈل سے کہیں زیادہ پیاری ہے۔ میری مجال نہیں کہ اسے ہاتھ لگاؤں۔ شروع میں بڑا پیچ و تاب کھایا۔ پھر جان لیا اور دل کو سمجھا لیا کہ رزق حلال کھانے اور کمانے والے افسر آدمی کے لئے نئی بیوی حاصل کرنا جتنا آسان ہے۔ نئی گاڑی کا حصول اتنا ہی مشکل۔ چنانچہ لاہور کی سڑکیں تھیں۔ ویگنیں اور رکشے تھے۔ ہماری ٹانگیں اور ہمارے عزائم تھے۔ دنوں یہ تماشا چلا۔ پر وہ جو کہتے ہیں۔ سو دن چور کا ایک دن سادھ کا۔
میاں گرجے۔
چنی چکدی ایں تے تھر پینی اں‘ کتھے جانی اں۔(اوڑھنی اوڑھتی ہو اور باہر نکل جاتی ہو۔ کہاں جاتی ہو؟) میں اسے یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ میں کہاں جاتی ہوں؟ میں اسے یہ نہیں سمجھا سکتی تھی کہ میرا یہ جانا کیوں اور کس لئے ضروری ہے؟
‘‘یہ میرا بلتستان ’’میری ذہنی کوکھ سے بہت دل پذیر انداز میں تخلیق ہوئی۔ کتابی صورت میں آنے کے لئے بیوپاری کے پاس گئی تو ا سنے اس کی صحت مندی حسن و رعنائی اور دل پذیری کو ٹھوک بجا کر دیکھنے کی بجائے سرسری نگاہ ڈال کر قیمت لگا دی۔ میرے دل سے کہیں چیخ نکلی جو میرے ہونٹوں پر آگئی۔
‘‘اس سے کہیں زیادہ تو اس پر خرچ کر بیٹھی ہوں’’۔
جواب ملتا ہے۔
‘‘ہم نے فرمائش تو نہیں کی تھی’’۔
بات درست تھی۔ پر میرا دل جیسے منوں وزنی پتھروں کے نیچے آگیا تھا۔ اتنی محنت ’ اتنی تگ و دو’ اتنی جان ماری بھلا کس کام آئی۔
دنوں مجھے اس بیماری نے اپنے آپ میں جکڑے رکھا جسے جدید زبان میں ڈپریشن کا نام دیا جاتاہے۔ پھر مایوسی اور گھٹن کی اس مٹی کو جس میں مرغی کی طرح میں اپنے آپ کو رولتی رہی تھی۔ پروں کو پھڑپھڑا کر جھاڑتے ہوئے اٹھی۔
میں نے اپنے آپ کو سنایا۔ بہلایا یہ کہتے ہوئے۔
‘‘اچھے کپڑوں کا مجھے شوق نہیں۔ گھر میں چماری بنی رہتی ہوں۔ ماں بیچاری زندگی بھر میرے تن پر دیدہ زیب کپڑے دیکھنے کیتمنا میں ہی اگلے جہاں سدھار گئی۔
زیورات سے لگاؤ نہیں۔ بیاہ پر زیورات کی صورت میں جو دان اس نے مجھے کیا تھا وہ کچھ تو سناروں کی نذر ہو گیا ہے اور باقی ہونے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔
چہرے پر غیر ضرور لیپا پوتی چھوڑ ضروری کام کے لئے بھی کبھی دھیلا پولہ خرچ کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ میاں جب جلی کٹی آواز میں کہے۔
‘‘کالے ہونٹ ہیں تیرے’ گلابی لپ اسٹک کا ہلکا سا ٹچ دے دیا کرو ان پر’ رنگت بدل جاتی ہے۔
تب کلیجے پر آریاں تو چلتی ہیں۔ پر ایسی کمینی ہوں کہ مانگے تانگے سے گزارے کی کوشش کرتی ہوں۔
گھر کو سجانے اور سنوارنے سے بھی رتی دلچسپی نہیں۔ پٹڑی واسوں جیسا حال ہے۔ بٹوے میں نوٹ ہوں گے۔ ڈیکوریشن کی کسی چیز پر دل بھی آیا ہوا ہو گا پر مجال ہے جو زیپ ڈھیلی ہو جائے۔
تو پھر اس شوق اور جنون کی اتنی سی قیمت دینے سے آزردگی کیسی؟
میں تازہ دم تھی۔
گلگت پر لکھنے کے لئے کتابوں کا پیوں کو کھول بیٹھی تھی۔
سولہ ہزار مربع میل کا یہ علاقہ اپنے محل وقوع اور جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ضلع گلگت میں نو تحصیلیں ہیں۔ گلگت‘ اشکومن‘ پونیال‘ گوپس‘ چھلت‘ نگر یاسین‘ گوجال اور ہنزہ شامل ہیں۔ کوہستانی سلسلوں میں جہاں کہیں کم اونچا راستہ نکل آتا ہے’ درہ کہلاتا ہے۔ وادی کاغان کو گلگت کے ساتھ ملانے والا درہ بابو سر ہے۔ سری نگر جانے کے لئے برزل کا درہ پار کرنا پڑتا ہے۔ شمال کی طرف کا شغر جانا ہو تو مسگرسے آگے دو راستے نکلتے ہیں۔ چترال جانے کے لئے شُندھورکا درّہ ہے۔
ضلع گلگت میں ضلع دیا میر کو یکجا کر کے ایک سیاسی اکائی بنادی گئی ہے۔
گلگت کی جغرافیائی کیفیت سے ظاہر ہے کہ یہ تنہائی اور علیحدگی کا علاقہ ہے۔ شاہراہ ریشم کی تعمیر نے اس کی معاشی اور معاشرتی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ مگر باقی حصے ابھی تک مشکل اور دشوار گزار راستوں کی زد میں ہیں۔ یہاں بہت سی قومیں آئیں۔ کشمیر سے کشمیری ‘ بلتستان سے بلتی’ شمال کی طرف سے منگول اور چینی ‘ترکمان’ مغرب سے چترالی۔ ان سب کا امتزاج یہاں موجود ہے۔ باشندوں میں سب سے زیادہ تعداد نسلی طور پر تورانی لوگوں کی ہے۔ جو دو ہزار قبل مسیح کے قریب اس خطے میں داخل ہوئے۔ ان پر آریائی شین لوگوں نے حکومت جمائی اور دونوں کے خون کی آمیزش ہوئی۔
وادی گلگت لمبائی میں تقریباً آٹھ میل اور چوڑائی میں چار میل ہے۔ انگریزوں کے دور میں یہ پایہ تخت رہا۔ سکھوں اور ڈوگروں کے راج میں بھی گورنر کی رہائش گاہیں یہیں تھیں۔ آج بھی یہ شمالی علاقہ جات کا صدر مقام ہے۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑوں سے گھری ہوئی یہ وادی مون سون کی بارشوں سے محروم رہتی ہے۔ ذرائع آب پاشی کی کمی سے اس کے پہاڑ بے برگ و گیاہ ہیں۔
بہتے دریا اور نالے وادیوں کی گہرائیوں میں ہیں۔ ان سے نہریں نہیں نکالی جا سکتیں۔ وہ علاقے جو میدانی ہیں۔ مثلاً گلگت خاص‘ ہنزہ‘ نگریا سین‘نیال اور اشکومن گوپس وغیرہ میں سال میں دو فصیلیں ہوتی ہیں۔ پہاڑی علاقے جن میں بگروٹ‘ ہراموش‘ ہوپر‘ چھپروٹ‘ مسگر اور تھوئی کے علاقے شامل ہیں۔ سخت سردی کے باعث یک فصلی ہیں۔
اور بس ‘‘میں’’ ہونکنے لگی تھی اس گدھے کی طرح جو منزل پر پہنچے بغیر کہیں راستے میں ہی رُک جائے۔
گلگت کا چہرہ جس قدر خوبصورت ‘معصوم اور صبیح ہے۔ اس کے خدوخال اسی قدر تیکھے ہیں۔ اندر کئی خانوں میں بٹا ہوا اور کٹا پھٹا ہے۔
میری آنکھوں نے جن نظاروں کو اپنی یادداشت میں محفوظ کیا تھا۔ میرے کانوں نے جو کہانیاں سنی تھیں۔ میرے قدموں نے جن جن جگہوں پر اپنے نشان ثبت کئے تھے۔ تجربات اور مشاہدات کے یہ خزینے کورے کاغذوں پر منتقل ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا تھا کہ ابھی تو عشق و عاشقی کی ابتدا ہی ہے۔ انتہا تک جانا تو خاصا دشوار ہے۔
چندباب ہی لکھے گئے تھے اور میں پسینہ پسینہ تھی۔ اب پلے کچھ نہیں تھا۔ بالکل تہی دامن۔ سچی بات ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں اس بدنصیب دولہا جیسی ہوں جسے طویل انتظار کے بعد شب عروسی نصیب ہوئی ہو پر دُلہن کا چہرہ جی بھر کر دیکھنے سے قبل ہی جدائی کے لمحے کا گجر بج جائے۔ اور بے چارہ یقین کے ساتھ یہ بھی نہ بتا سکے کہ سیاہ تل’ دلہن کے دائیں رخسار پر تھایا بائیں پر۔
اضطراب سا اضطراب تھا۔ بے چینی سی بے چینی تھی۔ ضرورت ایک بار پھر وہاں جانے کی تھی۔ پر اخراجات کا کوہ گراں بھی سامنے تھا۔
یہ جاتی خزاں کے شب و روز تھے جب کل پاکستان چھٹی اہل قلم کانفرنس کی طرف سے شرکت کا دعوت نامہ ملا۔
‘‘چلو یہ اچھا ہوا۔ میں نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
گلگت کے کسی آدمی سے ٹکراؤ تو ہو گا۔ اسی سے مشورہ کرونگی۔’’
‘‘ہالیڈے ان’’ اور اسلام آباد ہوٹل کے کانفرنس روم میں مجھے مقالے سننے سے قطعی دلچسپی نہ تھی۔ میں ان چہروں کی متلاشی تھی جن کا تعلق گلگت یا اس کے گردونواح سے تھا۔ ہر ملنے والے ادیب سے میری یہی فرمائش ہوتی کہ وہ ایسے بندے کا خیال رکھے۔
اور اس سنہری شام میں جب اسلام آباد ہوٹل کے کانفرس روم میں جناب جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال علامہ کی وفات کے بعد پبلیشروں کے ناروا سلوک اور اپنے دگرگوں حالات کے بارے میں باتیں کر رہے تھے’ جناب ڈاکٹر طاہر تونسوی نے دبے پاؤں میرے قریب آکر سرگوشی میں مجھے یہ نوید سنائی تھی کہ اپ کی پشت پر تیسری قطار میں چوتھے نمبر بیٹھے عثمان نامی آدمی گلگتی ہیں۔
میں نے گھوم کر دیکھا۔ معصوم سا چہرہ جس پرہ ٹکا ایک ایک نقش اس امر کی بہت حد تک نشا ن دہی کرتا تھا کہ صاحب املاک نرم رو اور نرم خو ہے۔
جب قینچی کی طرح چلتی میری زبان اک ذرا رکی۔ انہوں نے دھیرج سے پلکیں جھپکاتے ہوئے مجھے بتایا کہ اُن کے پاس نایاب قسم کی کتب موجود ہیں۔ لیکن ان سے استفادہ صرف گلگت آنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ بذریعہ ہوائی جہاز یا کسی آنے جانے والے کے ہاتھ وہ انہیں بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتے۔
عثمان صاحب سے فارغ ہو کر میں نے دانشوروں کے ہجوم پر نظر ڈالی جو ٹولیوں کی صورت میں ادھر ادھر بکھرے ایک دوسرے سے بحث مباحثے میں الجھے ہوئے تھے۔ تبھی کسی نے نوجوان سے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔
یہ اکبر حسین اکبر ہیں’ نگر کے رہنے والے۔ ڈیلی مسلم کے نمائندے۔ آپ کے لئے بہت معاون ثابت ہونگے۔
میں نے نظر بھر کر اس خوبرو نوجوان کو دیکھا۔ گورے چٹے رنگ پر سرخی مائل چھوٹی چھوٹی داڑھی چہرے کی وجاہت اور دلکشی میں اضافے کا موجب بنی ہوئی تھی۔ پر اکبر حسین اکبر کی آنکھیں اور پلکیں جنہیں دیکھ کر بس یوں لگتا تھا جیسے ابھی گلاب کے پانیوں سے دھل کر نکلی ہیں۔ بھیگی بھیگی ‘نتھری نتھری سی۔
اکبر نے مجھے اپنے گھر کا پتہ سمجھایا۔ آفس کا نمبر دیا۔ دفتر میں اپنی آمد کے اوقات کار بتائے اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔
اور میں نے سکھ کے لمبے لمبے سانس لئے تھے۔ اپنا آپ یوں ہلکا پھلکا محسوس ہوا تھا جیسے کوئی غریب بیٹی بیاہ کر سکھ چین کا سانس سینے سے کھینچتا ہے۔
طویل مقالوں سے ذرا جان چُھٹی۔ میں ایک بار حسین کے گھر کی طرف یوں بھاگی جیسے میری گردن کسی نے چھری تلے رکھ دی ہو۔ پنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن میں رکشے والا چک پھیریاں کاٹ رہا تھا اور میں مطمئن سی اجنبی سڑکوں ‘خوبصورت گھروں ‘ان میں اگے درختوں’ بوٹوں’ پتوں او رپھولوں کو دیکھتے ہوئے یادوں کے ڈانڈے کہیں سے کہیں ملا رہی تھی۔ میٹر کا رخ رکشے والے کی جانب تھا اور رکشے والا بہت بیبا اور خوش مزاج نظر آیا تھا۔
دفعتاً یونہی بے خیالی میں میری نظریں میٹر کی طرف اٹھ گئیں۔ میں نے بند دروازے پر اپنے ہاتھ کی گرفت کو مضبوطی سے جمایا۔ اس وقت میری ٹانگوں کے نیچے ٹوٹی پھوٹی سڑک تھی اور میں کھوکھے والے سے پتہ پوچھ کر رکشے کی جانب پلٹی تھی۔
ستترّروپے۔ مجھے اختلاج قلب محسوس ہو رہا تھا۔
‘‘میٹر غلط ہے تمہارا’’ ہونٹوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔
‘‘غلط کیسے ہو گیا۔ سارا سیٹلائٹ ٹاؤن چھان مارا ہے۔ ایک ایک سڑک کو تین تین بار روندا ہے۔’’
رکشے والے کی ساری خوش مزاجی جانے کہاں اڑنچھو ہو گئی تھی۔ خونخوار نظروں سے وہ مجھے گھور رہا تھا یوں جیسے کچا کھا جانا چاہتا ہو۔
فوراً میں نے پیسے اُس کی ہتھیلی پر رکھے۔ میری جان بہرحال ستتّر روپوں سے مہنگی تھی۔ جب بڑ بڑ کرتا رکشتہ پھٹ پھٹاتا کہیں دوسری طرف نکل گیا۔ تب میں نے چلنا شروع کیا۔
اپنی جلد بازی اور اکبر کے گھر پر دو حروف لعنت کے بھتیجے ہوئے میں پیدل مارچ کر رہی تھی۔ پاؤں میں پہنے اونچی ایڑی کے جوتے نے فیشن کرنے اور شخصیت کو جاذب نظر بنانے کی کوشش کا کس طرح بھرتہ بنایا یہ کوئی اس شام میرا حلیہ دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا۔ تین میل کی گھمن گھیریوں میں سے نکل کر جب میں بس پر بیٹھی تب میرا جی چاہا تھا کہ پاؤں کاٹ کر یہیں کہیں پھینک جاؤں۔ ٹیسیں مارتے سلگتے یہ جسمانی اعضاء بھلا کس کام کے؟
اسلام آباد ہوٹل سے دو اسٹاپ پیچھے بس رکی۔ میں اتر گئی۔ نسبتاً ویران سی جگہ پر بیٹھ کر گیلے رومال سے چہرہ پاؤں اور جوتے صاف کئے۔ اکا دکا چلتے پھرتے لوگوں کی طرف دیکھتے اور ان کی نظر سے بچتے بچاتے میں نے بالوں میں کنگھی چلائی۔ ہونٹوں پر لپ اسٹک کاٹچ دیا۔
فائیو سٹار ہوٹل میں اس سڑے بسے مڑے تڑے حلیے کے ساتھ داخل ہونا کس قدر اذیت دہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply