سب مر گئے/شہزاد فیصل

میں میٹریس پر بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا ، میری بائیں جانب ترتیب کے ساتھ کچھ کتابیں پڑی ہوئیں تھیں، میرے سامنے والی کھڑکی سے رات ڈھلتی نظر آرہی تھی ، ابھی کچھ ساعت پہلے کھڑکی سے روشنی اندر آرہی تھی، جو میری نظر کو دور افق تک لے جاتی تھی ، وہ روشنی کہاں گئی؟ میری نظر آسمان کی جانب برابر بلند تھی ، مگر ہر طرف اندھیرا تھا۔میں یہ تغیّر روز محسوس کرتا ہوں، شاید مجھے اس اندھیرے اجالے کے لئے منتخب کر لیا گیا ہے، رات اور دن جب بدلتے ہیں تو میں کچھ دیر کے لئے رُک جاتا ہوں ۔

میرے کمرے میں ایک پنکھا موجود ہے ،جو گرمی کی شدت کو کم کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہتاہے، عجیب بات ہے کہ اس کا سوئچ آن ہونے کے بعد بھی اسے پہلے ہاتھ سے گھمانا پڑتا ہے ، ایک کونے پر دو کرسیاں ہیں ،جن پر برسوں سے شاید میرے علاؤہ کوئی نہیں بیٹھا ،کمرے کے بائیں جانب ایک چارپائی ہے ،جس پر میں سوتے ہوئے خواب دیکھتا ہوں، کمرے میں ایک بڑی ٹیوب لائٹ ہے ، جو کہ اندھیرے کو بھگانے کا کام کرتی ہے ، مجھے اپنے اس چھوٹے سے کمرے سے بہت محبت ہے ، یہاں میں اپنے خیالات میں گم ہو کر لاشعور کا سفر کرتا ہوں،جہاں صرف شعور کی وجہ سے پہنچا جا سکتا ہے ، عموماً میں اپنے کمرے کا اندر سے لاک لگائے رکھتا ہوں، تا کہ میری تنہائی میں کوئی مخل نہ ہو ، بعض اوقات مجھے سارا دن اس کمرے میں گزارنا پڑتا ہے ، یہ ایک آسیب زدہ کمرہ ہے ، آغاز میں مجھے اس کی تنہائی اور ویرانی سے ڈر لگتا تھا ، مگر جب باہر کی تنہائی کا اندازہ ہوا تو یہ تنہائی مجھے بھا گئی ، اکثر رات کے پچھلے پہر میں نیند سے بیدار ہو جاتا ہوں، اس پہر خواب دکھائے جاتے ہیں ،میرے وجود سے تخلیق ہو رہی ہوتی ہے ، تخلیق کا مرکز میں ہو جاتا ہوں، میرے اندر سے ان خیالات کا ظہور ہوتا ہے ،جو مجھ سے متعلق نہیں ہوتے ،میں اس وقت وہ نہیں ہوتا جو میں ہوں، میری ایک ایسی شناخت عیاں ہوتی ہے ، جو روشنی کے ساتھ غائب کر دی جاتی ہے ، میں اکثر سہم جاتا ہوں، یہ سب مجھے بے چین کرتا ہے

میرے اس کمرے میں ہر چیز ساکت ہے ،ماسوائے انسان کے ، مگر جہاں انسان ہوںوہاں کوئی چیز ساکت نہیں رہ سکتی ، یہی کہانی ہے ، یہی وہ داستان ہے جہاں سے باقی کہانیوں کا آغاز ہوتا ہے ، میں اس کمرے میں رہ کر ان لوگوں کی آواز ہمہ تن گوش سنتا ہوں،جو زمانے سے ماوراء ہوتے ہیں ، جن کے الفاظ ہمیشہ ہوا کے سپرد کر دیے جاتے ھیں، میں یہاں بیٹھا کہانیاں محسوس کرتا ہوں، یہ ہرگز بے جان چیزیں نہیں ہیں ، کسی نے ان کہانیوں کے اختیار کو ہمارے حصے میں ڈال دیا ہے، یہ سب اندھیرے اجالے کی کہانی ہے ، جیسے وہ بدلتے ہیں ،اس طرح ھم بے جان چیزوں سے بدل رہے ہیں ، ہمیں نہیں علم یہ تبدیلی کب تک رہے گی،

میں عجیب شخص ہوں، میری زندگی عام انسانوں جیسی نہیں، میری زندگی صرف ایک زندگی نہیں، یہ سب انسانوں کی زندگی ہے ، میری کہانی سب سے مختلف ہے ، میں سب سے جدا ہوں، مگر بعض اوقات مجھے گمان ہوتا ہے کہ میں محتلف نہیں، سب مجھ جیسے ہیں ، ان کا ظہور مجھ سے مشابہت رکھتا ہے، ہماری زندگیاں ایک دوسرے کی تشبیہات ہیں ، ہماری داستاں مشابہات سے بھری ہوئی ہے،
میری زیست میں سکون نہیں ، اس میں ٹھہراؤ نام کی کوئی چیز نہیں، یہ مجھے کبھی چین نہیں لینے دیتی،مجھ پر تشدد کیا جاتا ہے ، یہ ذہنی کشمکش اور ذہنی تشدد ہے ، میرے جسم سے زیادہ میرے زہن کو اہمیت دی گئی ہے ، میں انسانوں کی بھیڑ میں گم ہو جاؤں گا ، انسان بے جان نہیں ہو سکتا مگر یہ سب بے جان ہے ،

میں ایک انسان نہیں ، میرے اندر ہزاروں انسان ہیں، جن کے چہرے مجھ سے مختلف مگر احساس میرے جیسے ہیں ، میری اندرونی زندگی بیرونی زندگی سے مختلف ہے، میں اندرونی زندگی کو بیان کر رہا ہوں، باہر کی دنیا کو میں قابو کرتا ہوں، اس پر حکم میرا ہوتا ہے ، اندر کی دنیا جانے کس کا حکم مانتی ہے ، میں صرف اس کے تابع ہوں، یہی ایک دن مجھے مار دے گی ، اس کی بے چینی مجھے قتل کر دے گی ،

اپنے ان خیالات کی وجہ سے میں ایک مغالطے میں مبتلا ہو چکا ہوں، کہ دنیا کی ہر چیز کے وجود کا انحصار میری ذات پر ہے ،”ہر شے میں میرا عکس ہے،میرا عکس ہی ہر شے ہے، میری موجودگی سب کو زائل کر دیتی ہے، میری غیر موجودگی سب کو جاں بخشتی ہے،” میرے ہونے سے دنیا ہے، میں نہ ہوں تو اس کا وجود خطرے میں پڑ جائے، یہ جہان اگر خوبصورت ہے تو اس کی وجہ صرف میں ہوں، اور اگر یہ بد صورت ہے تو میری وجہ سے ہی بدصورت ہے ، اس کی تباہی کا سبب بھی میں ہی بنتا ہوں، اس میں رنگ میں بھرتا ہوں، اس کے بے رنگ ہونے کی وجہ بھی میں ہوں، محبت کو میں نے وجود بخشا ہے، نفرت کا آغاز میری ذات سے ہوا ہے، تجسّس مجھے زندہ رکہے ہوئے ہے، بے چینی مجھے روز مارتی ہے ، میری ایک زندگی دوسری زندگی کے متوازی بسر ہو رہی ہے ،مگر دونوں بیک وقت متصادم کا راستہ اختیار کر لیتی ہیں ، اس دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت مجھے حاصل ہے ، مگر میں بے اہم انسان بھی ہوں، میری ذات متضاد کیوں ہے ، میرے خیالات اتنے منتشر کیوں ہیں ، میں ان کو ایک مرکزیت دینے کی کوشش کرتا ہوں، مجھے اس سے خوف آتا ہے ، ان خیالات کا مرکز ایک ہو گیا تو میرا وجود فنا ہو جائے گا ، میں زندہ رہنا چاہتا ہوں، میں زندہ رہا تو سب زندہ رہے گے ، میں مر گیا تو سب مر جائے گے ، میں دنیا کو ختم نہیں کرنا چاہتا ، دوسروں کی زندگی پر صرف میرا اختیار ہے ، سیاہ وسفید کا مالک میں ہوں،

میں اب اداس پھرتا ہوں، اداسی نے میری ذات میں ڈیرے ڈال لئے ھیں، یہ میرے ہی حکم سے مجھ کو اداس کرتی ہے، خوشی میں لطف نہیں ہے، مسرت ساکت کر دیتی ہے ، اداسی محرکات کا سبب بنتی ہے ، تنہائی ایجاد کرتی ہے ، سرگوشیاں طوفان کا باعث بنتی ہیں، اکیلا پن منزل کی پہلی شاہراہِ ہے ، ویرانی ہماری بقاء کی ضمانت ہے ، ہجوم تباہی ہے ، اس میں کبھی نے جانا ، یہ ذلت اور رسوائی کا دوسرا نام ہے ،

لوگ سوچتے ہیں میں خود کو پسند کرتا ہوں، جنوں کی حد تک اپنے آپ سے محبت کرتا ہوں، میں اپنی ذات کے حصار سے کبھی فرار ہی نہیں ہوا ، میں ایک دائرے میں اپنی زندگی بسر کر رہا ہوں، میں نے اپنی ذات کی نفی نہیں کی ، مجھے کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی، محبت کے جذبے کا مجھ میں فقدان ہے ، میں محبت سے عاری شخص ہوں، صرف نفرت ہے جو ہر شے میں موجود ہے ، اور اگر نفرت نہیں تو ضد ہے،

کچھ عرصے سے میں ایک بیماری میں بھی مبتلا ہو گیا ہوں، اس نے میرا جینا دوبھر کر دیا ہے ،مگر اس میں لذت ہے،راحت ومسرت ہے، ساری لذت آشنائی کا آغاز اس سے ہوتا ہے، یہ سوچ کی بیماری ہے ، اس نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ، یہ مجھے پاگل کر دیتی ہے ، میں بہت جلد پاگل پن کا شکار ہو جاؤں گا ، مگر میں اس بیماری سے شفا نہیں چاہتا ، مجھے اندازہ ہے کہ اس بیماری نے ہی مجھے حرکت دی ہے ،ایک نیا اسلوب دید دیا ہے، اس بیماری نے مجھے ایک نئی دنیا کی تخلیق کا سامان فراہم کیا ہے ، میں اب اس نئی دنیا کو فنا نہیں کر سکتا ، یہ دنیا ابنارمل ہے ،اس میں شدت ہے ، اس میں شور ہے ، یہ ہر شے کو جذب کر لیتی ہے ، مجھے نہیں علم میں اس بیماری میں کیسے مبتلا ہو گیا ہوں، بس میں پاگل ہونا چاہتا تھا ، میں جنوں کی حدیں پار کرنا چاہتا تھا ، میں خود کو تباہ کرنا چاہتا تھا ، شاید میری خواہش کی تکمیل کے لئے مجھے سوچنے کی بیماری میں مبتلا کر دیا گیا ہے ، اور یہ بیماری بہت جلد یہ کام مکمل کر دے گی،

میں اب پھول کو دیکھ کر خوش نہیں ہوتا ، میں حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہوں،اس کے رنگ مجھ سے ہی لئے گئے ھیں، مجھے دریا کی روانی اب سکون میسر نہیں کرتی ، بے چین کر دیتی ہے ، سورج مجھے روشن نہیں کرتا ،گم کر دیتا ہے ، رات اب مجھے سونے نہیں دیتی ، بارش اب مجھے زندگی نہیں بخشتی، ہر سانس مجھے اذیت دینے لگی ہے ، آنکھیں اب کچھ نہیں دیکھتی، ان کا منظر چھین لیا گیا ہے، جسم بے جان ہو گیا ہے ، میں تحلیل ہو رہا ہوں،میں فنا ہو رہا ہوں،یہ بیماری نہیں قیامت ہے ، جس میں مجھے مبتلا کر دیا گیا ہے ، میں اب خدا کو تلاش کر رہا ہوں، مگر اس کا کوئی نشان نہیں ہے ، سب نشانیاں مٹا دی گئی ہیں ، کیا یہ وہ قیامت ہے جس کا ظہور ہونا ہے، قیامت کے منظرنامہ کا ظہور میری ذات میں ہو رہا ہے،

میری زندگی اب خواب وخیال کی زندگی ہے ، اس میں حقیقت نہیں، افسانے ہیں ، یہ ایک سیراب ہے جس کو میں محسوس کر رہا ہوں، میرا بسیرا اب تخیلاتی زندگی میں ہے ، میری زندگی تخیل زدہ ہے ، میں خود کسی کا تخیل ہوں، ہم حقیقت نہیں ہیں ، ہم کون ہیں ،ہم کیوں ہیں ، ہم کیا ھیں، ہر طرف سوالات ہی کیوں ہیں ، جواب کہاں ہے ، یہ واقعی تماشا ہے ، یہ اگر تماشا نہ ہوتا تو اس کا اختتام نہ ہوتا، ہم سب تماشائی ہیں ،

Advertisements
julia rana solicitors london

قیامت سب کے لئے ہے، اس لئے قیامت کا ظہور بھی سب میں ہونا چاہیے ،اب وقت آگیا ہے کہ اس بیماری میں سب انسانوں کو مبتلا کر کے قیامت کا آغاز کر دیا جائے،یہ وقت قیامت کا متقاضی ہے، میں انسانوں کو جمع کر رہا ہوں، مجھے ان سے مخاطب ہونا ہے ، اس بیماری کو ایک دریافت کا رنگ دے کر سب کو اس میں مبتلا کرنا ہے ، مجھے سب کو پاگل کرنا ہے ، میں انسانوں سے خطاب کر رہا ہوں، خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ، بالکل ساکت ،معمولی سی حرکت کا اندیشہ ہوتا ہے ، وہ اس قیامت میں مبتلا نہیں ہونا چاہتے ،میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ھیں، ان کو اندازہ ہو گیا ہے میں ان کو بیمار کرنا چاہتا ہوں، میں ان کو سمجھا رہا ہوں، اس بیماری میں وہ لذت ہے جس کو پہلے کبھی نہ چکھا ہو گا ، مگر وہ بھروسہ نہیں کر رہے ہیں ، خدا بھی تو ایسی باتیں کرتا ہے ، خدا کا بھروسہ کر لیتے ہیں ، انسانوں کا نہیں ، وہ اب میری طرف بڑھ رہے ہیں ، ان کے چہرے آسیب زدہ محسوس ہو رہے ہیں ، میرے قتل کے درپے ہو گئے ہیں ، میں مرنا نہیں چاہتا ،میں مر گیا تو سب مر جائیں گے ، دنیا فنا ہو جائے گی ، میری آنکھیں بند ہو گئی ہیں ،میں کہتا تھا سب مر جائیں  گے ، سب مر گئے۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply