گھروندا ریت کا(قسط21)۔۔۔سلمیٰ اعوان

ماں کوئی گھنٹہ بھر سے وقفے وقفے سے اُسے آوازیں دئیے جا رہی تھی۔
”اُٹھ نا پُتر۔ تیرے انتظار میں کب سے بیٹھی ہوں تو ناشتہ کرے تو کسی اور کام میں لگوں۔ ابھی مجھے ہانڈی لینے بازار بھی جانا ہے۔ بار ہ بجے کھانا تیار نہ ہوا توظہیر نے آکر طوفان کھڑا کر دینا ہے۔“
یہ تھوڑی کہ وہ سور ہی تھی اور ماں کی پیار بھری پُکاروں سے انجان تھی۔ وہ تو ماں کے اُٹھنے سے بھی پہلے کی جاگی ہوئی تھی۔ پر وہ یہاں تھی کب؟ وہ تو آنکھیں بند کئے اُس دنیا میں گُم تھی جسے وہ بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ کبھی کبھی آنسوؤں کے قطرے گالوں سے بہتے ہوئے اُس کے ہونٹوں کے گوشوں کو چھُوتے تو وہ لبوں کو ذرا سا کھول کر اُنہیں پی جاتی۔ منہ میں نمک سا گھُل جاتا۔
وہ رات ہی لاہور پہنچی تھی۔ ماں، اُس کے دونوں چھوٹے بھائی اور گھر کے دوسرے افراد اُسے دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ اُس نے کوئی اطلاع نہیں دی تھی کسی خط میں اپنے آنے کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔
”کیسے چلی آئیں؟ خیریت تو ہے نا۔ ابھی تو تمہارا پرسوں خط ملا تھا تم نے اُس میں کچھ نہیں لکھا تھا۔“
ما ں نے قدرے حیرت سے کہا۔
”ماں آج کل یونیورسٹی میں ہنگامے ہور ہے ہیں۔ طلبہ نے کلاسوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ بے کار رہنے سے دل گھبرانے لگا تھا۔ میں بُہت اُداس ہو رہی تھی۔ بس سوچاکہ ایک چکر لگا لوں۔“
اُس کے بھائی نے کہا بھی۔
”اخبار اور ٹی وی پر تو ایسی کوئی خبر پڑھنے سُننے کو نہیں ملی۔“
”ہو سکتا ہے حکومت اُسے ہائی لائٹ نہ کرنا چاہتی ہو۔“
وہ پھر بول اُٹھا تھا۔
”تمہیں گھر بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔ آرام سے وہاں لائبریری میں وقت گذارتیں۔ پڑھتیں۔ انسان کو ایسا موقع ملے تو بھرپُور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔“
چھوٹا اِس بات پر پیچ وتاب کھا رہا تھا کہ خالی ہاتھ لٹکاتے آگئی ہے۔ چار پانچ بار وہ کہہ بیٹھا تھا اب پھر وہی بات اُ س کے ہونٹوں پر تھی۔
”تم کچھ لائیں بھی نہیں۔ وہاں کے کیلے اور انناس اتنے مشہور ہیں۔ ایک پھل کٹھل کے بارے میں بُہت سُنا ہے میں نے لکھا بھی تھا۔ کم ازکم اُسے ہی لے آتیں۔ دیکھ تو لیتے۔یہ ہوتا کیسا ہے؟“
اُسے سخت غُصہ آیا۔ تلملاتے ہوئے اپنے دل میں بولی۔

”دیکھو تو کمبخت کو کیسا ہابڑا پڑا ہوا ہے۔ کوئی پُوچھے مجھے کیلے اور انناس سُوجھتے تھے۔“
پھر وہ تنک کر بولی۔
”کمال ہے تم اپنے حواسوں میں تو ہو۔ پندرہ بیس کلو کا وزن اُٹھا کر یہاں لاتی اور چیرنے پر پتہ چلتا کہ پھل ابھی کچا ہے تو بتاؤ کتنا افسوس ہوتا؟“
چھوٹے کو اُس سے اِس درجہ کڑوے جواب کی اُمید نہیں تھی۔ اُسے مزید تپ چڑھی۔ جھلاّ کر بولا۔
”چلو تم کیلے ہی لے آتیں زیادہ نہ سہی۔ تھوڑے ہی ہوتے۔ خالی ہاتھ آنے کا فائدہ۔“
دونوں کو اپنے اپنے انداز میں اُس کے یوں چلے آنے پر سخت افسوس ہو رہا تھا۔
”کم بخت کہیں کے۔ اِنہیں کیلوں اور پڑھائی کی پڑی ہے۔ کوئی مجھ سے پُوچھے میں تو زندگی کی ہر بازی ہار آئی ہوں۔“
کیسا فور ی فیصلہ تھا جو آناً فاناً ہوا تھا جسے کرتے ہوئے اُس نے پل کے لئے بھی اپنے متعلق نہیں سوچا تھا۔ چار جوڑے کپڑوں کے بیگ میں ڈالے اور ایر پورٹ پہنچ گئی تھی۔چانس پر سیٹ مِل گئی اور وہ اُس دنیا سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر آگئی۔
پر اُس وقت گھر کے اُس چھوٹے سے کمرے میں بستر پر لیٹے ہوئے اُس نے باربار سوچا کہ وہ اب کیا کرے گی؟ لوگوں کو کیا بتائے گی کہ وہ ڈھاکہ سے کیوں چلی آئی؟ اُس کی روم میٹز، وارڈن، ہاؤس ٹیوسٹر اور پرووسٹ وغیر ہ کیا خیال کریں گی کہ بغیر بتائے میں کیوں یہاں چلی آئی؟اُس کے کلاس فیلو لڑکے اور لڑکیاں کتنے حیران ہوں گے؟ کتنی کہانیاں گردش کر یں گی؟ کیا کیا قیاس آرائیاں جنم لیں گی؟ مجھے اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کم ازکم ہاؤس ٹیوٹر آپا کو درخواست دینی ضروری تھی۔ ماں کی بیماری بہانہ بن سکتی تھی۔ باپ کانام لیا جاسکتا تھا۔ جب اُسے رحمان کا خیال آیا اُسے یوں محسوس ہو ا جیسے اُس کا اندر غم سے پھٹ کر ابھی باہر آجائے گا۔
ماں نے اِس بار جو آواز دی اُس میں قدرے ڈانٹ بھی تھی۔ وہ اُٹھ بیٹھی۔ کپڑوں کی سلوٹوں کو ہاتھوں سے ٹھیک کیا۔ ڈوپٹہ ڈھنگ سے اوڑھا اور باورچی خانے میں آئی۔ کچن جس کی دیواریں دھوئیں سے کالی ہوئی پڑی تھیں۔ سلور اور سستی چینی کے برتن باورچی خانے کے طول وعرض میں بکھرے تھے۔ چھوٹی سی پیڑھی پر بیٹھی ماں جس کی شلوار پر ہلدی اور چکنائی کے داغ دھبوں نے اُس کا اصل رنگ ہی بگاڑ ا ہوا تھا۔ فلاللین کی مہندی رنگی چادر میلی کچیٹ ہو رہی تھی۔ چھوٹی سی چوبی چوکی پر پلاسٹک کی پلیٹ میں تلا انڈا پڑا تھا۔
چُولہے کی لکڑیوں کے دھوئیں نے صُورت ہی بگاڑی ہوئی تھی۔ پہچاننے میں نہ آرہا تھا۔دیسی گھی سے چپڑی ہوئی روٹی کی شکل بھی عجیب سی تھی۔ یا اُسے عجیب لگ رہی تھی۔ تھوڑے سے وقت نے ہی سالوں کی شناسائی کو اجنبیت میں بدل دیا تھا۔دیگچی میں پڑی چائے کا رنگ سیاہ تھا۔اُسے ابکائی سی آئی۔ جی چاہا بھاگ جائے۔ پر کہاں بھاگے؟ بیٹھی۔ چائے پیالی میں اُنڈیلی اور گھونٹ گھونٹ پینے لگی۔ جب وہ خالی پیالی فرش پر رکھ رہی تھی۔ تب اُس نے اپنے آپ سے کہاتھا۔
”یہ سب کچھ وہی تو ہے جسے میں بچپن سے دیکھتی چلی آئی ہوں یہ سب میرا مقدر ہے۔ اُنہیں دیکھ کر ابکائیاں کیسی؟ چھ ماہ باہر رہ کرگویا میں اپنی اوقات ہی بھول گئی ہوں۔
ماں برابر کہے جارہی تھی۔ خالی پیٹ چائے نہیں پیتے بیٹے یہ نقصان دیتی ہے۔ پراٹھا بھی کھاؤ ساتھ۔ یہ انڈا میں نے تمہارے لئے بنایا ہے۔ اِسے بھی چکھو۔ ایسا انڈا تو تمہیں بہت پسند تھا۔
ماں کا یہ سارا رولا گولا اُسے زہر ہی نہیں لگ رہا تھا بلکہ اُس کا خون بھی جلا رہا تھا۔ برداشت کرنا مشکل ہوا جاتا تھا۔ بیٹھی صبر اورضبط کے کڑوے گھونٹ پیتی رہی اور اِس کوشش میں جُتی رہی کہ کوئی کڑوی اور تلخ بات منہ سے نہ نکل جائے۔
جب اُٹھنے لگی۔ ماں نے پھر کہاتھا۔
”تم بُھوکی ہو۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔“
اور اُس نے کمرے کی طرف بڑھتے بڑھتے رُک کر کہا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ بس میرا دل نہیں چاہ رہا تھا۔“
یہ کیسے اعصاب شکن دن تھے۔کس قدر خوفناک راتیں تھیں۔ سکون حرف غلط کی طرح مٹ چکا تھا۔ نیندیں اُڑ چکی تھیں۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر بیٹھتی۔ جی چاہتا خودکشی کرلے۔ کبھی اپنے آپ سے کہتی۔
”پاگل پن اور حماقت کی بھی حد کر دی میں نے۔ چُنّی اوڑھی اور چلی آئی۔ وہ بیگم صا حبہ اپنے گھر میں ٹھاٹ سے سوتی ہوگی اور میں یہاں اُس مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہوں جسے کوئی ظالم پانی سے نکال کر کنارے پر پھینک دے۔“
”بھلا کیوں نہ ملتی میں اُس کے شوہر سے۔ کوئی لالچ تھا مجھے اُس سے۔“
غُصّے کا پارہ اُوپر ہی اُوپر چڑھتا چلا جاتا۔ پر جلدی نیچے بھی آجاتا۔
”میں نہیں جانتی میں نے اچھا کیا یا بُرا۔ یا اللہ مجھے سکون دے۔ اِس جان کنی کے عذاب سے نجات دے۔ جس دلدل میں گردن تک دھنس گئی ہے اِس سے نکال۔“
ذ ہنی انتشار نے اُس کا چمکتا دمکتا رنگ دُھند لا کر رکھ دیا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں قبرستانوں جیسی ویرانیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ سارا دن وہ گھر کے کسی کونے کھدرے میں گھُسی کتاب آگے رکھے سوچوں میں ڈوبی رہتی۔ اُلجھنوں میں کھوئی رہتی۔ وہ اُلجھنیں جن کے حل کا کوئی سرا اُس کے ہاتھ نہ آتا۔
ماں اکثر کہتی۔
”اتنی محنت نہ کرکہ صحت کا ہی ناس ہوجائے۔ دیکھو تو رنگ کیسا گہنا گیا ہے۔ سارا سارا دن اور آدھی آدھی رات تک کتابوں سے کھپو گی تو یہی حال ہوگا۔
وہ جب باہر نکل کر اُس کی کسی خالہ یا ممانی سے جب یہ کہتی اللہ ماری کیسی ظالم پڑھائیاں ہیں۔ بندے کو نچوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ ارے میری اتنی خوبصورت اور پیاری بیٹی کیسے جھُلس گئی ہے؟
اور یہ سب سن کر اُ س کا جی اپنے آپ کو ذبح کر لینے کو چاہتا۔ رات کو جب وہ پاؤ بھر دودھ سے بھرا چھوٹا سا گلاس لے کر اُس کے پاس آتی تو اُس کا دل اور بھی لہولہان ہوتا۔
ڈھیر سارے دن گذر گئے تھے۔ ایک دن وہ اپنے آپ سے بولی۔
”اللہ میرا کیا بنے گا؟یوں میں کب تک ہلکان ہوتی رہوں گی۔ بہن بھائی ڈگریوں کے پلندے لے کر آجائیں گے۔ اُونچی جگہوں پرپوسٹ ہوں گے اور میں یونہی بیچ میں ہی لٹکتی رہ جاؤں گی۔ یونیورسٹی جاؤں۔ کچھ بھاگ ڈور کروں شاید امیگریشن کا کچھ سلسلہ ہو جائے۔ مجھے تو شرم آتی ہے جب گھر میں کوئی پوچھتا ہے کہ تم نے کب واپس جانا ہے؟
اِس اُدھیڑبن میں بھی کتنے دن گذر گئے۔ ایک دن ہمت کر کے گھر سے نکلی۔ سامنے والے سڑک پر آئی۔اُس نے تو یونہی نگاہیں اٹھا کر اپنے سامنے اور دائیں بائیں دیکھا تھا۔ سارا ماحول جیسے ایکا ایکی کسی زلزلے کی زد میں آکر ڈولنے لگاتھا۔محسوس ہوا جیسے وہ چکرا کر بیچ سڑک پر گر جائے گی۔ اب بھلا ایسا کیوں نہ ہوتا؟
لاہور ڈھاکہ بن گیاتھا۔سڑک کے پرلی طرف سرمئی گاڑی میں بیٹھا وہ اُسے دیکھ رہا تھا۔
یہ بصارت کا دھوکہ ہے۔ہیلوسینیشن Hallucination کی کوئی کیفیت وارد ہوئی ہے۔پل بھر کے لئے اُس نے سوچا۔
”نہیں۔ نہیں۔“ اُس کا مُو مُو چلاّیا۔اُس کا دل سینے میں زور سے پھڑپھرایا۔اُس کا غذکے کسی بدقسمت ٹکڑے کی طرح جو اُڑ کر برقی پنکھے کی زد میں آجائے اور پھڑپھڑاتے ہوئے اپنی موت کا اعلان کرے۔
یہ یہاں کیسے؟ڈوبتے دل سے یہ سوال اُبھر کر خاموش ہونٹوں پر آیا تھا۔
”اُف۔ گندی مندی غلیظ گلیاں۔ اُن میں بکھرا نچلے متوسط طبقے کا سارا ماحول اُس کے پس منظر کا پُورا پول کھول رہاتھا۔ اُسے سب کچھ معلوم ہوگیا وہ سب کچھ جان گیا۔
اُس کا کلیجہ کٹنے لگا۔ خجالت اور شرمندگی کا غازہ پیشانی پر چمکنے لگا تھا۔اور پھر اُس کے پریشان دماغ میں ایک خیال نے نشتر لگایا۔ یوں بیچ سڑک کھڑی ہوں۔ کسی نے دیکھ لیا تو افسانے بنتے دیر کتنی لگتی ہے؟
قدم جو زمین سے چپک گئے تھے۔اُن میں حرکت ہوئی۔ آنکھیں جو ایک ہی سمت ٹکی ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے خوف سے دائیں بائیں دیکھا۔ سامنے مونگ پھلی، ریوڑیاں اور ٹافیاں گولیاں بیچتا ایک معمر آدمی دو تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو سودا دے رہا تھا۔ دودھ دہی کی دوکان والا بھی گاہکوں میں اُلجھا ہوا تھا۔ لوگ آجارہے تھے۔
پھر اُس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے سیدھا چلنا شروع کر دیا۔ یہ محض اتفاق ہی تھا کہ یہ سڑک کچھ آگے جا کر مین روڈسے مل جاتی تھی۔ اُس کے قدموں میں ایسی تیزی تھی اور وہ اِس رفتار سے یوں اُٹھ رہے تھے جیسے تعاقب میں چور ڈاکو اور بدمعاش ہوں۔
وہ چلتی جا رہی تھی۔ تیز تیز گھر کی حدُود سے دُو ر جانے والوں کی نظروں کی پہنچ سے دُور بہت دُور نکل جانا چاہتی تھی۔
اورگھر سے خاصے فاصلے پر واقع بس اسٹاپ پر ٹھہر کر اُس نے گہرے دُکھ اور یاس سے لبریز ایک نظر اپنے آپ پر ڈالی اور خود سے بولی۔
”یہ میں ہوں ایک میجر کی بیٹی جو ابھی غلیظ اور متعفّن گلیوں کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ اپنے پیچھے چھوڑ کر آئی ہے۔ کَس کر گوندھے ہوئے بال اور موٹی ململ کا ڈوپٹہ جس نے میرے آدھے سر اور آدھے جسم کو اچھی طرح ڈھانپا ہوا ہے میرے فیشن کی پوری داستان کہہ گیا ہوگا۔“
”خدایا میری پریشانیاں پہلے کیا کم تھیں جو اِن میں مزید اضافے کے لئے یہ شخص آگیا ہے۔ جی چاہتا ہے زمین شق ہوجائے اور میں اِس میں سما جاؤں۔ کہیں دور بھاگ جاؤں۔“
پر نہ زمین شق ہوئی کہ وہ اِس میں سما جاتی اور نہ ہی وہ کہیں بھاگی کہ اُس کی نظروں سے بچ جاتی۔
سرمئی مزدااُس کے قریب آکر رُک گئی۔ دروازہ کھُلا اور زمین میں غرق ہونے کی بجائے وہ ندامتوں اور شرمندگیوں سے لُتھڑے چہرے کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
انٹرنیشنل کے عالیشان آراستہ پیراستہ کمرے میں وہ صوفے پر خاموش بیٹھی تھی۔ قریب ہی بیڈ پر وہ نیم دراز چھت کو دیکھتا تھا۔ اُس نے دزُدیدہ نظروں سے اُسے دیکھا۔ وہ بڑانڈھال اور پریشان نظر آرہا تھا۔ صحت بھی پہلے جیسی نہ تھی۔ چہرہ اُترا ہوا اور زرد زرد سا تھا۔
کتنی خاموش ساعتوں کے بعد اُس نے اُسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور اُس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے بولا۔
”تم کیسے چلی آئی تھیں؟ کیا تمہیں مجھے بتانا نہیں چاہیے تھا؟“
اُ س کی آواز میں جو دلی کرب اور غم کی آمیزش تھی۔ اُس نے اُس کی آنکھوں کو بھگودیا تھا۔ وہ محبت سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتا رہا تھا۔ کانوں کے پاس بالوں کی بکھری ہوئی لٹوں کو سنوارتا رہا۔اُس کی موٹی موٹی مضبوط اُنگلیاں کس کر گوندھی ہوئی چوٹی کی لمبائی کا جائزہ لیتی رہیں اور وہ اُس کے بالوں سے پُر سینے پر سر رکھے اُ س بچے کی طرح خاموش آنکھیں بند کئے پڑی رہی، روتی رہی جوچند دنوں کی جدائی کے بعد ماں سے ملا ہواور جدائی کے دنوں کا کرب اُس کے وجود کے لَمس سے زائل کر رہا ہو۔
اور باہر وقت دھیرے دھیرے گذرتا رہا۔
دیر بعد اُ س کی آواز پھر اُس کے کانوں سے ٹکرائی۔
”طاہرہ نے تمہارے ساتھ کچھ زیادتی تو نہیں کی۔ نجمی اُسے معاف کر دینا کیونکہ وہ اب اِس دنیا میں نہیں۔“
جس سرعت اور تیری سے تیر کمان سے نکلتا ہے اِسی انداز میں اُس کا سر اُس کے سینے سے اُٹھا تھا۔ اُس کی آنکھوں کا پھٹاؤ حیران کن حد تک تھا۔ اُس کے لب پھڑپھرائے پر اُن سے کچھ بولا نہ گیا۔
اُ س نے اُس کی مشکل کو سمجھااور بڑی دلگیر سی آواز میں بولا۔
”ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ پہلا حملہ ہی جان لیوا ثابت ہوا۔“
تب بمشکل وہ بولی۔
”کب۔“
”آج بارہ دن ہوگئے ہیں۔“
اُس کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے تھے۔ جنہیں صاف کرتے ہوئے وہ غم سے بوجھل آواز میں اُسے تفصیل بتا تا رہا۔
ایک کانٹا سا اُس کے دل میں چُبھا۔ جب یہ سوچ اُ س کے دماغ میں آئی۔
”کہیں میری وجہ سے یہ سب نہ ہوا ہو۔“
اِس سے زیادہ سوچنا اُس جیسی حساس لڑکی کے بس کی بات نہ تھی۔ ڈوبتے لہجے میں وہ اپنے اِس خیال کا اظہار بھی کر بیٹھی۔
”ارے نہیں پگلی۔ اپنے ذہن کو اِن بے کار اندیشوں سے مت گھائل کرو۔ طاہرہ بڑے دھڑلّے والی بیوی تھی۔ وہ ایسی چھوٹی موٹی باتوں کو کب خاطر میں لاتی تھی؟
زندگی کا ہنٹرحیات پر اِس انداز میں برس سکتا ہے کبھی سوچا نہ تھا۔ ساحلوں کی خوشگوار اور لطیف ہواؤں میں دنوں کو گذارتے ہوئے سمندر کے پانیوں کا طوفان کی صورت اُمنڈ پڑنے کا زبانی کلامی ذکرتو ہوتا ہے۔ پر ایک دن اِس میں اُٹھتا طوفان آپ کے گھروندے کوخس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا یہ شاید گمان میں نہیں ہوتا۔ طاہر ہ نے گھر میں جنگ وجدل کا بازار گرم کیا۔ بہتا ن طرازی میں حسبِ معمول انتہا تک پہنچی۔ اپنے مزاج کے مطابق چُپ کا ہتھیار تھا میرے پاس۔ کیا اُس نے سٹریس لیا؟ میں نہیں جانتا۔ گھر کی فضا معمول پر تھی۔ میں البتہ خاموش تھا۔ میری خاموشی کی اُسے بھلا کب پروا ہ تھی؟شاید یہ میری سوچ ہو۔ پر وہ اِس انتہا تک کیوں چلی گئی؟ اُسے کیا خوف تھا؟ یہ وہ ڈھیروں ڈھیر سوالات تھے جو اُس کے سامنے اُٹھتے تھے۔جن کے جواب بھی اُسے نہیں ملتے تھے۔“
اِس لڑکی کے ساتھ تعلق اتنا گہرا کیسے ہوگیا؟ کچھ اِس کی سمجھ بھی نہیں آئی۔
سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ تقدیرکو جو وہ چاہتی ہے کرنے دو۔اب اِس لڑکی کو تو واپس لے جانا ضروری تھا۔ ایک تو ڈھاکہ تاریکی اور اُداسی میں میں لپٹا ہوا۔ اب چھوٹی سی روشنی کی ایک لَو کو بھی بُجھا دوں۔
”یہ تو میرے لئے ممکن نہیں۔“

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply