راز پر لب کشائی۔۔۔خط نمبر 11 اور 12۔۔۔ڈاکٹر خالد سہیل/مقدس مجید

معزز قارئین!
“Sharing  the  Secret”
بچپن میں جنسی زیادتی کی شکار خاتون جیمی اور ان کے تھراپسٹ ڈاکٹر سہیل کے مکالمے پر مبنی کتاب ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹرخالد سہیل نے اس کتاب کے ترجمے کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ اس کے ہر باب سے میں بچپن میں زیادتی کے شکار لوگوں کی نفسیات اور تھراپی کے حوالے سے گہری اور دلچسپ معلومات حاصل کر سکی۔ چند باب آپ کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہوں گی!)  مقدس مجید
 خط نمبر  ۔۔۔11
ترقی کی راہ ہموارنہیں ہوتی
محترمی جیمی!
مجھے یاد ہے جب کچھ قوانین کی خلاف ورزی پر مریضوں کو سائیکو تھراپی یونٹ سے خارج کر کے آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ (Outpatient Department) میں فالو اپ کے لیے میرے پاس بھیجا جاتا تھا۔ سائیکو تھراپی یونٹ کے عملے کو علم تھا کہ مجھے شخصیت کی کجی کے مسائل (Personality Problems) کا سامنا کرتے مریضوں کی مدد کرنا پسند تھا۔
عزیزی جیمی!
مجھے اندازہ ہے کہ آپ زندگی کے ایک کٹھن مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وقتی طور پر آپ کے قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں کیونکہ  آپ کے بچے گھر چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں اور آپ لوگ  اپنے گھر کو بیچ کر ایک نیا گھر خریدنے کا سوچ رہے ہیں اور ڈائنامک تھراپی اپنانے کی وجہ سے آپ کا  پرانی تکلیف دہ یادوں سے بھی سامنا ہو رہا ہے۔
اس مرحلے پر میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ یہ تنزلی وقتی ہے۔ گزشتہ سالوں میں آپ خود کو سنبھالنے اور سہارا دینے والی بہت سی باتوں سے واقف ہو چکی ہیں تاکہ آپ خود کو نقصان پہنچانے والے خیالات سے خود کو سنبھال سکیں اور ان پر عمل پیرا نہ ہوں۔ ڈائنامک تھراپی کی بدولت جیسے جیسے آپ کامیابی سے اپنی پرانی الجھنوں کو سلجھاتی ہیں  آپ اتنا ہی مضبوط محسوس کرنے لگتی ہیں۔ کیا آپ نہیں جانتیں کہ جو ہمیں مار نہ دے وہ مضبوط ہی تو بناتا ہے!
 اپنے گزشتہ کئی سالوں کے بطورِ ماہرِ نفسیات کے تجربے نے مجھے یہ سبق پڑھایا ہے کہ ترقی کی راہ سیدھی اور ہموار نہیں ہوتی۔ تین قدم آگے تو ایک قدم پیچھے لیکن پھر بھی جہاں سے آپ نے آغاز کیا تھا آپ اس جگہ سے تو بہت بہتر مقام پر ہی ہوتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں میں نے آپ کو بطور شفیق ماں اور ایک تخلیقی لکھاری آگے بڑھتے دیکھا ہے۔ آپ اب ایک مضبوط انسان ہیں اور اپنی روزمرہ زندگی اور خاندانی مسائل سے پر امن اور باوقار طریقے سے نمٹ سکتی ہیں۔
گزشتہ پانچ سالوں میں میں نے آپ کو اپنے بیٹے کی تخلیقی صلاحیتوں اور موسیقی میں بہت سا وقت، پیسہ اور محنت صرف کرتے دیکھا ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں خود کو مصروف رکھیں تاکہ جب آپ کا بیٹا گھر سے دور جائے

اس وقت آپ کے پاس اپنے تخلیقی کام ہوں جن میں آپ مصروف رہ سکیں ورنہ آپ جدائی کی وجہ سے بےچینی اور ڈپریشن کی شکار ہو سکتی ہیں۔ میں آپ کو ذہنی طور پر اپنے بالغ  بچوں سے دور رہنے کے لیے تیار کرنے میں مدد کرنا چاہوں گا۔ یہ خطوط کا تبادلہ اسی سمت میں ایک قدم ہے۔
میں سائیکو تھراپی یونٹ میں آپ کے قیام کے متعلق جاننا چاہوں گا۔ آپ نے کتنا عرصہ قیام کیا اور وہاں کیا کچھ سیکھنے کو ملا؟
میں ان خطوط کے تبادلے سے آپ سے متاثر بھی ہوں کہ کس طرح آپ اپنے ماضی کی کہانی کو بیان کر رہی ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ وہ کہانی ہے جو بہت سے قارئین کو متاثر کرے گی بالخصوص نوجوان خواتین کو۔
مخلص۔۔۔۔ڈاکٹر سہیل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خط نمبر12
الجھا ہوا ذہن
عزیز ڈاکٹر سہیل!
اس ہفتے میں میں نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ میرا ڈپریشن قابو میں رہا۔ گزشتہ سالوں میں میں نے یہ سیکھا ہے کہ ڈپریشن کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے یوں آپ خود بخود بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ میں نے موڈ اسٹیبلائزر کا استعمال بھی جاری رکھا۔
میں یہ سمجھتی ہوں کہ میرا ذہن الجھا ہوا ہے کیونکہ میرے موڈ بار بار بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ٹھیک ہو جاتی ہوں تو کبھی ڈپریشن ہونے لگتا ہے۔ مجھے میرے بیٹے کے میوزک کریئر کے حوالے سے ایک اچھی خبر سننے کو ملی۔ امید ہے کہ یہ چیز  اس کے میوزک کریئر کے مستقبل کے لیے خوش آئند ثابت ہو گی۔ میرے سسرال والے ہم سے ملنے آئے اور گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے رہے تاکہ اس کو بیچنے کے لیے مزید بہتر بنایا جا سکے۔ ہم نے مل کر روغن وغیرہ کے ساتھ باقی چھوٹے موٹے کام کیے جس سے میرا کچھ بوجھ کم ہوا۔ میری بیٹی کو ملازمت تلاش کرنے میں کچھ مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی سولہ سال پرانی سہیلی نے اچانک سے دوستی ختم کر دی۔ میں اس کے متعلق فکرمند ہوں اور بہت سا وقت اس سے بات کرنے اور اس کو حوصلہ دینے میں صرف کرتی ہوں۔  میں چاہتی ہوں کہ اس کو یہ احساس دلا سکوں کہ میں ہمیشہ اس کے ساتھ ہوں۔ میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی یہ محسوس کرے کہ وہ اپنے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بالکل اکیلی ہے جیسا کہ اس کی عمر میں مجھے محسوس ہوتا تھا۔ میں اپنی تمام تر توجہ اس کو دے رہی ہوں اور یوں ظاہر کر رہی ہوں جیسے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ٹھیک نہیں ہوں۔ میں الجھی ہوئی ہوں اور میرے مزاج تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔ میں ذہنی طور پر حاضر بھی ہوتی ہوں اور کوئی دھند بھی چھائی رہتی ہے۔ مجھے اس الجھے ذہن کی کیفیت میں مبتلا رہنے سے نفرت ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل
میرے دونوں بچوں نے کہا کہ میں اور ان کے والد ان کے گھر سے دور جانے کی خواہش کی وجہ ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے۔ میں اس سب سے بے تحاشہ پریشان ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے انھیں مایوس کر دیا ہو۔ میں نے بہت کوشش کی تھی کہ اپنے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنا سکوں تاکہ میرے بچے ایک محفوظ ماحول میں نشونما پا سکیں۔ مگر میں اس سب میں بری طرح ناکام ہو گئی۔ اگر انھوں نے کہا ہوتا کہ وہ اپنی آزادی کے لیے گھر سے دور رہنا چاہتے ہیں تو میں یہ وجہ سمجھ سکتی تھی لیکن انھوں نے اس کا ذمہ دار میرے انوکھے مزاج اور اپنے والد کے رویے کو ٹھہرایا۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ان کی دیکھ بھال میں صرف کر دیا اور اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ انھیں اس سب کی کوئی پروا نہیں۔ میں انھیں سب کچھ دینا چاہتی تھی لیکن کچھ بھی ان کے لیے کافی نہ تھا۔ میرا وجود بھی ان کے لیے ناکافی تھا۔ مجھے اب ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
جب میں سائیکو تھراپی پروگرام کے لیے گئی اس وقت میں تنہا، بے چین، پریشان اور بے وقعت محسوس کرتی تھی۔ میں صرف چھبیس سال کی تھی اور زندگی کی تلخیوں کے آگے ہار مان رہی تھی۔ یہ میرا آخری موقع تھا۔ جب میں اپنی تھراپسٹ کیتھی سے ملی اس وقت میں کسی پر بھی بھروسا کرنے اور اپنی باتیں بیان کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ کیتھی اچھی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل، ایک نرم مزاج اور خیال رکھنے والی خاتون تھیں۔ ان کی آنکھوں میں دوسروں کے لیے ہمدردی کے احساس کی چمک تھی۔ جب انھوں نے مجھ سے کہا کہ ” ہم آپ کی مدد کے لیے یہاں پر موجود ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں اور تعاون کریں تو میں آپ کی مدد کرنا چاہوں گی!” تو میں نے یقین کر لیا۔ میں چاہتی تھی کہ وہ میرا خیال رکھیں۔ چاہتی تھی کہ وہ میری مدد کریں۔ پہلی مرتبہ میری زندگی میں کوئی امید کی کرن دکھائی دی تھی۔ میری تھراپی کیتھی اور ان  کی رفیق کار بیتھ کے لیے کوئی آسان کام نہیں تھی۔ سائیکو تھراپی پروگرام میں میرے گزارے گئے نو مہینوں کے بارے میں بتانے کو بہت کچھ ہے لیکن میں اس اگلے خط کے لیے بچا کر رکھوں گی۔
مخلص
جیمی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply