اور میں نم دیدہ نم دیدہ (15)-ابوبکر قدوسی

گاڑی تیزی سے مکہ کی طرف چلی جا رہی تھی اور میرے دل کے زخم سب میرے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ طائف کے مضافات سے نکلے تو بھوک ستانا شروع ہو گئی ابو الحسن نے “الطازج” کے سامنے گاڑی روکی اور کھانے کا بولا ۔ اس دوران ہم کچھ انتظار کرتے رہے کچھ دیر میں کھانا آگیا ۔ کھانا کیا تھا وہی جو ہمارے نوجوان معتمرین کا معمول ہوتا ہے ۔ “الطازج” کا بروسٹ البیک سے ذائقے میں کچھ بہتر ہوتا ہے ۔ میں اپنی صحت کے مسائل کے سبب تلی ہوئی چیزیں کم کھاتا ہوں لیکن
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
سو اس “فتویٰ طعام ” کے تحت اور کچھ بھوک کے سبب میں نے بھی بروسٹ کھا لیا ، اچھا ، عمدہ ذائقہ تھا ۔ طازج ، سعودی عرب کا ایک بڑا برینڈ ہے جو خاصا پسند کیا جاتا ہے لیکن البیک کا ، جیسے میں پہلے بتا چکا ، کہ اس لیے بھی زیادہ پسندیدہ ہے کہ اس کی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے اور جب انسان سفر میں ہوتا ہے تو اس کے دماغ کا کیلکولیٹر ہر وقت چل رہا ہوتا ہے ۔ چلتے چلتے گاڑی میں ہی ہم نے کھانا کھایا کہ جی چاہ رہا تھا کہ اب جلدی جائے استقرار پر پہنچا جائے ۔ یہ گھر بھی عجب شے ہوتا ہے وہ افتخار عارف نے کہا ہے نا :
میرے خدا ! مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اسے گھر کر دے
سفر میں اپنا “ووکو ہوٹل” بھی ہمیں اپنے گھر کے سمان لگ رہا تھا اور جی چاہ رہا تھا کہ اب ہوٹل پہنچ کے کچھ آرام کیا جائے ۔ ابو الحسن 120 کی رفتار پر گاڑی چلا رہے تھے ، جو یہاں کی مقررہ رفتار ہے ۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ برسوں پہلے صدام دور حکومت میں میں عراقی حکومت کی دعوت پر ایک وفد کا حصہ بن کر عراق گیا تھا ۔ یہ عراق پر امریکی حملے سے ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے ، عراق کے لیے پروازیں بند ہو چکی تھی اس دورے میں خوبصورت بغداد میں سرکاری گاڑی والا ایک سو پچاس کی رفتار پر ایک ہائی وے پر لمبا دائرہ عبور کر رہا تھا اور اس لمبے موڑ پر بھی اس نے رفتار کم نہ کی ، میری سچ میں ٹانگیں کانپ رہی تھی ، تب ہمارے پاکستان میں بیشتر سڑکیں اکہری ہوتی تھی یعنی ایک ہی سڑک پر ٹریفک آ بھی رہی ہے اور جا بھی رہی ہے ۔
یعنی شہادت مطلوب و مقصود مومن کا منظر کسی وقت بھی ہو سکتا تھا ۔ ایسے میں اس رفتار پر گاڑی چلانا خاصا مشکل ہوتا تھا جس پر اب ہم خود چلاتے ہیں ۔ میں نے ڈرائیور کو جب کہا کہ “ذرا آہستہ گاڑی چلائیں ،آپ بہت تیز چلا رہے ہیں” تو اس نے کہا کہ “کیا آپ کے پاکستان میں سڑکیں نہیں ہوتی” میں کچھ ہنس دیا ، کہا :
،” سڑکیں ہوتی تو ہیں لیکن ایسی شاندار نہیں ہوتی”
اندازہ کیجئے تب پاکستان میں پہلی موٹروے نہیں بنی تھی اور ہمیں موٹروے نام کی کسی شے کا پتہ نہیں تھا ۔ یہ میاں نواز شریف کا بہرحال کارنامہ ہے انہوں نے پاکستان میں موٹروے کا عمدہ سلسلہ شروع کیا جو بلاشبہ وقت کی ضرورت بھی تھی لیکن تب تک ہم ایسی اس سڑکوں سے کسی حد تک نا آشنا تھے ۔ سعودی عرب میں بھی کچھ عرصہ پہلے تک گاڑیاں کافی تیز چلائی جاتی تھی لیکن جرمانوں کی رقم کے بہت بڑھا دینے کے بعد اب سب اپنے حدود میں آگئے ہیں ۔
کچھ ہی دیر میں عزت والے شہر مکہ کے مضافات دکھائی دینے لگے ۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس روز جب ہمارے رسول کو مکہ کے یہ پہاڑ دکھائی دیے ہوں گے تو دل پر دکھ اور سکون بیک وقت نازل ہوئے ہوں گے ۔ سکون اس بات کا کہ جائے قرار کو پہنچے ، مونس اضطراب و اضطرار سیدہ خدیجہ کے شہر کو پہنچے ۔ اور دکھ اس بات کا کہ جھولی بھر کے ہدایت کا خزانہ جن کے واسطے لے کر گئے انہوں نے وہ لینے سے انکار ہی نہ کیا بلکہ برا سلوک کیا ۔
ہماری گاڑی مکہ شہر میں داخل ہو رہی تھی اور مکہ کی نشانی یعنی کلاک ٹاور دور سے چمکتا ہوا نظر آ رہا تھا یوں کہ جیسے ہمارے سر پہ ہے ۔ چار دن پہلے جب ہم مکہ آئے تھے تو وہ دن کا وقت تھا ، اب رات کا وقت تھا اور اندھیرا چھا چکا تھا ۔ اس اندھیرے میں کلاک ٹاور اور اس پر لکھی آیات قرآنی اور اس کا گھڑیال پورے طور پر چمک رہا تھا اور اس کی گھڑی وقت کے گزرنے کا اعلان کر رہی تھی ۔ کہ جیسے کہہ رہی ہو :
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ
قیامت قریب آگئی ، اور ہم کس دنیا سے جی لگائے ہوئے ہیں ۔۔۔
ہم سیدھا اپنے ہوٹل پہنچے ۔ ابو الحسن کے ساتھ بچے بھی تھے اور وہ بھی تھک چکے تھے ، سو وہ ہمیں ہوٹل کے دروازے پر چھوڑ کر جدہ کے لیے رخصت ہوئے اور ہم اپنے کمرے میں پہنچے ، جہاں سفید اجلے ، اور صاف ستھرے نرم بستر ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ کچھ دیر آرام کیا اور پھر حرم کی طرف چل دیے ۔
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
اب کے تین دن حرم میں گزار چکے تھے سو سیدھے صحن میں پہنچے اور طواف شروع کیا ۔ میری اہلیہ نے طائف سے نکلتے وقت میقات پر عمرے کی نیت نہ کی تھی ، اس سبب تو صحن میں بیٹھی رہیں اور میں بنا کسی “ذمہ داری” کے اکیلا ہی طواف کر رہا تھا ۔ حجر اسود سے طواف شروع کیا اور پچھلی بار کی طرح اس بار بھی میں کندھا ننگا کرنا بھول گیا
تجھے بھی میں تیری یادوں میں کھو کر بھول جاتا ہوں
لیکن ابھی پہلا ہی چکر تھا کہ ایک مہربان حاجی نے اس بار پھر کاندھا تھپتھپا کے پوچھا :
” عمرہ کر رہے ہیں ؟ ”
کوئی فیصل آبادی ہوتا تو ممکن ہے کہہ دیتا
” نئی ایویں ای چکر لانا پیا آں ”
لیکن میں نے کہا “جی” تو اس نے کہا :
‘ کندھا ننگا کر لیجئے” ۔
یقیناً یہ ان صاحب کا میرے اوپر احسان تھا کہ میری غلطی کو درست کیا ۔ اس بار چونکہ میں تنہا تھا سو طواف کی بھی وہی صورت بنی کہ میں صحنِ حرم میں اکیلا ہو گیا اور دل کی کیفیت کی یہ ہوئی کہ :
اب کے برس ہم گلشن والے اپنا حصہ پورا لیں گے
پھولوں کو تقسیم کریں گے کانٹوں کو تقسیم کریں گے
ناز تھا کہ خالی ہاتھ اب نہیں جانا ، بھلے دے یا دھتکار دے ، تیرے در پر فقیر آیا ہے ۔ برسوں گزرے اورنگزیب کے گورنر سرفراز خان کی بنی مسجد کی محراب میں کھڑا ایک فقیر بے نوا احسان الہی ظہیر رات کے اندھیرے میں رو رو کے دعا کر رہا تھا تو ایک عجیب جملہ اس نے بولا تھا . میں کہ اس کے قدموں میں بیٹھا ہوا اور آج بھی یہ لکھتے ہوئے وہیں بیٹھا ہوا ہوں کہ اس نے کہا تھا کہ :
“اللہ ہم تو تمہارے سوا کسی اور سے مانگ بھی نہیں سکتے”
زبان پر مناجات تھیں ، دوستوں کے لیے دعائیں اور اپنے لیے التجائیں تھیں ۔ پچھلی بار یوں تھا کہ ہجوم اور اژدہام کے سبب میں نے اپنی اہلیہ اور بیٹی کو اپنے بازوں میں بھر کے آگے رکھا ہوا تھا کہ دوسرے مرد ان سے نہ ٹکرائیں ۔
لیکن اب کے میں تنہا تھا اور جی چاہ رہا تھا اس تنہائی کو اپنے اندر پورے طور پر اتار لوں کہ مجذوب نے کہا تھا :
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
اب تو آ جا ، اب تو آ جا نا ، اب تو خلوت ہو گئی ، کی تکرار تھی اور دل جیسے اس کے حضور جھکا ہو ، ساتھ ساتھ میں ضد پر اترا ۔۔ اب تو آ جا ۔۔۔۔ اب تو آ جا ۔۔۔۔
طواف کے بیچ میں دل کی تاروں کو چھیڑتے وہ یار بھی یاد آئے کہ جن کو دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں ۔ یہ میرے ہندوستان کے دوست ہیں ۔ ترقی کے سامان نے جہاں بہت سی خرابیاں پیدا کیں ، وہیں کچھ فائدے بھی ہوئے اور مجھ سے کوئی پوچھے کہ آپ کو سب سے بڑا فائدہ کیا ہوا ؟
تو میں یہ کہوں گا کہ:
” میرے یہ ماں جائے مجھے مل گئے ”
کس کس کا نام لوں ، مجھے طواف کے بیچ میں سارے یاد آ رہے تھے ۔ میں دوستوں کو کہا کرتا ہوں اور آج آپ کو اس بات میں شریک کر رہا ہوں کہ حرم کی برکات میں سے ایک معاملہ یہ ہے کہ جب آپ دعا کرنا شروع کرتے ہیں تو آپ ہی آپ وہ دوست بھی یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ جن سے معمول میں گہرا تعلق نہیں ہوتا اور کبھی کبھار ملاقات ہوتی ہے ۔
اور جن سے دل کا تعلق ہوتا ہے وہ تو اپنی تمام تر محبتوں سمیت سر پر آ کر سوار ہو جاتے ہیں ، گلے کا ہار ہو جاتے ہیں اور سچ بات کہوں تو جی کا قرار بھی ہو جاتے ہیں ۔
ایسے جیسے سامنے کھڑے ہو کے جھگڑ رہے ہوتے ہیں ، طعن کر رہے ہوتے ہیں ۔
اوئے بخیل انسان! تو اپنے لیے مانگے جا رہا ہے ، اکیلا اپنے لیے مانگ رہا ہے ؟؟؟ ۔ کیسا بخیل انسان ہے تو۔۔۔ ہٹ ، دوستی اور محبتوں کی باتیں کرتا ہے ۔
پھر بندہ کیا کرے؟
انسان ایسی محبتوں کے لیے اپنے سے بڑھ کے مانگتا ہے ، ابھی شاید دوسرا یا تیسرا چکر ہوگا میں اپنے لیے دعائیں کر رہا تھا اپنے بچوں کے لیے دعائیں کر رہا تھا ، یہ سارے ایک دم سے میری دعاؤں میں آ کے کود گئے ۔
کُودا تیرے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا
جو کام کیا ہم نے وہ رُستم سے نہ ہو گا
ایک کے بعد یہ میرے ہندوستانی دوست تھے .ایک چلا آ رہا ہے ، اس کے پیچھے دوسرا چلا آ رہا ہے ۔ یہ کاشف شکیل آ رہا ہے ، یہ میرے بزرگ ابو القاسم آ رہے ہیں ، وہ رشید ودود ابو اشعر یہ عزیر وہ خبیب ، ممتاز ، مکرم ، نادر ، عبدالقدیر ۔۔۔۔۔۔۔ کس کس کا نام لوں سب چلے آ رہے ہیں ۔ پھر میں نے ان کے لیے دعائیں کرنا شروع کی ۔ یہ میرے ماں جائے جو تھے دھرتی ماں کے ناتے سے ۔۔۔
پھر اس تنہائی سے فائدہ اٹھاتا ہوا میں آگے بڑھتا چلا گیا ۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اسے چھو لوں اس کے پاس جاؤں اتنا پاس جاؤں کہ فاصلے مٹ جائیں ۔ تنہائی ہمیشہ عذاب نہیں ہوتی کبھی کبھی یہ بچھڑا ہوا خواب بھی ہوتی ہے جو آ کے گلے ملتی ہے اور سب حجاب کھل جاتے ہیں ، سب عذاب کٹ جاتے ہیں ۔
بہار آئی تو جیسے یک بار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
میں تنہا ، چلتا چلتا ، چلتا چلتا آگے بڑھا ۔ بیت اللہ کی دیوار کو چھو لیا ۔۔۔ چھوا ، پیچھے ہٹ گیا ۔ دعائیں سسکیوں اور آہوں میں بدل چکی تھی جیسے قبولیت کا یقین لیے اور آنسو خوشی کے آنسوؤں میں ڈھل چکے تھے ۔ تنہائی جیسے وصل سے ہم کنار ہوئی اور ساری پیاس سیرابی میں بدل گئی ۔ مجھے تنہائی خوش آئی اور میں اس تنہائی کو گلے لگائے دھیرے دھیرے صحنِ حرم سے طواف مکمل کر کے مقام ابراہیم پر آیا

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply