• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)چلو کہ چل کے دیدار کریں ،جلتے ہیں جہاں میری یادوں کے چراغ/سلمیٰ اعوان(قسط14 )

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)چلو کہ چل کے دیدار کریں ،جلتے ہیں جہاں میری یادوں کے چراغ/سلمیٰ اعوان(قسط14 )

اکبر حسین اکبر کے ساتھ دوسری ملاقات اس صبح ہوئی جب میں صدر روڈ پر ہنس راج کی طرح پر پھیلائے پی آئی اے کی عمارت کے ایک چھوٹے سے کیبن میں میز پر ہاتھ پھیلائے جناب زیدی صاحب کے سانولے سلونے چہرے پر بکھرے رعونت اور برہمی کے آثار کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے گھگھیاتے ہوئے ان سے کہہ رہی تھی۔
‘‘گلگت جانے والے باقی مسافروں کو تو گولی ماریں۔ بس مجھے اور میری کزن کو جہاز میں سوار کرا دیں۔ آپ کو خدا کا واسطہ۔آپ کا بھلا آپ کی آل اولاد کا بھلا۔ یہ بندی تا حیات آپ کو دعائیں دے گی۔’’
اور زیدی صاحب جھلاتے ہوئے کہتے تھے۔
‘‘آپ کا دماغ چل گیا ہے۔ بھلا بیس بیس دن پہلے کے بک شدہ لوگوں کو کیسے ڈراپ کیا جا سکتا ہے۔’’
‘‘یہ سب آپ کا کام ہے مجھے تو کل کی فلائٹ کے دو ٹکٹ چاہیں۔ زیدی صاحب میں آپ کی جان بخشی نہیں کروں گی۔ آپ کو گھر نہیں جانے دوں گی۔’’
‘‘میں مجبور ہوں’’۔ انہوں نے کیبن کی شیشے والی دیوار سے پرے لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر پر ایک نظر ڈالتے ہوئے قطعیت سے کہا۔
‘‘کاش میں جوڈو کراٹے کی ماہر ہوتی۔ میں دل ہی دل میں بدبدائی تھی
اس سڑیل سے زیدی صاحب کو پٹخنی دے کر زمین پر گراتی’ سینے پر چڑھ بیٹھتی اور تب خلاصی کرتی جب ٹکٹ ہاتھ میں تھما دئیے جاتے۔’’
‘‘زیدی صاحب آپ نہیں جانتے ہیں۔۔۔
میرا جملہ ابھی ادھورا تھا کسی نے پیچھے سے کمرے میں آکر کہا تھا۔
‘‘یہ بڑے اہم مشن پر وہاں جا رہی ہیں۔ چلیے آپ میری سیٹیں انہیں دے دیں’’۔
میں نے رخ پھیرا یہ دیکھنے کے لئے کہ اس نفسانفسی اور آپو دھاپی والے عالم میں عبدالرحیم خان خانان جیسا دریا دل کون ہے۔؟
اکبر حسین اکبر اپنی نکھری جیسے گلاب کے پانیوں سے دھلی آنکھوں کے ساتھ میرے سامنے کھڑا تھا۔
‘‘تم اکبر’’ میں نے بے اختیار کہا۔
زیدی صاحب ڈھیلے پڑ گئے تھے۔
پھر چانس کے دو ٹکٹ میرے ہاتھوں میں آگئے۔ تین بجے ائیرپورٹ پہنچ جائیے۔ ہاں اگر آپ نے آج جیسا طرز عمل کل بھی اپنایا تو مجھے امید ہے جہاز میں سوار ہو جائیں گی۔
زیدی صاحب مسکرا رہے تھے۔
میں نے باقاعدہ سیلوٹ تو نہیں مارا۔ پر سیلوٹ جیسے انداز میں شکریہ ضرور ادا کیا۔

شفقت میری ممیری پھوپھیری بہن ویٹنگ روم میں بیٹھی تھی۔ سمن آباد گرلز کالج کی یہ لیکچرار اس مہم میں اس بار میرے ساتھ تھی۔ گلگت شفقت کی جنم بھومی نہیں۔ پر اس کے منے منے پاؤں نے اسی سرزمین پر چلنا سیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں نے درختوں سے لٹکتے سیبوں’ خوبانیوں اور باداموں کے نظارے سب سے پہلے یہیں کئے تھے۔ اس کے بچپن کا ایک حصہ اپنے تایا ابو ‘تائی اماں اور عم زاد بہنوں کوثر اور عفت کے ساتھ یہیں گزرا تھا۔
وہ میرے ساتھ پرانی یادوں کے زیادتی مشن پر نکلی تھی۔
میں شکر الحمد اللہ کا ورد کرتی باہر نکل آئی۔

خدا جانتا ہے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے میں امید و بیم کی جس سولی پر چڑھی ہوئی تھی۔ اس نے میری تمناؤں‘ منصوبوں اور عزائم کی تکا بوٹی کر ڈالی تھی۔
اخراجات کے کوہ گراں کو اٹھانے میں تھوڑی سی مدد ادارہ امور پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب الطاف حسن قریشی نے کی۔ میں نے رخت سفر باندھنے کا کبھی اہتمام نہیں کیا۔ چھوٹی سی بقچی بغل میں دابی۔ جوتا پہنا‘ چادر اوڑھی اور مار کو پولو کی راہ ناپنے کے لئے تیار۔
جس صبح اسلام آباد کے لئے روانہ ہونا تھا۔ بیٹی نے چادر سر پر سے کھینچی اور صبح کا اخبار نتھنوں میں گویا ٹھونستے ہوئے کہا۔
اخبار پڑھ لیں ذرا۔ پھر جائیں۔
فوراً اخبار پر نظریں دوڑائیں۔
‘‘یا خدا’’ میں نے سینے پر ہاتھ رکھ لیا۔

گلگت میں فرقہ وارانہ فسادات کی خبر تھی۔ پچاس آدمیوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع تھی۔ گلگت اور اس کی وادیاں پر امن علاقہ ‘مخلص اور پیار کرنے والے لوگ’ ‘‘الٰہی’’ انہیں کس کی نظر کھا گئی؟ یہ کیوں خون خرابے پر اتر آئے؟ اخبار میں واقعات کی تفصیل نہیں تھی۔

میں نے جوتی کے تسمے کھول دئیے۔ بیگ کندھے سے اُتار کر الماری میں رکھ دیا۔ میرا دل اور دماغ بوجھل تھے۔ جی چاہتا تھا ابھی اور اسی وقت اڑ کر وہاں پہنچ جاؤں۔ لیکن غلامی کی جن زنجیروں نے پاؤں جکڑ رکھے ہیں وہ بھلا ایسے حالات میں حرکت کرنے دیتیں۔ دل مسوس کر بیٹھ گئی۔ دن چڑھتا تو سب سے پہلا کام اخبار کے صفحات پر گلگت سے متعلقہ خبروں کی تلاش ہوتی۔
پورا ماہ گزر گیا۔ جب میاں کو اطمینان نصیب ہوا۔ تب پروانہ راہداری ہاتھ آیا۔ شفقت اور میں بگٹٹ بھاگے۔ پنڈی پہنچ کر احساس ہوا کہ آسمان سے گر کر کھجور کے جس درخت میں اٹکے ہیں وہ نوکیلا اور ایسا گھنا ہے کہ جکڑ کر بیٹھ گیا ہے۔ جہاز کی کسی بھی فلائٹ سے اگلے ایک ماہ تک سیٹ ملنے کا کوئی امکان نہ تھا۔
بہرحال میں نے ہن لوٹ لیا تھا۔

صبح تین بجے جب شہر پر ہُو اور سناٹے کا راج تھا۔ میں اور شفقت اسلام آباد کی ویران سڑکیں اپنے پاؤں سے کوٹ رہی تھیں۔
اسلام آباد ہوٹل کے عین سامنے بس اسٹاپ پر کھڑے کھڑے میں نے فضا پر چھائے اندھیرے کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
‘‘ٹیکسی والا آج کھال اُتار کر رکھ دے گا’’۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اس مٹیالے اندھرے میں ایک وین آکر ہمارے پاس رُکی۔ درمیانی عمرکے مرد نے شیشے کو کھینچتے ہوئے کھڑکی سے گاٹی باہر نکال کر ہمیں دیکھا اور پوچھا کہاں جانا ہے؟ ائیرپورٹ کا سُن کر اس نے سر اندر کر لیا۔ کچھ دیر سوچا۔ پھر ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اجنبی انسانوں پر اعتماد کرنے کے سلسلے میں خاصی جلد باز ہوں۔ صد شکر کہ اس بھری پُری دنیا میں بکھرے ہوئے لوگوں کی طرف سے مجھے کبھی پچھتاوا نہیں ملا۔ میں بے دھڑک دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔ شفقت نے میرا ہاتھ دبایا۔ میں نے اسے تقریباً کھینچتے ہوئے سرگوشی میں کہا ‘‘خدا پر توکل رکھو۔’’
سارا راستہ وہ لرزتی سی رہی۔ میں بظاہر اعتماد سے باتیں کر رہی تھی۔ پر اندر میرا بھی خوف زدہ سا تھا۔ ائیرپورٹ کی جگمگاتی روشنیوں میں جب اس مہربان شخص نے ہمیں خدا حافظ کہا۔ تب بے اختیار میری زبان سے نکلا۔

‘‘یہ ملک یہ دنیا شاید تم جیسے نیک لوگوں کے دم قدم سے ہی آباد ہے۔’’

چمکتے دمکتے ائیرپورٹ کی اندرون ملک پروازوں والے حصے میں تقریباً سناٹا تھا۔ کیبن میں کام کرتی دو خوبصورت دوشیزاؤں کو اپنی رام کہانی سناتے ہوئے میں نے خود پر ترس کھایا۔ کیونکہ ان کی خوبصورت آنکھوں میں بے نیازی اور بے زاری کی کیفیات کا امتزاج کچھ یوں چھلک چھلک پڑ رہا تھا جیسے کہتا ہو۔
چانس پر آنے والے مسافر ایسی ہی فضول اور بے ربط کہانیاں سناتے ہیں۔’’

اس عزت افزائی کے بعد میں ائیرپورٹ کی مسجد کی طرف بھاگی۔ شفقت میرے تعاقب میں تھی۔ اللہ کو اپنا وکیل بنا کر سارا معاملہ اس کے سپرد کیا اور چانس کے علاقے میں جا کر بیٹھ گئیں۔ ساڑھے پانچ بجے مسافر اندر جانے لگے۔

میرے پاؤں میں پھر پہئے لگ گئے تھے۔ اب فلائٹ انچارج اسد صاحب سے واسطہ پڑا تھا۔ خدا گواہ ہے ساڑھے پانچ سے سوا چھ تک ان کا نتھنوں میں دم کر ڈالا۔
اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے پتہ نہیں کتنی اہم شفارشوں کو پیچھے ڈال کر انہوں نے ہمیں جہاز میں سوار کرایا۔
فوکر میں کیا بیٹھے۔ شفقت کے حافظے کے کسی کونے میں پڑی یادوں کی پٹاری سے یادداشتوں کے حسین اور خوش رنگ سانپ پھن اٹھا اٹھا کر سپ سپ کرتے باہر آنے لگے تھے۔

تب اس روٹ پر فوکر تھوڑی چلتے تھے۔ ہاورڈ اڑتے جن کی بلندی نو دس ہزار فٹ سے زیادہ نہ ہوتی۔ چک لالہ سے جہاز میں بیٹھتے۔ بابو سر کی چوٹیوں پر اتنی دھند اور کہر کے ایسے دبیز بادل ہوتے کہ جہاز واپس مڑ جاتا۔ اترتے تو معلوم ہوتا جہاں سے چلے تھے وہیں آپہنچے۔ تب کوثر اور عفت منہ بسو بسور کر رونا شروع کر دیتیں۔

وہ جیالا پائلٹ مجھے کبھی نہیں بھولے گا جو ایک بار خراب موسم کے باوجود جہاز کو سوات پر سے اڑاتا ہوا چترال لے گیا اور پھر شندھور درے میں سے نیچی پرواز کرتا ہوا گلگت پہنچ گیا۔
میری ناک شیشے کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ نانگا پربت کی چوٹیاں’ چلاس شہر’ دریائے سندھ کے کناروں پر تجریدی آرٹ کے نمونے اور پھر گلگت کی خوبصورت وادی کا رن وے۔ ہم نے شوق اور وارفتگی سے فضا کو دیکھا۔

ہمارے اس خوشگوار سفر کوختم ہوئے ابھی پندرہ منٹ بھی نہ ہوئے ہونگے۔ آنکھیں ننگے بچھے پہاڑوں کی چوٹیوں سے سرکتی وادی کے کھیتوں میں کھڑی سنہری گندم کی خوشنما بالیوں کے نظارہ حسن سے پوری طرح سیراب بھی نہ ہو پائی تھیں ‘جب ائیرپورٹ روڈ پر شاہ بلوط کے شاداب درختوں کے نیچے شفقت رپھڑ ڈال بیٹھی تھی۔ وہ کشروٹ محلے میں میرے پرانے مسکن پر جانے کی بجائے اوپر پریذیڈنسی میں اس گھر میں داخل ہونا چاہتی تھی جہاں اس کا اور اس کی عمر زادوں کا بچپن گزرا تھا۔
‘‘کوئی بیلنے میں بازو آگی اہے جو وہاں بھاگتے جائیں۔ تیرا کونسا وہاں کوئی بیٹھا ہے جسے دیکھ کر تونے آنکھیں ٹھنڈی کرنی ہیں۔
یادوں کے دئیے ہی تو جلانے ہیں وہ کسی وقت بھی وہاں جا کر جل سکتے ہیں۔ ابھی تو وقت نہیں مجھے فوراً عثمان صاحب سے ملنا ہے۔
‘‘چلو’’
اس نے چلو کا یہ طنزیہ ہنکارہ جس انداز میں ادا کیا اس نے میرے سینے پر تیر نہیں چھریاں چلائیں۔ ابھی میں جوابی حملے کا سوچ ہی رہی تھی جب اس نے پٹاخہ بم چھوڑا۔ وہ تو مجھے پہلے ہی کہتی تھی۔ وہ کا اشارہ اس کی عم زادونکی طرف تھا۔ مت جاؤ’ کتے کی طرح دم ہلا کر پیچھے چلنا پڑے گا۔
‘‘مائی فٹ’’
میں دھاڑی’ اس کا بیگ جو میں نے پکڑا ہوا تھا اُسے ایک گیند کی طرح فضا میں اُچھالتے ہوئے رخ پھیر کر میں نے اپنی ایڑی سے ایڑی بجاتے ہوئے گویا خود سے کہا۔
بائی دی لیفٹ کوئیک مارچ (By the Left Quick March)
غصہ پی جانے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کا یہ ایک مجرب آزمودہ نسخہ ہے۔ بیچاری سڑک میرے عتاب کو سہہ رہی تھی۔ بہت آگے جا کر مجھے تعاقب میں اس کے بھاگنے اور پکارنے کی آوازیں سنائی دیں۔

غلام محی الدین صاحب کے گھر کا برآمدہ سنسان تھا۔ چارپائی ضرور بچھی تھی۔ لیکن اس پر بیٹھنے اور لیٹنے والی شہر خموشاں کی باسی بن گئی تھی۔ سبز اوڑھنی والی خاتون دوم اسی طرح چپ چاپ پر چھاؤں کی مانند گھومتی پھرتی نظر آئی تھی۔ سارہ فرگوسن بیاہ کر پیا گھر چلی گئی تھی۔ چھوٹی لڑکی نے البتہ مہمان نوازی کا حق ادا کیا تھا۔
ساڑھے گیاہ بجے میں گھر سے نکلی۔ شفقت نے انکار کر دیا تھا۔
‘‘سوؤں گی بھئی۔ تم جاؤ اپنے کام نپٹاؤ’’۔
شہر کی فضا رنجورسی تھی۔ حالات گو نارمل تھے‘ مگر اثرات کے زخم ابھی پوری طرح مند مل نہیں ہوئے تھے۔ دوکانیں کھلی اور کاروبار جاری تھا۔ لیکن دوکانداروں کا کہنا تھا کہ بزنس معمول پر نہیں ہے۔ خرید و فروخت کی شرح میں بہت کمی ہے۔ نیچے سے لوگوں کی آمد کم ہے۔

عثمان صاحب ڈگری کالج میں بی اے اور بی ایس سی کے امتحان لے رہے تھے۔ ڈگری کالج دینور میں ہے۔ آدھ گھنٹہ سواری کے انتظار میں کھڑی رہی۔ خدا جانے ویگن کہاں سُوکھنے پڑی ہوئی تھی۔ ایک پرائیوٹ گاڑی کو ہاتھ دیا۔ اندر خیر سے تحصیلدار صاحب تشریف رکھتے تھے۔ مدعا جان کر فوراً بٹھایا اور دلچسپ گفتگو سے محظوظ کرتے ہوئے منزل پر پہنچا دیا۔ ڈگری کالج کی عمارت دیدہ زیب تھی۔ عثمان صاحب نے دیکھتے ہی نیم ایستادہ ہو کر چہرے پر مدھم سی مسکراہٹ بکھیرے ہوئے کہا۔
‘‘تو پھر آپ پہنچ ہی گئیں’’۔
میرے ہونٹوں نے نہیں مسکراہٹ نے چہرے پر پھیل کر اس کا جواب دیا تھا۔
پردے کے پیچھے بڑی بڑی چاروں میں لپٹی’ امتحان دیتی جن بارہ تیرہ لڑکیوں سے میرا تعارف ہوا۔ وہ طلبہ کی اُس کلاس سے نظر آتی تھیں جو امتحان کو ہوّا سمجھتے ہیں۔ جن کی پیشانیاں تراور ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہوتی ہیں۔
ساڑھے بارہ تک عثمان صاحب نے اپنا کام بھی سمیٹ لیا تھا اور مجھ سے میرے پڑاؤ اور مکینوں کے بارے میں بھی جان لیا تھا۔
جس وقت جیپ ڈگری کالج سے نکلی۔ میں نے دھوپ میں تپتے ہوئے دینور کے پہاڑ اور زمین دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ سورج کی جوانی نے فضا کو جھلسا دیا تھا۔ پرانے پولو گراؤنڈ کے اوپر سے ہوتے ہوئے خزانہ روڈ پر آئے۔
عثمان صاحب نے کچھ کام کرنے تھے۔ انہوں نے معذرت کی۔ میں ہنس پڑی۔
‘‘عثمان صاحب آپ فضول شرمندہ ہوتے ہیں۔ میری آنکھیں تو اپنا کام کرنے میں جتی ہوئی ہیں’’۔
ایک بج کر سات منٹ پر میں اپنے پرانے پڑاؤ پراُتری۔ طے یہ ہوا تھاکہ عثمان صاحب ہمیں چار بجے اپنے ہاں لے کر جائیں گے’’۔
چھوٹی چھوٹی گلیوں کے موڑ کاٹتی جب میں اپنے پرانے گھرمیں داخل ہوئی تو حیرت زدہ سی رہ گئی۔ جب ہم لوگ آئے تھے مہمان داری والے کمرے میں مقامی پٹو ّ بچھا تھا۔
لیکن اس وقت نہایت خوبصورت ‘خوش رنگ ‘سبز قالین کمرے کا حسن بڑھا رہا تھا۔ سفید گاؤتکیے اور بیل بوٹوں والے سرہانوں سے ٹیک لگائے گوری چٹی ‘دلکش خدوخال والی شفقت علوی نیم خمیدہ غلام محی الدین صاحب سے قہوے کی پیالی پکڑ رہی تھی یوں جیسے قدیم چین کی عظیم ملکہ زوسی کے حضور شہنشاہ چین کا دست راست این ٹی لائی جھکا ہوا ہو ۔
دروازے میں کھڑے کھڑے میں نے اس دل موہ لینے والے منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سوچا۔
‘‘یا اللہ یہ خوبصورت ہونا بھی کیسا حسین تجربہ ہے؟’’
لیکن نرم و دبیز قالین پر بیٹھ کر میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
‘‘ارے شکر ہے کوجے (بدصورت) سے ہیں۔ خوبصورتی کے ساتھ ان شتر بے مہار جذبوں کا کیا کرتے جو نئی اور اجنبی جگہوں کو دیکھنے کے لئے سینے میں امڈ امڈ پڑتے ہیں۔

کھانا کھا کر آرام کا موقع نہیں ملا۔ اردگرد گھروں کی لڑکیاں آگئی تھیں۔ میڑک اور انڈر میڑک لڑکیاں جاپانی کپڑوں میں ماتھے پر کٹے بالوں کے ساتھ شادی بیاہ کی کھلی کھلی باتیں کرتی تھیں۔ گلگت میں لڑکیوں کی آزاد خیالی قابل رشک تھی۔
ساڑھے چار بجے عثمان صاحب تشریف لائے۔ شاہراہ قائداعظم پر مجینی محلے کی ایک تنگ سی گلی میں جیپ داخل ہو کر کھلے میدان میں رک گئی۔ مجینی گلگت کا وسطی محلہ جہاں کشمیریوں کی اکثریت ہے۔
چھوٹی سی کھال زوروں پر بہتی تھی۔ دونوں اطراف خوبصورت گھر تھے۔ کھال کے موڑ سے چند گز پرے خالی کھیتوں کے بالمقابل عثمان صاحب کا آشیانہ تھا۔
دروازہ کھلا۔ کوہستانی اینٹوں سے تعمیر شدہ گھر جس کے کشادہ آنگن میں اُگے مکئی کے کھیت سے اٹھتی وہ میٹھی سی باس پیشوائی کے لئے آگے بڑھی تھی۔ جو دوپہر کی حرارت جذب کرنے کے بعد فصلیں شام کی خنکی کے زیر اثر آکر چھوڑتی ہیں۔ زور زور سے سانس کھینچتے ہوئے میں نے یہ دیہاتی خوشبو ساری کی ساری اپنے نتھنوں میں گھسیڑنی چاہی تھی۔

برآمدے سے نیچے کچے فرش پر عثمان صاحب کا پریوار استقبال کے لئے کھڑا تھا۔ مسز عثمان کے ڈوپٹہ اوڑھنے کا انداز اس مثالی مسلمان عورت کا سا تھا جو سر کا ایک بال ننگا کرنا گناہ کبیرہ خیال کرتی ہے۔ جپھی ڈالنے کے عمل میں محبت کی مسحور کن مہکار کا احساس ملا تھا۔ بیٹیوں کے معاملے میں عثمان صاحب خاصے مالدار ہیں۔ ہر عمر اور ہر سائز کی لڑکی موجود تھی۔ بازوؤں کے حلقے میں سمیٹ کر کمرے کی دیوار کے ساتھ بچھائی گئی دو ڈھائی گز لمبی اور تقریباً پون گز چوڑی پھولدار رضائی نما گدے پر بٹھایا گیا۔
چائے ذائقہ دار تھی۔ پی کر لطف آیا۔ لڑکیاں خاصی بے تکلف اور محبت کرنے والی تھیں۔ اردگرد بیٹھی شوق سے باتیں کرتی اور سنتی تھیں۔ کچھ دیر بعد میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا ۔ دھوپ وادی کے کھیتوں کھلیانوں اور میدانوں سے بوریا بستر سمیٹ کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ گزین ہو گئی تھی۔ بڑا دل کش منظر تھا۔ دکنی ہوائیں برآمدے میں پکتے کھانوں کی خوشبو اڑائے پھر رہی تھیں۔ دور کہیں اذانیں گونج رہی تھیں۔ اور مجھے کوئی ٹیلی فون پر بلاتا تھا۔
اسسٹنٹ کمشنر گلگت داؤد صاحب پوچھتے تھے۔
‘‘کیسی ہیں؟ کب آئیں؟ کہاں ٹھہری ہیں’’؟
داؤد صاحب سے ملاقات شگر وادی کی سیاحت کے دوران ہوئی تھی۔ عثمان صاحب کے دوست تھے۔

بالترتیب جوابات سے فارغ ہو کر میں نماز کے لئے کمرے میں بچھیمصلّے پر کھڑی ہو گئی۔ دُعا کے بعد دیکھا مسز عثمان پاس بیٹھی ہیں۔ مسز عثمان دھیرے دھیرے باتیں کرتی تھیں۔ وہ باتیں جن کے الاؤ میں جل جل کر وہ کندن بنی تھیں۔ ہر اس صابر عورت کی طرح جو اپنا آپ تنتناتے وقت کی آگ میں راکھ کر کے ایثارو وفا کی تاریخ میں نئے باب رقم کرتی ہے۔ بہت دور بیٹھی مجھے اپنی پھوپھی (جمع ممانی) یاد آئی تھیں۔ شفقت علوی کی ماں جس کی ساری زندگی شوہر‘ ساس اور نندوں کے پاؤں تلے اپنے ہاتھ رکھتے گزری تھی۔
کھانا پُر لطف تھا۔ گلگت کی بجلی چھوٹے بچے کی طرح شرارتیں کرتی تھیں۔ ابھی آئی ابھی گئی۔ ادیبہ نے ہنگامی لائٹ جلا دی تھی۔ سلاد کی پلیٹ میں گھر کی کیاریوں کا اگا ہوا سبز دھنیا بہت ذائقہ دے رہا تھا۔

مجھے ادیبہ کا سلاد بنانے کا یہ نیا انداز اتنا بھایا تھا کہ واپس آکر جب میں نے یہی طریقہ اپنایا اور دھنیے کی بھینی خوشبو سے نہال ہوتے ہوئے میاں کی طرف دیکھا تو صلواتوں کی بوندا باندی کا سامنا کرنا پڑا۔ تب میں نے سارا دھنیہ چن کر اپنی پلیٹ میں بھر لیا اور مسز عثمان کے گھر کی دعوت کا تصور کرتے ہوئے کھانا کھایا اور مزہ پایا۔
مسٹرو مسز عثمان کے گھر پانچ چھ گھنٹوں میں مجھے ایک عجیب سے تاثر کا احساس ملا۔ میں نے کوئی تین بار ان نایاب و نادر کتب کو دیکھنے کا اظہار کیا جن کے لئے میں نے یہ پینڈے مارے تھے۔ پر عثمان صاحب تھے کہ گھاس ہی نہیں ڈال رہے تھے۔

ہمارے ٹھہرنے کا انتظام ایجوکیشن کالج کے ہوسٹل میں کیا گیا تھا۔ رات کے نوبجے گلگت کی مضافاتی وادی دینور کی اونچائیوں پر چڑھنے میں خاصی دشواری ہوئی۔ بجلی حسب معمولی غائب تھی۔ ایمرجنسی لائٹ میں عمارت کا پھیلاؤ اور حسن تو نظر نہیں آیا۔ البتہ مختلف کو ریڈورز کے آگے سے گزرتے ہوئے یہ ضرور احساس ملا تھا کہ پھول پھلواری کی خاصی بہتات ہے۔
جائے مقام پر پہنچ اکر عثمان صاحب رخصت ہوئے۔ صد شکر کہ تھوڑی دیر بعد بجلی آگئی۔ صاف ستھرا کمرہ جس میں دو بستروں پر سفید براق چادریں بچھی تھیں۔ ایک چھوٹا سا سٹور بھی ساتھ تھا۔ بستے رستے بھرے پرے مکینوں سے خالی گھروں یا جگہوں کا جائزہ لینے کا تجسس عین فطری جبلت ہے۔ میں نے دیکھا تھا بیجن ۵۹ کی سالم شیشی اوپر چھوٹی سی پچھتی پر پڑی تھی۔
‘‘لو بھلا یہ میرے کس کام کی’’؟ میں بڑ بڑائی۔

خضاب کی پوری دو شیشیاں سر میں تھوپ کر گھر سے چلی تھی۔ دس پندرہ دن تو گزر ہی جائیں گے۔ بائیں کونے میں تبت سنو متانت سے بیٹھی تھی۔ میں نے کریموں سے اپنی خشک جلد کی لیپا پوتی کبھی نہیں کی۔ ایک دوبار جب کی تھی تو کچھ یوں لگ رہا تھا جیسے چوہیا آٹے کے کنستر میں سے نکلی ہے۔
چائے کی پتی کا پورا بنڈل پڑا تھا۔ تلاش بسیار کے باوجود بھی مجھے چینی اور دودھ نظر نہیں آئے تھے۔ ٹریٹ بلیڈ بھی بیکار تھے۔
زیر تربیت اساتذہ کے کمروں سے ان سے زیادہ چیزوں کی توقع کہاں کی جا سکتی ہے؟
میں کمرے میں آگئی۔ شفقت بیڈ پر لیٹی کروٹیں بدل رہی تھی۔ پنکھا چلتا تھا اور گرمی کچھ اس انداز کی تھی جیسے تنور میں جلنے کے لئے لکڑیاں ڈال دی گئی ہوں۔ جالی کی کھڑکی میں سے دینور کے پہاڑیاں امڈے پڑ رہے تھے جیسے گلے ملنے کے لئے بے تاب ہوں۔ دن بھر سورج سے عشق و محبت کی جو پینگیں بڑھاتے رہے تھے اب اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا تھا۔
میرا جی چاہا۔ بستر کو لپیٹ کر بغل میں دباؤں۔ چارپائی اٹھاؤں اور سیدھی چھت پر پہنچ جاؤں۔
‘‘چلو ذرا باہر کا چکر لگائیں۔ کچھ تو ہوا کھانے کو ملے گی۔’’ شفقت نے کہا۔
چپکی لیٹی رہو۔ باہر لڑکے ہیں۔ یوں بھی جگہ سے نامانوس ہیں۔ کہیں گٹے گوڈے نہ تڑوا بیٹھیں اور لینے کے دینے پڑ جائیں’’۔
نیند سولی پر بھی آجاتی ہے۔ شفقت سو گئی تھی۔ پر میں جاگ رہی تھی اور سوچتی تھی کہ آخر عثمان صاحب نے وہ نادر کتابیں مجھے کیوں نہیں دکھائیں۔

دفعتاً یاداشتوں میں کہیں برق سی کوندی۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں مکینکل انجیئنرنگ کا وہ طالب علم خوبصورت اور پیارا سا لڑکا مسعود اقبال جو بونجی سے تھا۔ ایک ٹھٹھرتی ہوئی سرد شام کو وہ میرے کزن شفقت رُسول علوی کے ساتھ میرے گھر آیا تھا۔ علوی اسے گھسیٹ کر لایا تھا۔
‘‘یار چلو میری بہن تمہارے علاقے پر لکھ رہی ہے۔ اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہے’’۔
دبلا پتلا مسعود اقبال ‘‘بلور ستان’’ (شمالی علاقہ جات کا قدیمی نام) ضخیم رسالہ بغل میں دبائے مجھ سے ملنے آیا۔ چائے کی میز پر مستقبل کے اس انجینئر کو میرے چھوٹے بیٹوں نے بہت شوق اور محبت سے دیکھا۔ باتوں باتوں میں عثمان صاحب کا ذکر خیر آیا۔ مسعود نے کہا۔
‘‘میرے استاد ہیں وہ۔ بہت شفیق اور محبت کرنے والی شخصیت’ نہایت محترم اور معزز۔
‘‘لیکن’’
میں نے فوراً چائے کا کپ ہونٹوں سے الگ کرتے ہوئے حیرت سے کہا
‘‘لیکن کیا’’
کتابوں کے سلسلے میں وہ بہت محتاط ہیں۔ بخیل کہہ لیں۔ زیادہ وضاحت میں جاؤں تو کمینگی کا نام آجائے گا۔

عثمان صاحب کی شخصیت میں جو رچاؤ اور نرمی مجھے محسوس ہوئی تھی اس کے پیش نظر اس بات نے مجھ پر زیادہ اثر نہیں کیاتھا۔ میں تو آس لگائے بیٹھی تھی کہ جونہی میں ان کے گھر میں داخل ہوں گی۔ انکی کتابوں کی الماری کھل جا سم سم کی مثال دہرائے گی۔
پر ایجوکیشن کالج کے ہوسٹل کے اس کمرے میں اچانک مجھ پر انکشاف ہوا تھا کہ مسعود اقبال ٹھیک کہتا تھا۔ میں نے فوراً ملامتی ہتھیاروں سے عثمان صاحب کو زدو کوب کرنا شروع کر دیا۔ ابھی میرا کلیجہ گرم ہی تھا جب اندر سے آواز اٹھی تھی۔
‘‘اپنے گریبان میں تو جھانک لو۔ تم توخود کتابوں کے سلسلے میں اول درجے کی کمینی ہو۔ ہمیشہ تمہاری الماری کی چابی گم ہی رہتی ہے’’۔
میں اپنے اندر سے اٹھتی اس سچی آواز کو جھٹلا نہیں سکتی تھی۔ بھرے پرے کنبے والے گھرانوں میں جہاں دیورانیوں’ جٹھانیوں’ ساس نندوں کے درمیان کبھی کبھار چینی’ پتی’ مرچ ہلدی اور آٹے دال جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر تھڑدلی کے مظاہرے ہوتے ہیں۔ میں ان سے بچی ہوئی تھی۔ پر میری کم ظرفی اس وقت سامنے آتی تھی جب کوئی دیورانی مجھ سے کوئی کتاب مانگنے کے لئے آتی۔ گھر داری سے متعلق ہر چیز کے سلسلے میں فیاض میرا دل اس وقت اتنا سکڑ جاتا کہ جی اسے جھانپڑ لگانے کو چاہنے لگتا۔
عثمان صاحب بیچارے کہاں قصور وار تھے؟
مطمئن ہو کر میں نے آنکھیں موندلی تھیں۔

صبح سویرے کوہستانی حسن نے آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ کالج کی عمارت دیدہ زیب تھی۔ طلبہ کی اکثریت گھروں کو سدھاری ہوئی تھی۔ ایک ٹولہ نیچے تربیتی کورس پر گیا ہوا تھا۔ جس لڑکے نے ناشتہ کروایا ‘وہ نگر کا تھا۔ اس نگر کا نہیں جہاں بقول خوشی محمد ناظر کے چور بستے ہیں۔
کسی خوش قسمت ماں کا راج دلارا ہو گا۔ سچی بات ہے ایسا رعنا جوان تھا کہ مجھ جیسی اگر کہیں جوانی میں دیکھ لیتی تو انگلیاں ہی کاٹ لیتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply