میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ)کہانی را جہ شری بدد کی, جو آج بھی دلچسپ ہے/سلمیٰ اعوان(قسط17 )

بڑی خوشگوار ٹھنڈک تھی۔ ستارے جگمگ جگمگ کرتے تھے۔ نیچے سے آئے ہوئے لوگ گھومتے پھر رہے تھے۔ ہم بھی ٹامک ٹوئیاں مارتے مارتے مطلوبہ جگہ پہنچ گئیں۔
مخصوص روائتی گھر جسے مقامی زبان میں مِمشاسِکی حَہ کہتے ہیں۔ سامنے تھا۔ سارا خاندان بڑے کمرے میں جمع تھا۔ چھت کیسی دیدہ زیب تھی۔ چار مضبوط نقش و نگاری سے مزّین ستونوں پر کھڑی چند لمحوں کیلئے نظروں کو قابو کرتی تھی۔ ہم جُوتے اُتارکر اندر آئے تھے۔ گلگت و ہنزہ کے گھروں میں جُوتے اندر لے جانے کا رواج نہیں۔ اِس گھر میں تو جُو توں کو سنبھالنے والی جگہ بھی بڑی آرٹسٹک سی تھی۔ سامنے والی چوبی اور شیشے کی آمیزش سے بنی ہوئی الماری میں جھانکتے برتن بڑے قیمتی نظر آتے تھے۔
عین درمیان میں چولہا دہکتا اور کمرے میں خوشگوار سی حدت بکھیرتا تھا۔ یہاں گھر کی معمر ترین عورت بیٹھی تھی اور یہی اس کی جگہ تھی۔ دائیں جانب کوئی ایک فٹ اونچے چبوترے پر بچھے روئی کے گدوں پر عورتیں بیٹھی تھیں۔ دوسری طرف اُسی اونچائی کا حامل مردانہ چیمبر تھا۔
مجھے انہیں یوں بیٹھا دیکھ کر فلموں کے قوالی سِین یاد آئے تھے۔ لگتا تھا جیسے یہ ابھی ابھی ہاتھ بلند کر کے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے۔ ایک جوڑا ہمارے بعد آیا۔ آنے والوں نے با آواز بلند ‘‘یا علی مدد’’ کہا۔ کمرے میں موجود مجمع’ مولا علی مدد’ پکارا۔
گھرانہ اسماعیلی تھا۔ پتہ چلا تھا کہ یہ اسماعیلی طریقہ آداب ہے۔ ہاں البتہ شیعہ گھرانوں میں وہی اسلام و علیکم کہنے کا رواج ہے۔
سچ تو یہ تھا کہ اُس گھر میں کُھلے دل اور کھلے ہاتھوں سے استقبالی مراحل طے ہوئے تھے۔ بہترین جگہ پر بٹھایا گیا۔ جوان لڑکیاں جو آغا خان اکیڈمی میں زیر تعلیم تھیں۔ ہمارے دائیں بائیں بیٹھ گئیں اور داستان گل بکاؤلی شروع ہو گئی۔
ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ خدا کا بنایا رسول بادشاہ۔
میرے ہونٹوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ پیدا ہوئی تھی۔ کہانی بڑے روایتی انداز میں شروع ہوئی تھی۔ سرفراز کا دادا ایک بہترین داستان گو معلوم ہوتا تھا۔
قرنوں صدیوں پہلے کی بات ہے۔ ان تمام علاقہ جات چترال سے لے کر پامیر کی حدود تک بدخشان سے کوہ ہام تک را جہ اگر تھم کی حکومت تھی۔ بدھ مت کا پیرو کار’ اسکے ہاں بڑھاپے میں ایک بیٹے نے جنم لیا تھا۔ راجہ شری بدد۔ کمسنی میں ہی شری بدو اپنے باپ کی محبت و شفقت سے محروم ہو گیا۔ خود غرض اور چاپلوس مصاحبین نے لہو و لعب کی طرف راغب کر دیا۔ چنانچہ ہمدردوں اور خیر خواہوں سے نہ صرف کنارہ کشی اختیار کی بلکہ ان کی تذلیل و توہین کے بھی درپے ہوا۔
جوں جوں بڑا ہوتا گیا۔ عیاشی ‘تن پروری’ اخلاق سوزی اور بے ہودہ کاموں کی دلدل میں اُترتا گیا۔ تنگ آمد بیجنگ آمد کے مصداق پوری رعایا اس کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو گئی۔ اس وقت شر ی بدد عالم شباب میں تھا۔ ایک عظیم الحبثہ نوجوان جو فنون سپہ گری میں ایسا طاق تھا کہ پل جھپکتے میں کشتوں کے پشتے لگا ڈالتا تھا۔ اکیلا پورے علاقے پر حاوی تھا۔ لوگوں نے متعدد بار بغاوت کی۔ مقابلے پر آئے اور منہ کی کھا کر واپس گئے۔ دم بخود لوگوں نے اس دیوہیکل پیل پیکر کو جنات کی نسل سے سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
اس زمانے میں یہ دستور تھا کہ شاہی باورچی خانے میں صبح شام جوانی کی حدوں میں داخل ہوتا دنبہ ذبح کیا جاتا۔ ایک دن کھانا کھاتے ہوئے شری بدد کو گوشت کے منفرد ذائقے کا احساس ہوا۔
‘‘ایسا خوش ذائقہ اور لذیذ گوشت وہ چلایا۔ معلوم کرو یہ دنبہ کہاں سے حاصل کیا گیا ہے؟
حکم کی تعمیل ہوئی۔ پتہ چلا کہ وادی دینور کی ایک بوڑھی عورت نے اس دنبے کی ماں مر جانے کے بعد اس کی پرورش اپنی بہو کے دودھ سے کی ہے۔
ظالم نے سوچا اگر انسانی دودھ سے پروردہ جانور کا گوشت اتنا لذیذ ہو سکتا ہے تو خود انسانی گوشت کی لذت کا کیا عالم ہو گا؟
پس فرمان جاری ہوا کہ سن بلوغ کو پہنچے ہوئے دو نوجوان لڑکے صبح شام خوراک کے لئے ذبح کئے جائیں۔ اب نوخیز بچوں کی خون ریزی کا عمل شروع ہو گیا۔ ایک سال تک بے دردی سے آدم خوری کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
تنگ آکر بیچارے ستم رسیدہ عوام متحد ہو کر اس پر حملہ آور ہوئے۔ لیکن اس درندہ صفت کے سامنے بے بس ہو گئے۔ غریب لوگ اپنے جگر پاروں کی ہلاکت پر آٹھ آٹھ آنسو روتے پر کچھ کر نہ پاتے تھے۔ قریب تھا کہ چند سالوں میں انسانی نسل کا خاتمہ ہو جائے۔ وہ خدا کے حضور گڑ گڑائے۔خد انے ان کی دعا کو قبولیت اس طرح بخشی کہ انہی دنوں ایک خوبصورت شہزادہ اپنے ملازمین اور رفقاء کے ساتھ سندھ کی وادی پائین میں داخل ہوا۔ دریائے سندھ کو جالو کے ذریعے پار کیا اور چھمو گڑھ کی طرف نکل کر اوشی کھن (قلعہ ) میں قیام پذیر ہوا۔
جب وہ نیچے اتر رہا تھا وہ راجہ شری بدد کے دست راست جاٹئے لوٹو سے دو چار ہوا۔ اس نوجوان کی حسین صورت ملوکانہ ٹھاٹ باٹھ خدام کی کثیر تعداد سب نے جاٹئے لوٹو کو متاثر کیا۔ پرسش احوال ہوا تو جانا کہ یہ سرزمین ایران کا شہزادہ آذر جمشید ہے۔ مذہباً آتش پرست اور نسلاً کیسری یعنی نوشیروان سے ہے۔ اس وقت آفات کے حصار میں ہے کیونکہ لشکر اسلام نے سلطنت ایران کو فتح کر کے کیانی بادشاہت کا تیاپانچہ کر دیا ہے۔ آذر جمشید اپنے ذاتی دستہ فوج اور وفادار ملازموں کے ساتھ فرار ہو کر ان سربفلک پہاڑوں کے دامن میں آگیا ہے۔
‘‘پر تم تو آسمانوں سے گر کر کھجور میں اٹک گئے ہو۔ جاٹئے لوٹو بولا۔ یہاں کا بادشاہ ایسا سفاک ہے کہ اس کا کام مردم خوری کے سوا کچھ نہیں۔ بہرحال تمہاری موہ لینے والی صور ت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کروں گا’’۔
تب اس نے آذر جمشید کو بمعہ اس کی فوج و ملازمین منوگہ میں لے جا کر چھپا دیا۔
شری بدد کی ایک بیٹی تھی ۔ نوربخت حسن و جمال کا پیکر تھی۔ سو نیکوٹ کے علاقے میں اس کے لئے ایک قلعہ بنایا گیا تھا۔ جس کے اندر ایک خوبصورت برجی میں شہزادی کا رہائشی محل تھا۔ نوربخت بڑی نیک اور خدا ترس بادشاہ زادی تھی۔
جاٹئے لوٹو کے علاوہ شری بدد کے چار اور وزیر بھی تھے۔ یہ شین اور یشکن قوموں سے تھے۔ ان میں سے دو جاٹئے لوٹو کے قریب ترین تھے اور شری بدد کی شبانہ روز خون ریزیوں سے سخت نالاں بھی تھے۔ بادشاہ شروع موسم بہار سے ابتدائی موسم گرما تک کوہ ہپو کر کے محلات میں رہتا تھا۔
ان دنوں بھی وہ کوہ ہپوکر میں مقیم تھا۔ جاٹئے لوٹو نے اپنے ہم خیال دونوں وزیروں سے آذر جمشید کی ملاقات کرائی۔ یہ دونوں بھی شہزادے کے حسن اخلاق کے گرویدہ ہوئے۔ دونوں کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ شری بدد کی ہستی کو کسی طرح مٹا دیا جائے۔
تینوں وزیروں نے یہ طے کیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو شہزادی نور بخت کی شادی شہزادے جمشید سے کرائی جائے تاکہ شہزادی شہزادے کے دام محبت میں گرفتا رہو کر اپنے باپ سے یہ معلوم کرے کہ اس کی جان لینے کے لئے کونسا حربہ کارگر ہو سکتاہے۔
جب یہ مسئلہ شہزادے جمشید کے سامنے رکھا گیا تو وہ شادی سے انکاری ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ حاصل کرنا چاہتاہے۔ شادی اس کے پاؤں کی زنجیر بن جائیگی۔ ہاں وہ خلق خدا کو بادشاہ سے نجات دلانے کے لئے مردانہ وار لڑنے کے لئے تیار ہے۔
آہ! جاٹئے لوٹو نے لمبی سانس بھری۔ یہی تو تم جانتے نہیں کہ یہ کس قدر کٹھن کام ہے۔
شہزادی سے اس موضوع پر بات کرنا کس قدر مشکل تھا۔ اب تینوں پھر سر جوڑ کر بیٹھے۔ باہمی صلاح و مشورے کے بعد سونیکوٹ شہزادی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سلطنت کی ویرانی اور رعایا کی تباہی کے ذکر سے خود بھی روئے اور اُسے بھی رلایا۔ پھر شہزادہ جمشید کے وارد ہونے کا ذکر کیا۔ یہ بھی عرض کی کہ شہزادہ جلد واپس جانے والا ہے۔ لہٰذا اگر اُسے میزبانی کے بغیر رخصت کر دیا گیا تو یہ مملکت کے لئے بدنامی کی بات ہو گی۔ شہزادی اسے دعوت کا پیغام بھیجے۔
معصوم سی شہزادی اخلاق و انسانیت کے حوالے سے اس پر رضا مند گئی۔ دعوت بھیجی گئی جسے شہزادے نے بادل نخواستہ قبول کیا۔ دوسرے دن وہ اپنے رضاعی بھائی فرامرزا اور معتمد خاص رمل کو ساتھ لے کر دینور پہنچا۔ جہاں سے تینوں وزراء کے ساتھ سونیکوٹ کی جانب روانہ ہوا۔ شہزادی نور بخت اپنے بالا خانے کے صحن میں شاہانہ کرو فر کے ساتھ مسند زرنگار پر متمکن تھی۔ اجازت ملنے پر تینوں وزیر شہزادے کے ساتھ صحن میں داخل ہوئے۔
کہانی کے اس حصے پر پہنچتے ہی لڑکیوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔ خوبصورت چہروں پر موتیوں جیسے چمکتے دانت یوں لگتے تھے جیسے اونچے ٹبوں پر کپاس کھلی ہوئی ہو۔
عین اس وقت سرفراز کی چھوٹی بہن نے نمکین چائے کے پیالے ہاتھوں میں تھما دئیے۔ میں نے ہنس کر کہا۔
‘‘بھئی اصل بات تو اب شروع ہو رہی ہے۔ باقی سب تو رولا گولا ہی تھا۔
چائے کی چسکیوں نے محفل کو گرم کر دیا تھا۔
ہاں تو شہزادی نے ایک صاحب جاہ و جلال کو دیکھا۔ عشق کے دیوتا نے تیر کھینچ کر مارا جو دل اور جگر کو چیرتاہوا نکل گیا۔ بیچاری شہزادی زخم دل کے درد کی تاب نہ لا کر غش کھا کر گری۔ گرنے سے چہرے پر تنا نقاب الٹ گیا۔
‘‘یقینا شہزادہ بھی غش کھا کر گرا ہو گا۔
ہاں بھئی پرانے وقتوں کے لوگ آج کل کے نوجوانوں جیسے چلتر باز نہ تھے۔ بھولے بھالے معصوم سے تھے۔ چہرے سے نقاب کیا ہٹا گویا لکہ ابرہٹا۔ نیلے آسمان پر آفتاب تاباں طلوع ہوا۔ اور وہ آفتاب درخشاں و تاباں آسمان سے اتر کر صحن خانہ میں آیا۔ اس ہوش ربا نظارے نے شہزادے کے دل کی سلطنت کو تاخت و تاراج کیا۔ نظروں کے سامنے اندھیرا چھایا اوربل کھا کر گرا۔
جاٹئے لوٹو اور خواصان نے شہزادی کو سنبھالا۔ دونوں وزیروں نے شہزادے کو اٹھایا۔ دنوں ایک دوسرے پر شیدا اور فریفتہ ہو گئے۔ تینوں وزراء نے فی الفور اپنے مذہب و دین کے مطابق دونوں کو رشتہ ازدواج میں باندھ دیا۔
جب موسم سرما میں راجہ شری بدد واپس آیا اور اپنے محلات شاہی واقع کپل کھن میں ٹھہرا۔ تینوں وزراء نے فوراً شہزادہ جمشید کو محلات سونیکوٹ سے نالہ منوگہ میں چھپا دیا۔
سردیوں کے موسم میں چند بار شری بدد بیٹی سے ملنے اس کے پاس ضرور آتا۔ ایک بار شہزادی نے شہزادہ جمشید کی پڑھائی ہوئی پٹی کے مطابق دلگیر لہجے میں باپ سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو اس نے کہا۔
‘‘جان پدر گھبراؤ نہیں تمہارا باپ کسی سے زیر ہونے والا نہیں۔ بس آتش سوزاں اس کی موت کا سبب بن سکتی ہے’’۔
شری بدد اپنے پروگرام کے مطابق موسم بہار کے چند مہینے گزار کر کوہ ہپو کر چلا گیا۔ وہاں سے سرد ترین مقامات اور بلند گلیشروں کی طرف نکل گیا۔ اس کی عدم موجودگی میں شہزادہ جمشید اور تینوں وزراء شہزادی کے پاس اکٹھے ہوئے اور شری بدد کے خاتمے کا منصوبہ طے ہوا۔
ماہ جدّی کے پہلے ہفتے راجہ شری بدد کی واپسی ہونی تھی۔ متعینہ تاریخ سے قبل تمام لوگ اکٹھے ہوئے اور پروگرام کے مطابق وادی کے اردگرد پھیلی خود رو جھاڑیوں اور پتھروں کے عقب میں روپوش ہو گئے۔
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ شہزادی کے ہاں ولادت متوقع تھی۔ بچے کی پیدائش عین اس شب ہوئی جس شام شری بدد کا دارالخلافہ میں نزول ہوا۔ شہزادی خوف سے لرزہ براندام تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو را جہ شری حسب معمول آتے ہی اس سے ملاقات کے لئے سونی کوٹ آجائے۔ ملازم اور خواصیں الگ ڈر رہی تھیں۔ وقت اتنا کم تھا کہ وہ شہزادہ جمشید کو بھی نہیں بلا سکتی تھی۔ جاٹئے لوٹو سے بھی مشورے کا وقت نہ تھا۔
ایسی افراتفری میں اس نے ایک صندوق میں روئی کا تختہ بچھا کر اس پر نرم بستر ڈال دیا اور نو مولود فرزند کو دودھ پلا کر اس میں لٹا دیا۔ تین سو تولہ سونا ایک کپڑے میں باندھ کر ایک خط لکھ کر دونوں چیزیں بچے کے سرہانے رکھ دیں۔ خط میں تحریر تھا کہ جو شخص صندوق کو دریا میں سے نکالے۔ سو تولہ سونا اس کی خدمت کا صلہ ہے۔ جو شخص بچے کی پرورش کرے۔ سوتولہ سونا اس کا ہے۔ باقی ماندہ سونا اس عالم کے لئے جو بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے۔
اور صندق کو دریائے ہنزہ میں بہا دیا گیا۔
اگلے دن راجہ شری بدد بیٹی سے ملنے آیا تو جاتے ہوئے اسے بھی اپنے ساتھ شاہی محل کپل کھن لے گیا۔ دوپہر کو باپ بیٹی باتیں کرتے رہے۔ رات کو راجہ شری سونے کے لئے جلدی اپنی خوابگاہ میں چلا گیا۔ ادھر شہزادہ جمشید پوری معیت کے ساتھ کمین گاہ میں اشارے کا منتظر رہا۔ جونہی نصف شب گزرنے پر برجی سونیکوٹ کی بالائی منزل میں روشنی جلائی گئی۔ فوراً کو نو داس میدان میں ایسی جگہ آگ جلائی گئی جہاں سے وادی میں روشنی دیکھی جا سکتی تھی۔ بس تو چاروں کھونٹ چوب چراغوں میں روشنی ہوئی اور خلق خدا کا ٹھاٹھیں مارتا سیلاب راجہ کے محل کی طرف بڑھا۔ جوں جوں فاصلہ کم ہوتا گیا یوں توں جلتی لکڑیاں دائروں کی شکل میں گنجان ہوتی گئیں۔
شہزادی نور بخت نے باپ کو بیدار کیا۔ اس نے بالا خانے کی کھڑکی سے یہ ہوش ربا منظر دیکھا سمجھاکہ یہ رعایا کی سازش ہے۔ فوراً اسلحہ جنگ سے لیس ہوا تاکہ ان شر پسندوں کی کشت حیات کو راکھ کا ڈھیر بنا دے۔
سائیں کو گھوڑا لانے کے لئے آواز دی۔ اس نے دیر لگائی۔ اس کے تعاقب میں دربان بھیجا۔ اس نے بھی دیر کر دی کیونکہ سب ملازم اس سازش میں شریک تھے۔ اس دوران شاہی محل بلوائیوں کے محاصرے میں آگیا۔ چوب چراغوں کی روشنی میں تمام احاطہ بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ راجہ شری بدد نے دیکھا کہ ہجوم آلات جنگ سے لیس ہے۔ درمیان میں ایک خوش شکل نوجوان شاہانہ لباس میں ملبوس کمان کو سنبھالے تیر کو لیس کر کے تیار کھڑا ہے۔ جانا اور سمجھا کہ یہ اجنبی نوجوان ہی اس فتنے کی جڑ ہے۔ شدت غیض و غضب سے چلاّتا بالا خانے سے نیچے آیا اور بے سرپٹ اصطبل کی طرف دوڑا۔ غصے سے اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اصطبل کے دروازے پر ہی پہنچا تھاکہ اس کا اگلا قدم کنوئیں کی چھت پر پڑا۔ ادھر سے آذر جمشید نے کمان سے تیر چھوڑا۔ تیر کی نوک سینے کو چھیدتی ہوئی پشت کے پار جانکلی۔ شری بدد اپنے بھاری بھر کم وجود کے ساتھ کنوئیں کی تہہ میں جا پہنچا۔
بس تو پھر خلق خدا کے شور و غوغا اور خوشی کے نعروں سے فضائے آسمان گونج اٹھی۔ رعایا چوب چراغوں کا انبار اس کنوئیں میں پھینکتی گئی حتیٰ کہ وہ آتش کدہ جہنم بن گیا۔ آناً فاناً وہ جل کر اپنے کیفر کردار کو پہنچا۔
دوسرے دن دھوم دھام سے آذر جمشید کی تخت نشینی کی رسم ادا ہوئی۔ لیکن جب شہزادے اور رعایا کو شہزادی نور بخت کے فرزند ارجمند کو دریا برد کرنے کا علم ہوا تو ساری خوشی غم میں بدل گئی۔ دریائے ہنزہ ‘دریائے گلگت اور دریائے سندھ کے دونوں جانب کناروں کے ساتھ ساتھ تلاش کرایا گیا مگر کوئی صندوق نہ ملا۔
شہزادہ آذر جمشید مثالی حکمران ثابت ہوا۔ اس کی سلطنت شمالاً جنوباً افغانستان تک اور شرقاً غرباً بانڈی پور کی سرحد تک پھیلی ہوئی تھی۔ تمام قبائلی علاقہ جات چلاس’ داریل تانگیر ‘ہربن’ اور بشکار’ اوشو’ کلام وغیرہ اس کی عملداری میں تھے۔
سولہ سال حکومت کرنے کے بعد شہزادے کا دل اس ناہموار کوہستانی علاقے سے گھبرانے لگا۔ ایک وسیع سلطنت کا فرمانروا ان سربفلک برف پوش قطار در قطار پہاڑوں کے اندر ناہموار وادیوں کی زمین میں زیادہ دیر تک نہ رہ سکا۔ شکار کے بہانے چند مصاحبوں کو ساتھ لے کر نکل پڑا پر جانے سے پیشتر عنان حکومت نور بخت کو سونپتے ہوئے امرا وزراء اور شرفاء سے استدعا کی کہ وہ شہزادی کی معاونت کریں۔ بہت دنوں تک جب شہزادے کی بازیابی نہ ہوئی تو جہاں شہزادی کے لئے زندگی اجیرن ہو گئی۔ وہیں رعایا اور اکابرین ملک بھی نڈھال ہو گئے۔ تاہم انہوں نے شہزادی نور بخت کو سمجھایا بجھایا او رملکہ کا خطاب دے کر تخت نشین کیا۔
ملکہ نور بخت کا دور بھی امن و آشتی کا زمانہ تھا۔ ملکہ مادر مہربان کی طرح تھی۔ چار سال حکومت کرنے کے بعد جب وہ چالیس سال کی ہوئی تو عمائدین سلطنت کو خیال آیا کہ تاج و تخت کاورث نہیں ہے۔ ملکہ کے بعد کیا ہو گا۔
اب اکابرین سر جوڑ کر بیٹھے۔ وہ ملکہ کی دوسری شادی پر غورو خوض کر رہے تھے کہ یکایک برسرِ دربار ایک پالتو مرغ نے اذان دی۔ آخر میں یہ جملہ اس بے زبان کی زبان پر آیا۔
‘‘بلد اس تھم بئی (بروشِسکی زبان میں اس کا مطلب ہے بلد اس میں راجہ موجود ہے)۔
مجلس مشاورت کے لوگوں نے اس آواز کو سنا مگر کسی نے توجہ نہ دی عینِ گر مئی گفتگو میں اس مرغ نے دوبارہ اذان دے کر ‘‘بلد اس تھم بئی کے جملے کو پھر دہرایا’’۔
اس دفعہ بھی اس آواز کو اہل محفل نے سنا مگر توجہ نہ دی۔ مگر جب تیسری بار بھی یہی جملہ اس نے ادا کیا تو اہل دربار چونک پڑے اور ایک بے زبان کے منہ سے نکلنے والے ان الفاظ کو غیبی اشارہ سمجھ کر چند ہوشیار آدمیوں کو تحقیق حال کے لئے بلد اس بھیج دیا۔
آج کل اس چھوٹی سی بستی کو سکار کوئی کہتے ہیں۔ بعض سنیار باغ کا نام بھی دیتے ہیں۔ کیونکہ آبادی کی اکثریت سنار پیشہ افراد کی ہے۔
بہرحال اس زمانے جب یہ کہانی وقوع پذیر ہو رہی تھی یہاں صرف ایک ہی گھر تھا۔ صاحب خانہ کا نام زرگر گڈوس تھا۔ وہ سنار تھا اور طلاکشی کا کام کرتا تھا نیز کچھ پڑھا لکھا بھی تھا۔
جب لوگ وہاں پہنچے۔ انہوں نے ایک خوش رو نوجوان کو دیکھاجو قد آوراور قوی اندام تھا۔ اُس کے ساتھ چند اور بچے بھی تھے جو قد و قامت اور شکل وصورت کے اعتبار سے اس لڑکے سے مختلف تھے۔ صاحب خانہ باہر نکلا۔ دریافت کرنے پر اس نے کہا ‘‘یہ سب بچے میرے ہیں۔’’
وفد اس لڑکے اور زرگر گڈوس کو لے آیا۔ جب وہ لڑکا وزراء روساء کے سامنے پیش ہوا۔ باوجود صغیری کے ایسا تنومند اور طویل و عریض قامت رکھتا تھا کہ دیوپیکر شری بدد کی یاد تازہ ہو گئی۔ تاہم اس کی صورت میں جو زیبائی اور انداز میں رعنائی تھی وہ آذر جمشید کی یاد دلاتی تھی۔
زرگر گڈوس صحیح بات بتانے سے منکر تھا۔ اسے مارا گیا۔ سخت دباؤ اور جبرسے کام لیا۔ تب جا کر وہ صحیح بات بتانے پر راضی ہوا۔ اس نے بتایا کہ آج سے بیس سال پہلے جس صبح شری بدد قتل ہوا وہ حسب معمولی مشینی جہاں دریائے ہنزہ و نگر کا اتصال ہوتا ہے۔ سونا نکالنے میں مصروف تھا کہ اس نے یہ صندوق بہتے ہوئے دیکھا۔ میں نے دریا میں اتر کر اسے پکڑا۔ کھولا تو اندر ایک بچہ تھا۔ سرہانے ایک پارچے میں تین سو تولہ سونا بندھا پڑا تھا۔ تین شرائط درج تھیں۔ میں نے تینوں پوری کیں اور میں اس کا مستحق ٹھہرا۔
ملکہ کو جب اس کا علم ہوا تو بچے کو بلایا۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی محبوب شوہر کا نقشہ سامنے آگیا۔ اپنے سینے سے لگایا۔ دھوُاں دھار روئی۔
پھر تاج و تخت اُسے سونپ کر خود گوشہ نشین ہو گئی۔
جب یہ داستان ختم ہوئی اس وقت ساڑھے دس بج رہے تھے۔ کسی کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہ تھا۔ گھر والوں کے علاوہ ہمسائیوں کی خواتین بھی آگئی تھیں۔
تھموشلنگ کا تہوار منانے کا اپنا لطف ہے۔ سرفراز کی بہن بولی۔
دسمبر کے مہینے میں سردی کی شدت جب انتہا پر ہوتی ہے اس تہوار کو منانے کے لئے جس پیمانے پر اہتمام ہوتے ہیں وہ لوگوں میں لہو کو گرم رکھنے کا بہانہ بن جاتے ہیں۔
سرفراز کے دادا بولے۔
کوئی گھر ایسانہیں ہوتا جہاں بکرا’ بکری یا گائے ذبح نہ کی جاتی ہو۔ غریب سے غریب گھرانہ بھی اس معاملے میں کنجوسی سے کام نہیں لیتا۔ تہوار دسمبر کے وسط میں منایا جاتا ہے۔ مگر جانور نومبر کے پہلے ہفتے ذبح کر دئیے جاتے ہیں۔ ذبح شدہ جانور کے سر اور انتڑیاں کچی حالت میں سنبھال لی جاتی ہیں۔ تہوار کی رات بڑی انتڑیوں کو آٹے سے اور چھوٹی انتڑیوں کو گوشت اور چربی کے ٹکڑوں سے بھر اجاتا ہے۔ بروشسکی زبان میں اسے ‘‘جو قصص’’ کہتے ہیں۔ پھر انتڑیوں اور سر کو شلجموں کے ساتھ ایک بڑی دیگچی میں ڈال کر ساری رات پکاتے ہیں۔ صبح یہ ناشتے میں کھایا جاتا ہے۔
تبھی چوپال میں ڈھول بجانے والے ڈھول بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ ڈھول کی آواز کانوں میں پڑتے ہی خوشی و انبساط کی لہریں ہر بچے و بوڑھے کے جسم و جان میں دوڑنے لگ پڑتی ہیں۔ مرد عورتیں ناچتے گاتے ہوئے گھروں سے نکل آتے ہیں۔ سرشام چراغ جل اٹھتے ہیں۔ چوپال کے وسط میں ایک گڑھا کھودا جاتاہے۔ جلتی ہوئی لکڑیوں کو آوازوں کے شور کے ساتھ اس گڑھے میں ڈالا جاتاہے۔ یہ علامت ایک طرح شری بدد کو جلا ڈالنے کے طور پر کی جاتی ہے کہ کہیں وہ بدبخت پھر نہ زندہ ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply