سفرنامہ پنجاب(قسط1)۔۔عارف خٹک

جب پورے پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن تھا۔ سڑکیں سنسان، بازاروں میں ہُو کا عالم تھا۔ حتی ٰ کراچی کی سنسان سڑکوں پر صبح کے وقت جاگنگ کرنے کے  جرم میں  گلشن اقبال پولیس نے پکڑ کر دفعہ 124 کے تحت پرچہ کاٹنے کی دھمکی دی اور پانچ سو روپے لئے تو انشاء جی کی طرح ٹوٹے دل کیساتھ گھر داخل ہوا کہ اب اس شہر بے وفا سے کوچ کا وقت آگیا ہے۔

اپنے نامکمل ناول کے مسودے اٹھائے اور بیگ کپڑوں سے بھر کر رخت سفر باندھا اور کراچی سے بذریعہ سڑک فیصل آباد کیلئے نکل گیا ، کہ باقی وقت پنجاب کے دیہاتوں میں رہ کر ناول کے منظرنامے اوریجنل لوکیشنز پر جاکر لکھوں گا۔ کراچی سے نکلا تو   موٹروے پر کوئی گاڑی  نہ نظر آئی، سوائے ایک دو مال بردار گاڑیوں کے۔ کراچی سے سکھر کا رستہ عموما ًپانچ سے چھ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے میں نے ساڑھے تین گھنٹوں میں طے کرلیا۔ رستے میں سارے ہوٹل سنسان ،سو سکھر سے موٹروے پر چڑھتے ہی موٹروے پولیس نے گاڑی روک دی۔ گاڑی پر چسپاں “پریس اینڈ ٹی وی” کے  سٹیکر نے کوئی مدد نہیں کی تو گلوگیر آواز میں بتایا کہ “بیگم کا انتقال ہوا ہے آخری دیدار کرنے جارہا ہوں”۔ پولیس والوں نے باجماعت وہاں سروں پر رومال رکھ کر فاتحہ خوانی کی۔

بغیر کچھ کھائے پیے آٹھ گھنٹوں کی ڈرائیونگ کرتے کرتے بالآخر گوجرہ انٹرچینج سے گاڑی نیچے اتار دی۔ مغرب کی اذان ہوگئی تھی۔ اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ مگر سڑکوں پر   گہماگہمی تھی، کورونا کا کوئی ڈر تھا  نہ خوف ،ایسے لگ رہا تھا جیسے لاک ڈاؤن نامی کوئی عفریت یہاں ہے ہی نہیں۔ سب سے پہلے جاکر کھانا  کھایا ۔ رات کو منہ پر ماسک لگاکر تماشا  اہل گوجرہ دیکھنے باہر نکل پڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گوجرہ بازار میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ کسی نے منہ پر ماسک نہیں لگایا تھا۔ البتہ ہر مردوزن نے کالا سیاہ چشمہ ضرور پہنے  ہوا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں مشن امپاسبل سکس کی شوٹنگ چل رہی ہو۔ ایک دو کو روک کر پوچھا “بھیا یہ کیا ماجرا ہے؟۔ کورونا ہے تھوڑی سی اختیاط تو کرنی چاہیے”۔ جواب یوں ملا۔ “پاجی کرونا شرونا اے تے احتیاط کرنی چاہدی اے، نئی تے فیر پولس ڈنڈے شنڈے وی مار دی اے، اونج تے سانوں یقین ای کوئی نئی، جنہاں دا ایمان مضبوط ہوندا اے وہ بمار تے نئی ہو سکدے”۔ (کورونا سے اختیاط کرنی چاہیئے نہیں تو پولیس ڈنڈے مارتی ہیں۔ ہمیں تو یقین ہی نہیں ہے اگر ایمان مضبوط ہو تو بندہ بیمار نہیں ہوسکتا)۔

پوچھا کالے چشمے کیوں لگائے ہیں۔ جواب دیا “ڈاکٹر کہندے نے او جیہڑا بیغرت ویرس اے ناں او اکھاں تے اثر کردا اے”۔ (ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ بھی بے غیرت وائرس ہے یہ آنکھوں پر اثر کرتا ہے)۔

ایک جاننے والے رانا صاحب ہیں، عمر ہوگی کوئی ستر کے قریب۔شدید مذہبی بندہ ہے اگر کام نکالنا مقصود ہو ۔ نوجوان لڑکی دیکھ کر اس سے چسکے مسکے لینا آپ کو مذہبی کتابوں سے جائز ثابت کرکے ہی چھوڑتا ہے۔ کہنے لگا۔ “خان صیب ساڈے مرشد آکھدے نیں  کہ جے تہانوں کرونا شرونا چمڑ جاوے تے کسے مٹیار دی نہار منہ آلی تُھک چاٹن توں ویرس مو جاندا اے”۔ (خان صاحب ہمارے مرشد کہتے ہیں کہ اگر آپ کو کورونا جمٹ جائے تو نہار منہ نوجوان لڑکی کا تھوک چاٹنے سے وائرس مرجاتا ہے)۔ میں نے حیرت سے رانا صاحب کو دیکھا کہ “اس عمر میں آپ کیلئے تو تھوک چاٹنا بہت ضروری ہے مگر میں سب سے زیادہ آپ کیلئے پریشان ہوں”۔ شرماتے ہوئے  اپنی زرخیز نوکرانی کو گھور کر دیکھا۔ایک ادا سے ان کو ڈانٹا “رضیہ مہمان بیٹھے ہو ں تو دوپٹہ اوڑھتے ہیں”۔

شام کو ایک معروف ڈاکٹر صاحب کے پاس جانا ہوا۔ اپنا چیک آپ کرانا تھا۔ رانا صاحب نے بتایا “ولایت توں پڑھ کر آئے ہیں۔ بہت قابل ہیں”۔ ہسپتال جاکر دیکھا تو موصوف نے کالی ڈریس پینٹ کے ساتھ لال شرٹ پر سفید ٹائی باندھی ہوئی تھی اور پیروں  میں  جوگرز  تھے۔ پہلی نظر میں ہی دیکھ کر یقین ہوگیا کہ ولایت سے ہی پڑھے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ آنجناب کہیں اپنے نیازی نہ نکلیں ۔ قطار میں پچاس خواتین و حضرات بیٹھے ہوئے تھے۔ ساتھ کھڑی خاتون کمپاونڈرنی پردے کے پیچھے ہر ایک کو ایک ہی انجکشن انجیکٹ کرتی جارہی تھی بھلے مریض نزلہ زکام کا شکار ہو یا قبض کا دائمی مریض ہو بلکہ میں نے ان گناہگار آنکھوں سے ایک دو حاملہ خواتین کو بھی میں وہی انجکشن لگتے دیکھا۔ میں قریب گیا تو کمپاونڈرنی نے ڈپٹ کر پوچھا “پانچ سو کی پرچی بنائی اے یا منہ اٹھاکر چلے آئے ہو؟۔” میں نے انگریزی میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھا “سر مجھے کمر میں شدید تکلیف ہے؟”۔ سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ٹھیٹ پنجابی میں گویا ہوئے “بائیک سے گرے ہو؟”۔ بتایا “نہیں پچھلے سات روز سے ماہواری آرہی ہے۔ خون رک نہیں رہا”۔ جلدی سے پرچی پر وہی انجکشن لکھ کر دیدیا اور پردے کی طرف جانے کا اشارہ کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply