• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ناصر عباس نیر کا افسانہ” درخت باتیں ہی نہیں کرتے”: ماحولیاتی پڑھت/شعیب اجمل

ناصر عباس نیر کا افسانہ” درخت باتیں ہی نہیں کرتے”: ماحولیاتی پڑھت/شعیب اجمل

ماحولیات کو اردو میں وارد ہوئے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا لیکن یہ اطمینان بخش بات ہے کہ شاعری ہو یا فکشن ماحولیات کے موضوع کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ماحولیاتی تنقید پر بھی اہم کتب اور مضامین نظر سے گزرے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کے افسانے اپنے موضوع اور اسلوب کی بدولت بوجھل نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں کہ ہلکا پانی زیادہ پیا جاتا ہے۔ اسی طرح ان کے افسانوں کی پڑھت بھی لطف انگیز ہے۔
انھوں نے اپنی کتاب “راکھ سے لکھی گئی کتاب” کا پہلا افسانہ “درخت باتیں ہی نہیں کرتے” ماحولیات کے موضوع پر لکھا ہے۔ اس افسانے پر چند باتیں ملاحظہ کیجیے۔
جس طرح انسان اپنی ذہنی کیفیات سب پر عیاں نہیں کرتے بلکہ اپنے کسی ہم راز کے سامنے دامنِ دل کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح درخت بھی سب سے باتیں نہیں کرتے۔ یہ بات مجھے تب سمجھ آئی جب ناصر عباس نئیر کا مذکورہ بالا افسانہ پڑھا۔
اگر اس افسانے پر بات کرنے سے پہلے اسی عنوان کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان خود کو فطرت سے دور کر چکا ہے۔ جو انسان پہلے پیڑوں اور پرندوں کو بھی گھر کے ایک فرد کے طور پر لیتا تھا وہی انسان اب ان کو تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔
اس افسانے کا پہلا جملہ ہی یہی ہے کہ:
“میں نے نہیں سنیں، مگر مجھے یقین ہے کہ درخت باتیں کرتے تھے”.
یہ بالکل درست کہا گیا ہے کہ پہلے وقتوں یا یوں کہیں کہ اچھے وقتوں میں درخت باتیں کرتے تھے۔ جب درخت کی چھاؤں میں لوگ بیٹھا کرتے تھے تو یہ بھی ایک درخت کے ساتھ تعلق قائم اور انس ہوتا تھا۔
ہماری تہذیبی روایات اور خیالات میں درختوں اور پرندوں کو جگہ ملتی آئی ہے۔ یہاں تک کہ توہم پرستانہ باتوں اور اساطیر میں بھی درخت موجود ہیں۔ مثال کے طور پر:
“جس گھر میں بچے اور درخت نہ ہوں ، اس گھر پر نحوست چھائی رہتی ہے”۔
اور وہ لوگ درختوں کو پانی دیتے اور پرندوں کو دانہ ڈالتے تھے۔ ان کو بھی گھر کے ایک فرد کے طور پر لیا جاتا تھا۔
“وہ کہتے تھے کہ پرندے اور درخت دونوں ہمارے خاندان کا حصہ ہیں”.
پرانے وقتوں کے لوگ درختوں کو گھر کے ایک فرد کے طور پر لیتے تھے اور ان کے متعلق بہت سی معلومات رکھتے تھے۔
“وہ بتاتے کہ کب درختوں کے پتے گرتے ہیں ، کب کونپلیں پھوٹتی ہیں ۔ اس وقت ان کو کتنا پانی دینا چاہیے۔ کب درختوں کو چھانگنا چاہیے اور کون سی شاخیں چھانگنی چاہییں۔ کس درخت پر کونسا پرندہ گھونسلا بناتا ہے اور کس پر محض وقت گزاری کے لیے اور شاید ہماری اور دوسرے پرندوں کی باتیں سننے ، سنانے آتا ہے کون سا پرندہ کب انڈے دیتا اور سیتا ہے”۔
اگر آج کے شہری بچے سے یہ پوچھ لیا جائے کہ یہ موسم کون سی فصل کا موسم ہے تو وہ یہ تک بھی نہیں بتا پائے گا۔ جب انسان نے رہنے کے طور طریقوں میں بدلاؤ کیا یا شاید وقت نے ہی ایسی کروٹ لی تو انسان کا پیڑوں پرندوں سے تعلق کمزور پڑنا شروع ہو گیا۔ جس کے باعث انسان کو ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہ وقت کے ساتھ آگے تو بڑھتا جاتا ہے لیکن جو چیزیں اس کے لیے ضروری ہیں ان کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھاتا۔
درختوں میں کمی کی سب سے بڑی وجہ درختوں کی کٹائی ہے۔ ناصر عباس نئیر نے اس افسانے میں اس طرف بھی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔
“انھوں نے صرف ایک بار پچاس کے قریب درخت بیچے تھے، جب گھر میں چار کمروں کا اضافہ کرنا تھا”۔
درختوں کی کٹائی کی وجہ سے پرندوں کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے ان کو رہنے کے لیے ٹھکانہ میسر نہیں آتا۔ اور وہ پھر ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا درختوں کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں بھی کمی واقع ہونے لگتی ہے۔
“جب درخت کٹا ہے تو سب پرندے، بوکھلائے ہوئے، ایک عجب، ناقابل بیان بے چینی سے اڑتے ہوئے کبھی اس درخت کبھی اس درخت پر بیٹھتے، کبھی غول کی شکل میں اڑنے لگتے۔ وہ سب دل کو چیر ڈالنے والی آوازوں میں چیخ رہے تھے”.
یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ انسان کو ماحولیاتی مسائل کا ادراک ہونا شروع ہو چکا ہے۔ سو اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ ان مسائل کے سدباب کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply