ایبسٹریکٹ آرٹ/علی عبداللہ

کیا تم نے کبھی تجریدی مصوری جسے ایبسٹریکٹ آرٹ کہا جاتا ہے دیکھی ہے؟ میں نے اس سے سوال کیا۔۔۔

میں بذات خود ایبسٹریکٹ آرٹ کا ایک شاندار نمونہ ہوں، مجھے اور کچھ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں، اس نے مسکرا کر جواب دیا!

 

 

 

میں نے چونک کر اسے دیکھا جو مستقل مجھ پر نظریں جمائے میری باتوں کے  جواب دے رہی تھی۔
میں نے کہا تم خود کو کیسے ایبسٹریکٹ آرٹ میں شامل کرتی ہو؟

وہ کہنے لگی اس وقت میں یہاں تمہارے قریب ہوں، سامنے کھڑا شخص مجھے دیکھ کر کیا مفہوم دیتا ہو گا؟
وہ دیکھو بائیں جانب ایک لڑکا مجھے گھور رہا ہے؛ اس کی نظریں مستقل میرے چہرے سے زیادہ میرا جسم کھوجنے میں مصروف ہیں، کیا وہ وہی سوچ رہا ہو گا جو یہاں موجود دیگر لوگ سوچتے ہیں؟ اچھا اس لڑکے کے دائیں جانب ایک ادھیڑ عمر شخص کن اکھیوں سے میرا مکمل جائزہ لے رہا ہے، کیا وہ بھی میرے بارے میں وہی خیالات رکھتا ہے جو پہلے والوں کے تھے؟

تمہیں پتا ہے میں جب یہاں آ رہی تھی تو راستے میں کئی لوگوں نے مجھے مختلف نظروں سے دیکھا۔۔ کسی نے میرے پاؤں پہچاننے کی کوشش کی، بعضوں نے میرے ہاتھوں پر غور کیا، کچھ نے تو میرے بیٹھنے کے انداز کو مسکرا کر دیکھا اور چند جملے بھی کَسے۔۔۔ کیا وہ سب لوگ ایک جیسا ہی سوچ رہے تھے؟
مجھے بتاؤ کیا میں ان سب کے لیے یکساں معنی رکھتی ہوں؟

اچھا انہیں چھوڑو۔۔۔۔۔۔
تم بتاؤ، مجھے دیکھ کر تم کیا سوچ رہے ہو؟
میں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور کہا، ” تم آرٹ کا ایک شاندار نمونہ ہو جسے ہر کوئی اپنی سوچ اور اپنے مزاج کے مطابق معنی دیتا ہے۔ ہر ایک سمجھتا ہے کہ جیسے اس نے تمہیں پہچان لیا ہے۔ دیکھنے والوں کے لیے تم ایک راز سی ہو، جسے کھوجنا اور اسے معنی دینا دیکھنے والے پر منحصر ہے۔ وہ معنی تو دیتا ہے مگر زاویہ نگاہ بدلنے پر اس کے معنی پھر سے بدل جاتے ہیں، اور یہی ایبسٹریکٹ آرٹ کی سب سے بڑی خوب صورتی ہے جسے لوگ بے کار سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔”

بھائی صاحب۔۔۔او بھائی صاحب! اچانک مجھے کسی نے پیچھے سے آواز دی۔۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو آرٹ گیلری کا ملازم بولا، صاحب وقت ختم ہو چکا ہے لہذا آپ تشریف لے جائیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں چپ چاپ رات کے کسی پہر ہونے والی بارش میں بھیگتی اس عورت کی تصویر کے سامنے سے ہٹا، جسے کئی دنوں سے میں روزانہ گھنٹوں دیکھ رہا تھا اور واپس دروازے کی جانب چل دیا۔
میں نے بے ساختہ پھر مڑ کر اس تصویر پر نظر دوڑائی تو وہاں بارش تو تھی مگر اس میں بھیگتی ہوئی عورت کی جگہ رات کی تنہائی اور خاموشی بانہیں کھولے کھڑی دکھائی دے رہی تھی۔ میں مسکرایا اور “ایبسٹریکٹ آرٹ” کہتے ہوئے گیلری سے باہر نکل گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply