جڑانوالہ سانحہ اور حکومتی ترجیحات/محمد ہاشم

ایک ڈرامہ سیریل کچھ عرصہ پہلے مشہور ہوا تھا “میرے ہمسفر” جس کے مرکزی کردار میں ہانیہ عامر اور فرحان سعید نظر آئے تھے۔ اس ڈرامے میں تائی جان اپنے شوہر کی بھتیجی جو اِن کے ساتھ رہتی ہے، پر بچپن سے بے انتہا ظلم کرتی ہے یہاں تک کہ اس پر بدکاری کا الزام لگا کر گھر سے نکال دیتے ہیں ۔

 

 

 

 

بھتیجی کسی طرح اس سب سے گزر جاتی ہے لیکن جب اسی تائی جان کی اپنی کم سن بیٹی کچھ عرصہ بعد اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ خفیہ نکاح کر لیتی ہے اور یہ بات گھر میں بھائی اور باپ کے سامنے کھل جاتی ہے تو تایا جان اپنی بیوی سے جو مکالمہ کرتے ہیں اس کا ایک ڈائیلاگ یہ ہوتا ہے ” تم نے جب اپنی بیٹی کی تربیت کرنی تھی اور اس کا دھیان رکھنا تھا اس وقت تو تم کسی اور کی زندگی برباد کرنے پر تُلی ہوئی تھیں۔ تم نے اس کو ڈوری سے بیل کی طرح باندھنا تھا لیکن کیسی تربیت کی کہ وہ جھاڑ سے لپٹ گئی؟”

آج جڑانوالہ میں توہین ِقرآن کے الزام میں پوری بستی خاکستر کر دی گئی اور چرچ تک نذرِ  آتش کیے گئے اور انتظامیہ تماشائی بنی رہی۔ جس پنجاب پولیس نے پورے صوبے میں پی ٹی آئی کارکنان کو جشن آزادی نہ منانے دیا اور چُن چُن کے پی ٹی آئی جھنڈے رکھنے والوں کو ڈرایا،دھمکایا ،مارا اور گرفتار کیا ،وہ ایک محلہ، ایک بستی کو بچانے وقت پر نہ پہنچ سکی۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا پہ کوئی رپورٹ نہیں کر رہا۔ شاباش ہے۔۔۔ دنیا چاند پہ جا پہنچی یہ چند چینلوں سے خبر ہٹا کے دنیا سے چھپا لیں گے۔ ان ڈفرز کی عقل اتنی ہی ہے۔

جب ملکی معاملات خراب ہو رہے تھے اور لاقانونیت عروج پر تھی اور آئین و عدلیہ کو فٹبال بنایا جا رہا تھا تب تو تم کسی اور کام میں مشغول تھے، اب جب ایک بندہ اور ایک پارٹی کو توڑنے کی کوشش میں ذلیل ہوئے، جس کی وجہ سے ملک کو بنانا رپبلک بنا ہی دیا ہے تو پھر دنیا تھوکے گی۔

مبینہ طور پر یہ واقعہ پولیس کے پاس رپورٹ ہوا لیکن کوئی بروقت ایکشن نہیں لیا گیا، جس سے لوگ مشتعل ہوگئے اور وہی کیا جو اس گروہ کا ہمیشہ وطیرہ رہاہے۔ اس جتھے نے آ ؤدیکھا، نہ تاؤ ،گھر، دکان چرچ سب کو آگ لگا دی اور انتظامیہ تماشائی بنی رہی۔

کاش یہ متاثرین تھوڑی عقل سے کام لیتے اور پولیس کو کال کر کے یہ کہتے کہ ہمارے ایریا میں پی ٹی آئی والے جھنڈے لے کے اکٹھے ہوئے اور جلسہ کر رہے ہیں ۔ میں دیکھتا کہ  آئی جی پنجاب کیسے ایکشن لیتے اور اپنی ڈنڈہ بردار اور اسلحہ بردار پولیس کے ساتھ منٹوں میں حاضر ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جن طاقتوں کے ہاتھ میں ملکی باگ ڈور ہے ان کی ترجیحات ملکی سلامتی سے زیادہ اپنی طاقت کی بقا ہو تو پھر ان کو ملکی حالات سے زیادہ اپنے حالات کی بہتری کی فکر ہوتی ہے۔ فرانس اور انڈیا میں اسلام اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر احتجاج کس منہ سے کرتے ہو جب تمہاری اپنی اقلیتوں کو تم تحفظ نہیں دے پارہے  ۔ اپنا قبلہ درست کرو تاکہ دنیا تمہاری جو رہی سہی عزت بچی ہے وہ بحال رکھے ورنہ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply