ابا کو دنیا سے لکھا ایک خط۔۔رابعہ الرَباء

اسلام و علیکم ابو جی
مجھے تو زندگی میں آ پ سے جنت کی خوشبو آ تی تھی،اب اگر یہ آ رہی ہے تومجھے پتا ہے آ پ وہاں ہیں اور اپنے امی ابو اور بھائیوں کے پاس بہت خوش ہیں۔ آپ کہتے تھے نا ں کہ آپ دنیا کے وہ واحد انسان ہیں جس کی تین مائیں ہیں۔ آ ج وہ تینوں آپ کے پاس ہیں۔

داداابو خواب میں آ ئے تھے۔ بہت پیا ر کیا مجھے۔ ان سے بھی آپ کی خوشبو آ رہی تھی۔
میں شاید زندگی میں، آپ کی زندگی کے کچھ فلسفے نہ سمجھ سکی۔ ابو جی اب وہ سب سمجھ آ گئے ہیں۔ مجھے سمجھ آ گیا ہے کہ آپ اختلاف رائے پہ الجھتے کیو ں نہیں تھے۔ بلکہ رستہ بد ل لیتے تھے۔ ابو جی مجھ میں بھی یہ عادت ہے۔ مگر آ پ کے سائے میں معلوم ہی نہیں ہوا کہ میں آ پ کی پر چھائی ہو ں۔ میں بھی آپ کی طرح لوگو ں سے سوال نہیں کرتی کہ مجھے کیو ں نکالا۔ مگر مجھے دنیا دار لوگ، دنیا داری پہ مجبور کرتے ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔ آ پ کا یہ رویہ عین اسلامی تھا ۔ قرآن میں واضح لکھا ہے۔ کسی کی کرید میں مت پڑو۔سو میں نے کبھی آپ کو ان فضولیات میں الجھتے نہیں دیکھا۔ آپ کی ایک اپنی دنیا تھی، بہت رنگین منفرد جیسی فنکارو ں کی ہوا کرتی ہے۔ مجھ میں آ پ اپنی یہ عادت بھی چھوڑ گئے ہیں، مجھے آ ج سمجھ آ تا ہے کہ آپ ہجوم میں تنہا کیسے تھے۔ آپ کی آ نکھیں جو بولتی تھیں وہ زبان پہ کبھی نہیں آ تا تھا۔ آپ اتنی بڑی بڑی باتو ں کو مزاح میں کیسے اڑا جاتے تھے۔ بہت جگر کی بات ہے۔ مگر سمجھ اب آ تی ہے۔

ابو جی چاچا جی کی سالگرہ تھی، گئی تھی میں، مگر انہیں نہیں بتایا کہ آپ اپنے گھر جا چکے ہیں۔ جہاں  ہمیں بھی آ نا ہے۔ میں ان کو دیکھتی رہی، بہت دیر تک دیکھتی رہی۔ مجھے ان میں بھی آپ  دکھا ئی دے رہے تھے۔وہ سگریٹ لگاتے تو میرا دل کرتا ان کو سگریٹ لگا کر دوں،جیسے آپ کو لگا کر دیا کرتی تھی۔ جب پچھلے ہفتے آپ کے پاس آ ئی تھی۔ منو بھائی سے بہت سی باتیں کر کے آ ئی تھی۔
آپ کے تو دوست بھی آپ کے پاس ہی ہیں۔ دیکھیے زندگی کے جھمیلو ں میں سب بچھڑنے والے دوست۔ ان پر سکون وادیوں میں آ پ کے آ س پاس ہیں۔ وہ جو آ پ کہا کرتے تھے ناں۔”او یار پنج پیر سے آ گے میرا گھر ہے، مجھے وہاں جانا ہے، تمہاری ماں جانے نہیں دیتی،،
جی ابو جی پورے پنج پیر ہی ہیں۔ اس کے بعد آپ کاوسیع و عریض گھر ہے۔
بہت عجب طلسم ہے وہا ں۔ بہت عجب جگہ ہے۔ ابوجی جب ہم دادا بو کے گھر میں رہا کرتے تھے۔میں آ ٹھ سال کی تھی۔ آپ اپنے دفتری امور کی وجہ سے سعودی عرب چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر نے تب میری بیماری کی دوا یہ بتائی تھی کہ ابو کو خط لکھا کر وروز۔ مجھے لگتا ہے آ ج بھی میری بیماری کی یہی دوا ہے۔

ابو جی آج ۳۲ مارچ ہے۔ آ پ کو اس دن کا انتظار تھا نا ں۔ کہ آپ کی خواہش تھی کہ کسی کو میری وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو۔ آپ کو خواہش تھی ناں کہ آ پ جب اس دنیا سے جائیں تو سب کسی تہوار کی طرح بنے سنورے  ہوں۔ دیکھ لیں۔ اللہ نے آپکی ہر خواہش پوری کر دی۔ کہ آپ کی بھتیجی کی شادی تھی اور ابھی سب کے ہاتھو ں پہ مہندی و گا لوں پہ گلال تھا۔اللہ نے کیسے دادا ابو کے گھر میں ایک ہی ہفتے میں زندگی کے سارے رنگ مہکا دئیے تھے۔ ایک بھائی کی بیٹی رخصت ہوئی، دوسرے بھائی کے گھر پہلی پوتی ہوئی، اور پھر آپ سب کو پیار دے کر رخصت ہو گئے۔ زندگی سے موت کے سب سفر بہت تیزی سے سفر کر رہے تھے۔
موسم بہار کا تھا اور اتنے پھول گھر میں کبھی نہیں کھلے تھے۔ جتنے اس برس کھلے تھے۔ یو ں لگتا تھا جیسے اللہ سب اہتمام خود کروا رہا تھا۔

ابوجی پہلے میرا خیال تھا کہ فنکار ولی ہو تا ہے۔ اب میرا گمان یقین میں بدل چکا ہے۔
نہیں معلوم آ پ کے مصور ہاتھو ں کے رنگ کس کس گھر میں آ ج بھی موجود ہو نگے۔ اور مجھے یقین ہے وہاں بہت رحمتیں ہو نگی۔ ابو جی آپ کی سب باتیں ایک ایک کر کے یوں پو ری ہو رہی ہیں جیسے آپ نے لوح سے کچھ پڑھ کر بتا دیا تھا۔
ابھی مینا کماری کی غزل سن رہی تھی
چاند تنہا ہے،آسماں تنہا
دل ملا ہے، کہا ں کہا ں تنہا
بجھ گئی آ س، چھپ گیا تارا
تھرتھراتا رہا دھواں تنہا
زندگی کیا،اسی کو کہتے ہیں
جسم تنہا ہے، اور جاں تنہا
ہمسفر کوئی گر ملے بھی کہیں
دونوں چلتے رہے تنہا تنہا
جلتی بجھتی سی روشنی کے تلے
سمٹا سمٹا سا اک مکاں تنہا
راہ دیکھا کرے گا صدیو ں تک
چھوڑ جائیں گے یہ جہا ں تنہا

مجھے یہ غزل سن کے یوں لگا جیسے آ پ کے اندر کا فنکار آخری چند مہینوں میں، آپ کے اندر یہ سب گنگناتا تھا۔ جب کبھی دادا ابو آ جاتے تھے تو کبھی کو ئی چچا تو کبھی تایا ابو، تو کبھی دادی امی تو کبھی آپ کے دوست۔ امی اب بتاتی ہیں کہ آ پ کے جانے سے تین دن پہلے ناناابو بھی آ ئے تھے۔

مجھے آپ کے جانے کے بعد خبر ہو ئی کہ ہم تو موت کو بھی کنسیو کرتے ہیں۔ اور اپنی ایک خاص مدت تک وہ ہمارے جسم میں ہماری ہمسفر بن کر ہمیں ڈیلیور کرنے کی تیاری کرتی ہے۔ اور ایک دن اپنا کام کر کے چلی جاتی ہے۔ فطرت کا نظام ہے تو بہت حسین ابوجی بس ذرا درد ناک سا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس فطرت نے دل بنا کر اس میں احساس بھی ڈال دیا ہے۔

خیر یہ احساس نہ ہوتا تو ہم انسان بھی تو نہ ہو تے نا ں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اچھا ابو جی آ رام کیجیے۔آ پ کی بیٹی کو اب بھی آ پ کی دعاؤں کی ضرورت ہے
اللہ کے حوالے۔ جلد ملنے کا وعدہ کر تی ہوں۔
آ پ کی گڑیا۔

Facebook Comments