میں تو چلی چین / آنا چی سے ملاقات(قسط29) -سلمیٰ اعوان

میں دبے پاؤں نکل آئی تھی۔سعدیہ گروسری کے لیے گئی ہوئی تھی۔بچے اسکول اور نسرین کچن میں۔سچی بات ہے میں RQCکے اِس سنسان سے علاقے کے واحد سٹور کی خاتون سے باتیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ انگریزی میں بڑی رواں تھی اور خوش مزاج بھی تھی۔مجھے تو وہ چالیس کی بھی نہیں لگتی تھی پر جب اس نے پچاس پچپن کے اردگرد کا بتایا تو ہنستے ہوئے میں نے اپنی زبان میں کہا ۔

‘‘ہیں یہ تو ورے کھانی(یعنی سال کھانی)’’ہے ۔بہن بھائی بھی کوئی دس گیارہ تھے۔
‘‘باپ رے باپ۔اتنے ڈھیر سارے بچے یہ کیسے ہوگئے؟ایک بچہ ایک خاندان بیچارے چینی بچے تو بہن بھائی کو ترستے ہیں۔’’
یہ پابندیوں سے پہلے کی بات ہے اور ہاں میرے تو اپنے پانچ ہیں۔’’
خاتون مجھے بہت دلچسپ نظر آئی تھی۔آج موقع غنیمت تھا چلو کچھ گپ شپ تو رہے گی۔
مگر جب میں خراماں خراماں اس کے سٹور میں داخل ہوئی۔نٹز کا پیکٹ خریدا اور سٹول پر بیٹھتے ہوئے اُسے کہا۔
‘‘اناچی Annchiمجھے کچھ احوال سناؤ۔’’
‘‘ڈئیر مگر یہ تو میرا ڈیوٹی ٹائم ہے اور میں تم سے گپ شپ نہیں کرسکتی۔’’

اس کے احساس ذمہ داری نے مجھے حیرت زدہ کردیا تھا۔میں نے تھوڑا سا مدافعانہ انداز اپنانا ضروری سمجھا۔
‘‘اناچی میں کب تمہاری ذمہ داری میں رکاوٹ بنوں گی؟دیکھو نا اس وقت ایک بھی گاہک نہیں۔مجھ سے باتیں کرو۔ جب کوئی آئے تو اُسے اٹینڈ کر لینا۔’’
‘‘نہیں۔رات کو نو بجے میرے آف ہونے کے بعد کا وقت ٹھیک رہے گا۔جب گاہک نہیں ہوتے تو چیزوں کی سیٹنگ ،ریکوں کی صفائی،حساب کتاب دیکھنا ایسے بہت سے کام میری ذمہ داری ہیں۔’’
‘‘اُف قومیں ایسے ہی نہیں بنتی ہیں۔چالیس سال میں دنیا کی سپر پاور بننے والی قوم سیڑھی کے آخری پوڈے پر کھڑی بس اسی انتظار میں کہ کب اس نے یہ آخری پوڈا بھی چھلانگ مار کر چڑھ جانا ہے۔
سارا دن بس انہی سوچوں میں گزرا۔ہمارے اوپر یہ عنایت کیوں نہ ہوئی۔ہم پٹڑی پر چڑھے تو تھے تو پھر اُتار کیوں دئیے گئے؟ایسے ہی دُکھ بھرے سوال ایسے ہی دُکھ بھرے جواب مضطرب کرتے ملک کے پستی میں گرتے احوال اور ایسے ہی شکوے کہ آخر اچھے لیڈر دینے میں ہمارے لیئے کنجوسی کیوں؟

نو بجے میں دوبارہ اناچی کے پاس تھی۔اور ہم باتیں کررہے تھے۔ میں اس کی انگریزی پر حیران تھی۔پتہ چلا تھاکہ اس نے کچھ وقت لندن اپنے بھائی کے پاس گزارا تھا۔ ‘‘تبھی’’ اندر بولا تھا ۔
تم نے بتایا تھا تم لکھاری ہو۔کہانیاں لکھتی ہو۔چی نے میری آنکھوں میں جھانکا تھا۔
ہماری ساری زندگی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ہر قدم پر ایک نئی کہانی۔پہلی کہانی تو یہی غربت کی ہے۔سوچ بھی نہیں سکو گی کہ ہم لوگ کتنے غریب تھے۔میرے خیال میں ہم کہناکچھ موزوں نہ ہوگا۔چینیوں کی اکثریت اس غربت کا شکار تھی۔جہاں گھر کے مردوں اور لڑکوں کے تن پر صرف نیوی بلورنگا ماؤ سوٹ ہی مقدر ہوگیا ہو۔میری پیدائش1958کی ہے ۔ہوش سنبھالنے اور بالغ ہونے تک بس یہی ایک منظر تھا۔

بیگم اختر ریاض الدین کا ماسکو کا سفر نامہ یاد آیا تھا۔1960کا زمانہ وہ شاپنگ کے لیے بازار گئیں۔ان کے پاؤں میں پہنی خوبصورت سینڈل دیکھ کر عام روسی عورتوں کی آنکھوں میں حسرت جیسے جذبات اُچھلے کودے۔اور ہونٹوں سے اس کا اظہار بھی کھل کرہوا۔درمیانی عمر کی ایک عورت نے پر امید لہجے میں کہا۔
‘‘کوئی بات نہیں۔بس اگلے پانچ سالہ منصوبے میں ہمیں بھی ایسے جوتے نصیب ہوں گے۔’’

‘‘اناچی یہ رنگا رنگ ملبوسات کی بہاریں کب زندگی میں شامل ہوئیں؟’’
‘‘ارے ڈارلنگ اتنی جلدی تم مجھے یہاں تک لانا چاہتی ہو۔نہیں بھئی۔دکھوں کی پوری پوٹلی بنی پڑی ہے۔کبھی کبھی تو کھلتی ہے۔اب کھلی ہے تو دیکھو تو سہی کہ بیچ میں سے نکلتا کیا کیا ہے؟ ایک غربت اس پر ڈھیر سارے بچے۔ ہم نو بھائی بہن تھے۔دادا دادی بھی زندہ تھے۔گویا تیرہ افراد تو پکے پکے۔پھر کبھی پھوپھیاں ،کبھی چچا لوگ بھی آدھمکتے۔مگر اس وقت کے ماحول میں خاندانی افراد کے درمیان محبت تھی۔نوالے بانٹ کر کھانے کی ریت تھی۔

ساٹھ کی دہائی کا زمانہ معاشی مشکلات سے بھرا ہوا دور تھا۔ ماہانہ مقررہ مقدار میں اناج ملتا تھا۔ہماری امّاں دلیے میں شکرقندی ڈالتی تھیں۔اوپر سے ابّا کے رشتہ دار بھی آجاتے تھے۔مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ انہیں کھانا کھلائے بغیر جانے دیا جاتا۔ اکثر رات کو مکئی کھا کر پیٹ بھر لیا جاتا۔ میرے والد گھر کے ہر کام میں والدہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔کھانے پینے کے معاملہ سے لے کر لانڈری تک میں۔
‘‘یہ ہوئی نا بات۔ میرے دل نے کہا تھا۔ جب رفاقت میں احساس اور خیال کی شرینی گھل جائے تب پہاڑ بھی کاٹنے پڑیں تو عورت گھبراتی نہیں۔’’

مجھے یاد ہے ہماری بہن کی شادی جس طرح ہوئی۔وہ بھی ہمیں زمانوں یاد رہی تب ہم لوگ ہیبی Hebiضلع کے چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے۔میری بہن سکول ٹیچر تھی۔اس کے ساتھی کو وہ اچھی لگنے لگی ۔شادی کے لیے اس نے جب پروپوز کیا تو ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ تو بہت غریب ہے۔ہم سب مارکسٹ تھے۔ماؤ سے دیوانگی کی حد تک پیار کرتے تھے۔لینن سے محبت کرتے تھے۔مارکسزم لٹریچر پڑھتے تھے۔چین کی ترقی کے خواب دیکھتے تھے۔میری بہن نے کہا تو کیا ہوا۔غریب تو ہم سب ہیں۔یوں میری بہن کی شادی گھر میں بنے کیک، مونگ پھلی اور سورج مکھی کے بھنے ہوئے بیجوں اور چائے کے ساتھ ہوئی ۔ہم لوگوں نے اس دن تیل کے چراغ جلا کر گھر روشن کیا اور اپنی بہن کی خوشیوں میں شریک ہوئے۔

The Analects of confuciusعظیم چینی فلاسفر کی کتاب بچپن میں ہم سب بہن بھائیوں نے پڑھی۔ہمارے گھر میں اسے مذہبی کتاب کا درجہ حاصل تھا۔اخلاقیات پر توجہ اور اسے تربیت کا بنیادی جز سمجھا جاتا تھا۔بچے زیادہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ انہیں پیدا کرکے گلیوں ،بازاروں میں رلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔سحر خیزی ہماری ہڈیوں میں رچی ہوئی تھی۔دادا دادی کو گھر میں احترام دینااور ان کا خیال رکھنا بہت اہم تھا۔مجھے یاد ہے میری دادی شور بہت مچاتی تھیں۔ذرا سی بات پر اُن کا چلانا شروع ہوجاتا۔اس کے باوجود ہماری امّاں انہیں کبھی نہ ٹوکتیں۔یہ اور بات ہے کہ xunzi جو کہ ایک طرح مکمل کتاب خیال کی جاتی ہے ہمیشہ ان کے سرہانے رہتی تھی۔

ہماری زندگیوں میں ان کہانیوں کی بھی بہت اہمیت ہے جو ہم اپنے ابا اور اماں سے سنا کرتے تھے۔ایسے وہ سب دن جب سرخ فوج کو گومنگ دانگ پارٹی کے مقابلے پر پسپائی اختیار کرنی پڑتی۔ابّا کے آنسو اور اماں کے دلاسے۔اور پھر جس دن سُرخ فوج کامیاب ہوتی ۔ابّا گھر میں اِس خوشی کو مناتے ۔یہ بے شک شکرقندی کے قتلوں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوتی۔

ڈنگ چھیاؤ پھنگ Deng-Xiao Pingکے دور میں جب اوپن ڈور پالیسی کا آغاز ہوا۔تبدیلی کی ہوائیں چلنی شروع ہوگئی تھیں۔ظاہر ہے اقتصادی ترقی کے پہیے زیادہ متحرک ہوئے غیرملکیوں کی آمد شروع ہوئی۔ایک خوش رنگ زندگی کے خواب تو نوجوان نسل دیکھ رہی تھی۔ روزمرہ کی زندگی میں دھیرے دھیرے رنگ گھلنے لگے تھے۔
آج آپ کہاں کھڑی ہیں ؟کیا نئے جوڑوں میں محبت اور تعاون کی وہی فضا محسوس کرتی ہیں جو آپ کے وقتوں میں تھی۔’’
یقیناً  نہیں ۔آج کی عورت زیادہ طاقتور ہے۔خود کو منوا چکی ہے۔مشکل کام سے گھبراتی نہیں۔تاہم مردوں میں بھی وہ لحاظ اورمروت مفقود ہوگئی ہے۔جو ہم اپنے بچپن میں دیکھا کرتے تھے۔بس میں عورت کو سیٹ دینا۔ ڈیوٹی پر بھاری کاموں میں اس کی مدد کرنا۔

کاموں میں اپنے مرد تو ایک طرف دوسرے بھی مدد کردیا کرتے تھے۔مگر آج کے مردوں کا کہنا ہے کہ عورت جب اس نوع کے بہت سے مساوی حقوق مانگی ہے تو پھر مدد اور رعایت کس بات کی؟بھگتو اب۔ہاں مرد گھر وں میں ہاتھ بٹا دیتا ہے ۔مگر طلاق کی شرح بڑھ گئی ہے۔نوجوان نسل ذمہ داریوں سے گھبراتی بھی ہے۔

بچہ شہری زندگی میں تو ایک ہی ہے۔دو کی اب اجازت ملی ہے۔اور اگر کوئی تین یا چار کرنا چاہتا ہے تو اُسے شہر کو چھوڑنا پڑے گا۔دیہی علاقوں میں ہی تین بچے ممکن ہیں۔ہاں اب حساب کتاب نے اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ بڈھے بہت زیادہ ہیں۔ان کے مرنے کھپنے کے بعد درمیانے لوگ ان کی جگہ لیں گے تو اگلی نسل کی کمی خلا پیدا کردے گی۔اور یہ صورت سنگین ہوگی۔آئندہ ایک دو سال میں تین چار کی اجازت کے ساتھ سہولتوں کی پیشکش ہوگی دیکھ لینا۔مگر نوجوان نسل اب ذمہ داریوں سے گبھرانے لگی ہے۔اکثر نوجوان تو شادی سے بھاگنے لگے ہیں۔کون ذمہ داریوں کے جھنجٹ میں پڑے۔

اب میں تمہارے اس سوال پر آتی ہوں جو تم نے آغاز میں مجھ سے کیا تھا۔ کپڑوں کے بارے۔
‘‘ارے بس ہم لوگ تو وہی Cheongsamsیعنی وہ لمباگون سا پہنتے تھے۔کبھی اس کی اوپر کھلی سی سکرٹ نما کرتی اور نیچے لمبا سا ذرا کھلا سا پاجامہ ٹائپ ہوتا۔دو ٹانگوں والا نہیں ایک ٹانگ والا۔ہاں البتہ میرے بھائیوں نے ماؤ جیسے ڈیزائن کے سوٹ پہننے شروع کردئیے تھے۔

ثقافتی انقلاب چینی تاریخ کا بہت المناک باب ہے۔ یہ میرے خاندان کے لیے بہت مصائب لے کر آیا ۔میرے شوہر پر بغاوت اور غداری کے الزام لگے۔یہ کیسا دور تھا۔کِسی نے اپنی کسی پرانی دشمنی پر یہ جھوٹا الزام لگا دیا۔ اب نہ کوئی تحقیق ،نہ کوئی جانچ پڑتال۔ بس اُسے پکڑا اور تھانے کچہریوں میں رول دیا۔

ہمارے ایک پرانے دشمن کی جھوٹی رپوٹ پر کِس ظالمانہ انداز میں میرے شوہر کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔پارٹی کاوفادار رکن ہوتے ہوئے بھی اس پر گھٹیا الزام لگے۔جیل میں پھینک دیا۔
بڑا کرب پھیل گیا تھا اس کے چہر ے پر۔ جب وہ کہیں ماضی کی تلخیوں میں گم تھی۔

پھر جیسے وہ چونک کر اپنی اِس کیفیت سے باہر آئی اور مجھے دیکھتے ہوئے بولی۔ تاہم یہ تو کہنا پڑے گا کہ ثقافتی انقلاب نے چینی عورت سے متعلق اپیریلزم اور فیوڈلزم معاشروں کی سوچوں کے تابوتوں میں آخری کیلیں ٹھونک دی تھیں۔دراصل خانگی اور خارجی جنگوں، کیمونسٹ تحریکوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں چینی عورتوں میں بھی آگہی اور شعور بیدار کرنا شروع کردیا تھا وگرنہ تو چینی عورت کی صدیوں پرانی روایاتی تصویر نزاکت، چھوئی موئی اور بڑی فرماں بردار قسم کے پیکر کی عکاس تھی۔چین کی شاہانہ کلاس میں جو محاورہ سب سے زیادہ زد عام تھاوہ یہی تھا کہ علم کے بغیر ہی ایک عورت قابل تعریف ہے۔قانون قدرت کا بھی ڈھکوسلہ ہماری قدیم روایت کا حصّہ تھا جس کے مطابق عورت کا مرد کے تابع رہنا ضروری تھا۔اب ذرا سوچ دیکھو ۔شادی سے قبل بیٹی کی صورت باپ کی وفادار ہو،شادی کے بعد شوہر اور اس کے مرنے بعد بیٹے کی۔
اُف خدایا میں نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔نری پاکستانی سوچ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بس اس سوچ سے نکلنے میں پہلا بڑا کردار سن یات سن Sun yat Senجیسے انقلابی لیڈر کا تھا ۔پھر سلسلہ چل نکلا۔
Wu Shugingجیسی انقلابی خاتون Qiu Jinجیسی شاعرہ اور فیمنسٹ Hua Mulanجیسی بے شمار عورتیں اٹھیں۔جنہوں نے سر کٹواے، جیلیں بھگتیں لیکن اپنے مقصد پر ڈٹی رہیں۔
اس کی نظر گھڑی پر پڑی دیکھو وقت کتنا ہوگیا ہے۔
لو میں تمہیںQui Jinکی ایک نظم سناتی ہوں اور پھر ہم ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
سورج اور چاند میں روشنی باقی نہیں رہی
زمین تاریک ہوگئی ہے
ہماری عورتوں کی دنیا کہیں بہت گہری ڈوب گئی ہے۔
ہماری مدد کون کرسکتا ہے
زیورات بیچ کر سمندروں پار جانے والے ٹرپ کی ادائیگی ہوئی
خاندان سے ناطہ توڑ کر
اپنی سرزمین کو چھوڑ کر
اپنے قدموں کو آزاد کرتے ہوئے
میں ہزاروں سال کی زہر کو صاف کرتی ہوں
جب جوشیلے گرم دلوں میں نسوانی روح یا جذبے بیدار ہوتے ہیں
افسوس یہ نازک سا کپڑا سر پر پڑا ہے
آدھا خون سے داغ دار اور آدھا آنسوؤں سے
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply